تحریر: محمد عاصم اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دارالعلوم دیوبند کسی تعارف کا محتاج نہیں، اس کی عظیم علمی اور اصلاحی خدمات بر صغیر ہندو پاک ہی میں نہیں بلکہ سارے عالم اسلام میں اس قدر نمایاں اور تابناک ہیں کہ کوئی خیرہ چشم ہی اس کی ضیا پاش شعاعوں کا منکر ہوسکتا ہے، ورنہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد باشعور اور حقیقت شناس طبقہ اس کے عظیم تعمیری، اسلامی کردار کا ثناخواں اور اس سے فیض یافتگاں کے مجاہدانہ کار ناموں کا ہمیشہ معترف رہا ہے اور رہے گا،
15 محرم الحرام 1283ھ (30 مئی 1866ء پنجشنبہ کا دن ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں وہ مبارک و مسعود دن تھا، جس میں دیوبند کی سر زمین میں علوم اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا، جس سادہ اور معمولی طریقے سے یہ آغاز ہوا تھا اس دیکھ کر یہ فیصلہ کر پانا مشکل تھا کہ جس مکتب کا آغاز اس بے سروسامانی سے ہو رہا ہے چند ہی سال کے بعد وہ علوم اسلامیہ کا ایشیا میں سب سے بڑا مرکز بننے والا ہے،
دارالعلوم دیوبند ایک دمکتا ہوا سورج ہے جو ڈیڑھ صدی پیشتر افق پر ابھرا اور چودھویں صدی کے آغاز میں نصف النہار پر آگیا، اس کی روشن وتاب ناک کرنیں حدود افغانستان سے لیکر بنگلہ دیش کی آخری سرحدوں تک یکساں پڑیں، جہاں جہاں بھی بدعت و ضلالت کی تاریکیوں میں اجالا نظر آتا ہے مشرکانہ عقائد کا کہرا چھٹتا ہوا دکھائی دیتا دیتا ہے، اگر آپ اس مرکز نور کی تلاش میں نکلیں گے جہاں سے یہ روشنی پھیلی ہے تو پتہ یہی چلے گا کہ یہ اسی آفتاب و عالمتاب کی کرنیں ہیں جو کبھی دیوبند کی ایک گمنام بستی کے افق پر طلوع ہوا تھا،
دارالعلوم دیوبند عالم اسلام کا مشہور دینی و علمی مرکز ہے۔ بر صغیر میں اسلام کی نشر و اشاعت کا یہ سب سے بڑا ادارہ اور دینی علوم کی تعلیم کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے ہر دور میں ایسے باکمال فضلاء تیار ہوکر نکلے جنھوں نے وقت کی دینی ضرورت کے تقاضوں کے مطابق صحیح دینی عقائد اور علوم دینیہ کی نشر و اشاعت کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند تیرہویں صدی ہجری کی ایک عظیم دینی ، تعلیمی اور اصلاحی تحریک تھی جس نے احیائے اسلام اور تجدین دین کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ یہ وقت کی ایسی ضرورت تھی کہ جس کی عدم تکمیل کی صورت میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے لیے وجود و بقا کا مسئلہ پیش آجاتا اور شاید اسپین کی طرح مسلمان بر صغیر کی تاریخ کا ایک قصہٴ پارینہ بن جاتے۔ دارالعلوم دیوبند کی اس دینی و اصلاحی تحریک نے نہ صرف ہندستان کو دوسرا اسپین بننے سے روکا بچا لیا، بلکہ اس کی کوششوں سے ہندوستان میں قال اللہ و قال الرسول کے وہ زمزمے چھڑے کہ قدیم اسلامی مراکز کا سماں بندھ گیا اور ہندوستان میں علم و فن کا ایسا چرچا ہوا کہ پوری مسلم دنیا میں اس کی گونج سنائی دی،
دارالعلوم دیوبند چند بلند بالا عمارتوں کا نام نہیں بلکہ وہ ایک مکتبہ فکر ہے جو ہندوستان میں اسلام کو اپنے اصلی خدوخال کے ساتھ پیش کرنے کا عزم رکھتا ہے، وہ ایک تحریک اصلاح ہے جو مسلم معاشرہ کو غیر دینی آلائشوں سے پاک وصاف کر کے صحیح معنی میں اسلامی معاشرہ میں تبدیل کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے وہ احیاء اسلام کا نقیب و پیغامبر ہے جو عالمی پیمانے پر اسلام کو ایک زندہ و متحرک مذہب کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے.
دارالعلوم دیوبند نے ڈیڑھ سو سال کے عرصہ میں زندگی کے ہر شعبہ اور ہر میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں، وہ ملت بیضاء کا عظیم قیمتی اثاثہ ہیں جن کی اشاعت و فروغ سے بلا شبہ مؤمن کے ایمان میں تازگی و حرارت پیدا ہوگی اور عظمت و شوکت اسلام کے تحفظ و استحکام کے لئے جذبہ بیدار ہو گا.
خداوند متعال اس شجرہ طوبی کو تا قیامت جاری رکھے، آمین ثم آمین