اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جاگو، آخر کب جاگو گے؟

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 5 October 2017

جاگو، آخر کب جاگو گے؟


تحریر: عارفہ مسعود عنبر مرادآباد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج پھر  میرا ذہن کچھ الگ لکھنے کا خواہش مند ہے، قلم نے کاغذ کے لمس کی خواہش ظاہر کی ہے، میری سمجھ میں نہیں  آرہا کہ ان جذبات اور احساسات کو کیا نام دوں عزیزانِ ملّت کا کرب مجھ میں سما رہا ہے یا میں اپنے اندر کے کرب کو ملت کے کرب میں محسوس کر رہی ہوں۔ برسو سے طلبہ کے نصاب کو ترتیب دینے والے قلم، مہندی کی جگہ لال روشنائی میں رنگے ہاتھ، اور بہت مضطرب ہو کر غزل کہ لینے والے دل کو آج کیوں اس قدر بیزاری محسوس ہو رہی ہے قلم کیوں قوم و ملت سے دو لفظ کہنا چاہتا ہے جب کہ اس، کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ ذمے داری قوم کے رہبروں کی ہے یہ فرض بڑے بڑے ادیبوں، دانشوروں اور قوم کے ذی ہوش طبقہ کا ہے، مجھ جیسی ادب کی ادنیٰ طالب علم کا نہیں جو خود کو اہل قلم شخصیات کی خاکِ پا بھی نہیں سمجھتی ۔
لیکن آج ملتِ اسلامیہ ملک میں جن حالات سے گزر رہی ہے اس کے لئے بہت بڑی دانشوری کی ضرورت نہیں بلکہ ہر حساس دل جس میں احساسات موجود ہیں اس درد کو محسوس کر سکتا ہے ۔تاریخ گواہ ہے مسلمان وہ قوم ہے جس نے اس ملک پر سینکڑوں سال حکومت کی ہےاور اس ملک کے چپّے چپّے پر اس کے نشانات موجود ہیں پھر کیا سبب ہے کہ آج مسلمان اس بیچارگی کے عالم سے گزر رہا ہے کہ ایک زخم بھر نہیں پاتا کہ دوسرا لگا دیا جا تا ہے، آہستہ آہستہ قوم کا شیرازہ بکھر رہا ہے، ملت کا سفینہ ڈوبتا ہوا نظر آ رہا ہے، قوم پستی کی طرف مائل ہو رہی ہے، مسلمان کی تباہی اپنے عروج پر ہے ،پورے ملک کی کیچڑ میں کنول کھلا ہوا ہے، اور ہم قدم قدم پر ذلیل اور خوار ہو رہے ہیں، سر زمینِ ہند کی سب سے با عزت اور با وقار قوم اپنے مقام سے نیچے آ گئی ہے، بے چارگی درد و الم میں چیخ رہی ہے مگر ان چیخوں کو سننے والا کوئی نہیں ہے اس درد کو بانٹنے والا کوئی نظر نہیں آتا، ان زخموں پر مرہم کی کوئی تدبیر میسر نہیں۔
یہ حال صرف ملک میں ہی نہی ہے بلکہ اگر دنیا کے کسی بھی خطّہ پر نظر ڈالی جائے تو مسلمان تشدد اور ظلم و ستم کا شکار نظر آتا ہے آج برما کے مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم کے جو درد ناک مناظر سامنے آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر شاید ہی کوی ایسا دل ہو جو درد و غم میں نہ ڈوب جائے، ان بے کسوں کی آہوں پر پتھر سے بھی اشک رواں ہو جاییں جس طرح معصوم  بچوں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے کان اگر ان چیخوں کو سن لیں تو عمر بھر کچھ اور سنائی نہ دے، انسانوں کو گاجر مولی کی طرح جس درد ناک طریقہ سے قتل کیا گیا ہے انکھیں اگر ان مناظر کو دیکھ لیں تو لب تاحیات تبسّم کو بھول جائیں انکی کمزوری ذلت اور بے چارگی نے دل کو تڑپا کر رکھ دیا ہے لیکن ہم صرف تماشائی بنے تماشا دیکھ رہے ہیں اور  دوسرں کے رحم و کرم کی راہ تک رہے ہیں.
مسلمان اپنی مظلومیت پر صرف ماتم کر لیتے ہیں بہت کچھ کیا تو احتجاج کر لیا ۔فرزانوں نے غور و فکر میں مشغول ہو کر کاغذ قلم پکڑ لیا اور اس سے بھی مایوس ہوئے تو قیادت نہ ہونے کے مرثیہ پڑھ لئے  لیکن حالات کے بدلنے کی کوئی صورت نظر نہی آتی ساری کوششیں دم توڑ رہی ہیں، امیدوں نے تاریکیوں کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، مایوسیوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے ،نا کامی ہمارا نصیب بن گئی ہے، مسلمان وہ قوم ہے جو صرف چودہ سو سال قبل وجود میں آئی اور اس قلیل مدت میں سارے عالم پر چھا گئی پھر کیا سبب ہے کہ آج حالات نے ایسا موڑ لے لیا ہے کہ مسلمانوں پر تباہی آئی ہوئی ہے ۔
اسلام کی عمارت اخلاق، اتحاد اور محبت کی بنیاد پر کھڑی ہے، اخلاق اور اتحاد ایسے ہتھیار ہیں جس سے بڑی سے بڑی جنگ کو جیتا جا سکتا ہے، مگر افسوس ہماری شدید پست اخلاقی کے سبب ہر کام بگڑ رہا ہے کوشیشں ناکام ہو رہی ہیں مایوسیوں نے اپنا شکار بنا لیا ہے
حالات کے بھنور میں پھنسی قوم کو کنارے لگانے والا وہ طبقہ ہوتا ہے جو عقل رتبہ اور علم میں خاص درجہ رکھتا ہے کسی قوم کے ڈوبتے ہوئے سفینے پار لگانے کے لیے یہی خاص طبقہ اور دین کے رہبر قیادت کی تشکیل کرتے ہیں قوم کو اس وقت اتحاد اور رہبری کی سخت ضرورت ہوتی ہے ۔اگر کسی قوم کے پاس ذہانت اور فراست، ہمت اور حوصلہ حقیقت پسندی اور غیرت مندی کی صفات سے منتصب ایک جماعت موجود ہے تو وہ قوم کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو سمیٹنے کے لئے دل جان لگا دیتی ہے ظلم و ستم کا سامنا حوصلہ مندی سے کرتی ہے حالات کی تبدیلیوں کے لئے قربانیوں کو پیش کرکے قوم کو بیدار کرتی ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہی کمزور اور لاچار قوم بےچارگی کے عالم سے باہر نکل آتی ہے
بات بہت قدیم زمانے کی نہی ہے جب سرسید اور انکے رفقاء نے قوم کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو سمیٹنے کے لئے اپنی جان کی باٰزی لگا دی تھی لوگوں کی مخالفت برداشت کی، پتھر کھائے گالیاں سنیں لیکن اپنے فرض سے ٹس سے مس نہیں ہوئے اور ایک دن ایسا آیا جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے
لیکن آج حالات اس کے برعکس ہیں ہمارے معاشرے کے اس طبقہ خواص میں ہی کردار کی بنیادوں میں پانی مر گیا ہے، اخلاق فکر مندی اور اتحاد کے شجر کی جڑوں میں دیمک لگ گئی ہے، قوم کے سفینے کو پار لگانے والوں کی حوصلہ مندی پست ہو گئی ہے، دولت اور شہرت کی تیغ نے جذبات کا قتل کر دیا ہے احساسات کو مار دیا ہے، ایمانداری اور حق شناسی کو بے ایمنای اور جھوٹ کے ازدہے نے نگل لیا ہے۔
ملّت کے اتحاد کو مسلکوں کے زلزلوں نے نیست و نابود کر دیا ہے، اصول پسندی کی جگہ مطلب پسندی نے لے لی ہے، جس کو جس کام میں فائدہ نظر آتا ہے وہ اس کی بھر پور وکالت نہایت خلوص کے مظاہرہ کے ساتھ کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان سطروں کو لکھنے والی خود کردار کی مفلس قلم کی کمزور اور کم علمی کا مجسمہ ہے اس حقیر کو تو گفتار کا سلیقہ بھی نہیں میرا ان سطروں کو لکھنے کا مطلب نہ کسی طبقہ خواص کی تخفیف ہے نہ انگشت نمائی یہ حقیر خاکِ پا تو صرف یہ کہنے کی کوشش کر رہی ہے کہ خدارا قوم کے ذمے دار، دین کے رہبر، ادیب اور شاعر، اور قوم کا ذی ہوش اور دانشور طبقہ سب مل کر اپنی ذمےداری کو سنبھالیں اور عزیزان ِ ملّت تمام مسلکوں سے نکل کر صرف یہ سوچیں کہ ہم نہ شعیہ ہیں نہ سنّی،، نہ دیو بندی ہیں نہ بریلوی، نہ اہلِ حدیث ہیں نہ جماعتِ اسلامی بلکہ ہم صرف مسلمان ہیں ایک خدا کی عبادت کرنے والے ایک رسول کے امّتی ہیں ،کلمہ، روزہ، نماز، حج زکوٰۃ وغیرہ سب پر یکساں فرض ہے، ہم سب کو اتحاد اور محبت کے ساتھ قوم کے اس ڈوبتے ہوئے سفینے کو پار لگانا ہے، ہمیں اپنے کھوئے ہوئے وقار کو واپس پانا ہے، ہمیں اپنے گرے ہوئے مقام کو اوپر اٹھانا ہے، ہم سب کو مل کر اس پستی سے باہر آنا ہے، ہمیں ایمان کو بچانا ہے، ہمیں قرآن کی حفاظت کرنی ہے، ہم سب کو مل کر غور و فکر کرنی ہے.

            ـــــــــعــــــــ
محبت کے چراغوں کی ضیاء ہر گام کرنی ہے
ہواؤں کی ہر ایک سازش ہمیں ناکام کرنی ہے

گلوں کے ساتھ خاروں کو بھی سینے سے لگانا ہے
مٹا کے نفرتیں رفعت محبت عام کرنی ہے