تحریر: محمد صدرعالم نعمانی صدر جمیعت علماء سیتامڑھی بہار
ــــــــــــــــــــــ
جمعیت علماء ہند اپنی زندگی کے 98 سال 23 نومبر 2017 کو مکمل کرنے جارہی ہے، یہ ہندوستان کی ملی تاریخ کا ایک ایسا خوشگوار واقعہ ہے جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے، خدا کا بے حد فضل واحسان ہے کہ جمیعت علماء ہند اپنی درازی عمر کے باوجود پہلے دن جیسے جوش عمل، اور سرگرمی کے ساتھ زندہ ہے، تنظیموں کے لئے انٹھانوے برس کی عمر کچھ کم نہیں ہوتی، اور اگر کوئی تنظیم اپنی عمر کے انٹھانوے سال پورے کرلے تو اسے فضل خداوندی اور
اکابر واسلاف کی دعاء نیم شبی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے، جمیعت علماء ہند ایسے وقت میں قائم ہوئی جب انگریزی حکومت کا جبر و ظلم اپنی حدود کو چھو رہا تھا، اور کسی میں بھی یہ جرأت نہیں تھی کہ اس تن کے گورے اور من کے کالے انگریز کے خلاف کوئی آواز بلند کرسکے. جمعیت علماء ہند ہی نے آزادی سے پہلے برطانوی سامراج کے جبروظلم کے خلاف پوری بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا، یہ جمعیت علماء ہند ہی تھی جس نے سب سے پہلے ملک کی آزادی کا مطالبہ کرکے ان تمام لیڈروں اور جماعت کو حیرت میں ڈال دیا تھا، جو انگریزوں سے چند مراعات حاصل کرنے میں ہی اپنی بڑی کامیابی تصور کرتے تھے، پھر سیاسی میدان میں جمیعت علماء ہند نے ملک کی تحریک آزادی کو آگے بڑھانے کیلئے جس طرح سر دھر کی بازی لگائی، وہ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، آزادی سے پہلے جمعیت علماء ہند نے صرف حصول آزادی کی جدو جہد میں ہی حصہ نہیں لیا، بلکہ اس نے مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کا فریضہ بھی پوری طرح انجام دیا. جب قابض انگریزی حکومت نے مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے کیلئے مختلف مذاہب کی باہمی شادیوں کیلئے قانون بنانے کی کوشش کی تو یہ جمیعت علماء ہند ہی تھی جس نے پوری دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا، اور اس مسئلہ کو انگلستان میں معنقد ہونے والی گول میز کانفرنس تک پہونچایا،.اور اس قانون کو منسوخ کرانے میں کامیابی حاصل کی. اسلامی شریعت کے خلاف شاردا ایکٹ لایا گیا، جس میں بیت اللہ کی زیارت. اور حج کو جانے والے مسلمانوں کی راہ میں مشکلات کھڑی کی گئ تھیں، لیکن جمعیت علماء ہند نے کسی ایک موقع پر بھی مسلمانوں کو بے سہارا نہیں چھوڑا، اس طرح اس نے برطانوی سامراج کے ظلم و جبر کی پرواہ کئے بغیر آزمائش کی اس گھڑی میں مسلمانوں کی دینی شرعی اور سیاسی رہنمائی کا شاندار فریضہ انجام دیکر ایک ایسی تاریخ مرتب کی ہے جسکو آنے والا مورخ کبھی فراموش نہیں کرسکتا.
15 اکست 1947 کو ملک آزاد ہوا ہمیں یہ آزادی ایک سو سال کی طویل جد و جہد اور لاکھوں لوگوں کی جانوں کے نذرانے دینے کے بعد ملی تھی، حق تو یہ تھا کہ ہر فرد اسکی خوشیوں میں شریک ہوتا، لیکن افسوس کے جس وقت پنڈت جواہر لعل نہرو 15 اگست 1947 کو رات کے بارہ بجے لال قلعہ کی فصیل پر ہندوستان کا قومی پرچم ترنگا لہرارہے تھے، ٹھیک اسی وقت دھلی کے گلی کوچے مسلمانوں کے خون سے لالہ زار بنے ہوئے تھے، اس وقت جمعیت علماء ہند ٹخنوں ٹخنوں خون کے سیلاب میں گھس کر مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی، اور انکے تحفظ کا بندوبست کیا، اور حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھلی کے مسلم علاقوں کو مسلم زون قرار دلائی، نہیں تو کون کہہ سکتا تھا کہ دھلی کی آبادی میں پھیلی ہوئی ہزاروں مسجدوں کے میناروں سے بلند ہونے والی اللہ کی بڑائی کے نغمے کو کوئی کلمہ گو سننے والا میسر آسکتا.
15 اگست 1947 کو آزادی تو ملی مگر وہ اپنے ساتھ تقسیم وطن کا ناقابل فراموش سانحہ بھی ساتھ لائی جسکے نتیجے میں لاکھوں لوگ ترک وطن کرکے پاکستان چلے گئے، وہی تبادلہ املاک بھی ایک بڑا مسئلہ بن کر نمودار ہوا، اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے حکومت نے کسٹوڈین کا محکمہ قائم کیا. جس نے انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو بری طرح جبر و استبداد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور مسلمانوں کی جائدادوں، دوکانوں، اور مکانوں کو خود انکی آنکھوں کے سامنے کوڑیوں کے بھاؤ نیلام کرنا شروع کیا، اس وقت جمعیت علماء ہند ہی نے مسلمانوں کی داد رسی کی، وہ جمعیت علماء ہند ہی تھی جس نے کسٹوڈین کے ظالم افسروں کے بے درد قلم کو پکڑا، اور انہیں مجبور کردیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف سے کام لیں، آج جو مسلمان اپنی جائدادوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، یہ جمعیت علماء ہند ہی کا صدقہ ہے. وہیں حکومت کی جانب سے اوقاف کی املاک پر غاصبانہ قبضے کیئے جانے لگے. تو جمعیت علماء ہند اوقاف کے املاک کے تحفظ کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی، باالاخر حکومت کو مجبور ہوکر وقف قانون بنانا پڑا، یہ وقف قانون گرچہ جمیعت علماء ہند کے خوابوں کا آئینہ دار تو نہیں تھا، تاہم ایک حد تک اوقاف کے تحفظ میں مدرگار ثابت ہوا.
الغرض مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا معاملہ ہو، یا تحفظ شریعت پر حملہ کا، طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہو، یا فرقہ وارانہ فسادات کا، بابری مسجد کی بازییابی کا معاملہ ہو، یا آسام کے مسلمانوں کی شہریت کا سوال، گائے کے نام پر مسلمانوں کا قتل ہو، یا گھر واپسی کے نام پر ظلم و بربریت، یاجیل میں بند مسلم قیدیوں کو انکاونٹر کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دینے کا معاملہ ہو، یا دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے اندر سے نکالنے کا معاملہ ہو، یا فسادات میں اجڑے ہوئے لٹے پٹے مسلمانوں کی داد رسی کا، یا انکی بازآبادکاری اور ریلیف کا معاملہ ہو، یا مظلوم مسلمانوں کی عدالتوں اور کمیشنوں کے سامنے قانونی لڑائی لڑنے کا معاملہ ہو، جمیعت علماء ہند آگے بڑھکر ہر معاملہ میں مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے.
جمیعت علماء ہند کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ملک کے تمام فرقے باہم متحد ہوکر ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ لیں، جمیعت علماء ہند کی یہ کوشش اس لئے نہیں ہے کہ جمعیت کے اکابر واسلاف نے ملک کو انگریزی سامراج سے آزاد کرانے میں جان و مال کی قربانیوں کا زبردست نذرانہ پیش کیا تھا، بلک اس لئے بھی ہے کہ اس ملک کو زندگی کے ہر شعبہ میں بنانے اور سنوارنے میں بھی انکا اہم کردار رہا ہے، مگر انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کا ایک مخصوص طبقہ جسے سرکار کی سرپرستی حاصل ہے وہ مسلمانوں کو نیست ونابود کرکے ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، ان فرقہ پرست طاقتوں کا منصوبہ یہ ہے کہ ملک کو فرقہ واریت کا شکار بنا کر مسلمانوں کو مجبور کردیا جائے کہ یا تو وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں یا پھر اپناتشخص ختم کرکے دوسرے درجہ کی شہریت قبول کرلیں.
اس کیلئے فرقہ واریت کا سہارا لیا جاتا ہے، کبھی انکی تعلیم اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر جھوٹے الزام میں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے.
آج مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں، بلکہ فرقہ پرست عناصر کی جانب سے روز ایسے واقعات دہرائے جارہے ہیں، جس نے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے.
آزادی سے پہلے صرف غلامی کا ایک زخم تھا آزادی کے بعد جمہوریت کے اس دور میں ہر روز ایک نیا زخم مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑرہا ہے، آج نہ مسلمانوں کا پرسنل لاء محفوظ ہے، اور نہ مدارس، مساجد، اور خانقاہیں محفوظ ہیں، مسلمانوں کے اس دینی وملی مسائل پر جمیعت علماء ہند کی ہمیشہ گہری نظر رہی ہے، اور ان مسائل کے حل کیلئے جمعیت علماء ہند مسلسل کوشش بھی کرر ہی ہے.
جمعیت علماء ہند کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے انٹھانوے سالوں میں نہ کبھی کسی حکومت کی چاپلوسی کی، نہ خوف کھایا، اور نہ ہی کبھی اقتدار کی آنکھوں کا رنگ دیکھ کر اپنے فیصلوں میں کوئی تبدیلی کی، اس نے جو صحیح اور مسلمانوں کے حق میں بہتر سمجھا کیا اور جسے غلط سمجھا اس کی بر وقت اور کھلی مخالفت کی، اس کی اسی صاف گوئی کے نتیجہ میں اسے نہ صرف غیروں بلکہ خود اپنوں کے غصہ کا بھی نشانہ بننا پڑا، لیکن ہر آنے والے وقت نے یہ ثابت کردیا کہ جمعیت علماء ہند کے اکابر نے جو کہا تھا وہی صحیح تھا.
آزادی سے پہلے جمعیت علماء ہند نے اس انگریزی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا. جس کی حکومت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، وہ کون سی آزمائش تھی جسے انگریزی حکمرانوں کے ہاتھوں جمعیت علماء ہند کے اکابر نہیں گزرے، وہ اگر چاہتے تو بڑا سے بڑا انگریزی اعزاز حاصل کر سکتے تھے، بڑی بڑی جاگیریں انکے چشم ابرو کی منتظر تھیں، مگر انہوں نے 1919میں جمعیت علماء ہند کے قیام کے روز اول جوعہد کیا تھا اور جو زریں اصول مقرر کئے تھے دار و رسن کی ہزاروں آزمائشوں کے باوجود انہوں نے اس سے انحراف نہیں کیا، جبکہ آج وہ خود ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف موجودہ حکومت سے نبرد آزماء ہیں، جمیعت علماء ہند اور اسکی فعال قیادت مسلمانوں کے موجودہ حالات پر خاموش تماشائی بنکر نہیں رہ سکتی، ایک بار پھر وقت آگیا ہے کہ جمعیت علماء ہند ان تمام فتنہ سامانیوں اور فرقہ وارانہ شازشوں کا پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کرے، اسی ضرورت کے پیش نظر جمیعت علماء ہند بہار کے زیر اہتمام ایک روزہ عظیم الشان نوواں ریاستی اجلاس عام وقومی یکجہتی کانفرنس زیر صدارت قائد ملت حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم صدر جمیعت علماء ہند، وزیر قیادت جناب الحاج حسن احمد قادری جنرل سکریٹری جمیعت علماء بہار بتاریخ 16/نومبر 2017 بروز جمعرات بوقت بعد نماز مغرب بمقام نہرو اسٹیڈیم موتیہاری میں معنقد ہونے جارہی ہے، تاکہ ملک وملت کو درپیش اہم مسائل پر غور کرکے موثر لائحہ عمل تیار کیا جاسکے
جمیعت علماء ہند بہار کے اس اجلاس عام میں جن مسائل پر بطور خاص غور کیا جائے گا وہ انتہائی ہمہ گیر نوعیت کی حامل ہیں، ان میں سے کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا تعلق صرف اور صرف مسلمانوں سے ہے. جبکہ اجلاس کے ایجنڈے میں نصف درجن سے زائد ایسے مسائل شامل ہیں، جن کا تعلق حکومت سے ہے، انشاءاللہ جمعیت علماء ہند بہار اپنے اجلاس کے ذریعہ ان مسائل پر حکومت کو متوجہ کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے پر زور دے گی، اور اس سلسلے میں موثر لائحہ عمل تیار کریگی.
جمعیت علماء ہند کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے کہ ایسے عمومی مواقع پر اپنے مظلوم و مقہور مسلمان بھائیوں کو خواہ انکا تعلق کسی بھی خطہ وملک سے ہو، یاد رکھا جائے، چنانچہ اس اجلاس عام میں بھی اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لئے اظہار ہمدردی اور ان کے انسانی وبین الاقوامی حقوق اور ان کے جائز موقف کی حمایت کا ارادہ رکھتی ہے، خاص طور سے برما و فلسطین کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کو جن دردناک و مظلومانہ حالات سے گزرنا پر رہا ہے.
اس اجلاس عام میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا، جمعیت علماء ہند بہار کے اس اجلاس عام میں بلا امتیاز مسلک وملت اور برادران وطن کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے، یہ ایک ایسا موقع ہے جب ہم اس اجلاس عام میں شرکت کرکے فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں پر یہ واضع کرسکتے ہیں کہ ہمارا اتحاد اپنے دین ومذہب اور اپنے ملی تشخص کی حفاظت کیلئے ایک ایسی آہنی دیوار ہیں، جسے کسی کیلئے توڑنا آسان نہیں ہے، ہمیں امید ہے کہ جمعیت کے آواز پر لبیک کیتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں فرزندان توحید اس اجلاس میں شریک ہوئے تو انشاءاللہ یہ اجلاس مسلمانوں کی ملی تاریخ کا ایک اہم عنوان ثابت ہوگا، خدا کرے ہماری یہ آرزو شرمندہ تعبیر ہو اور جمعیت کا یہ اجلاس عام اپنے پیچھے ایسے نقوش چھوڑنے میں کامیاب ہوسکے، جو ملت اسلامیہ کےمستقبل کیلئے خوش آئند اور خوش گوار ثابت ہوں.
ــــــــــــــــــــــ
جمعیت علماء ہند اپنی زندگی کے 98 سال 23 نومبر 2017 کو مکمل کرنے جارہی ہے، یہ ہندوستان کی ملی تاریخ کا ایک ایسا خوشگوار واقعہ ہے جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے، خدا کا بے حد فضل واحسان ہے کہ جمیعت علماء ہند اپنی درازی عمر کے باوجود پہلے دن جیسے جوش عمل، اور سرگرمی کے ساتھ زندہ ہے، تنظیموں کے لئے انٹھانوے برس کی عمر کچھ کم نہیں ہوتی، اور اگر کوئی تنظیم اپنی عمر کے انٹھانوے سال پورے کرلے تو اسے فضل خداوندی اور
محمد صدرعالم نعمانی |
15 اکست 1947 کو ملک آزاد ہوا ہمیں یہ آزادی ایک سو سال کی طویل جد و جہد اور لاکھوں لوگوں کی جانوں کے نذرانے دینے کے بعد ملی تھی، حق تو یہ تھا کہ ہر فرد اسکی خوشیوں میں شریک ہوتا، لیکن افسوس کے جس وقت پنڈت جواہر لعل نہرو 15 اگست 1947 کو رات کے بارہ بجے لال قلعہ کی فصیل پر ہندوستان کا قومی پرچم ترنگا لہرارہے تھے، ٹھیک اسی وقت دھلی کے گلی کوچے مسلمانوں کے خون سے لالہ زار بنے ہوئے تھے، اس وقت جمعیت علماء ہند ٹخنوں ٹخنوں خون کے سیلاب میں گھس کر مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی، اور انکے تحفظ کا بندوبست کیا، اور حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھلی کے مسلم علاقوں کو مسلم زون قرار دلائی، نہیں تو کون کہہ سکتا تھا کہ دھلی کی آبادی میں پھیلی ہوئی ہزاروں مسجدوں کے میناروں سے بلند ہونے والی اللہ کی بڑائی کے نغمے کو کوئی کلمہ گو سننے والا میسر آسکتا.
15 اگست 1947 کو آزادی تو ملی مگر وہ اپنے ساتھ تقسیم وطن کا ناقابل فراموش سانحہ بھی ساتھ لائی جسکے نتیجے میں لاکھوں لوگ ترک وطن کرکے پاکستان چلے گئے، وہی تبادلہ املاک بھی ایک بڑا مسئلہ بن کر نمودار ہوا، اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے حکومت نے کسٹوڈین کا محکمہ قائم کیا. جس نے انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو بری طرح جبر و استبداد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور مسلمانوں کی جائدادوں، دوکانوں، اور مکانوں کو خود انکی آنکھوں کے سامنے کوڑیوں کے بھاؤ نیلام کرنا شروع کیا، اس وقت جمعیت علماء ہند ہی نے مسلمانوں کی داد رسی کی، وہ جمعیت علماء ہند ہی تھی جس نے کسٹوڈین کے ظالم افسروں کے بے درد قلم کو پکڑا، اور انہیں مجبور کردیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف سے کام لیں، آج جو مسلمان اپنی جائدادوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، یہ جمعیت علماء ہند ہی کا صدقہ ہے. وہیں حکومت کی جانب سے اوقاف کی املاک پر غاصبانہ قبضے کیئے جانے لگے. تو جمعیت علماء ہند اوقاف کے املاک کے تحفظ کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی، باالاخر حکومت کو مجبور ہوکر وقف قانون بنانا پڑا، یہ وقف قانون گرچہ جمیعت علماء ہند کے خوابوں کا آئینہ دار تو نہیں تھا، تاہم ایک حد تک اوقاف کے تحفظ میں مدرگار ثابت ہوا.
الغرض مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا معاملہ ہو، یا تحفظ شریعت پر حملہ کا، طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہو، یا فرقہ وارانہ فسادات کا، بابری مسجد کی بازییابی کا معاملہ ہو، یا آسام کے مسلمانوں کی شہریت کا سوال، گائے کے نام پر مسلمانوں کا قتل ہو، یا گھر واپسی کے نام پر ظلم و بربریت، یاجیل میں بند مسلم قیدیوں کو انکاونٹر کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دینے کا معاملہ ہو، یا دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے اندر سے نکالنے کا معاملہ ہو، یا فسادات میں اجڑے ہوئے لٹے پٹے مسلمانوں کی داد رسی کا، یا انکی بازآبادکاری اور ریلیف کا معاملہ ہو، یا مظلوم مسلمانوں کی عدالتوں اور کمیشنوں کے سامنے قانونی لڑائی لڑنے کا معاملہ ہو، جمیعت علماء ہند آگے بڑھکر ہر معاملہ میں مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے.
جمیعت علماء ہند کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ملک کے تمام فرقے باہم متحد ہوکر ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ لیں، جمیعت علماء ہند کی یہ کوشش اس لئے نہیں ہے کہ جمعیت کے اکابر واسلاف نے ملک کو انگریزی سامراج سے آزاد کرانے میں جان و مال کی قربانیوں کا زبردست نذرانہ پیش کیا تھا، بلک اس لئے بھی ہے کہ اس ملک کو زندگی کے ہر شعبہ میں بنانے اور سنوارنے میں بھی انکا اہم کردار رہا ہے، مگر انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کا ایک مخصوص طبقہ جسے سرکار کی سرپرستی حاصل ہے وہ مسلمانوں کو نیست ونابود کرکے ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، ان فرقہ پرست طاقتوں کا منصوبہ یہ ہے کہ ملک کو فرقہ واریت کا شکار بنا کر مسلمانوں کو مجبور کردیا جائے کہ یا تو وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں یا پھر اپناتشخص ختم کرکے دوسرے درجہ کی شہریت قبول کرلیں.
اس کیلئے فرقہ واریت کا سہارا لیا جاتا ہے، کبھی انکی تعلیم اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر جھوٹے الزام میں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے.
آج مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں، بلکہ فرقہ پرست عناصر کی جانب سے روز ایسے واقعات دہرائے جارہے ہیں، جس نے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے.
آزادی سے پہلے صرف غلامی کا ایک زخم تھا آزادی کے بعد جمہوریت کے اس دور میں ہر روز ایک نیا زخم مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑرہا ہے، آج نہ مسلمانوں کا پرسنل لاء محفوظ ہے، اور نہ مدارس، مساجد، اور خانقاہیں محفوظ ہیں، مسلمانوں کے اس دینی وملی مسائل پر جمیعت علماء ہند کی ہمیشہ گہری نظر رہی ہے، اور ان مسائل کے حل کیلئے جمعیت علماء ہند مسلسل کوشش بھی کرر ہی ہے.
جمعیت علماء ہند کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے انٹھانوے سالوں میں نہ کبھی کسی حکومت کی چاپلوسی کی، نہ خوف کھایا، اور نہ ہی کبھی اقتدار کی آنکھوں کا رنگ دیکھ کر اپنے فیصلوں میں کوئی تبدیلی کی، اس نے جو صحیح اور مسلمانوں کے حق میں بہتر سمجھا کیا اور جسے غلط سمجھا اس کی بر وقت اور کھلی مخالفت کی، اس کی اسی صاف گوئی کے نتیجہ میں اسے نہ صرف غیروں بلکہ خود اپنوں کے غصہ کا بھی نشانہ بننا پڑا، لیکن ہر آنے والے وقت نے یہ ثابت کردیا کہ جمعیت علماء ہند کے اکابر نے جو کہا تھا وہی صحیح تھا.
آزادی سے پہلے جمعیت علماء ہند نے اس انگریزی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا. جس کی حکومت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، وہ کون سی آزمائش تھی جسے انگریزی حکمرانوں کے ہاتھوں جمعیت علماء ہند کے اکابر نہیں گزرے، وہ اگر چاہتے تو بڑا سے بڑا انگریزی اعزاز حاصل کر سکتے تھے، بڑی بڑی جاگیریں انکے چشم ابرو کی منتظر تھیں، مگر انہوں نے 1919میں جمعیت علماء ہند کے قیام کے روز اول جوعہد کیا تھا اور جو زریں اصول مقرر کئے تھے دار و رسن کی ہزاروں آزمائشوں کے باوجود انہوں نے اس سے انحراف نہیں کیا، جبکہ آج وہ خود ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف موجودہ حکومت سے نبرد آزماء ہیں، جمیعت علماء ہند اور اسکی فعال قیادت مسلمانوں کے موجودہ حالات پر خاموش تماشائی بنکر نہیں رہ سکتی، ایک بار پھر وقت آگیا ہے کہ جمعیت علماء ہند ان تمام فتنہ سامانیوں اور فرقہ وارانہ شازشوں کا پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کرے، اسی ضرورت کے پیش نظر جمیعت علماء ہند بہار کے زیر اہتمام ایک روزہ عظیم الشان نوواں ریاستی اجلاس عام وقومی یکجہتی کانفرنس زیر صدارت قائد ملت حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم صدر جمیعت علماء ہند، وزیر قیادت جناب الحاج حسن احمد قادری جنرل سکریٹری جمیعت علماء بہار بتاریخ 16/نومبر 2017 بروز جمعرات بوقت بعد نماز مغرب بمقام نہرو اسٹیڈیم موتیہاری میں معنقد ہونے جارہی ہے، تاکہ ملک وملت کو درپیش اہم مسائل پر غور کرکے موثر لائحہ عمل تیار کیا جاسکے
جمیعت علماء ہند بہار کے اس اجلاس عام میں جن مسائل پر بطور خاص غور کیا جائے گا وہ انتہائی ہمہ گیر نوعیت کی حامل ہیں، ان میں سے کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا تعلق صرف اور صرف مسلمانوں سے ہے. جبکہ اجلاس کے ایجنڈے میں نصف درجن سے زائد ایسے مسائل شامل ہیں، جن کا تعلق حکومت سے ہے، انشاءاللہ جمعیت علماء ہند بہار اپنے اجلاس کے ذریعہ ان مسائل پر حکومت کو متوجہ کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے پر زور دے گی، اور اس سلسلے میں موثر لائحہ عمل تیار کریگی.
جمعیت علماء ہند کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے کہ ایسے عمومی مواقع پر اپنے مظلوم و مقہور مسلمان بھائیوں کو خواہ انکا تعلق کسی بھی خطہ وملک سے ہو، یاد رکھا جائے، چنانچہ اس اجلاس عام میں بھی اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لئے اظہار ہمدردی اور ان کے انسانی وبین الاقوامی حقوق اور ان کے جائز موقف کی حمایت کا ارادہ رکھتی ہے، خاص طور سے برما و فلسطین کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کو جن دردناک و مظلومانہ حالات سے گزرنا پر رہا ہے.
اس اجلاس عام میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا، جمعیت علماء ہند بہار کے اس اجلاس عام میں بلا امتیاز مسلک وملت اور برادران وطن کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے، یہ ایک ایسا موقع ہے جب ہم اس اجلاس عام میں شرکت کرکے فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں پر یہ واضع کرسکتے ہیں کہ ہمارا اتحاد اپنے دین ومذہب اور اپنے ملی تشخص کی حفاظت کیلئے ایک ایسی آہنی دیوار ہیں، جسے کسی کیلئے توڑنا آسان نہیں ہے، ہمیں امید ہے کہ جمعیت کے آواز پر لبیک کیتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں فرزندان توحید اس اجلاس میں شریک ہوئے تو انشاءاللہ یہ اجلاس مسلمانوں کی ملی تاریخ کا ایک اہم عنوان ثابت ہوگا، خدا کرے ہماری یہ آرزو شرمندہ تعبیر ہو اور جمعیت کا یہ اجلاس عام اپنے پیچھے ایسے نقوش چھوڑنے میں کامیاب ہوسکے، جو ملت اسلامیہ کےمستقبل کیلئے خوش آئند اور خوش گوار ثابت ہوں.