تحریر: حمزہ فضل اصلاحی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سائنس کی کیا اہمیت ہے ؟ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں ۔ ہمارے سماج میں ایک سائنسداں یا سائنس کے طالب علم کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ یہ بھی آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن کچھ طالب علم سوچتے ہیں کہ سائنس مشکل ہے، اس کی علامات جلدی یاد نہیں ہوتیں، کیمیائی ضابطوں میں تو اور بھی دقت ہوتی ہے، وغیرہ۔ اس طرح وہ دھیرے دھیرے سائنس جیسے دلچسپ مضمون سے دور ہونے لگتے ہیں اور اس سے گھبراتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ سائنس میں پاسنگ مارکس مل جائیں، یہی بہت ہے، اس سے زیادہ کرنے کا فائدہ کیا ہے جب مضمون سمجھ ہی میں نہیں آتا لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
آئیے! آج آپ کی ملاقات کراتے ہیں سائنس کے ایسے چار اساتذہ سے جو برسوں سے اس مضمون کو پڑھا رہے ہیں، یہ اساتذہ آپ کو سائنس کو آسان اور دلچسپ بنانے کے طریقے بتائیں گے :
قمر شریف بال بھارتی کی سائنس کی نصابی کمیٹی میں شامل ہیں، وہ طویل عرصے تک معین العلوم ہائی اسکول اورنگ آباد میں سائنس پڑھا چکی ہیں اُن کا کہنا ہے: "عزیز طلبہ! سب سے پہلے تو آپ اپنے ذہن سے یہ نکال دیجئے کہ کوئی مضمون مشکل ہوتا ہے، عام طور پر طلبہ سائنس کو مشکل سمجھتے ہیں مگر جو طالب علم ایک بار اس میں دلچسپی لیتا ہے تو پھر وہ اسی کا ہو جاتا ہے ۔"
وہ سائنسی مزاج پید اکرنے پر زور دیتی ہیں اور اس کا نسخہ اس طرح بتاتی ہیں: ’’ آپ صرف سائنس کی کتاب مت پڑھئے بلکہ سائنسی مزاج پیدا کیجئے اور سائنسی مزاج پیدا کرنے کیلئے کسی بھی چیز کو غور سے دیکھنے کی عادت ڈالئے، ا س کی تہوں میں اترئیے ، اس کا باریکی سے جا ئزہ لیجئے ۔ اس کے بارے میں خود سے سوالات قائم کیجئے ۔ پھر اس کا جواب تلاش کیجئے ۔ اس طرح آپ کو سائنس سے دلچسپی ہوجائے گی ۔ یہ طریقہ اپنانے کے بعد جب ٹیچر سائنس پڑھائے گا تو آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ کوئی کہانی سن رہے ہیں ۔‘‘
مہاراشٹرا اردو ہائی اسکول رتنا گیری کے سابق پرنسپل اور ۲۵؍ سال تک سائنس کے استاد رہنے والے شمس القمر ہاشمی کہتے ہیں:’’ آپ سائنس کو ٹیچر سے نئے نئے انداز سے سمجھنے کی کوشش کیجئے، استاد سے ضد کیجئے کہ وہ نئے طریقے سے سمجھائیں۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھئے کہ سائنس کے نصاب میں ہر سال تبدیلی آتی رہتی ہے، کچھ چیزیں بالکل بدل جاتی ہیں، کچھ نظریے سرے سے خارج ہوجاتے ہیں، اس لئے آپ نصابی کتاب کے علاوہ جو کتاب پڑھنا چاہتے ہیں، وہ اپ ڈیٹ ہونی چاہئے۔ پرانی کتابوں کی مدد نہ لیجئے، ورنہ کبھی کبھی آپ کی پوری محنت ضائع ہو جائے گی ۔ ‘‘
وہ مزید کہتے ہیں : ’’استادنوٹ بک میں کسی سوال کا جواب لکھا دے تو گھر آنے کے بعد آپ نصابی کتاب کو غور سے پڑھئے اور دیکھئے کہ استاد نے جواب کہاں سے لکھایا ہے ؟ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک پنسل بھی ہونی چاہئے ، اس سے آپ انڈر لائن کیجئے کہ جواب کہاں سے لکھایا گیا ہے، ایسا کرنے سے دھیرے دھیرے آپ کے اندر خود سے جواب تیار کرنے کی صلاحیت پیدا جائے گی، اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ امتحانی پرچہ میں آپ مختصر اور تفصیلی دونوں طرح کے جواب دینے کے قابل ہوجائیں گے ۔ ‘‘
انجمن اسلام الانا گرلز اردو ہائی اسکول کرلا میں ۲۵؍ سال سے سائنس پڑھانے والی زینت حسین کہتی ہیں :’’عزیز طلبہ ! کچھ طلبہ تھیوری سے گھبراتے ہیں لیکن پر یکٹیکل سے دلچسپی لیتے ہیں، انہیں لیب میں مزہ آتا ہے لیکن وہ کتابوں سے خوف کھاتے ہیں، اس سے پتہ یہ چلا کہ آپ کو سائنس سے دلچسپی ہے، بس آپ کو سائنس کی کتابوں سے ڈر لگتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ آپ کو نصابی کتاب بار بار پڑھنی چاہئے اور مشکل عبارت پر نشان لگانا چاہیئے اور اسے بعد میں ٹیچر سے پوچھنا چاہئے، سائنسی علامات زبانی یاد ہونی چاہئیے، اگر علامات یاد ہوں گی تو کیمیائی ضابطے سمجھنے میں آپ کو کوئی دقت نہیں ہوگی.‘‘
وہ مزید کہتی ہیں :’’ عام طور پر طلبہ ڈاکٹر بننا چاہتےہیں اور ڈاکٹر بننے کیلئے سائنس میں دلچسپی لینا ضروری ہے، اصطلاحات پر دھیان دیجئے، اردو کے ساتھ ساتھ اسے انگریزی میں بھی یاد رکھئے، انگریزی کتابوں سے بھی رجوع کیجئے۔‘‘
اقراء بکس اینڈ ملٹی میڈیا کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد شکیل انجینئربھی سائنس پڑھا تے رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں:’’ سب سے پہلے تو یہ سمجھئے کہ سائنس میں کوئی بھی چیز بیکا ر نہیں ہے ، یہاں کچھ بھی غلط نہیں ہو سکتا ہے۔ آپ دیکھئے کہ ڈارون کی تھیوری کو سائنس ہی نے مسترد کردیا، یہاں کوئی بھی اپنی مرضی نہیں چلا سکتا، ہر چیز دو اور دو چار کی طرح ہے، ایک مسلمان کو سائنس سے اس لئے بھی دلچسپی لینی چاہئے کیونکہ بعض دفعہ سائنسی تجربات سے ایمان مزید پختہ ہوجاتا ہے، ایک مرتبہ ایسا ہواکہ مجھے ایک جگہ قرآن اور سائنس میں بظاہر ٹکراؤ نظر آیا، اس پر میں ۸؍ سال تک پریشان رہا، محنت کرتا رہا اور ریسرچ کرتا رہا جب نتیجہ سامنے آیا تو مجھے حیرت ہوئی اور بے حد خوشی بھی، کیونکہ قرآن اور سائنس میں تضاد نہیں تھا ۔ ‘‘
وہ مزید کہتے ہیں :’’ اگر کوئی طالب علم صرف اسلئے سائنس نہیں پڑھتا کہ اس میں کوئی بات مذہب کے خلاف ہے تو یہ مناسب نہیں ہے ۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی بات غلط ہے تو اس کا دفاع کیجئے، اس کی دلیل پیش کیجئے، کیونکہ سائنس میں کوئی بھی چیز اٹل نہیں ہوتی، اس میں تبدیلی کی گنجائش رہتی ہے، یہاں ثبوت اور دلیل کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اس سے پتہ یہ چلا کہ دعوتی نقطۂ نظر سے بھی سائنس میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ ‘‘
شکیل انجینئر طلبہ سے کہتے ہیں:’’ ایک بات ذہن نشین کر لیجئے کہ جو طالب علم سائنس رٹے گا، وہ اس سے دور ہوجائے گا، اس کے مقابلے میں جو اس کو سیکھے گا وہ اس مضمون سے محبت کرنے لگے گا ۔‘‘
عزیز طلبہ، اتنے قیمتی مشوروں کے بعد اب سوچنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں، ان قیمتی مشوروں اور خیالات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیجئے، ان شاء اللہ کامیاب ہوں گے.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سائنس کی کیا اہمیت ہے ؟ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں ۔ ہمارے سماج میں ایک سائنسداں یا سائنس کے طالب علم کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ یہ بھی آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن کچھ طالب علم سوچتے ہیں کہ سائنس مشکل ہے، اس کی علامات جلدی یاد نہیں ہوتیں، کیمیائی ضابطوں میں تو اور بھی دقت ہوتی ہے، وغیرہ۔ اس طرح وہ دھیرے دھیرے سائنس جیسے دلچسپ مضمون سے دور ہونے لگتے ہیں اور اس سے گھبراتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ سائنس میں پاسنگ مارکس مل جائیں، یہی بہت ہے، اس سے زیادہ کرنے کا فائدہ کیا ہے جب مضمون سمجھ ہی میں نہیں آتا لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
آئیے! آج آپ کی ملاقات کراتے ہیں سائنس کے ایسے چار اساتذہ سے جو برسوں سے اس مضمون کو پڑھا رہے ہیں، یہ اساتذہ آپ کو سائنس کو آسان اور دلچسپ بنانے کے طریقے بتائیں گے :
قمر شریف بال بھارتی کی سائنس کی نصابی کمیٹی میں شامل ہیں، وہ طویل عرصے تک معین العلوم ہائی اسکول اورنگ آباد میں سائنس پڑھا چکی ہیں اُن کا کہنا ہے: "عزیز طلبہ! سب سے پہلے تو آپ اپنے ذہن سے یہ نکال دیجئے کہ کوئی مضمون مشکل ہوتا ہے، عام طور پر طلبہ سائنس کو مشکل سمجھتے ہیں مگر جو طالب علم ایک بار اس میں دلچسپی لیتا ہے تو پھر وہ اسی کا ہو جاتا ہے ۔"
وہ سائنسی مزاج پید اکرنے پر زور دیتی ہیں اور اس کا نسخہ اس طرح بتاتی ہیں: ’’ آپ صرف سائنس کی کتاب مت پڑھئے بلکہ سائنسی مزاج پیدا کیجئے اور سائنسی مزاج پیدا کرنے کیلئے کسی بھی چیز کو غور سے دیکھنے کی عادت ڈالئے، ا س کی تہوں میں اترئیے ، اس کا باریکی سے جا ئزہ لیجئے ۔ اس کے بارے میں خود سے سوالات قائم کیجئے ۔ پھر اس کا جواب تلاش کیجئے ۔ اس طرح آپ کو سائنس سے دلچسپی ہوجائے گی ۔ یہ طریقہ اپنانے کے بعد جب ٹیچر سائنس پڑھائے گا تو آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ کوئی کہانی سن رہے ہیں ۔‘‘
مہاراشٹرا اردو ہائی اسکول رتنا گیری کے سابق پرنسپل اور ۲۵؍ سال تک سائنس کے استاد رہنے والے شمس القمر ہاشمی کہتے ہیں:’’ آپ سائنس کو ٹیچر سے نئے نئے انداز سے سمجھنے کی کوشش کیجئے، استاد سے ضد کیجئے کہ وہ نئے طریقے سے سمجھائیں۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھئے کہ سائنس کے نصاب میں ہر سال تبدیلی آتی رہتی ہے، کچھ چیزیں بالکل بدل جاتی ہیں، کچھ نظریے سرے سے خارج ہوجاتے ہیں، اس لئے آپ نصابی کتاب کے علاوہ جو کتاب پڑھنا چاہتے ہیں، وہ اپ ڈیٹ ہونی چاہئے۔ پرانی کتابوں کی مدد نہ لیجئے، ورنہ کبھی کبھی آپ کی پوری محنت ضائع ہو جائے گی ۔ ‘‘
وہ مزید کہتے ہیں : ’’استادنوٹ بک میں کسی سوال کا جواب لکھا دے تو گھر آنے کے بعد آپ نصابی کتاب کو غور سے پڑھئے اور دیکھئے کہ استاد نے جواب کہاں سے لکھایا ہے ؟ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک پنسل بھی ہونی چاہئے ، اس سے آپ انڈر لائن کیجئے کہ جواب کہاں سے لکھایا گیا ہے، ایسا کرنے سے دھیرے دھیرے آپ کے اندر خود سے جواب تیار کرنے کی صلاحیت پیدا جائے گی، اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ امتحانی پرچہ میں آپ مختصر اور تفصیلی دونوں طرح کے جواب دینے کے قابل ہوجائیں گے ۔ ‘‘
انجمن اسلام الانا گرلز اردو ہائی اسکول کرلا میں ۲۵؍ سال سے سائنس پڑھانے والی زینت حسین کہتی ہیں :’’عزیز طلبہ ! کچھ طلبہ تھیوری سے گھبراتے ہیں لیکن پر یکٹیکل سے دلچسپی لیتے ہیں، انہیں لیب میں مزہ آتا ہے لیکن وہ کتابوں سے خوف کھاتے ہیں، اس سے پتہ یہ چلا کہ آپ کو سائنس سے دلچسپی ہے، بس آپ کو سائنس کی کتابوں سے ڈر لگتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ آپ کو نصابی کتاب بار بار پڑھنی چاہئے اور مشکل عبارت پر نشان لگانا چاہیئے اور اسے بعد میں ٹیچر سے پوچھنا چاہئے، سائنسی علامات زبانی یاد ہونی چاہئیے، اگر علامات یاد ہوں گی تو کیمیائی ضابطے سمجھنے میں آپ کو کوئی دقت نہیں ہوگی.‘‘
وہ مزید کہتی ہیں :’’ عام طور پر طلبہ ڈاکٹر بننا چاہتےہیں اور ڈاکٹر بننے کیلئے سائنس میں دلچسپی لینا ضروری ہے، اصطلاحات پر دھیان دیجئے، اردو کے ساتھ ساتھ اسے انگریزی میں بھی یاد رکھئے، انگریزی کتابوں سے بھی رجوع کیجئے۔‘‘
اقراء بکس اینڈ ملٹی میڈیا کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد شکیل انجینئربھی سائنس پڑھا تے رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں:’’ سب سے پہلے تو یہ سمجھئے کہ سائنس میں کوئی بھی چیز بیکا ر نہیں ہے ، یہاں کچھ بھی غلط نہیں ہو سکتا ہے۔ آپ دیکھئے کہ ڈارون کی تھیوری کو سائنس ہی نے مسترد کردیا، یہاں کوئی بھی اپنی مرضی نہیں چلا سکتا، ہر چیز دو اور دو چار کی طرح ہے، ایک مسلمان کو سائنس سے اس لئے بھی دلچسپی لینی چاہئے کیونکہ بعض دفعہ سائنسی تجربات سے ایمان مزید پختہ ہوجاتا ہے، ایک مرتبہ ایسا ہواکہ مجھے ایک جگہ قرآن اور سائنس میں بظاہر ٹکراؤ نظر آیا، اس پر میں ۸؍ سال تک پریشان رہا، محنت کرتا رہا اور ریسرچ کرتا رہا جب نتیجہ سامنے آیا تو مجھے حیرت ہوئی اور بے حد خوشی بھی، کیونکہ قرآن اور سائنس میں تضاد نہیں تھا ۔ ‘‘
وہ مزید کہتے ہیں :’’ اگر کوئی طالب علم صرف اسلئے سائنس نہیں پڑھتا کہ اس میں کوئی بات مذہب کے خلاف ہے تو یہ مناسب نہیں ہے ۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی بات غلط ہے تو اس کا دفاع کیجئے، اس کی دلیل پیش کیجئے، کیونکہ سائنس میں کوئی بھی چیز اٹل نہیں ہوتی، اس میں تبدیلی کی گنجائش رہتی ہے، یہاں ثبوت اور دلیل کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اس سے پتہ یہ چلا کہ دعوتی نقطۂ نظر سے بھی سائنس میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ ‘‘
شکیل انجینئر طلبہ سے کہتے ہیں:’’ ایک بات ذہن نشین کر لیجئے کہ جو طالب علم سائنس رٹے گا، وہ اس سے دور ہوجائے گا، اس کے مقابلے میں جو اس کو سیکھے گا وہ اس مضمون سے محبت کرنے لگے گا ۔‘‘
عزیز طلبہ، اتنے قیمتی مشوروں کے بعد اب سوچنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں، ان قیمتی مشوروں اور خیالات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیجئے، ان شاء اللہ کامیاب ہوں گے.