تحریر: فضیل احمد ناصری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پیشِ لفظ
یہ کائنات اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہے، یہاں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔۔۔ مگر اس کی برائیاں اچھائیوں پر غالب ہیں، اسی لیے پیغمبرﷺ نے دنیا کو مردار اور اس کے عاشقین کو کتّے کے لقب سے یاد کیا، دنیا پر مرنے والوں کو عبدالدینار اور عبدالدرہم بھی فرمایا۔۔۔ دنیا آخرت کی طرف جانے کے لیے آخری پڑاؤ ہے، پڑاؤ میں اچھائیاں کم اور برائیاں زیادہ ہوتی ہیں۔۔۔
دنیا میں کفر کا غلبہ
یہی وجہ ہے کہ برائیوں کی جتنی بھی شکلیں ہیں وہ زیادہ ہیں، جب کہ اچھائیوں کی شکلیں بہت کم ہیں۔۔۔ آپ قرآن کو دیکھیں کہ وہ کفر کو ظلمات سے تعبیر کرتا ہے اور اسلام کو نور سے، کیوں کہ اسلام میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور نکلنے کے بہت سے راستے ہیں۔۔۔ اسلام کی شکلیں محدود ہیں اور کفر کی لامحدود۔۔۔ جس طرح رات کا اندھیرا پن دور کرنے کے لیے روشنی کا انتظام کرنا پڑتا ہے، اسی طرح یہ کائنات دراصل کوڑے کا ڈھیر اور ظلمات کی وادی تھی، اس میں اسلام کا چراغ روشن کر کے اس کا اندھیراپن دور کرنے کی مہم چلائی گئی ہے، حضراتِ انبیاء اور ان کے نائبین اسی اندھیر کے خاتمے میں لگے ہوے ہیں۔۔۔جس دن اسلام کا یہ اجالا اس عالمِ آب و گل سے اٹھ جاے گا، کائنات کی بساط سمیٹ دی جاے گی۔۔۔ حدیثِ نبوی ہے "لاتقوم الساعۃ حتی یقال فی الارض اللہ اللہ"
نقصان دہ چیزوں کا تاریکیوں سے لگاؤ
آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اندھیرے سے نقصان دہ چیزوں کو محبت ہوتی ہے اور اجالے سے نفرت۔۔۔ جس گھر میں کبھی چراغ نہیں جلتا، اس میں سانپ بچھو کے امکانات بہت ہوتے ہیں۔۔۔ آپ جنگلات اور صحرائی علاقے دیکھ لیجیے وہاں درندے اور حشرات الارض کا ایک شہر بسا ہوا معلوم ہوگا، چنانچہ سانپ بچھو کے کاٹنے کے واقعات بیشتر رات ہی میں پیش آتے ہیں۔۔۔ درندے رات ہی میں اکثر حملہ کرتے ہیں۔۔۔ پیغمبرﷺ نے فرمایا کہ جب رات کا سفر درپیش ہو اور کہیں پڑاؤ کرنا پڑے تو سڑک پر قبضہ نہ جماؤ، کیوں کہ یہ دوسری مخلوق کی گزرگاہ بھی ہے۔۔۔ یہ بھی دیکھا ہوگا کہ حادثات زیادہ تر رات میں ہی پیش آتے ہیں، مثلاﹰ آگ لگنا، یا بیماری کا بڑھ جانا وغیرہ۔۔۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رات میں اپنا چراغ بجھا کر سویا کرو، کیوں کہ چھوٹا بدمعاش یعنی چوہا پورے گھر کو آتش زدہ کر سکتا ہے۔۔۔۔ دن کے اجالے میں حادثات کا تناسب کم ہے۔۔۔۔ موت عوام کی نظر میں ایک قابلِ وحشت چیز ہے، دنیادار اس سے بری طرح بھاگتے ہیں، احادیث میں نیند کو موت کا بھائی کہا گیا ہے، یہ اجالے میں جلدی نہیں آتی۔۔۔ اسی لیے میں نے کہا کہ اندھیرے کا تعلق نقصان دہ اشیا سے زیادہ ہے اور اجالے کا مفید چیزوں سے۔۔۔ پچھلے زمانے میں گناہوں کا ارتکاب رات میں زیادہ ہوتا تھا، اب دن رات بعض ممالک میں یکساں ہو گئے ہیں اور حالت یہ ہے کہ:
اسلام اور کفر کا تصادم
دنیا پہلے بنائی گئی اور آدم بعد میں آے، گویا اندھیرا پہلے سے ہے، اجالا بعد میں آیا۔۔۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام جب بھی آے، اہلِ کفر کی تیوری چڑھ گئی، ان کی جبینوں پر بل پڑ گئے، مخالفتوں کا ایک طوفان کھڑا کردیا، انبیاء لاکھ سمجھاتے رہے، مگر اندھیرے میں رہنے والوں کو اجالا پسند نہیں آیا، چمگاڈر کو پھدکنے کے لیے رات کا سناٹا چاہیے، الو کو چہکنے کے لیے شب کی ظلمتیں چاہییں، سانپ بچھو کو اپنا مشن پورا کرنے کے لیے رات کی سیاہی چاہیے، چنانچہ وہ انبیاء کے خلاف کھڑے ہو گئے، احتجاج در احتجاج، مقاطعہ در مقاطعہ اور بدتمیزیوں کا طوفان بارہوئی بار کھڑا کیا، پیغمبرانِ وقت کی جلائی روشنی سے وہی مستفید ہو سکے، جن کی فطرت میں قبولیتِ انوار کی استعداد تھی، ورنہ اندھیرے والے زیادہ رہے، اہلِ کفر کا غلبہ رہا۔۔۔
پیغمبرﷺ اس دنیا میں آئے ہیں تو وہ جاہلیت کا دور تھا، کون برائی تھی جو اس دور میں نہیں تھی!! اندھیرا ہی اندھیرا، ہر طرف کفر و شرک کا غلبہ، کعبہ تک محفوظ نہیں، اندر بتوں کی بھرمار اور باہر ننگوں کی یلغار، پیغمبرﷺ نے اسی اندھیرے کو دور کرنے کے لیے چراغ جلایا، کورپسند طاقتوں کے لیے گویا اعلانِ جنگ۔۔۔ مخالفتیں شدید ہوئیں۔۔۔ اس شمع کو بجھانے کے لیے وحدت، کثرت، انفراد و اجتماع سب امڈا، مگر جسے پھیلنا تھا، وہ پھیلا اور پیغمبرﷺ کے جاتے جاتے اسلام کا چراغ بے حد توانا ہو چکا تھا، اس کی روشنی مسلسل بڑھتی جا رہی تھی، مسلمان جہاں جاتے فتوحات سمیٹتے۔ پیغمبرﷺ نے ہی یہ فرمایا تھا کہ اسلام کا چراغ ایک پھر آخری سانسیں گنے گا اور دنیا فنا ہو جاے گی، چناں ساڑھے چودہ سو برسوں میں اسلام کی شمع مختلف مراحل سے گزرتے ہوے آخری پڑاؤ پر ہے، اجالا گھٹ رہا ہے، اندھیر کے مہیب ساے پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ اسلام دشمن طاقتیں ہر محاذ پر فاتح ہیں اور اسلام ہر محاذ پر شکست خوردہ، تاہم چراغ جل رہا ہے اور اس کے بجھانے والے مسلسل چھاتے جا رہے ہیں۔
علماء اور مدارس پر بھونکنے والے کفر کے نمائندے
انبیاء علیہم السلام جس مہم کو لے کر آے تھے، بعد میں اسی کو ان کے نائبین نے آگے بڑھایا۔۔۔ یہ علما انبیاء کے وارث ہیں اور اسی چراغ کے امین، جسے خود باری تعالیٰ نے روشن کیا تھا، چوں کہ دنیا سمٹنے پر ہے اسی لیے کفر مسلسل دندنا رہا ہے، اندھیرے بڑھتے جا رہے ہیں، نقصان دہ چیزوں کی لگاتار فراونی ہے، چوں کہ علماے اسلام اور دینی مدارس خواہ کسی بھی حالت میں ہوں، اسی چراغ کے محافظ ہیں اور یہ چراغ حشرات الارض اور درندوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اس لیے ان کے خلاف مہم زوروں پر ہے، روز ان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے، یہ لوگ علما اور مدارس کی آڑ میں یورپ کے ایجاد کردہ ماڈرن اسلام کو فروغ دے رہے ہیں، انہیں اللہ کا جلایا ہوا چراغ قطعاً پسند نہیں، اسی لیے رات دن پھونک مار رہے ہیں، کتوں کی طرح بھونک رہے ہیں، ہر طرح کی سازشیں چل رہی ہیں، محافظینِ شمع پر رکیک تبصرے ہیں، مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ جو دن چراغِ اسلام کے لیے آخری ہوگا، علما اسی دن ختم ہو سکیں گے، ملتِ بیضا کی یہ شمع جب تک مقدر ہے، جلتی رہے گی اور اس کے محافظین پیدا ہوتے رہیں گے، تم پھونکیں مارو! کوششیں کرو! مگر کامیاب نہ ہو سکوگے۔۔۔میں تو صاف کہتا ہوں کہ باطل کی جتنی شکلیں ہیں، سب کفر کی شاخیں ہیں، لبرل اور ملحدین اینٹی اسلام ہیں، یہ لوگ باطل کے نمائندے ہیں، اس لیے مسلمانوں سے عرض ہے کہ اپنے ایمان کی بقا کے لیے علماےحق اور مدارسِ اسلامیہ کے ہاتھ مضبوط کیجیے، ان سے جڑے رہیے، اس میں فائدہ آپ کا ہی ہے، ان لبرلوں، داڑھی تراشوں، اجماع بیزاروں اور مسلمان نما کافروں سے ہوشیار رہیں۔۔۔ان کی باتوں کو لائک نہ کریں، ان پر کوئی تبصرہ نہ کریں، اسی میں سلامتی ہے۔۔۔۔ پیغمبرﷺ نے علامات قیامت میں سے ایک یہ بھی بتایا ہے کہ بعد کے لوگ پچھلے لوگوں کو برا بھلا کہیں گے، علماے اسلام اور دینی مدارس اگرچہ آج بھی ہیں مگر ان کا مشن اسلاف ہی کی روش ہے، لہذا علماے اور مدارس پر جارحانہ تبصرے دراصل اسلاف ہی پر سب و شتم ہیں۔۔۔ یاد رکھیے! یہ دشمنانِ اسلام سانپ بچھو ہیں اور سانپ بچھو کو تاریکیاں ہی پسند ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پیشِ لفظ
یہ کائنات اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہے، یہاں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔۔۔ مگر اس کی برائیاں اچھائیوں پر غالب ہیں، اسی لیے پیغمبرﷺ نے دنیا کو مردار اور اس کے عاشقین کو کتّے کے لقب سے یاد کیا، دنیا پر مرنے والوں کو عبدالدینار اور عبدالدرہم بھی فرمایا۔۔۔ دنیا آخرت کی طرف جانے کے لیے آخری پڑاؤ ہے، پڑاؤ میں اچھائیاں کم اور برائیاں زیادہ ہوتی ہیں۔۔۔
دنیا میں کفر کا غلبہ
یہی وجہ ہے کہ برائیوں کی جتنی بھی شکلیں ہیں وہ زیادہ ہیں، جب کہ اچھائیوں کی شکلیں بہت کم ہیں۔۔۔ آپ قرآن کو دیکھیں کہ وہ کفر کو ظلمات سے تعبیر کرتا ہے اور اسلام کو نور سے، کیوں کہ اسلام میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور نکلنے کے بہت سے راستے ہیں۔۔۔ اسلام کی شکلیں محدود ہیں اور کفر کی لامحدود۔۔۔ جس طرح رات کا اندھیرا پن دور کرنے کے لیے روشنی کا انتظام کرنا پڑتا ہے، اسی طرح یہ کائنات دراصل کوڑے کا ڈھیر اور ظلمات کی وادی تھی، اس میں اسلام کا چراغ روشن کر کے اس کا اندھیراپن دور کرنے کی مہم چلائی گئی ہے، حضراتِ انبیاء اور ان کے نائبین اسی اندھیر کے خاتمے میں لگے ہوے ہیں۔۔۔جس دن اسلام کا یہ اجالا اس عالمِ آب و گل سے اٹھ جاے گا، کائنات کی بساط سمیٹ دی جاے گی۔۔۔ حدیثِ نبوی ہے "لاتقوم الساعۃ حتی یقال فی الارض اللہ اللہ"
نقصان دہ چیزوں کا تاریکیوں سے لگاؤ
آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اندھیرے سے نقصان دہ چیزوں کو محبت ہوتی ہے اور اجالے سے نفرت۔۔۔ جس گھر میں کبھی چراغ نہیں جلتا، اس میں سانپ بچھو کے امکانات بہت ہوتے ہیں۔۔۔ آپ جنگلات اور صحرائی علاقے دیکھ لیجیے وہاں درندے اور حشرات الارض کا ایک شہر بسا ہوا معلوم ہوگا، چنانچہ سانپ بچھو کے کاٹنے کے واقعات بیشتر رات ہی میں پیش آتے ہیں۔۔۔ درندے رات ہی میں اکثر حملہ کرتے ہیں۔۔۔ پیغمبرﷺ نے فرمایا کہ جب رات کا سفر درپیش ہو اور کہیں پڑاؤ کرنا پڑے تو سڑک پر قبضہ نہ جماؤ، کیوں کہ یہ دوسری مخلوق کی گزرگاہ بھی ہے۔۔۔ یہ بھی دیکھا ہوگا کہ حادثات زیادہ تر رات میں ہی پیش آتے ہیں، مثلاﹰ آگ لگنا، یا بیماری کا بڑھ جانا وغیرہ۔۔۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رات میں اپنا چراغ بجھا کر سویا کرو، کیوں کہ چھوٹا بدمعاش یعنی چوہا پورے گھر کو آتش زدہ کر سکتا ہے۔۔۔۔ دن کے اجالے میں حادثات کا تناسب کم ہے۔۔۔۔ موت عوام کی نظر میں ایک قابلِ وحشت چیز ہے، دنیادار اس سے بری طرح بھاگتے ہیں، احادیث میں نیند کو موت کا بھائی کہا گیا ہے، یہ اجالے میں جلدی نہیں آتی۔۔۔ اسی لیے میں نے کہا کہ اندھیرے کا تعلق نقصان دہ اشیا سے زیادہ ہے اور اجالے کا مفید چیزوں سے۔۔۔ پچھلے زمانے میں گناہوں کا ارتکاب رات میں زیادہ ہوتا تھا، اب دن رات بعض ممالک میں یکساں ہو گئے ہیں اور حالت یہ ہے کہ:
رات کا انتظار کون کرے??
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا
حالات چاہے جس قدر تبدیل ہو چکے ہوں اور مغرب کے اندھیرے نے بات چاہے کہیں سے کہیں پہونچا دی ہو، بے حیائی اور انسانیت سوزی اگرچہ آخری حدوں کو چھو رہی ہو، مگر اب بھی غیرمغربی رجحان یہی ہے کہ گناہوں کے لیے اندھیرے کا انتخاب کیا جاے۔۔۔اسلام اور کفر کا تصادم
دنیا پہلے بنائی گئی اور آدم بعد میں آے، گویا اندھیرا پہلے سے ہے، اجالا بعد میں آیا۔۔۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام جب بھی آے، اہلِ کفر کی تیوری چڑھ گئی، ان کی جبینوں پر بل پڑ گئے، مخالفتوں کا ایک طوفان کھڑا کردیا، انبیاء لاکھ سمجھاتے رہے، مگر اندھیرے میں رہنے والوں کو اجالا پسند نہیں آیا، چمگاڈر کو پھدکنے کے لیے رات کا سناٹا چاہیے، الو کو چہکنے کے لیے شب کی ظلمتیں چاہییں، سانپ بچھو کو اپنا مشن پورا کرنے کے لیے رات کی سیاہی چاہیے، چنانچہ وہ انبیاء کے خلاف کھڑے ہو گئے، احتجاج در احتجاج، مقاطعہ در مقاطعہ اور بدتمیزیوں کا طوفان بارہوئی بار کھڑا کیا، پیغمبرانِ وقت کی جلائی روشنی سے وہی مستفید ہو سکے، جن کی فطرت میں قبولیتِ انوار کی استعداد تھی، ورنہ اندھیرے والے زیادہ رہے، اہلِ کفر کا غلبہ رہا۔۔۔
پیغمبرﷺ اس دنیا میں آئے ہیں تو وہ جاہلیت کا دور تھا، کون برائی تھی جو اس دور میں نہیں تھی!! اندھیرا ہی اندھیرا، ہر طرف کفر و شرک کا غلبہ، کعبہ تک محفوظ نہیں، اندر بتوں کی بھرمار اور باہر ننگوں کی یلغار، پیغمبرﷺ نے اسی اندھیرے کو دور کرنے کے لیے چراغ جلایا، کورپسند طاقتوں کے لیے گویا اعلانِ جنگ۔۔۔ مخالفتیں شدید ہوئیں۔۔۔ اس شمع کو بجھانے کے لیے وحدت، کثرت، انفراد و اجتماع سب امڈا، مگر جسے پھیلنا تھا، وہ پھیلا اور پیغمبرﷺ کے جاتے جاتے اسلام کا چراغ بے حد توانا ہو چکا تھا، اس کی روشنی مسلسل بڑھتی جا رہی تھی، مسلمان جہاں جاتے فتوحات سمیٹتے۔ پیغمبرﷺ نے ہی یہ فرمایا تھا کہ اسلام کا چراغ ایک پھر آخری سانسیں گنے گا اور دنیا فنا ہو جاے گی، چناں ساڑھے چودہ سو برسوں میں اسلام کی شمع مختلف مراحل سے گزرتے ہوے آخری پڑاؤ پر ہے، اجالا گھٹ رہا ہے، اندھیر کے مہیب ساے پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ اسلام دشمن طاقتیں ہر محاذ پر فاتح ہیں اور اسلام ہر محاذ پر شکست خوردہ، تاہم چراغ جل رہا ہے اور اس کے بجھانے والے مسلسل چھاتے جا رہے ہیں۔
علماء اور مدارس پر بھونکنے والے کفر کے نمائندے
انبیاء علیہم السلام جس مہم کو لے کر آے تھے، بعد میں اسی کو ان کے نائبین نے آگے بڑھایا۔۔۔ یہ علما انبیاء کے وارث ہیں اور اسی چراغ کے امین، جسے خود باری تعالیٰ نے روشن کیا تھا، چوں کہ دنیا سمٹنے پر ہے اسی لیے کفر مسلسل دندنا رہا ہے، اندھیرے بڑھتے جا رہے ہیں، نقصان دہ چیزوں کی لگاتار فراونی ہے، چوں کہ علماے اسلام اور دینی مدارس خواہ کسی بھی حالت میں ہوں، اسی چراغ کے محافظ ہیں اور یہ چراغ حشرات الارض اور درندوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اس لیے ان کے خلاف مہم زوروں پر ہے، روز ان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے، یہ لوگ علما اور مدارس کی آڑ میں یورپ کے ایجاد کردہ ماڈرن اسلام کو فروغ دے رہے ہیں، انہیں اللہ کا جلایا ہوا چراغ قطعاً پسند نہیں، اسی لیے رات دن پھونک مار رہے ہیں، کتوں کی طرح بھونک رہے ہیں، ہر طرح کی سازشیں چل رہی ہیں، محافظینِ شمع پر رکیک تبصرے ہیں، مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ جو دن چراغِ اسلام کے لیے آخری ہوگا، علما اسی دن ختم ہو سکیں گے، ملتِ بیضا کی یہ شمع جب تک مقدر ہے، جلتی رہے گی اور اس کے محافظین پیدا ہوتے رہیں گے، تم پھونکیں مارو! کوششیں کرو! مگر کامیاب نہ ہو سکوگے۔۔۔میں تو صاف کہتا ہوں کہ باطل کی جتنی شکلیں ہیں، سب کفر کی شاخیں ہیں، لبرل اور ملحدین اینٹی اسلام ہیں، یہ لوگ باطل کے نمائندے ہیں، اس لیے مسلمانوں سے عرض ہے کہ اپنے ایمان کی بقا کے لیے علماےحق اور مدارسِ اسلامیہ کے ہاتھ مضبوط کیجیے، ان سے جڑے رہیے، اس میں فائدہ آپ کا ہی ہے، ان لبرلوں، داڑھی تراشوں، اجماع بیزاروں اور مسلمان نما کافروں سے ہوشیار رہیں۔۔۔ان کی باتوں کو لائک نہ کریں، ان پر کوئی تبصرہ نہ کریں، اسی میں سلامتی ہے۔۔۔۔ پیغمبرﷺ نے علامات قیامت میں سے ایک یہ بھی بتایا ہے کہ بعد کے لوگ پچھلے لوگوں کو برا بھلا کہیں گے، علماے اسلام اور دینی مدارس اگرچہ آج بھی ہیں مگر ان کا مشن اسلاف ہی کی روش ہے، لہذا علماے اور مدارس پر جارحانہ تبصرے دراصل اسلاف ہی پر سب و شتم ہیں۔۔۔ یاد رکھیے! یہ دشمنانِ اسلام سانپ بچھو ہیں اور سانپ بچھو کو تاریکیاں ہی پسند ہیں۔