تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عارف باللہ شیخ طریقت پیر و مرشد حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ صاحب پھولپوری نوراللہ مرقدہ کل بروز جمعرات 10 ربیع الاول 1439ھ مطابق 30 نومبر 2017 سعودی عرب کے ٹائم کے مطابق تقریباً صبح آٹھ بجے جزیرۃ العرب مکةالمکرمہ وادی بطحا سے اس دار فانی سے دار ابدی کی طرف کوچ کر گئے ہیں
(انا للہ و انا الیہ راجعون )
حضرت مفتی صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ کا شمار وقت کے علمائے ربانین میں ہوتا تھا، آپ مشرقی اترپردیش کی شہرت یافتہ عظیم دینی درسگاہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ کے معتمد اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے.
سلسلہ نسب
آپ کا نام محمد عبداللہ بن ابوالبرکات بن شاہ عبدالغنی بن شیخ عبدالوہاب بن شیخ امانت اللہ ہے
حضرت شیخ امانت اللہ اپنے وقت کے ولی کامل صاحب نسبت بزرگ تھے آپ کا اصلاحی تعلق مرزا مظہر جان جاناں کے خانوادے سے تھا، اور حضرت مفتی صاحب کے دادا جان حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب نوراللہ مرقدہ بھی پایہ کے صاحب نسبت بزرگ تھے علوم ظاہری میں کمال پیدا کرنے کے بعد علوم باطنی یعنی تصوف کی طرف توجہ دی اور اپنے زمانہ کے مجدد محقق و مصنف حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ سے اصلاحی قائم کرکے اس راہ میں بھی کمال پیدا کیا، اور حضرت مفتی صاحب بھی خود علم و عمل کے چراغ تزکیہ و نفوس کے ماہر طبیب تھے، جن کو دیکھ کر خدا کی یاد تازہ ہوجائے آپ نے اپنا اصلاحی تعلق محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی نوراللہ مرقدہ سے قائم کیا تھا اور ان کے اجل خلیفہ میں سے بھی تھے.
جائے پیدائش
حضرت مفتی صاحب کی ولادت اعظم گڑھ کے مشہور و معروف گاؤں آنوک میں ہوئی تھی جہاں حضرت کا نانیہال بھی تھا، پیدائش کے وقت دادا جان حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب نوراللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ یہ بچہ میرے علم کا جانشین بنے گا اور آج مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ کے علم کی گہرائی و گیرائی اور تزکیہ نفس سے ہند و پاک ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں ہر فرد بشر واقف ہے.
تعلیم و تعلم
حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ نے مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ سے حفظ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عربی کی بھی تعلیم وہیں سے حضرت مولانا سجاد صاحب نوراللہ مرقدہ خلیفہ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ اور اس وقت کے ناظم اعلی مولانا عبدالقیوم صاحب بکھرا وی ودیگر اساتذہ سے حاصل کی بعدہ مظاہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا عالمیت و افتاء کی تعلیم کی وہاں سے حاصل کی اور اس وقت کے ناظم اعلی مفتی مظفر حسین نور اللہ مرقدہ اور شیخ الحدیث حضرت شیخ یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا.
فراغت کے بعد مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم میں شعبہ عربی کے استاذ مقرر ہوئے، ان کی صلاحیت و صالحیت کو دیکھ کر ذمہ داران مدرسہ نے نائب ناظم کی ذمہ داری تفویض کی اس وقت بیت العلوم کے ناظم اعلی حضرت ہردوئی نوراللہ مرقدہ تھے ان کی وفات کے بعد حضرت مفتی صاحب کو وہاں کا ناظم اعلی بنا دیا گیا.
حضرت مفتی صاحب سے میری پہلی اور آخری ملاقات
آج سے تقریباً دو سال قبل جب کہ دارالعلوم وقف دیوبند میں دورہ حدیث شریف کا طالب علم ہوا کرتا تھا، سال کا آخر تھا، انجمنوں کے اختتامی پروگرام زور شور سے چل رہے تھے، طلبہ ضلع اعظم گڑھ کی انجمن بزم شاہ عبدالغنی کی بھی تیاریاں عروج پر تھیں، کہ اچانک یہ پر مسرت خبر ملی کہ آج ہی کل میں حضرت مفتی کا سفر بجنور، مرادآباد، نانوتہ، گنگوہ اور دیوبند کا ہونے والا ہے.
ہم طلبہ اعظم گڑھ نے سوچا کہ کیوں نہ مفتی صاحب ہماری انجمن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے، اور وقف دارالعلوم کی انجمن بھی مفتی صاحب کے دادا جان کے نام سے موسوم ہے ، بہرحال حضرت مفتی صاحب کے صاحبزادے مفتی اجود اللہ صاحب سے رابطہ کرکے پوری تفصیل بتایا کہ جس دن حضرت دیوبند میں رہیں گے اسی دن ہم طلبہ ضلع اعظم گڑھ کا اختتامی پروگرام ہے حضرت مفتی صاحب کی شرکت ہمارے لیے باعث فخر ثابت ہوگی، تو انہوں نے حضرت مفتی صاحب کو پوری تفصیل بتائی، اور مفتی صاحب شرکت کے لیے تیار ہوگئے، ادھر ہم لوگوں کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا ہر کوئی اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھا کہ اچانک مدرسے کے ذمہ داران نے ذمہ داران انجمن کو دفتر میں حاضر ہونے کو کہا، جب یہ خبر مجھ تک پہنچی تو تھوڑی دیر سوچا کہ آخر دفتر سے کیوں بلاوا آیا ہے مفتی صاحب کے آنے کی خبر تو پہلے بتا کر اجازت لے چکا تھا، بہر کیف دیگر احباب کو لوا کر دفتر حاضر ہوا، مدرسے کے ذمہ داران نے ہم لوگوں سے کہا کہ دیکھو ہم لوگ آپ لوگوں کے جذبات کو سلام کرتے ہیں اور اس جذبات میں ہم بھی حصہ لینا چاہتے ہیں،
تو میں نے کہا مطلب؟
تو ذمہ داران نے کہا کہ دیکھو مفتی صاحب کی شخصیت بڑی ہے وہ پایہ کے عالم دین ہیں ہم لوگ سوچتے ہیں کہ نہ صرف اعظم گڑھ بلکہ پورے مدرسے کی طرف سے مفتی صاحب کا والہانہ استقبال کیا جائے، آگے چل کر کچھ ایسا ہی ہوا اور مدرسے میں ہونے والے شعبہ مناظرہ کے اختتامی پروگرام میں بطور حکم کے شرکت کی، اور اسی پروگرام میں بزم شاہ عبدالغنی طلبہ ضلع اعظم گڑھ کی طرف سے حضرت مفتی صاحب کی شان میں عزیزم محمد ساجد اعظمی نے سپاس نامہ پیش کیا، یہ وہی مبارک و مسعود دن تھا جس دن حضرت سے پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اب یہ کس کو معلوم تھا کہ یہ پہلی اور آخری ملاقات ہوجائے گی.
نماز جنازہ کل ہی بعد نماز عشاء مسجد الحرام میں امام حرم شیخ خالد الغامدي نے پڑھائی اور تدفین جنت المعلی میں ہوئی اس دنیائے فانی میں بہت کم ہی لوگ ایسے ہیں جن کو یہاں دفن کرنے کی اجازت ملتی ہے والد محترم نے بھی جنازے کی نماز میں شرکت کی تھی.
خداوند متعال حضرت مفتی صاحب کے درجات کو بلند فرمائے اعلٰی علیین میں مقام خاص عطاء فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ملت اسلامیہ کو خصوصاً مدرسہ عربیہ بیت العلوم کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے آمیـــن ثم آمــــین.
ـــــــــــعــــــــــ
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عارف باللہ شیخ طریقت پیر و مرشد حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ صاحب پھولپوری نوراللہ مرقدہ کل بروز جمعرات 10 ربیع الاول 1439ھ مطابق 30 نومبر 2017 سعودی عرب کے ٹائم کے مطابق تقریباً صبح آٹھ بجے جزیرۃ العرب مکةالمکرمہ وادی بطحا سے اس دار فانی سے دار ابدی کی طرف کوچ کر گئے ہیں
(انا للہ و انا الیہ راجعون )
حضرت مفتی صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ کا شمار وقت کے علمائے ربانین میں ہوتا تھا، آپ مشرقی اترپردیش کی شہرت یافتہ عظیم دینی درسگاہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ کے معتمد اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے.
سلسلہ نسب
آپ کا نام محمد عبداللہ بن ابوالبرکات بن شاہ عبدالغنی بن شیخ عبدالوہاب بن شیخ امانت اللہ ہے
حضرت شیخ امانت اللہ اپنے وقت کے ولی کامل صاحب نسبت بزرگ تھے آپ کا اصلاحی تعلق مرزا مظہر جان جاناں کے خانوادے سے تھا، اور حضرت مفتی صاحب کے دادا جان حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب نوراللہ مرقدہ بھی پایہ کے صاحب نسبت بزرگ تھے علوم ظاہری میں کمال پیدا کرنے کے بعد علوم باطنی یعنی تصوف کی طرف توجہ دی اور اپنے زمانہ کے مجدد محقق و مصنف حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ سے اصلاحی قائم کرکے اس راہ میں بھی کمال پیدا کیا، اور حضرت مفتی صاحب بھی خود علم و عمل کے چراغ تزکیہ و نفوس کے ماہر طبیب تھے، جن کو دیکھ کر خدا کی یاد تازہ ہوجائے آپ نے اپنا اصلاحی تعلق محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی نوراللہ مرقدہ سے قائم کیا تھا اور ان کے اجل خلیفہ میں سے بھی تھے.
جائے پیدائش
حضرت مفتی صاحب کی ولادت اعظم گڑھ کے مشہور و معروف گاؤں آنوک میں ہوئی تھی جہاں حضرت کا نانیہال بھی تھا، پیدائش کے وقت دادا جان حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب نوراللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ یہ بچہ میرے علم کا جانشین بنے گا اور آج مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ کے علم کی گہرائی و گیرائی اور تزکیہ نفس سے ہند و پاک ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں ہر فرد بشر واقف ہے.
تعلیم و تعلم
حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ نے مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ سے حفظ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عربی کی بھی تعلیم وہیں سے حضرت مولانا سجاد صاحب نوراللہ مرقدہ خلیفہ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ اور اس وقت کے ناظم اعلی مولانا عبدالقیوم صاحب بکھرا وی ودیگر اساتذہ سے حاصل کی بعدہ مظاہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا عالمیت و افتاء کی تعلیم کی وہاں سے حاصل کی اور اس وقت کے ناظم اعلی مفتی مظفر حسین نور اللہ مرقدہ اور شیخ الحدیث حضرت شیخ یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا.
فراغت کے بعد مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم میں شعبہ عربی کے استاذ مقرر ہوئے، ان کی صلاحیت و صالحیت کو دیکھ کر ذمہ داران مدرسہ نے نائب ناظم کی ذمہ داری تفویض کی اس وقت بیت العلوم کے ناظم اعلی حضرت ہردوئی نوراللہ مرقدہ تھے ان کی وفات کے بعد حضرت مفتی صاحب کو وہاں کا ناظم اعلی بنا دیا گیا.
حضرت مفتی صاحب سے میری پہلی اور آخری ملاقات
آج سے تقریباً دو سال قبل جب کہ دارالعلوم وقف دیوبند میں دورہ حدیث شریف کا طالب علم ہوا کرتا تھا، سال کا آخر تھا، انجمنوں کے اختتامی پروگرام زور شور سے چل رہے تھے، طلبہ ضلع اعظم گڑھ کی انجمن بزم شاہ عبدالغنی کی بھی تیاریاں عروج پر تھیں، کہ اچانک یہ پر مسرت خبر ملی کہ آج ہی کل میں حضرت مفتی کا سفر بجنور، مرادآباد، نانوتہ، گنگوہ اور دیوبند کا ہونے والا ہے.
ہم طلبہ اعظم گڑھ نے سوچا کہ کیوں نہ مفتی صاحب ہماری انجمن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے، اور وقف دارالعلوم کی انجمن بھی مفتی صاحب کے دادا جان کے نام سے موسوم ہے ، بہرحال حضرت مفتی صاحب کے صاحبزادے مفتی اجود اللہ صاحب سے رابطہ کرکے پوری تفصیل بتایا کہ جس دن حضرت دیوبند میں رہیں گے اسی دن ہم طلبہ ضلع اعظم گڑھ کا اختتامی پروگرام ہے حضرت مفتی صاحب کی شرکت ہمارے لیے باعث فخر ثابت ہوگی، تو انہوں نے حضرت مفتی صاحب کو پوری تفصیل بتائی، اور مفتی صاحب شرکت کے لیے تیار ہوگئے، ادھر ہم لوگوں کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا ہر کوئی اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھا کہ اچانک مدرسے کے ذمہ داران نے ذمہ داران انجمن کو دفتر میں حاضر ہونے کو کہا، جب یہ خبر مجھ تک پہنچی تو تھوڑی دیر سوچا کہ آخر دفتر سے کیوں بلاوا آیا ہے مفتی صاحب کے آنے کی خبر تو پہلے بتا کر اجازت لے چکا تھا، بہر کیف دیگر احباب کو لوا کر دفتر حاضر ہوا، مدرسے کے ذمہ داران نے ہم لوگوں سے کہا کہ دیکھو ہم لوگ آپ لوگوں کے جذبات کو سلام کرتے ہیں اور اس جذبات میں ہم بھی حصہ لینا چاہتے ہیں،
تو میں نے کہا مطلب؟
تو ذمہ داران نے کہا کہ دیکھو مفتی صاحب کی شخصیت بڑی ہے وہ پایہ کے عالم دین ہیں ہم لوگ سوچتے ہیں کہ نہ صرف اعظم گڑھ بلکہ پورے مدرسے کی طرف سے مفتی صاحب کا والہانہ استقبال کیا جائے، آگے چل کر کچھ ایسا ہی ہوا اور مدرسے میں ہونے والے شعبہ مناظرہ کے اختتامی پروگرام میں بطور حکم کے شرکت کی، اور اسی پروگرام میں بزم شاہ عبدالغنی طلبہ ضلع اعظم گڑھ کی طرف سے حضرت مفتی صاحب کی شان میں عزیزم محمد ساجد اعظمی نے سپاس نامہ پیش کیا، یہ وہی مبارک و مسعود دن تھا جس دن حضرت سے پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اب یہ کس کو معلوم تھا کہ یہ پہلی اور آخری ملاقات ہوجائے گی.
نماز جنازہ کل ہی بعد نماز عشاء مسجد الحرام میں امام حرم شیخ خالد الغامدي نے پڑھائی اور تدفین جنت المعلی میں ہوئی اس دنیائے فانی میں بہت کم ہی لوگ ایسے ہیں جن کو یہاں دفن کرنے کی اجازت ملتی ہے والد محترم نے بھی جنازے کی نماز میں شرکت کی تھی.
خداوند متعال حضرت مفتی صاحب کے درجات کو بلند فرمائے اعلٰی علیین میں مقام خاص عطاء فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ملت اسلامیہ کو خصوصاً مدرسہ عربیہ بیت العلوم کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے آمیـــن ثم آمــــین.
ـــــــــــعــــــــــ
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا