اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: نگر پالیکا الیکشن اور ہماری ذمہ داریاں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 18 November 2017

نگر پالیکا الیکشن اور ہماری ذمہ داریاں!

 از قلم: محمد سالم قاسمی سریانوی استاذ تفسیر وفقہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور اعظم گڑھ
salimmubarakpuri@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اِس وقت نگر پالیکا الیکشن اپنے شباب پر ہے، ہر طرف اسی کا ہلہ ہے، جس کو دیکھو نمائندہ، ووٹ اور ووٹر کی بات کررہا ہے، آدمی چلتے پھرتے اسی کی تگ ودو میں مشغول ہے، بل کہ آج کل صورت حال اتنی نازک بن چکی ہے کہ لوگ یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ انتخابات کی اس غیر معمولی مشغولی نے ان کو دین ودنیا کے حوالے سے کتنا چونہ لگا دیا ہے!! بس ایک ہی دھن لگی ہے الیکشن! الیکشن! چاہے دنیا برباد ہو کہ دین کا نقصان ہو!!
یہ الیکشن۔۔۔یہ عہدۂ صدارت۔۔۔یہ ممبری۔۔۔کوئی پھولوں کی سیج نہیں کہ جو چاہے اسے اٹھالے؛ بل کہ یہ کانٹوں بھرا گلدستہ ہے، جس میں ہر طرف کانٹا ہی کانٹا ہے، جتنا آپ اس کانٹے سے بچنے کی کوشش کریں گے اتنا ہی یہ آپ کو نوچبھے گا؛ اس لیے اس سیج کو اٹھانے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا چاہیے، یہ دین ودنیا کے اعتبار سے بہت بڑی ذمہ داری ہے، آپ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے تئیں دنیاوی اعتبار سے بھی ماخوذ ہوں گے، جب کہ دینی واسلامی نظریہ سے آپ کی ماخوذگی یقینی ہے۔
 آج ہم مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ایک ہی عہدہ کو حاصل کرنے کے لیے اتنے لوگ میدان میں آتے ہیں کہ ہر طرف امیدوار ہی امیدوار نظر آتے ہیں، اس پر یہ تماشا الگ ہوتا ہے کہ ہر کوئی جیت بھی رہا ہوتا ہے اور اسے اپنی جیت یقینی وپکی نظر آتی ہے۔(آج ہی میں نے مبارک پور میں عہدۂ صدارت کے لیے ’’الیکشن کمیشن‘‘ کی ویب سائٹ دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہاں کل امیدواروں کی تعداد ۱۲/ ہے جس میں صرف ایک غیر مسلم ہے، باقی سب مسلمان ہیں، جب کہ یہاں اکثریت مسلمانوں ہی کی ہے اور ووٹوں کی کل تعداد بہتر ہزار (72000) کے قریب ہے، اس کثرت واختلاف کا نقصان یہ ہوتا ہے ہم آپس میں لڑتے ہیں اور ہمارے ووٹ آپس میں بکھر جاتے ہیں جس کا فائدہ غیروں کو ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی ماضی قریب میں یوپی الیکشن میں ہوچکا ہے، بعد میں کف افسوس ملتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔) ایسی ہی کچھ صورت حال ’’اندلس‘‘ یعنی ’’اسپین‘‘ کے مسلمانوں کی رہ چکی ہے، جہاں اپنے بڑکپن اور عہدہ کی طلب میں نہ جانے کتنے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے خود ہی اپنے لوگوں نے ہولی کھیلی ہے، اور یہی کچھ صورت حال ہندی مسلمانوں کی بھی سلطنت مغلیہ کے عہد میں رہ چکی ہے، جس کا خمیازہ آج بھی ہم اٹھا رہے ہیں، لیکن پھر بھی ماضی کی تاریخ سے سبق لینا تو درکنار اس کو پڑھنا بھی نہیں چاہتے، نتیجہ اس سچے مقولہ کی صورت میں سامنے آتا ہے جس میں کہا گیا ہے ’’جو قوم اپنی ماضی کی تاریخ بھول جاتی ہے اس قوم کا مستقبل تاریک ہوتا ہے‘‘۔
 الیکشن کے زمانے میں ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور صحیح فکر کو استعمال کرکے کسی ایک مستند، قابلِ اعتماد، دین دار، دیانت دار اور وفا شعار کو کنڈیڈیٹ بنانا چاہیے، جو ہماری دینی ودنیوی ہر دو اعتبار سے بھلائی اور تعاون کرسکے؛ لیکن ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، کہ ذاتی، نجی اور ناپائیدار اسباب کی بنیاد پر نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں، جو بعض حالات میں شخصی فائدہ تو پہنچا دیتا ہے، لیکن اس سے پوری قوم کا نقصان ہوتا ہے، انتخاب کے موقع پر مختلف ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے، شخصی مسائل کو حل کرانے کی سعی کی جاتی، جب کہ ہندوستان کی موجودہ صورت حال میں ہونا یہ چاہیے کہ ہم اپنے ذاتی اور شخصی مفادات ومسائل کو برطرف کریں اور اس سے آگے بڑھ کر قومی، ملی اور سماجی ودینی مفادات اور مسائل کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیں، جس سے ہمیں دنیا میں بھی بھلائی وسرخروئی نصیب ہو اور ہم اخروی اعتبار سے بھی سود مند رہیں۔
 اس موقع پر جھوٹ، دھوکہ، الزام تراشی، خیانت، وقت کا بے جا استعمال، کمزوروں اور عام لوگوں کو مبتلائے مصیبت کرنا، نااتفاقی وناچاکی، رشتہ داروں سے قطع تعلق، اسراف وفضول خرچی، بلا اجازت غیروں کی دیواروں کا اشتہارات کے لیے استعمال، ضرورت سے زیادہ تشہیر اور رشوت خوری وغیرہ بہت سے امور جو اس موقع پر کیے جاتے ہیں ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے، بل کہ اس میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے،اور اس کو اسلامی ودینی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے؛ تاکہ غیروں کو بتایا جاسکے کہ اسلامی تعلیمات کتنی اعلی اور پاکیزہ ہیں، جس میں ہر موقع کی رعایت کی گئی ہے۔
 اگر ہم نے اس موقع پر دینی واسلامی غیرت دکھائی اور ووٹ کا صحیح استعمال کرکے کسی اچھے نمائندہ کو کامیاب کیا تو ہم بلا شبہ مبارک بادی کے مستحق ہوں گے، اور آئندہ نسلوں کے لیے آئیڈیل ونمونہ بنیں گے۔ والله الموفق وھو المستعین وعلیه التکلان.