اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مولانا انظر شاہ قاسمی اور میڈیا!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 23 October 2017

مولانا انظر شاہ قاسمی اور میڈیا!


تحریر: جمیل اختر شفیق
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پچھلے چند سالوں میں میڈیا کی بدلتی ہوئی کار کردگی پہ گہری نظر ڈالیں تو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جرنلزم کے سارے اصول و ضابطے اب ہوا ہورہے ہیں، انسانیت کے فروغ کا جذبہ دم توڑ رہا ہے،اعلا قدریں زندگی کی آخری سانسیں گِن رہی ہیں، صحافی جیسی مقدس برادری ضمیر فروشی کی دکان کھولے بیٹھی ہے یوں لگتا ہے جیسے حقائق سے عام لوگوں کو روشناس کرانے کے بجائے اس پہلو کو زیادہ ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے کہ آر ایس ایس کے سورما اُن کے کس عمل سے اُن کی پیٹھ تھپتپائیں گے؟ اُنہیں کیسے اعزاز و اکرام سے نوازیں گے؟کیسے اپنے ہم نشینوں میں اُن کا شمار کریں گے؟ خاص طور سے مسلمانوں کے ساتھ اُن کا جارحانہ رویہ کسی بھی سیکولر ہندوستانی کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے،ایک تو یہاں کی تنگ نظر، خفیہ ایجینسی ہر جرم کا رشتہ پُر اسرار طریقے مسلمانوں سے جوڑ دیتی ہے اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ میڈیا چینخ چینخ عدالت میں سماعت سے قبل ہی اُسے مجرم مان کر اُس کی سزا بھی متعین کردیتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ جب وکیل اورجج دونوں فریضے کو انجام دینے کا اہل میڈیا خود کو سمجھتی ہے تو پھر ملک کی عدالتیں کس کام کے لیے ہیں؟ کیا یہ میڈیا کی آزادی کے نام پر اقلیتی طبقے کو ٹارگیٹ کرکے بلیک میل کرنے کا گورکھ دھندہ نہیں چل رہا ہے؟کیا اس پہ لگام لگانے کی ضرورت نہیں ہے؟
مشہور داعی وخطیب مولانا انظر شاہ قاسمی کو ایک منظم سازش کے تحت گرفتار کرلیا گیا ،اور آج طویل جدوجہد کے بعد جمعیتہ علماء ہند کی مسلسل کوششوں سے وہ باعزت بری ہوچکے ہیں لیکن اُن کی گرفتاری کے بعد میڈیا کا جو کردار رہا وہ کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کسی نے اُن کا رشتہ پاکستان کی تنظیم آئ ایس آئ سے جوڑنے کی کوشش کی، کسی نے البغدادی کا بھارت میں نمائندہ کہا تو کسی نے القاعدہ کا ایجینٹ حد تو یہ ہے کہ بعض میڈیا کے چرب زبان، تملق پسند، ضمیر فروش اینکروں نے نفرت پھیلانے والا ٹیچر تک کہا۔لیکن آج سب کی زبان گُنگ ہے، ہر طرف خاموشی کا پہرہ ہے،چند ٹیوی چینلوں اور اخبارات کے علاوہ کسی میں یہ جراءت نہیں کہ اُن کی دُھندلی شبیہ کو صاف کرنے کی کوشش کرے، اپنی بے ہودہ اینکرنگ پہ معذرت پیش کرے، اپنا بیان واپس لے اور دنیا کو بتائے کہ ایک صاف ستھرے انسان کو غلط طریقے سے بدنام کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ۔
ہمیں اُن سے مسلکی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ بات بہرِ صورت محل نظر رہے کہ گرفتاری کے وقت اسلام دشمن عناصر کے ذہنوں میں ہمارا مسلکی چہرہ نہیں قومی چہرہ ہوتا ہے اور وہ اسی بنیاد پر منافرت کی نئ نئ عبارت لکھتے پھرتے ہیں ۔
کس قدر افسوسناک اور قابلِ مذمت بات ہے کہ محض مذہبی عناد کی بنیاد جس مسلمان کو جب چاہا جاتا ہے عدالت کے چکر کاٹنے پہ مجبور کردیا جاتا ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ جرم کی دنیا آباد کرنے والے لوگوں کا کوئ مذہب نہیں ہوتا اور نہ دنیا کا کوئی مذہب اس کی تعلیم دیتا ہے کہ بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے یا بلاسبب معاشرے کا سکون درہم برہم کیا جائے ، جہاں تک اسلام کا سوال ہے تو اسلام شروع سے ہی امن وآشتی کا پیامبر اور دہشت گردی کا مخالف رہا ہے۔
لیکن میڈیا کی دوغلی پالیسی، گندے افکار، اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کی پیش رفت دنیا کے کسی بھی ملک کے امن وامان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اس پہ سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اس کے خلاف عملی جدوجہد کے ذریعے اعلانِ بغاوت کرنا ہوگا ورنہ مستقبل کا منظر نامہ مزید بھیانک ہوسکتا ہے۔