- سرکاریں آتی جاتی رہیں گی لیکن مدارس کل بھی تھے اور آئندہ بھی رہیں گے: مولانا محمود مدنی
- یوپی حکومت نے اگر مدارس میں بےجا مداخلت کا سلسلہ بند نہیں کیا تو مجبوراً ہمیں ان کے خلاف تحریک چلانا پڑے گا: مولانا اسامہ قاسمی
رپورٹ: یاسین صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کانپور(آئی این اے نیوز 16/اکتوبر 2017) شہر کے مشہور راگیندر سروپ آڈیٹوریم سیول لائنس میں جمعیة علماءاتر پردیش کی جانب سے ایک روزہ تحفظ مدارس کنونشن منعقد ہوا، جس میں دیوبند،سہارنپور، لکھنؤ، مرادآباد، ہتھورہ باندہ کے مرکزی دینی اداروں سمیت پورے اتر پردیش کے 500 سے زائد مدارس کے ذمہ داران و نمائندے شریک ہوئے۔ کنونشن میں جمعیة علماءہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی، دارالعلوم ندوة العلماء کے نائب مہتمم مولانا عبد العزیز بھٹکلی، جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور کے امین عام مولاناسید محمد شاہد صاحب، مولانا محمد خالد صاحب غازی آباد ، مولانا نعمت اللہ گونڈہ ، مولانا توفیق احمد جونپور، مولانا زین العابدین قاضی شہر بلندشہر، مولانا نثار احمد قاسمی دار العلوم اسلامیہ بستی و دیگر علماءکرام و نمائندگان کا خطاب ہوا جبکہ دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم ، دارالعلوم وقف کے مہتمم،دارالعلوم ندوة العلماءکے ناظم ،مظاہر العلوم وقف کے مہتمم کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔
مہمان خصوصی حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی نے اپنے کلیدی خطاب میں علماءاور مدارس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علماءومدارس انسانیت کا درس دیتے ہیں ، اگر یہ نہ ہوتے تو بر صغیر کا کیا حال ہو تا اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انسانیت کے محافظ اور اسلام و عقیدے کے تحفظ کے ضامن علماء و مدارس جمعیۃ علماء کی آواز پر آج یہاں اکٹھا ہوئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے آزاد مدارس کو جو نوٹسیں بھیجی جا رہی ہیں اس سے بے چینی پیدا ہو رہی ہے، اس کو دور کرنا اور اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنا کنونشن کا مقصد ہے۔ مولانا نے کہا کہ مدارس کے نظام کو مزید بہتر بنانا وقت کا تقاضہ ہے ،تعلیمی اور انتظامی امور کو بہتر بنانے کیلئے شورائی نظام قائم کیا جائے، مدرسے میں بلڈنگ کی تو ضرورت ہے لیکن بلڈنگ سے زیادہ طلباء کی تعلیم وتربیت کو مد نظر رکھا جائے۔ طلباء کے ساتھ نرمی کا برتاﺅ کیا جائے اور مارپیٹ بالکل نہ کی جائے ،غلطی پر سزا ایسی دی جائے جس میں افراط و تفریط نہ ہو۔ اس سلسلے میں محی السنہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ؒ اور پیر فقیر مولانا ذو الفقار نقشبندی دامت برکاتہم کے اقوال کا حوالہ دیا، مولانا نے آپسی بھائی چارے کے ساتھ ساتھ غیروں کے ساتھ رشتے کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ مولانا نے کہا کہ اگر ہم طویل المدتی کوئی لائحہ عمل نہیں طے کر پا رہے ہیں تو کم سے کم ایک قلیل المدتی لائحہ عمل پر عمل پیرا ہو جائیں اور اس کے تحت کام کریں۔ اپنے اندر اخلاص پیدا کریں ، اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ہم جب تک اپنا محاسبہ نہیں کریں گے ذلت و رسوائی سے بچ نہیں سکتے۔ امت مسلمہ اور علماءکے درمیان جو خلیج پیدا ہو گئی ہے اس کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ سرکار تو آتی جاتی رہتی ہے، سرکاروں میں دوام نہیں ہوتا، مدرسے پہلے بھی تھے، اب بھی ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی رہیں گے۔ مدارس کو بھیجے گئے نوٹس کے بارے میں کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ حکومت کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ضلعی افسران کی غلط فہمی کی وجہ سے نوٹس بھیجی جا رہی ہے۔ حکومت کو اپنے افسران سے باز پرس کرنا چاہئے۔
مولانا مدنی نے”تحفظ مدارس کنونشن “کے حوالے سے اہل مدارس سے اپیل کی کہ وہ نظام تعلیم کو مستحکم کرنے کے ساتھ جدید تحقیقی انداز اور جدید ذرائع ابلاغ سے مکمل طور پر فائدہ اٹھا کر قوم کی صحیح رہنمائی کیلئے آگے آئیں،ساتھ ہی ملک اور سوسائٹی کے عمومی ماحول اور عوامی نفسیات سے شناسائی اور واقفیت کو بھی ضروری سمجھیں ۔ کچھ لوگ معاشرے اور ارباب مدارس کے درمیان غلط فہمیاں ڈال کرخلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہاں پرنبی کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اس کے انسداد کیلئے عوامی رابطے کو مضبوط کریں۔
مولانا محمود مدنی نے زور دے کر کہا کہ ایک ملک جو قرآن اوراسلام کے نام پر بن رہا تھا ہمارے پاس آپشن موجود تھا جانے کا ،لیکن پھر بھی ہم نے اپنے ملک ہندوستان میں رہنا پسند کیا ۔ ہم بائی چوائس انڈین ہیں ، بائی چانس انڈین نہیں ہے۔ مولانا نے آگے کہا کہ کسی حکومت سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے،ہماری طرف سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، جھگڑا تو ان کی طرف سے ہے۔ حکومت اپنے وعدے ”سب کا ساتھ ،سب کا وکاس “کے مطابق کام کرے، اس میں وہ کتنا کامیاب ہے یہ تو سب لوگ جانتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ ہمیں ان تمام چیزوں سے بچنا چاہئے جس سے ملک و معاشرہ مخالف طاقتوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ہمیں اشتعال انگیزی اور جوشیلی باتوں سے گریز کرنا چاہئے اس سے انہیں طاقت ملتی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہم ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ یہ باور کرانے کیلئے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان میں سب سے بڑی دوسرے نمبر کی اکثریت مسلمان ہیں، اگر ان کی نیند حرام ہوگی تو کیا دوسرے سکون کی نیند سو سکیں گے۔ قلیل مدتی سیاسی فائدے کے لئے وطن کو برباد کرنے کی کوشش کرنے والوں کو مادر وطن کبھی معاف نہیں کرے گی۔ مولانا نے کہا کہ ملک کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ، اندر یا باہر کسی بھی طرح سے ملک کو نقصان پہنچانے والوں کو کبھی بھی ہم ان کے گھناﺅنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اور اپنی پوری قوت کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں گے۔
کنونشن کے روح رواں جمعیة علماء اترپردیش کے صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی قائم مقام قاضی شہر کانپور نے تجاویز پیش کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ جمعیۃ علماء اترپردیش کے زیر اہتمام پورے صوبے کے نمائندہ علمائے کرام کا یہ اجلاس ”تحفظ مدارس کنونشن“ اس تاریخی حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ مدارس اسلامیہ عربیہ نے ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر و حفاظت میں اہم اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ جنگ آزادی ہند میں علمائے کرام کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے ملک کو آزاد کرانے کیلئے جیل کی کوٹھریوں سے لے کر پھانسی کے پھندوں تک اپنی عظیم قربانیاں پیش کی ہیں اور آزادی وطن کے بعد اس کی تعمیر وترقی ،اس کی سلامتی اور ملک میں بھائی چارہ و محبت کو فروغ دینے کیلئے ان کا کردار آج تک جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے دستور نے تمام باشندگان ملک کو مذہبی آزادی اور اپنی تہذیب وتشخص کی حفاظت کی گارنٹی دی ہے، اسی آئینی اور دستوری حق کے تحت ہم اپنے ادارے ،مساجد ، مکاتب اور مدارس بناتے اور قائم کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی قائم کرتے رہیں گے۔مولانا اسامہ نے بتایا کہ مدارس اسلامیہ کے قیام ،اس کے آزادانہ کردار اور اس کے نظام کے سلسلے میں ہم کو مکمل دستوری حقوق حاصل ہیں۔سرکاروں کو اس میں کسی طرح کی مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ مدارس میں کیا چیز بہتر ہے اور کیا چیزیں بہتر سے بہتر کی جا سکتی ہیں،اس کی تعلیم وتربیت اس کے استحکام اور جدید ماحول میں اس کو مو ¿ثر وباکردار بنانے کیلئے جو بھی ضرورت محسوس ہوگی ہم علماءکرام باہمی مشورے سے خود اس کودیکھتے ہیں ، بہتر بناتے ہیں اور آئندہ بھی خود ہی دیکھیں گے اور بہتر بنائیں گے ۔مولانا اسامہ صاحب اس بات پر خصوصی زور دے کرکہا کہ اپنے علاقے کے مسلمانوں کے علاوہ برادران وطن سے اچھے تعلقات قائم کریں اور ان کو وقتاً فوقتاً مدرسے میں بلا کر مدرسے کے نظام تعلیم وتربیت سے واقف کرائیں،تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں ۔ طلباءکو تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت اور اعلیٰ اخلاق و کردار سے مزین کرکے عمدہ شہری بنائیں۔
مولانا اسامہ قاسمی نے کہا کہ موجودہ دور میں اسلامی عقائد و افکار کے خلاف جدید ذرائع اورحربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں نئے عہد کے ان خطرات اور تقاضوں کو سمجھنا اور اور اس کے سدباب کی کوشش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مولانا نے اجلاس کے حوالہ دے کرسرکار سے اپیل کی کہ وہ مدارس کے آزادانہ کردار اور دستوری آزادی میں مداخلت کی راہ نہ اپنائے اور بےجا غیر قانونی نوٹسیں بھیج کر مدارس کو پریشان کرنے کا سلسلہ بند کرے، ورنہ پھر ایسا نہ ہو کہ آپ کی بیجا مداخلت کے خلاف ہم کو تحریک چلانا پڑے۔ مولانا اسامہ نے نظامت کے دوران آئے ہوئے مہمان علماءکرام سے کہا کہ مشورے دیجئے اور ساتھ ہی علماءاپنے علاقوں میں جائیں اور اپنے علاقے کے مدارس کو نوٹس وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے بتائیں کہ اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس سے قبل دارالعلوم ندوة العلماءلکھنؤ کے نائب مہتمم مولانا عبدالعزیز بھٹکلی نے اپنے پرمغز خطاب میں اہل مدارس سے خلوص و للہیت کے ساتھ دینی تعلیم میں مصروف رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں نافعیت کام آتی ہے اور آخرت میں اخلاص ، اس بات کو مد نظر رکھیں اور سنت کے مطابق اپنے انتظامی امور انجام دیں۔ ہماری انتظامی جڑیں اگر مضبوط رہیں گی تو کوئی بھی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔ مولانا بھٹکلی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺتوحید کی تعلیم اور شرک کی مذمت کے باوجود شرک میں مبتلا لوگوں کی ضیافت فرماتے، کمزوروں کی مدد فرماتے خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہوں ،اس لئے ہمیں بھی نبی کی سیرت کو اپنانا پڑے گا۔
مظاہر العلوم سہارنپور کے مہتمم مولانا سید محمد شاہد صاحب نے کہا کہ یہ معاملہ جو آج ہمارے سامنے ہے کوئی نیا نہیں ہے اس سے قبل بھی اس طرح کے حالات کا مقابلہ ہمارے اکابرین نے کیا تھا اور کامیابی حاصل کی تھی۔ انشاءاللہ ہم بھی بہتر طریقے سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ ہمیں اس چیز کا خیال رکھنا چاہئے کہ باہر جو انتشار اور خلفشار جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ حقیقت میں انتشار اور اختلاف اندر ہے۔ جب تک اندر انتشار نہیں ہوتا باہر کوئی خلفشار برپا نہیں ہوتا۔ ہم اپنے باطن کو ٹٹولیں کہ پانی کہاں مر رہا ہے ، گڑبڑی کہاں پر ہے۔ ہم اپنی خامیوں کو دور کریں ،قیامت تک کوئی بھی طاقت روئے زمین سے دین و علم دین کو نہیں مٹا سکتی ۔
دار العلوم اسلامیہ بستی کے مولانا نثار احمد قاسمی نے کہا کہ علوم شرعیہ کی تعلیم کی اشاعت ہمارے عبادت کا جز ہے ، احکام شریعت کی حفاظت ہمارا فریضہ ہے۔ مولانا عبد الرب اعظم گڑھ نے کہا کہ کمیوں کو دور کریں ، اصول وضوابط کے مطابق امور کو انجام دیں۔ مظاہر العلوم سہارنپور کے مولانا ظہور نے کہا کہ سب داعی بنیں ، اصلاحی معاشرہ کیلئے کام کریںاور جس طرح سے ہمارے اکابر نے ہندوستان میں اسلام و مسلمانوں کی خدمت کی ہے ۔اس کے مطابق کام کرتے رہیں ، جامع العلوم پٹکاپور کے شیخ الحدیث مولانا سعید قاسمی نے کہا کہ ہم اپنے حالات درست کر لیں اس سے پہلے بھی اس طرح کے حالات آتے رہے ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں اربوں ڈالر خرچ کرکے اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ اللہ نے انہیں ذلیل و رسوا کیا ہے ، اس بار بھی انشاءاللہ ندامت ہی ان کے ہاتھ آئے گی۔
جلسے میں مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی کے شیخ الحدیث مولانا افضال الرحمان صاحب، مدرسہ روضة العلوم کاسگنج ایٹہ کے صدر مدرس مولانا انعام احمد صاحب قاسمی، بلند شہر کے قاضی شہر و غازی آباد کے مولانا خالد صاحب خلیفہ فقیہ الامت ، مئو کے مولانا عبد الحئی ، ٹانڈہ کے مولانا عرفان ، امبیڈکر نگر کے مولانا قمر الدین قاسمی ،لکھنو کے مولانا کوثر ، شاہجہانپور کے مولانا زین العابدین،مولانا عظیم الدین، سلطانپور کے مولانا عثمان و مولانا عبد اللہ ، فیروز آباد کے مولانا آدم مصطفی ،بہرائچ کے مولانا سعید اختر ، گونڈہ فرقانیہ کے مولانا نعمت اللہ ،مظاہر العلوم وقف سہارنپور کے مولانا غیور ،مولاناخالد رشید فرنگی محلی کے نمائندے مولانا مشتاق احمد صاحب سمیت اتر پردیش کے 70شہر سے زائد اضلاع کے 500 سے زائد مدارس کے ذمہ داران نے شرکت کی ۔ ساتھ ہی مختلف اضلاع کے ذمہ داران نے بھی خطاب کیا اور اپنی رائے پیش کی۔ دار العلوم دیوبند ،وقف دار العلوم اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کے پیغامات پڑھ کر حاضرین کو سنائے گئے۔ قاضی شہر کانپور حضرت مولانا مفتی منظور احمد صاحب مظاہری کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔