اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: تین طلاق پر حکومت کا مجوزہ قانون شریعت میں مداخلت اور عورتوں کیلئے نقصاندہ: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 4 December 2017

تین طلاق پر حکومت کا مجوزہ قانون شریعت میں مداخلت اور عورتوں کیلئے نقصاندہ: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

نئی دہلی(آئی این اے نیوز 4/دسمبر 2017) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری و ترجمان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ حکومت نے ’مسلم ویمن پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج‘ کی تفصیلات تو واضح نہیں کی ہے لیکن حکومت کی طرف سے یہ بات آئی ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دے گی اور اس کی وجہ سے شوہر کو تین سال جیل کی سزا ہوگی، انہوں نے جاری اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ یہ مجوزہ قانون شریعت میں مداخلت بھی ہے اور عورتوں کے لئے نقصاندہ بھی، تین طلاق دینا اسلام میں ناپسندیدہ ہے اور مسلم پرسنل لابورڈ ایسے واقعات کو کم کرنے کے لئے مسلسل اصلاح معاشرہ اور تفہیم شریعت کی تحریک چلا رہا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بہرحال یہ مذہبی مسئلہ ہے، تین طلاق کے واقعات کو کس طرح روکا جائے اور اس پر شوہر کو تنبیہ کا کیا طریقہ ہو؟ اس سلسلہ میں حکومت کو مسلمانوں کے معتبر مذہبی قائدین بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے مشورہ کرنا چاہیئے تاکہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ طلاق دینے والے شوہر کو تین سال کے لئے جیل بھیج دینا خود عورتوں کے مفاد میں نہیں ہوگا، اگر مطلقہ کے بچے ہوں تو ان کے نفقہ کی ذمہ داری اسی مرد پر ہے، اگر وہ جیل چلا گیا تو ان بچوں کی کفالت کس طرح ہوگی؟ اس کا دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ جو لوگ طلاق دینا چاہتے ہیں،وہ طلاق تو نہیں دیں گے، لیکن یوں ہی بیوی کو لٹکا کر رکھیں گے، نہ اس  کو ازدواجی حقوق مل سکیں گے اور نہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے کے لئے آزاد رہ سکیں گے۔
مولانا خالد سیف اللہ نے کہا کہ اس کے علاوہ اگرحکومت سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے مطابق تین طلاق کو غیر معتبر قرار دیتی ہے تو پھر مرد کو سزا دینا بے معنی ہوگا، کیوں کہ جب طلاق پڑی ہی نہیں تو پھر سزا کس بات کی؟ اور یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیئے کہ اگر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے مطابق طلاق کو بالکل غیر معتبر قرار دیا گیا تو عورت سخت دشواری میں پڑ جائے گی، کیوں کہ قانون کی نظر میں وہ طلاق دینے والے مرد کی بیوی سمجھی جائے گی اور مسلم سماج اس کو بیوی تسلیم نہیں کرے گا، اس سے بڑی پیچیدگی پیدا ہوگی،ـانہوں نے کہا کہ اگرحکومت واقعی تین طلاق دی جانے والی خواتین کے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے تو اسے مسلم پرسنل لابورڈ، مذہبی تنظیموں اور مسلم سماج کی معتبر مذہبی شخصیتوں سے مشورہ کرنا چاہیئے اور عجلت میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاناچاہیئے جس سے دستور کے تقاضے مجروح ہوں اور مسلمانوں کے مذہبی حقوق میں مداخلت کی صورت پیدا ہو۔