تحریر: مفتی فہیم الدین رحمانی صاحب چیئرمین شیخ الھند ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ آف انڈیا
ـــــــــــــــــــــــــــ
اس وقت ہمارا معاشرہ بدامنی اور بے چینی کا شکار ہے ملک افراتفری اور خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے اس انارکی اور خلفشار کی وجوہات جہاں اور ہیں وہیں عدم مساوات اور آپسی نابرابری کو بھی دخل ہے ان حالات کے پیش نظر اگر جان ومال عزت و آبرو اور یکساں حقوق کے تحفظ میں عدل و انصاف کو بروئےکار نہ لایا گیا تو ہمارا پورا ماحول بد سے بدتر اور ملک بھیانک نتائج سے دوچار ہو جائے گا، اسی لئے مذھبی کتابوں میں انصاف کی فضا قائم کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے,, قرآن کریم میں ہے ,,اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہے جو انصاف کو قائم کرنے والا ہو ,, ہدایت کی گئی ہے کہ حق بات کہو اور حق فیصلہ کرو اگرچہ تمہارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ,, تاریخ کے صفحات جن انصاف پسندوں کے ناموں سے مزین ہیں ان میں قاضی شریح کا نام بھی ہے قاضی شریح کے ایک لڑکے کا کسی کے ساتھ معاملہ چل رہا تھا اس امید پر کہ خود میرا باپ منصف اور حاکم وقت ہے اس نے پہلے اپنے والد سے سارا ماجرا کہہ سنایا
اور بتایا کہ اگر فیصلہ میرے حق میں ہوسکتا ہو تو مقدمہ آپ کی عدالت میں پیش کروں ورنہ دور رہوں ,, قاضی شریح ,, نے یہ سن کر فرمایا بیٹا! ضرور اپنا مقدمہ میری عدالت میں پیش کرنا چنانچہ مقدمہ پیش ہوا مدعی اور مدعاعلیہ کی طرف سے شہادت گزری آخر میں قاضی شریح ؒ نے جو فیصلہ صادر فرمایا وہ اپنے لڑکے کے خلاف تھا جب قاضی عدالت سے گھر آیا تو لڑکے نے کہا ابا جان! میں نے پہلے ہی آپ سے معاملہ بتادیا تھا کہ اگر فیصلہ میرے خلاف تھا تو پہلے ہی آگاہ کردیتے تاکہ مقدمہ دائر ہی نہیں کرتا، قاضی صاحب نے بڑے اطمینان سے کہا جان پدر! بیشک دنیا کی نعمتوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تم ہو مگر اللّٰہ کا حکم تم سے بھی زیادہ عزیز تر ہے مجھے ڈر تھا کہ اگر میں پہلے ہی تم کو بتا دیتا کہ فیصلہ تمہارے خلاف ہوگا تو تم اپنے مد مقابل سے اس کا حق دباکر صلح کرلیتے، ایسے ہی بےلاگ عدل و انصاف سے انسانیت زندہ رہ سکتی ہے اور امن و امان کی فضا قائم ہوسکتی ہے جب بھی کبھی دھرتی پرظلم وزیادتی ناانصافی اور حق تلفی کا چلن رہا، تباہی آئی پھر اس کی تمیز نہیں رہی کہ کون مجرم ہے اور کون بےگناہ سب کے سب برباد اور تباہ حال ہوگئے ۔
اس لئے ضرورت ہے کہ جس طرح انصاف بےرنگ ہے اس کا استعمال بھی بےرنگ ہو
دنیا میں نہیں ہے آج کوئی بوبکرؓ وعمرؓ عثمانؓ وعلیؓ
انصاف بھٹکتا پھرتا ہے میزانِ عدالت آج کا کہاں
ـــــــــــــــــــــــــــ
اس وقت ہمارا معاشرہ بدامنی اور بے چینی کا شکار ہے ملک افراتفری اور خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے اس انارکی اور خلفشار کی وجوہات جہاں اور ہیں وہیں عدم مساوات اور آپسی نابرابری کو بھی دخل ہے ان حالات کے پیش نظر اگر جان ومال عزت و آبرو اور یکساں حقوق کے تحفظ میں عدل و انصاف کو بروئےکار نہ لایا گیا تو ہمارا پورا ماحول بد سے بدتر اور ملک بھیانک نتائج سے دوچار ہو جائے گا، اسی لئے مذھبی کتابوں میں انصاف کی فضا قائم کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے,, قرآن کریم میں ہے ,,اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہے جو انصاف کو قائم کرنے والا ہو ,, ہدایت کی گئی ہے کہ حق بات کہو اور حق فیصلہ کرو اگرچہ تمہارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ,, تاریخ کے صفحات جن انصاف پسندوں کے ناموں سے مزین ہیں ان میں قاضی شریح کا نام بھی ہے قاضی شریح کے ایک لڑکے کا کسی کے ساتھ معاملہ چل رہا تھا اس امید پر کہ خود میرا باپ منصف اور حاکم وقت ہے اس نے پہلے اپنے والد سے سارا ماجرا کہہ سنایا
اور بتایا کہ اگر فیصلہ میرے حق میں ہوسکتا ہو تو مقدمہ آپ کی عدالت میں پیش کروں ورنہ دور رہوں ,, قاضی شریح ,, نے یہ سن کر فرمایا بیٹا! ضرور اپنا مقدمہ میری عدالت میں پیش کرنا چنانچہ مقدمہ پیش ہوا مدعی اور مدعاعلیہ کی طرف سے شہادت گزری آخر میں قاضی شریح ؒ نے جو فیصلہ صادر فرمایا وہ اپنے لڑکے کے خلاف تھا جب قاضی عدالت سے گھر آیا تو لڑکے نے کہا ابا جان! میں نے پہلے ہی آپ سے معاملہ بتادیا تھا کہ اگر فیصلہ میرے خلاف تھا تو پہلے ہی آگاہ کردیتے تاکہ مقدمہ دائر ہی نہیں کرتا، قاضی صاحب نے بڑے اطمینان سے کہا جان پدر! بیشک دنیا کی نعمتوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تم ہو مگر اللّٰہ کا حکم تم سے بھی زیادہ عزیز تر ہے مجھے ڈر تھا کہ اگر میں پہلے ہی تم کو بتا دیتا کہ فیصلہ تمہارے خلاف ہوگا تو تم اپنے مد مقابل سے اس کا حق دباکر صلح کرلیتے، ایسے ہی بےلاگ عدل و انصاف سے انسانیت زندہ رہ سکتی ہے اور امن و امان کی فضا قائم ہوسکتی ہے جب بھی کبھی دھرتی پرظلم وزیادتی ناانصافی اور حق تلفی کا چلن رہا، تباہی آئی پھر اس کی تمیز نہیں رہی کہ کون مجرم ہے اور کون بےگناہ سب کے سب برباد اور تباہ حال ہوگئے ۔
اس لئے ضرورت ہے کہ جس طرح انصاف بےرنگ ہے اس کا استعمال بھی بےرنگ ہو
دنیا میں نہیں ہے آج کوئی بوبکرؓ وعمرؓ عثمانؓ وعلیؓ
انصاف بھٹکتا پھرتا ہے میزانِ عدالت آج کا کہاں