ازقلم: مفتی فہیم الدین رحمانی القاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ کیسی المناک ستم ظریفی ہے کہ ساری دنیا کو عدم تشدد اور امن کا درس دینے والی حکومت کے دور اقتدار میں ایک اور آواز کو خاموش کر دیا گیا گوری لنکیش جو بےباکی اور حق بیانی میں اپنی مثال آپ تھیں اب کبھی نہیں بول پائیں گی، وہ جس نے کنہیا کمار کو اپنا نظریاتی بیٹا قرار دیا تھا، جو ملک میں تیزی سے پھیل رہے ھندوتوا کے زہر کےخلاف بے باکی سے لکھتی تھیں اور جن کا آخری اداریہ "فیک نیوز" (جھوٹی خبروں) کے خلاف تھا کو ان کے گھرپر گولی مار دی گئی، ایک 55سال کی بوڑھی اور ناتواں آواز کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں تھا اس لئے رات کی خاموشی میں چند بزدلوں نے اس آواز کو ہی خاموش کردیا ۔ویسے تو سیاستدانوں صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی زندگی ہمیشہ خطرے سے بھری ہوتی ہے لیکن گزشتہ تین سالوں میں ملک کے اندر کچھ ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی اقتدار کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں انہیں مسلسل چیلینج کیا جا رہا ہے اور وہ تعصب و بدتہذیبی کے شکار ہورہے ہیں اور اب صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے اور لوگوں کو اب گوری لنکیش کی طرح سزا بھگتنے تیار رہنا چاھئے.
یہ اچھی بات تھی کہ آزادی کے بعد ملک میں نہرو واد آیا اور لبرل اور روادار معاشرے کی بنیاد رکھی گئی اور خوش قسمتی سے گزشتہ سات دھائیوں میں ان خیالات کی حامی حکومتیں اکثر اوقات اقتدار میں رہیں لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے رنگا رنگی اور اعتدال پسندی کے خیالات سے انکار کیا جارہا ہے لیکن ہمارے ملک کے لوگ آئین اور اس کی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اس لئے سب کو اپنی بات کرنے کی آزادی ہے مگر ان کا یہ یقین غلط ثابت ہوا ہے.
آج سیاست اور صحافت دونوں لازم و ملزوم بن گئی ہیں جعلی خبروں کو پھیلانے اور حقائق کو سیاسی مفادات میں توڑ مروڑ کر پیش کرنا معمول بن گیا ہے سیاست کو کچھ لالچی اور بدطینت لوگوں نے آلودہ کردیا ہے، اور ایسے لوگ صحافت کو بھی آلودہ کر رہے ہیں۔
بہرحال گوری لنکیش کے قتل نے نئے ھندوستان کی جھلک بھی دکھلا دی ہے وہ جھلک جو پہلی بار دادری میں محمد اخلاق کے قتل کے وقت نظر آئی تھی، مودی جی کی حکومت کی پہلی سالگرہ پر نعرہ دیا گیا تھا "میرا دیش بدل رہا ہے" واقعی بدل رہا ہے وہ ھندوستان جہاں کسی مرے ہوئے شخص کو برائی سے یاد کرنا برا سمجھا جاتا تھا اور اگر کوئی بہت برا شخص ہو تب بھی کم از کم اس کی آخری رسومات تک تو خاموشی ہی اختیار کی جاتی تھی، ایک ایسی خاتون کے قتل کا جشن منایا گیا جو اپنے مخالفین اور دھمکی دینے والوں کے لئے کہا کرتی تھی کہ یہ گمراہ ہو گئے ہیں مگر اپنے ہی لوگ ہیں آج نہیں تو کل لوٹ آئیں گے.
گوری لنکیش کے قتل کا صرف جشن ہی نہیں منایا گیا بلکہ مرنے کے بعد ان کی موت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے گالیاں تک دی گئیں۔