تحریر: محمد توصیف قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
22 اگست 2017 کو ملک کی عدالت کی عظمی سے طلاق ثلاثہ پر فیصلہ آیا ہے، جس پر طرح طرح کے رد عمل ہورہے ہیں.
★میڈیائی ردعمل★
حیرت کی بات ہے کہ ہم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہر ہر خبر کو بھانپ لیتے ہیں کہ خبر میں یا تو 50% سے 80% فیصدی جھوٹ ہوتا ہے ، یا پھر 90% فیصد سچائی پر پردہ ، اور ظاہر ہے کہ آدھا سچ بھی جھوٹ ہوتا ہے.
لیکن آج نہ جانے کیوں میڈیائی یلغار سے اتنی بے چینی بپا ہے.
اجمالی اجمالا عرض ہے کہ آج جس نیوز پر نظر پڑی اس کا بھی یہی حال تھا جو عام طور پر ہوتا ہے، کوئی سرخی اور سطر اسلامی تعلیم اور عدالتی فیصلے میں دجل و فریب سے خالی نہیں.
★عوامی رد عمل★
سوشل میڈیا پر رد عمل دو طرح کے ہیں:
فاما الذين آمنوا فزادتهم ايمانا وهم يستبشرون، وأما الذين في قلوبهم فزادتهم رجسا الي رجسهم وماتوا وهم كافرون.(التوبة 124،125)
ایمان والوں میں شریعت پر عمل کا جذبہ مزید پیدا ہوا، اور جن کے دلوں میں کافرانہ یا منافقانہ گندگی ہے اس میں بھی ترقی ہوئی اور اسی عقیدت کی گندگی کے ساتھ مریں گے.
★اجمالی تجزیہ★
ابھی تک فیصلہ کی کاپی نہیں آئی ہے، تاہم عدالت عظمی کی لاچاری جگ ظاہر ہے، ایک طرف عدالت کہتی ہے کہ پرسنل لا میں مداخلت کی گنجائش نہیں، دوسری طرف پابندی بھی؟
یہ تضاد ظاہر ہے.
میڈیا عدالت کے فیصلہ سے زیادہ ججز کے فیصلہ سے زیادہ ان.کے تبصروں پر دھیان دیتی ہے اور ظاہر ہے یہ حکومتی لابی اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ہے.
★کیا آپ کو پتہ ہے؟★
جس عورت کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے جج نے گذشتہ سال طلاق ثلاثہ پر حکومت کی رائے مانگی تھی اور اسی کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ سے دستخطی مہم چلائی گئی، اس کی صورت حال کیا تھی؟
اس کا قضیہ یہ تھا کہ خود عورت نے یہ دعوی کیا تھا کہ شوہر نے اسے تین طلاق دیا ہے، جب کہ شوہر انکار کر رہا تھا تھا کہ اس نے تین طلاق دی ہی نہیں.
یہ تین طلاق اس عورت کے لئے زحمت تھی یا رحمت؟
کیا یہ کسی نیوز میں آپ نے دیکھا؟
بورڈ نے پونے تین کروڑ افراد جس میں نصف سے زائد خواتین تھیں کے دستخط حکومت کے مقننہ کے منھ پر مارا تھا کہ چند چپدیوں اور ایمان فروشوں کے مقابلے یہ اکثریت دیکھ لو کہ یہ سب پرسنل لا میں مداخلت نہیں چاہتے، کیا یہ بات کسی ایک بھی نیوز چینل نے دکھائی؟
نہیں ہرگز نہیں.
اگر یہ باتیں آپ کے علم میں تھیں تو سمجھ لیں کہ آپ کے پاس میڈیا کا جھوٹ پکڑنے کے ذرائع موجود ہیں، ورنہ اب تک آپ میڈیائی جال کا شکار رہے ہیں.
★دنیا مومن کے لئے امتحان گاہ ہے★
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہ الگ بات ہے یہ اندرون خانہ اس میں ایک زعفرانی لابی کارگر ہے.
جو دنیا کے اسلامی ممالک کہلاتے ہیں ذرا ان کی صورت حال پر طائرانہ نظر ڈالیں تو سمجھ اپنی حیثیت اسلامی بقا کے لڑائی میں جو ہم سمجھ محسوس کر رہے ہیں اسے طے نہیں کر سکیں.
ایک مفتی اعظم مصر ہے جو آئے دن فتوی کے نام پر ایسے مسائل گھڑتا ہے جو ہندوستان کے جاہل اعظم سے پوچھیں تو وہ بھی عمل میں نہ ہونے کے باوجود کم ازکم بتانے کو تو صحیح بتائے.
ابھی چند ایام قبل تیونس نے کچھ قوانین پاس کئے ہیں، ملاحظہ کریں:
1: عورت کو مرد کے برابر میراث کا حق ہے.
2:مرد کو تعدد نکاح کا کوئی جواز نہیں.
اور سب سے غضب کی بات
3: مرد کی طرح عورت بھی جب چاہے شوہر کو طلاق دے سکتی ہے.
چونکہ یہ تازہ ترین واقعہ ہے اس لئے اسے لکھا گیا ورنہ مکمل جائزہ طولا طویلا رپورٹ تیار ہوجائے.
★عملی اقدام کس کا ذمہ؟★
ایسے وقت میں سب کی نگاہیں اور اس کے زیادہ تیز زبانیں اکابر قائدین اور ملی مفکرین و تنظمیوں پر چپک کر رہ جاتی ہیں، لیکن کیا آپ اور ہم اس سب باتوں کے ذمہ دار نہیں؟
وہ کون سے دلیل ہے جس سے ہم بیٹھے رہنے کے مجاز ہوکر رہ گئے؟
ایسے وقت میں بڑے جو ہر معنی میں عوام سے بڑے ہیں ہم سے بڑے ہیں، ان کا کیا رد عمل اور اقدام ہونا چاہئے یہ ہمیں ان کو سکھانے کی ضرورت نہیں، کسی کے پاس معقول نسخہ ہو تو وہ بطور رائے نہ بطور حکم انھیں دے بھی سکتا ہے.
لیکن ہمارا اور عوام الناس کا ذمہ اس سے ساقط نہ ہوگا.
بندہ جہاں دیدہ تو نہیں تاہم جیسی تیسی نظر ہے اس سے دو باتوں پر توجہ اور ٹوٹ کر لگ جانے کا داعی ہے.
ایک تو انابت الی الله، اس کے احکام کی پابندی ، نافرمانیوں سے گریز.
دوسرے "تبلیغ اسلام "
دنیائے دشمن اسلام کی طاقت صرف اس پر صرف ہورہی ہے کہ کوئی بھی اسلام کو ٹھنڈے دل سے سوچ نہ سکے ، کیونکہ جس نے بھی ایسا کیا وہ مسلمان ہوئے بغیر نہ رہا، یا کم ازکم اس کے کمالات کا اعتراف کئے بغیر نہ رہا، کچھ بات ہی ایسی ہے اسلام کی کہ اس کے مسئلہ مسئلہ میں دلچسپی اور دیگر پر فوقیت دکھائی دیتی ہے، آخر مذہب فطرت جو ٹھہرا.
کفار انسانیت کو سب سے بڑا اج بھی مانتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام انسانیت سے بڑا اور بڑھا ہوا مذہب ہے.
ایسے مواقع دیکھیں تلاش کریں اور ہمیشہ کے لئے نتائج الله پر چھوڑ کر لگ جائیں جس میں خالص اسلام کی تشکیل و دعوت ہو.....پھر چاہے وہ کسی مسلک سے جڑے ، کسی فرقہ پر عمل کرے....مگر یہ گھر کے اندر کی بات ہے، تو کیا آپ اپنے عمل کو تیار ہیں؟