از : مفتی محمد عظیم فیض آبادی استاذ دارالعلوم النصرہ دیوبند
9358163425
ــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ مضمون در اصل ایک اعتراض پر جواباً لکھا گیا ہے اور اس طرح کے سوالات عموما ہوتے رہتے ہیں کہ یہ علماء مدارس ہی مسلمانوں کے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ جانے کا سبب ہیں.
مدارس اسلامیہ کا اگر سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد عصری علوم کے خوشہ چینوں کے مقابلے میں شاید دو تین فیصد سے زیادہ نہ ہو اگر یہ حقیقت ہے تو سوال یہ ہے کہ بقیہ ستانوے97 اٹھانوے 98 فیصد عصری درسگاہوں کا رخ کرنے والوں نے سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں کون سے فتح کا جھنڈا لہرایا کون سے پورپ و امریکہ کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ؟ کونسی اپنی ترقی کے شامیانے گاڑلیئے ؟ سانئس وٹکنالوجی کے میدان میں دنیا کو اپنے قدموں میں جھکا لیا ؟ کیوں نہ اس میدان میں ماضی کے ماہرین کی طرح اپنی کا میابی کے سکے جمائے ؟
سوال یہ ہے کہ کیا اگر وہ دوچار فیصد منبر و محراب کی حفاظت کرنے والے بھی اس میدان اپنی قسمت آزمائی کرتے تو یہ خلا پر ہوجاتا ؟
کیا انہیں دو چار فیصد کے عصری درسگاہوں کے بجائے دینی درسگاہوں کا رخ کرنے کی وجہ سے امت زوال پزیر کا شکار ہے؟
کیا ان کی ضلالت وگمراہی کے شکار بھٹکی ہوئی انسانیت کی رہنمائی ہی اس کا سبب ہے؟
کیا مدارس و خانقاہ اور مسجد ومحراب میں بیٹھ کر امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی پار لگانے کی خاطر دعاؤ کے قابل افراد بنانے کا بیڑا اٹھانے والے مدارس ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟
خدارا سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کیجئے، تاریخ سے مدد لیجئے 1857 کی ناکامی کے بعد جب دلی اجڑ گئی دلی کے تقریبا ایک ہزار مدارس کا وجود مٹ گیا عیسائی مشنریاں ہر طرف کام کرنے لگی، دین اسلام اور اسکی نمائندگی کرنے والے ہی ان کے اصل نشانے پرتھے، اسلامی تہذیب و ثقافت کو نیست و نابود کیا جانے لگا، غرض ہمارا پورا نطام الٹ کر رکھ دیا گیا، مدارس ختم کر دیئے گئے اور تعلیمی نطام درہم برہم کردیا تھا، اس وقت ہر جہت سے انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دو نقطہ نظر وجود میں آئے، ایک نے تہذیب وثقافت کی حفاطت اور دین و ایمان کی نشر و اشاعت کا بیڑا اٹھایا، اسلامی آثار و شعار امت مسلمہ کی دینی رہنمائی کے لئے افراد تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی، حکومتی امداد و اعانت سے بےپرواہ ہوکر اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے ہر میدان میں کام کرنے کے لئے عوام سے رابطہ شروع کیا، ان سے چندے مانگے، ان سے تعاون کے لئے رجوع کیا، گھر گھر دستک دی، زکاة وصدقات کے لئے دست سوال دراز کیا، لوگوں کے طعنے سنے اپنی عزت نفس کا بھی خیال باقی نہ رہ گیا، اس کے لئے عوام کے سامنے اپنی جھولیاں تک پھیلائی، راتوں کو روئے گڑگڑائے لیکن قرآن و سنت کی تعلیمات کی کو باقی رکھا، اسلامی تہذیب وثقافت کی ہر طرح حفاظت کی، آج ہم فخر کے ساتھ خم ٹھوک کر کہہ سکتے ہیں برصغیر کے اندر آج اسلام کے جو آثار نطر ارہے ہیں یہ انہی محنتوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے، ممبر ومحراب جو آباد ہیں اور ہر طرف اذان کی صدائیں جو بلند ہورہی ہیں یہ اسی گروہ کی مرحون منت ہے.
اسی کے ساتھ ایک دوسرے نقطہء نطر کے حاملین نے انگریزوں سے مقابلے کے لئے قوم کوجدید علوم سے آراستہ کرنے اور سانئس و ٹکنالوجی کے ماہرین پیدا کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا، ان کو اس کام کے لئے ریاستی مشنری کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی، سرکاری امداد بھی حاصل کیں، قومی خزانے کا خوب استعمال کیا لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں اس قوم کی ہمسری نہ کرسکے، اور اپنی ناکامی کا ٹھیکرا مولویوں کے سر پھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے خود الٹا علماء کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں.
آج کے عصری درسگاہوں و دانشکدوں سے سوال ہے کہ ذرا سنجیدگی سے سوچئے اور انصاف سےکام لیجئے کہ نا اہل کون ثابت ہوااور اپنی ذمہ داری میں کوتاہ کون ثابت ہوا موازنہ کیجئے کہ اگر آج ملک کے کسی گوشے میں دینی تعلیم کا بندوبست نہیں ہے قرآن وسنت کی رہنمائی لوگوں کو حاصل نہیں ہے اگر مساجد میں ائمہ اور ممبر کے لئے خطبا نہیں مل رہے ہیں قرآن کی تعلیم کے لئے بہتریں قاری کا نظم نہیں ہے رمضان المبارک میں حفاظ کی ایک بڑی جماعت میسر نہیں ہے دینی رہنمائی کے لئے علماء و مفتیان کرام نکاح وجنازہ کے لئے افراد سے ملک کا کوئی گوشہ خالی ہے ؟
اگر اپ کے یہ سب امور انجام پارہے ہیں تو پھر مدارس وعلماءاپنے مقصد میں پورے طور پرکامیاب ہیں ان پراعتراض ناانصافی ہے
اور اگر ملک میں مسلمان سائنس جدیدٹیکنالوجی کے میدان میں دیگر لوگوسے پیچھے ہیں عصری علوم جدید لسانیات میں ان کی ہمسری نہین کر سکتے تو یہ قصور ان لوگون کا کہلائے جس نے اس کی ذمہ داری اٹھائی تھی اور اسکے لئے سرکاری خزانے کو استعمال کیا جنہیں حکومت کی طرف سے ہر طرح کی نصرت و امداد میسر رہی جو معاشی اعتبار سے ہرطرح سے مطمئن تھے خدارا اس کے لئے بھی علماء کو مدارس کو ذمہ دار نہ ٹھرائیں کیونکہ اس کی ذمہ داری جس نے لی وہی دراصل اس کےلئے جواب دہ ہے اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے علماء و مدارس سے اس کے بارے میں سوال نہ کیا جائے.
امید ہے کہ اس طرح کے شکوک و شبہات اور اس طرح کے سوالات کرنے والے غور فرمائیں گے.
9358163425
ــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ مضمون در اصل ایک اعتراض پر جواباً لکھا گیا ہے اور اس طرح کے سوالات عموما ہوتے رہتے ہیں کہ یہ علماء مدارس ہی مسلمانوں کے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ جانے کا سبب ہیں.
مدارس اسلامیہ کا اگر سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد عصری علوم کے خوشہ چینوں کے مقابلے میں شاید دو تین فیصد سے زیادہ نہ ہو اگر یہ حقیقت ہے تو سوال یہ ہے کہ بقیہ ستانوے97 اٹھانوے 98 فیصد عصری درسگاہوں کا رخ کرنے والوں نے سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں کون سے فتح کا جھنڈا لہرایا کون سے پورپ و امریکہ کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ؟ کونسی اپنی ترقی کے شامیانے گاڑلیئے ؟ سانئس وٹکنالوجی کے میدان میں دنیا کو اپنے قدموں میں جھکا لیا ؟ کیوں نہ اس میدان میں ماضی کے ماہرین کی طرح اپنی کا میابی کے سکے جمائے ؟
سوال یہ ہے کہ کیا اگر وہ دوچار فیصد منبر و محراب کی حفاظت کرنے والے بھی اس میدان اپنی قسمت آزمائی کرتے تو یہ خلا پر ہوجاتا ؟
کیا انہیں دو چار فیصد کے عصری درسگاہوں کے بجائے دینی درسگاہوں کا رخ کرنے کی وجہ سے امت زوال پزیر کا شکار ہے؟
کیا ان کی ضلالت وگمراہی کے شکار بھٹکی ہوئی انسانیت کی رہنمائی ہی اس کا سبب ہے؟
کیا مدارس و خانقاہ اور مسجد ومحراب میں بیٹھ کر امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی پار لگانے کی خاطر دعاؤ کے قابل افراد بنانے کا بیڑا اٹھانے والے مدارس ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟
خدارا سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کیجئے، تاریخ سے مدد لیجئے 1857 کی ناکامی کے بعد جب دلی اجڑ گئی دلی کے تقریبا ایک ہزار مدارس کا وجود مٹ گیا عیسائی مشنریاں ہر طرف کام کرنے لگی، دین اسلام اور اسکی نمائندگی کرنے والے ہی ان کے اصل نشانے پرتھے، اسلامی تہذیب و ثقافت کو نیست و نابود کیا جانے لگا، غرض ہمارا پورا نطام الٹ کر رکھ دیا گیا، مدارس ختم کر دیئے گئے اور تعلیمی نطام درہم برہم کردیا تھا، اس وقت ہر جہت سے انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دو نقطہ نظر وجود میں آئے، ایک نے تہذیب وثقافت کی حفاطت اور دین و ایمان کی نشر و اشاعت کا بیڑا اٹھایا، اسلامی آثار و شعار امت مسلمہ کی دینی رہنمائی کے لئے افراد تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی، حکومتی امداد و اعانت سے بےپرواہ ہوکر اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے ہر میدان میں کام کرنے کے لئے عوام سے رابطہ شروع کیا، ان سے چندے مانگے، ان سے تعاون کے لئے رجوع کیا، گھر گھر دستک دی، زکاة وصدقات کے لئے دست سوال دراز کیا، لوگوں کے طعنے سنے اپنی عزت نفس کا بھی خیال باقی نہ رہ گیا، اس کے لئے عوام کے سامنے اپنی جھولیاں تک پھیلائی، راتوں کو روئے گڑگڑائے لیکن قرآن و سنت کی تعلیمات کی کو باقی رکھا، اسلامی تہذیب وثقافت کی ہر طرح حفاظت کی، آج ہم فخر کے ساتھ خم ٹھوک کر کہہ سکتے ہیں برصغیر کے اندر آج اسلام کے جو آثار نطر ارہے ہیں یہ انہی محنتوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے، ممبر ومحراب جو آباد ہیں اور ہر طرف اذان کی صدائیں جو بلند ہورہی ہیں یہ اسی گروہ کی مرحون منت ہے.
اسی کے ساتھ ایک دوسرے نقطہء نطر کے حاملین نے انگریزوں سے مقابلے کے لئے قوم کوجدید علوم سے آراستہ کرنے اور سانئس و ٹکنالوجی کے ماہرین پیدا کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا، ان کو اس کام کے لئے ریاستی مشنری کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی، سرکاری امداد بھی حاصل کیں، قومی خزانے کا خوب استعمال کیا لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں اس قوم کی ہمسری نہ کرسکے، اور اپنی ناکامی کا ٹھیکرا مولویوں کے سر پھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے خود الٹا علماء کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں.
آج کے عصری درسگاہوں و دانشکدوں سے سوال ہے کہ ذرا سنجیدگی سے سوچئے اور انصاف سےکام لیجئے کہ نا اہل کون ثابت ہوااور اپنی ذمہ داری میں کوتاہ کون ثابت ہوا موازنہ کیجئے کہ اگر آج ملک کے کسی گوشے میں دینی تعلیم کا بندوبست نہیں ہے قرآن وسنت کی رہنمائی لوگوں کو حاصل نہیں ہے اگر مساجد میں ائمہ اور ممبر کے لئے خطبا نہیں مل رہے ہیں قرآن کی تعلیم کے لئے بہتریں قاری کا نظم نہیں ہے رمضان المبارک میں حفاظ کی ایک بڑی جماعت میسر نہیں ہے دینی رہنمائی کے لئے علماء و مفتیان کرام نکاح وجنازہ کے لئے افراد سے ملک کا کوئی گوشہ خالی ہے ؟
اگر اپ کے یہ سب امور انجام پارہے ہیں تو پھر مدارس وعلماءاپنے مقصد میں پورے طور پرکامیاب ہیں ان پراعتراض ناانصافی ہے
اور اگر ملک میں مسلمان سائنس جدیدٹیکنالوجی کے میدان میں دیگر لوگوسے پیچھے ہیں عصری علوم جدید لسانیات میں ان کی ہمسری نہین کر سکتے تو یہ قصور ان لوگون کا کہلائے جس نے اس کی ذمہ داری اٹھائی تھی اور اسکے لئے سرکاری خزانے کو استعمال کیا جنہیں حکومت کی طرف سے ہر طرح کی نصرت و امداد میسر رہی جو معاشی اعتبار سے ہرطرح سے مطمئن تھے خدارا اس کے لئے بھی علماء کو مدارس کو ذمہ دار نہ ٹھرائیں کیونکہ اس کی ذمہ داری جس نے لی وہی دراصل اس کےلئے جواب دہ ہے اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے علماء و مدارس سے اس کے بارے میں سوال نہ کیا جائے.
امید ہے کہ اس طرح کے شکوک و شبہات اور اس طرح کے سوالات کرنے والے غور فرمائیں گے.
