سوشل میڈیا پر بھی فتوؤں کو لیکر بحث و مباحثہ کا بازار گرم، فعال میڈیا ترجمان کی تقرری وقت کی اہم ضرورت!
رپورٹ: سمیر چودھری
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
دیوبند (آئی این اے نیوز 21/اکتوبر 2017) دارالعلوم دیوبند نہ صرف ہندوستان بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کا ممتاز و معتبر علمی، دینی اور اصلاحی ادارہ ہے جہاں سے نکلنے والا فتویٰ دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میں اہمیت و عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، مگر گزشتہ کچھ دنوں سے یہاں کے فتوؤں پر میڈیا کی نظر بد لگ گئی ہے، جس کی وجہ سے اب یہ خالص شرعی مسئلہ سماجی معاملہ بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے، جس کے بہانے میڈیا ادارہ کے ساتھ، علماء، اکابرین اور مسلمانوں کی ساکھ پر نہ صرف سوالات کھڑے کرتی ہے بلکہ ان کی شبیہ کو مجروح کئے جانے کی ایک سوچی سمجھی سازش کی جارہی ہے، جس سے ایسے تمام دینی ادارے اور علماء کرام ناواقف معلوم ہوتے ہیں، اب حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں میڈیا بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے اہلکار خود اپنے یا فرضی ناموں سے دارالافتاء سے رجوع کرکے فتویٰ حاصل کرتے ہیں اور پھر ان کے بہانے نیوز روم میں بیٹھ کر علماء اور مسلمانوں پر سخت تنقید و تبصرہ کئے جاتے ہیں، حال ہی میں کئی ایسے فتوے نظر سے گذرے ہیں جن کو بلاوجہ میڈیا نے ایشو بناکر کھڑا کیا، فیس بک، واٹس ایپ یا ایسے ہی دیگر ذرائع پر تصاویر اپلوڈ کرنے کو لیکر حال میں آئے دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ کو ایک مرتبہ پھر میڈیا نے بہت بڑا ایشو بنا لیا، جس کے بعد حالانکہ مہتمم دارالعلوم دیوبند نے میڈیا کے مخصوص نمائندوں کے ذریعہ اس فتوے اور اس کی حقیقت کو سمجھانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اس سے پہلے ہی یہ فتویٰ دنیا بھر میں پھیل چکا تھا، اسی فتوے کو لیکر سوشل میڈیا پر بھی بحث و مباحثہ کا دور جاری ہے جس میں نوجوان فضلا فتویٰ کی حقیقت اور ادارہ کی معتبریت کو سمجھانے کی کوشش ضرور کررہے ہیں لیکن سلسلہ وار طریقہ سے جس طرح فتوؤں پر ’نون ایشو کو ایشو‘ بنانے کی پالیسی پر میڈیا چل نکلا ہے اس کے لئے ادارہ کی جانب سے ضروری بندوبست کئے جانا بہت ضروری معلوم ہوتاہے۔
دارالعلوم دیوبند کی میڈیا ترجمانی کا سوال ایک مرتبہ پھر بحث میں آچکاہے کیونکہ اکثر ایسے مواقع پر ان میڈیا اہلکاروں کو سخت تکلیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دارالعلوم دیوبند سے محبت رکھتے اور وہ فتوؤں کو ایشو نہ بننے دینے کی کوشش کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کا باضابطہ طور پر موقف چاہتے ہیں، مگر میڈیا ترجمان نہ ہونے کے سبب میڈیا شرعی مسئلہ کو فتنہ بناکر پیش کر دیتاہے۔
اس سلسلہ میں نوجوان صحافی شاہنواز بدر قاسمی نے کہا کہ دارالعلوم دیوبندکے فتویٰ کو فتنہ بنانا میڈیا کا کام ہے، اس کیلئے باقاعدہ بعض متعصب میڈیا ہاؤس نے اپنے لوگوں کو رکھ رکھا ہے جومعمولی اجرت پرفرضی ناموں سے اس کام کو بحسن وخوبی انجام دیتے ہیں، ہمیں ایسے فتویٰ اور علماء سے بدظن کرنے کیلئے مستقل کوشش کی جارہی ہے، حالیہ چند برسوں میں فتوی کو لیکر دارالعلوم کی شبہ کو حد درجہ خراب کرنے کی مسلسل کوشش جاری ہے، ایسے میں ذمہ داران دارالعلوم دیوبند کو احتیاط برتنا چاہئے، ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند کی ترجمانی کیلئے باضابطہ کوئی نوجوان اورفعال ترجمان بھی ہو، جو ان غلط فہمیوں کو دور کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند ایشیاء کا سب سے معتبر اسلامی ادارہ ہونے کے باوجود یہاں کوئی میڈیا ترجمان نہیں ہے جو دارالعلوم سے متعلق کسی بھی غلط فہمی یا مسئلہ پر میڈیا والوں سے بات کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ارکان شوریٰ اور منتظمین دارالعلوم کو فوری طور پر کوئی اہم فیصلہ کرنا چاہیے، موجودہ دور میں بھی میڈیا کے حوالہ سے دارالعلوم کی پالیسی سمجھ سے پرے ہے، امید ہے کہ ارکان شوریٰ، منتظمین اور مہتمم دارالعلوم دیوبند اس جانب توجہ فرمائیں گے.