تحریر: حمزہ فضل اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر آپ ریاضی سے بھاگتے ہوں گے، اس سے ڈرتے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ یہ ہمارے سمجھنے کی چیز نہیں ہے تو آپ کے مخلص اساتذہ کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہوگا "بیٹا ! ریاضی مشکل وشکل نہیں ہے، بس اس سے دل لگا کر دیکھو، اس سے دوستی کر کے دیکھو، یہ مضمون بائیں ہاتھ کا کھیل بن جائے گا، مزہ آئے گا اس میں" یقینا ً آپ کے اساتذہ نے یہ اور اس سے ملتے جلتے جملوں کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہوگی، ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے ایک استاد کی بات پر یقین نہ آیا ہو، اسی لئے آج ملئے ۴؍اساتذہ سے جو مختلف طریقوں اور مثالوں کے ذریعہ آپ کو بتائیں گے کہ ریاضی آسان ہے ۔
عبد اللہ پٹیل اردو ہائی اسکول ممبرا کے پرنسپل اور الجبرا کے استاد عبدالسلام عبدالغفور منورے آپ سے کہہ رہے ہیں: "پیارے طالب علموں ! سب سے پہلے تو آپ ریاضی کا خوف دل سے نکالئے، اُس کے بعد بنیاد مضبوط کیجئے ۔ اگر آپ ابتدائی جماعتوں میں ہیں یعنی تیسری اور چوتھی میں ہیں تو پہلی فرصت میں جمع تفریق اور ضرب پر محنت کیجئے، دل لگا کر پہاڑے یاد کیجئے ۔ اسی طرح اگر آپ دسویں میں آگئے ہیں لیکن ابھی تک ریاضی سے ڈر رہے ہیں تو آج ہی سے ریاضی کا خوف دل سے نکالئے ۔ اس کیلئے آپ کو یہ کرنا ہوگا کہ سب سے پہلے آسان سوالات حل کیجئے، پھر مشکل سوالات کو وقت دیجئے، مشکل سوالات پر نشان لگا لیجئے اور جب بھی آپ کو وقت ملے کسی اچھے ٹیچر سے ملئے، اُن سے اپنی پریشانی بتائیے، ان شاء اللہ وہ آپ کی مدد کریں گے"۔
عبدالسلام سر دہم جماعت کے طلبہ سے کہتے ہیں :"آپ دسویں میں ہیں تو سمجھ لیجئے کہ یہ آپ کاسب سے قیمتی وقت ہے، اگر آپ نے اس میں لاپروائی برتی تو پھر کبھی نہیں سنبھل سکیں گے، امتحان کا زیادہ وقت بھی نہیں بچا ہے، چند مہینے میں سالانہ امتحان ہو گا، ایسے میں آپ اپنا جائزہ لیجئے، خود سے پو چھئے کہ آپ کو کیا کیا آتا ہے؟ اور آپ کہاں کہاں کمز ور ہیں؟ اپنے ریاضی کے استاذ سے بھی پوچھئے کہ آپ کی کمزوریاں کیا کیا ہیں؟ اور انہیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ دھیرے دھیرے تبدیلی آئے گی اور ایک ایسا طالب علم جو صفر لاتا تھا وہ صرف ایک مہینے میں پچاس میں سے دس نمبر لانے کے قابل ہو جائے گا، پھر ہر مہینے اس میں دس دس کا اضافہ ہو گا، اس طرح پانچ مہینے میں پچاس میں سے پچاس نمبر مل جائیں گے".
امام باڑہ میونسپل سیکنڈری اسکول میں گزشتہ ۲۵؍ برس سے ریاضی کی معلمہ سعدیہ مقادم کہتی ہیں :’’ اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے، عام طور پر طلبہ کو ریاضی سے ڈر لگتا ہے، خود میں بھی اپنے طالب علمی کے زمانے میں ریاضی کو بہت مشکل سمجھتی تھی، میرے لئے کوئی بھی سوال حل کرنا آسان نہیں ہوتا تھا لیکن ایک دن میں نے طے کرلیا کہ مجھے کچھ کرنا چاہئے، بس اس کے بعد سے جو محنت کرنا شروع کیا تو پھر ریاضی کی معلمہ بن گئی ۔ میرے پیارے بچو ! آپ یہ سمجھئے کہ ریاضی دل سے سیکھنے والا مضمون ہے، اس میں رٹنا کام نہیں آتا ، ہاں فارمولے یاد کرنے ہوتے ہیں لیکن اگر آپ کو ان کے استعمال کا طریقہ نہیں معلوم ہے تو یہ فارمولے بھی کسی کام کے نہیں ہیں، اتنا سمجھ لیجئے کہ یہاں صرف دماغ چلانا ہےاور اگر ایک بار آپ کو یہ مضمون اچھا لگ گیا تو پھر آپ چاہیں گے کہ ریاضی کے سوا کچھ نہ پڑھا یا جائے، ایک بار ریاضی سے دل لگا کرتو دیکھئے‘‘.
وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں:’’ایک بچی مایوس ہوگئی تھی، وہ ریاضی کو بھوت سمجھتی تھی، اسے ریاضی اچھا ہی نہیں لگتا تھا ۔میں نے اسے بہت سمجھایا اور بتایا کہ بیٹا! آج تمہارا دل نہیں لگتا تو بعد میں پڑھاؤں گی، اس طرح پیار محبت سے اس کو ریاضی پڑھنے پر آمادہ کیا ۔ میں اس سے کہتی تھی کہ آ بیٹا تجھےبتاؤں ، کیا نہیں آتا تجھے، اس طرح اس نے اپنائیت محسوس کی اور میری باتیں اس کے دماغ میں بیٹھ گئیں، اس کے بعد اس نے محنت کی اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ ریاضی کی کامیاب طالب علم بن گئی۔ا متحان میں اس کا مجموعی طور پر ۷۲؍ فیصد نمبر آیا تھا ۔ ‘‘
مدن نتھورام مارگ میونسپل اردو اسکول میں طویل عرصے تک ریاضی پڑھانے والے معلم نور محمد شیخ کہتے ہیں :’’ اکثر طلبہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ریاضی میں تو بس جمع اور تفریق ہی کام آتے ہیں ، عام زندگی میں حساب کتاب کے وقت ان کی ضرورت پڑتی ہے ، باقی چیزیں تو بس ایسی ہی ہیں ۔ مثلث اور الجبرا تو کبھی کام نہیں آتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ چیز ذہن سے نکالنی ہو گی،کیونکہ اگر آپ کو آگے بڑھنا ہے ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے تو الجبرا اور جیومیٹری بے حد ضروری ہیں ۔ اگر آپ کو سائنس اور انجینئرنگ میں داخلہ لینا ہے تو پھر اُن کے بغیر کچھ کرہی نہیں سکتے" ۔
وہ اپنے تجربات کی روشنی میں کہتے ہیں :’’ہمارے یہاں تو کچھ ایسے بچے بھی آجاتے ہیں، وہ بھی دسویں اور گیارہویں میں، جن کو ۳۹؍ اور ۴۹؍ کا فرق نہیں معلوم ہوتا ۔ پہاڑے یاد نہیں ہوتے، ایسے بچوں پر استاد بھی دھیان نہیں دیتا، وہ سوچتا ہے کہ ان بچوں پر بہت زیادہ محنت کرنی ہو گی ۔
ظاہر ہے کہ دسویں اور گیارہویں کے بچوں کو اول اور دوم کی چیزیں کون بتائے گا ؟ اس لئے آپ اپنی بنیاد مضبوط کیجئے، گنتی لکھنے میں تو کبھی غلطی نہیں کرنی چاہیئے، جہاں تک عبارتی سوال کا معاملہ ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کبھی کبھی عبارتی سوال سمجھنے میں چھوٹی سی چوک ہو جاتی ہے، اس کی وجہ سے پورا سوال غلط ہوجاتا ہے اور آپ تو یہ جانتے ہی ہیں کہ ریاضی میں ایک نقطہ بھی غلط ہو جاتا ہے تو پورا سوال غلط ہو جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسا مضمون بھی ہے جس میں پورا نمبر بھی ملتا ہے۔ ‘‘
نور محمد شیخ کے بقول :’’ جو سوال آپ کی سمجھ میں نہ آئے، وہ اپنے ٹیچر سے دوبارہ پو چھئے اور باربار پوچھئے ۔ یہ سوچ کر کبھی پوچھنے سے باز نہ آئیے کہ دوبارہ پوچھوں گا تو ٹیچر ناراض ہوجائیں گے، ڈانٹ دیں گے۔ بس سوچ لیجئے کہ ہرصورت میں سیکھنا ہے ۔ یاد رکھئے کہ اگر آپ کو سیکھنا ہے تو یہ سب برداشت کرنا ہوگا ۔ ‘‘
موریشور پاٹنکر مارگ میونسپل اردو اسکول کرلا کی معلمہ صدیقی شبنم محمد محفوظ بھی طلبہ کو بیسک پر محنت کر نے کا مشورہ دیتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں : ’’عزیز طلبہ! اگر آپ شروع سے ریاضی میں دلچسپی لیں گے تو آپ کو کبھی ریاضی بور سبجیکٹ نہیں لگے گا ۔ ضرب ، تقسیم، جمع اور نفی پر محنت کریں گے تو آگے آپ کو الجبرا اور جیومٹری میں آسانی ہوگی ۔ کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر پہلے دن بلیک بورڈ پر کوئی سوال حل کرنے پر کوئی ان کا مذاق اڑاتا ہےتو وہ بد دل ہوجاتے ہیں اور صرف اتنی سی بات پر ریاضی سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ ہمارے تعلیمی نظام کی وجہ سے وہ آٹھویں تک پا س ہوجاتے ہیں لیکن اس کے بعد کی جماعتوں میں وہ جس سبجیکٹ سے نفرت کرتے ہیں ، اس سے ڈرنے لگتے ہیں ، دور بھاگتے ہیں لیکن اس وقت بھی سنبھلنے کا موقع ہوتا ہے ۔ میں ایسے طلبہ سے کہوں گی کہ وہ اپنے ہم جماعتوں اور اچھے اساتذہ کی مدد سے ریاضی میں مہارت حاصل کریں ، کتاب میں دی گئی مثالوں کو اچھی طرح ذہن میں بٹھائیں، اُن کی مدد سے مشقی سوالات حل کریں ۔ ریاضی میں سب سے اہم جو چیز ہے، وہ مشق ہے۔ اس کے بغیر بات نہیں بنے گی ۔‘‘
دیکھا آپ نے۴؍ اساتذہ نےکس طرح بتایا کہ ریاضی مشکل نہیں ہے تو پھر کوشش کیجئے اور ریاضی کو دوست بنا لیجئے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر آپ ریاضی سے بھاگتے ہوں گے، اس سے ڈرتے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ یہ ہمارے سمجھنے کی چیز نہیں ہے تو آپ کے مخلص اساتذہ کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہوگا "بیٹا ! ریاضی مشکل وشکل نہیں ہے، بس اس سے دل لگا کر دیکھو، اس سے دوستی کر کے دیکھو، یہ مضمون بائیں ہاتھ کا کھیل بن جائے گا، مزہ آئے گا اس میں" یقینا ً آپ کے اساتذہ نے یہ اور اس سے ملتے جلتے جملوں کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہوگی، ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے ایک استاد کی بات پر یقین نہ آیا ہو، اسی لئے آج ملئے ۴؍اساتذہ سے جو مختلف طریقوں اور مثالوں کے ذریعہ آپ کو بتائیں گے کہ ریاضی آسان ہے ۔
حمزہ فضل اصلاحی |
عبدالسلام سر دہم جماعت کے طلبہ سے کہتے ہیں :"آپ دسویں میں ہیں تو سمجھ لیجئے کہ یہ آپ کاسب سے قیمتی وقت ہے، اگر آپ نے اس میں لاپروائی برتی تو پھر کبھی نہیں سنبھل سکیں گے، امتحان کا زیادہ وقت بھی نہیں بچا ہے، چند مہینے میں سالانہ امتحان ہو گا، ایسے میں آپ اپنا جائزہ لیجئے، خود سے پو چھئے کہ آپ کو کیا کیا آتا ہے؟ اور آپ کہاں کہاں کمز ور ہیں؟ اپنے ریاضی کے استاذ سے بھی پوچھئے کہ آپ کی کمزوریاں کیا کیا ہیں؟ اور انہیں کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ دھیرے دھیرے تبدیلی آئے گی اور ایک ایسا طالب علم جو صفر لاتا تھا وہ صرف ایک مہینے میں پچاس میں سے دس نمبر لانے کے قابل ہو جائے گا، پھر ہر مہینے اس میں دس دس کا اضافہ ہو گا، اس طرح پانچ مہینے میں پچاس میں سے پچاس نمبر مل جائیں گے".
امام باڑہ میونسپل سیکنڈری اسکول میں گزشتہ ۲۵؍ برس سے ریاضی کی معلمہ سعدیہ مقادم کہتی ہیں :’’ اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے، عام طور پر طلبہ کو ریاضی سے ڈر لگتا ہے، خود میں بھی اپنے طالب علمی کے زمانے میں ریاضی کو بہت مشکل سمجھتی تھی، میرے لئے کوئی بھی سوال حل کرنا آسان نہیں ہوتا تھا لیکن ایک دن میں نے طے کرلیا کہ مجھے کچھ کرنا چاہئے، بس اس کے بعد سے جو محنت کرنا شروع کیا تو پھر ریاضی کی معلمہ بن گئی ۔ میرے پیارے بچو ! آپ یہ سمجھئے کہ ریاضی دل سے سیکھنے والا مضمون ہے، اس میں رٹنا کام نہیں آتا ، ہاں فارمولے یاد کرنے ہوتے ہیں لیکن اگر آپ کو ان کے استعمال کا طریقہ نہیں معلوم ہے تو یہ فارمولے بھی کسی کام کے نہیں ہیں، اتنا سمجھ لیجئے کہ یہاں صرف دماغ چلانا ہےاور اگر ایک بار آپ کو یہ مضمون اچھا لگ گیا تو پھر آپ چاہیں گے کہ ریاضی کے سوا کچھ نہ پڑھا یا جائے، ایک بار ریاضی سے دل لگا کرتو دیکھئے‘‘.
وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں:’’ایک بچی مایوس ہوگئی تھی، وہ ریاضی کو بھوت سمجھتی تھی، اسے ریاضی اچھا ہی نہیں لگتا تھا ۔میں نے اسے بہت سمجھایا اور بتایا کہ بیٹا! آج تمہارا دل نہیں لگتا تو بعد میں پڑھاؤں گی، اس طرح پیار محبت سے اس کو ریاضی پڑھنے پر آمادہ کیا ۔ میں اس سے کہتی تھی کہ آ بیٹا تجھےبتاؤں ، کیا نہیں آتا تجھے، اس طرح اس نے اپنائیت محسوس کی اور میری باتیں اس کے دماغ میں بیٹھ گئیں، اس کے بعد اس نے محنت کی اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ ریاضی کی کامیاب طالب علم بن گئی۔ا متحان میں اس کا مجموعی طور پر ۷۲؍ فیصد نمبر آیا تھا ۔ ‘‘
مدن نتھورام مارگ میونسپل اردو اسکول میں طویل عرصے تک ریاضی پڑھانے والے معلم نور محمد شیخ کہتے ہیں :’’ اکثر طلبہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ریاضی میں تو بس جمع اور تفریق ہی کام آتے ہیں ، عام زندگی میں حساب کتاب کے وقت ان کی ضرورت پڑتی ہے ، باقی چیزیں تو بس ایسی ہی ہیں ۔ مثلث اور الجبرا تو کبھی کام نہیں آتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ چیز ذہن سے نکالنی ہو گی،کیونکہ اگر آپ کو آگے بڑھنا ہے ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے تو الجبرا اور جیومیٹری بے حد ضروری ہیں ۔ اگر آپ کو سائنس اور انجینئرنگ میں داخلہ لینا ہے تو پھر اُن کے بغیر کچھ کرہی نہیں سکتے" ۔
وہ اپنے تجربات کی روشنی میں کہتے ہیں :’’ہمارے یہاں تو کچھ ایسے بچے بھی آجاتے ہیں، وہ بھی دسویں اور گیارہویں میں، جن کو ۳۹؍ اور ۴۹؍ کا فرق نہیں معلوم ہوتا ۔ پہاڑے یاد نہیں ہوتے، ایسے بچوں پر استاد بھی دھیان نہیں دیتا، وہ سوچتا ہے کہ ان بچوں پر بہت زیادہ محنت کرنی ہو گی ۔
ظاہر ہے کہ دسویں اور گیارہویں کے بچوں کو اول اور دوم کی چیزیں کون بتائے گا ؟ اس لئے آپ اپنی بنیاد مضبوط کیجئے، گنتی لکھنے میں تو کبھی غلطی نہیں کرنی چاہیئے، جہاں تک عبارتی سوال کا معاملہ ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کبھی کبھی عبارتی سوال سمجھنے میں چھوٹی سی چوک ہو جاتی ہے، اس کی وجہ سے پورا سوال غلط ہوجاتا ہے اور آپ تو یہ جانتے ہی ہیں کہ ریاضی میں ایک نقطہ بھی غلط ہو جاتا ہے تو پورا سوال غلط ہو جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسا مضمون بھی ہے جس میں پورا نمبر بھی ملتا ہے۔ ‘‘
نور محمد شیخ کے بقول :’’ جو سوال آپ کی سمجھ میں نہ آئے، وہ اپنے ٹیچر سے دوبارہ پو چھئے اور باربار پوچھئے ۔ یہ سوچ کر کبھی پوچھنے سے باز نہ آئیے کہ دوبارہ پوچھوں گا تو ٹیچر ناراض ہوجائیں گے، ڈانٹ دیں گے۔ بس سوچ لیجئے کہ ہرصورت میں سیکھنا ہے ۔ یاد رکھئے کہ اگر آپ کو سیکھنا ہے تو یہ سب برداشت کرنا ہوگا ۔ ‘‘
موریشور پاٹنکر مارگ میونسپل اردو اسکول کرلا کی معلمہ صدیقی شبنم محمد محفوظ بھی طلبہ کو بیسک پر محنت کر نے کا مشورہ دیتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں : ’’عزیز طلبہ! اگر آپ شروع سے ریاضی میں دلچسپی لیں گے تو آپ کو کبھی ریاضی بور سبجیکٹ نہیں لگے گا ۔ ضرب ، تقسیم، جمع اور نفی پر محنت کریں گے تو آگے آپ کو الجبرا اور جیومٹری میں آسانی ہوگی ۔ کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر پہلے دن بلیک بورڈ پر کوئی سوال حل کرنے پر کوئی ان کا مذاق اڑاتا ہےتو وہ بد دل ہوجاتے ہیں اور صرف اتنی سی بات پر ریاضی سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ ہمارے تعلیمی نظام کی وجہ سے وہ آٹھویں تک پا س ہوجاتے ہیں لیکن اس کے بعد کی جماعتوں میں وہ جس سبجیکٹ سے نفرت کرتے ہیں ، اس سے ڈرنے لگتے ہیں ، دور بھاگتے ہیں لیکن اس وقت بھی سنبھلنے کا موقع ہوتا ہے ۔ میں ایسے طلبہ سے کہوں گی کہ وہ اپنے ہم جماعتوں اور اچھے اساتذہ کی مدد سے ریاضی میں مہارت حاصل کریں ، کتاب میں دی گئی مثالوں کو اچھی طرح ذہن میں بٹھائیں، اُن کی مدد سے مشقی سوالات حل کریں ۔ ریاضی میں سب سے اہم جو چیز ہے، وہ مشق ہے۔ اس کے بغیر بات نہیں بنے گی ۔‘‘
دیکھا آپ نے۴؍ اساتذہ نےکس طرح بتایا کہ ریاضی مشکل نہیں ہے تو پھر کوشش کیجئے اور ریاضی کو دوست بنا لیجئے۔