رپورٹ: محمد اسعد فلاحی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نئی دہلی(آئی این اے نیوز 2/دسمبر 2017) مرکز جماعت اسلامی ہند میں تعلیمی وفاق ( فیڈریشن آف مسلم ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس ، (انڈیا) کی جانب سے نئی دہلی میں تین روزہ ورک شاپ (2 تا 4 دسمبر) کا آغاز ہوا، جس میں ملک کے مختلف صوبوں سے تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ورک شاپ کی ابتداء ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی کی تذکیر با لحدیث سے ہوئی۔ ابتدائی کلمات ، امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے پیش کیے۔ انھوں نے فرمایاکہ انسان کی ترقی تعلیم سے وابستہ ہے۔ جو بھی قوم تعلیم کے میدان میں آگے ہوگی وہ دنیا کی امامت کرے گی۔ علم ہی کی وجہ سے سماج میں انسان کا رتبہ بلند ہوتا ہے۔ اگرایک شخص تعلیم یافتہ ہو اور اس کے مقابلے میں حکم ران وقت جو تعلیم یافتہ نہ ہو، تولوگ تعلیم یافتہ شخص کو زیادہ عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
مولانا عمری نے مزید فرمایا کہ تعلیم کے بغیر ترقی کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ علم وہ شئی ہے جو انسان محنت کرکے حاصل کرتا ہے۔ یہ کسی کو بھی وراثت میں نہیں ملتا۔ اس لیے مسلمانوں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئیے کہ علم کے میدان میں ترقی کا پرچم لہرائیں۔ مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمان علم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں، دینی اعتبار سے بھی اور دنیاوی اعتبار سے بھی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی حکومتوں نے مسلمانوں کو کہاں پہنچادیا ہے، بالخصوص تعلیم کے میدان میں وہ بہت پچھڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو اپنا ٹارگیٹ بنائیں۔ نئے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کوشش کریں اور جو ادارے موجود ہیں، ان کے معیار کو بہتر کرنے کی کوش کریں۔ مولانا عمری نے اس بات کا یقین دلا یا کہ تعلیم کے میدان میں جو لوگ اپنی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں ، جماعت اسلامی ان کے لیے ہر طریقے سے تعاون کرنے کی کوشش کرے گی۔
فیڈریشن آف مسلم ایجو کیشنل انسٹی ٹیوشنس کے صدر ڈاکٹر منظور احمد نے استقالیہ گفتگو میںفرمایا کہ تعلیم کا ہر دریا اسلام کے دریا سے ملتا ہے۔ آج جو تعلیمی ، فکری اور نظریاتی باتیں ہو رہی ہیں وہ اسی دور نبویؐ اور دور خلفاء کی دین ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ پہلے قلم تھا، اب اس کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ ہمیں اس علم کو مزید آگے بڑھانا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم لوگوں کو گورمنٹ اسکیموں کے بارے میںبہت کم وقفیت ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ ان اسکیموں سے لوگوں کو آگاہ کریں اور ان سے فائدہ اٹھانے میں تعلیمی ادروں کو جو پریشانیاں اور رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
اس نیشنل ورک شاپ کے مہمان خصوصی جناب جسٹس سہیل احمد صدیقی تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترقی اور خوش حالی کا ہر راستہ تعلیم کے میدان سے ہوکر گزرتا ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان کو ترقی کے منازل طے کرنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے۔ جو قوم تعلیم کے میدان میں پیچھے رہتی ہے وہ زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ ہمارے آباء و اجداد نے جو تاریخی کارنامے انجام دیے تھے وہ یقینا قابل فخر ہیں، لیکن وہ اب صرف تاریخ بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم ان کو بیان کر کے فخر تو کرتے ہیں، مگر ان کی طرح بڑے بڑے کارنامے انجام دینے سے قاصر ہیں۔
موصوف نے مدارس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کا ہندوستان کے مسلمانوں کی ترقی میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ وہاں کردار کی آب یاری کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدارس ہماری تہذیب کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے علم، عمل اور کردار کی روشنی سے ہمارے گھروں کو منور کیے ہوئے ہیں۔ اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو ہم اپنی ملی شناخت کھو بیٹھتے۔
جسٹس سہیل نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بات جاننا بے حد ضروری ہے کہ ہمارا آئین ہمیں کس طرح کی آزادی اور حقوق فراہم کرتا ہے۔ہندوستان کا آئین دنیا کا سب سے بہترین آئین ہے۔ملک کے آئین میں آرٹیکل 25، 26، 29 اور 30 بہت اہم ہیں اور ان کا جاننا ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے۔ آرٹیکل 25 میں انسان کے بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے، اس میں ہر ہندوستانی کو یہ آزادی دی گئی ہے وہ اپنے مذہب پر عمل کرے۔ آرٹیکل 26 میں مذہبی ادارے کھولنے کی آزادی ہے اور آرٹیکل 29 میں ہر شہری کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی تہذیب کو قائم رکھے۔ آرٹیکل 30 ،اقلیتوں کے لیے ہے۔ اس کے تحت شہریوں کو ادارے قائم کرنے کی آزادی ہے۔ ان معاملات میں جب تک کوئی ادارہ بد نظمی کا شکار نہ ہو جائے، حکومت بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔
فیڈریشن کے جنرل سکریٹری ،جناب محمد احمد نے کہا کہ اس وقت ہم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے اداروں میں معیار کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے ہی فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ ملک میں موجود تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کرنے میں تعاون کیا جائے، مختلف سرکاری اسکیموں کا تعارف کرایا جائے اور ان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں اور پریشانیوںدور کرنے کی کوشش کرہے۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض فیڈریشن کے نیشنل کوارڈینیٹر انعام الرحمن نے انجام دیے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نئی دہلی(آئی این اے نیوز 2/دسمبر 2017) مرکز جماعت اسلامی ہند میں تعلیمی وفاق ( فیڈریشن آف مسلم ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس ، (انڈیا) کی جانب سے نئی دہلی میں تین روزہ ورک شاپ (2 تا 4 دسمبر) کا آغاز ہوا، جس میں ملک کے مختلف صوبوں سے تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ورک شاپ کی ابتداء ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی کی تذکیر با لحدیث سے ہوئی۔ ابتدائی کلمات ، امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے پیش کیے۔ انھوں نے فرمایاکہ انسان کی ترقی تعلیم سے وابستہ ہے۔ جو بھی قوم تعلیم کے میدان میں آگے ہوگی وہ دنیا کی امامت کرے گی۔ علم ہی کی وجہ سے سماج میں انسان کا رتبہ بلند ہوتا ہے۔ اگرایک شخص تعلیم یافتہ ہو اور اس کے مقابلے میں حکم ران وقت جو تعلیم یافتہ نہ ہو، تولوگ تعلیم یافتہ شخص کو زیادہ عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
مولانا عمری نے مزید فرمایا کہ تعلیم کے بغیر ترقی کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ علم وہ شئی ہے جو انسان محنت کرکے حاصل کرتا ہے۔ یہ کسی کو بھی وراثت میں نہیں ملتا۔ اس لیے مسلمانوں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئیے کہ علم کے میدان میں ترقی کا پرچم لہرائیں۔ مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمان علم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں، دینی اعتبار سے بھی اور دنیاوی اعتبار سے بھی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی حکومتوں نے مسلمانوں کو کہاں پہنچادیا ہے، بالخصوص تعلیم کے میدان میں وہ بہت پچھڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو اپنا ٹارگیٹ بنائیں۔ نئے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کوشش کریں اور جو ادارے موجود ہیں، ان کے معیار کو بہتر کرنے کی کوش کریں۔ مولانا عمری نے اس بات کا یقین دلا یا کہ تعلیم کے میدان میں جو لوگ اپنی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں ، جماعت اسلامی ان کے لیے ہر طریقے سے تعاون کرنے کی کوشش کرے گی۔
فیڈریشن آف مسلم ایجو کیشنل انسٹی ٹیوشنس کے صدر ڈاکٹر منظور احمد نے استقالیہ گفتگو میںفرمایا کہ تعلیم کا ہر دریا اسلام کے دریا سے ملتا ہے۔ آج جو تعلیمی ، فکری اور نظریاتی باتیں ہو رہی ہیں وہ اسی دور نبویؐ اور دور خلفاء کی دین ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ پہلے قلم تھا، اب اس کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ ہمیں اس علم کو مزید آگے بڑھانا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم لوگوں کو گورمنٹ اسکیموں کے بارے میںبہت کم وقفیت ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ ان اسکیموں سے لوگوں کو آگاہ کریں اور ان سے فائدہ اٹھانے میں تعلیمی ادروں کو جو پریشانیاں اور رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
اس نیشنل ورک شاپ کے مہمان خصوصی جناب جسٹس سہیل احمد صدیقی تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترقی اور خوش حالی کا ہر راستہ تعلیم کے میدان سے ہوکر گزرتا ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان کو ترقی کے منازل طے کرنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے۔ جو قوم تعلیم کے میدان میں پیچھے رہتی ہے وہ زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ ہمارے آباء و اجداد نے جو تاریخی کارنامے انجام دیے تھے وہ یقینا قابل فخر ہیں، لیکن وہ اب صرف تاریخ بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم ان کو بیان کر کے فخر تو کرتے ہیں، مگر ان کی طرح بڑے بڑے کارنامے انجام دینے سے قاصر ہیں۔
موصوف نے مدارس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کا ہندوستان کے مسلمانوں کی ترقی میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ وہاں کردار کی آب یاری کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدارس ہماری تہذیب کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے علم، عمل اور کردار کی روشنی سے ہمارے گھروں کو منور کیے ہوئے ہیں۔ اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو ہم اپنی ملی شناخت کھو بیٹھتے۔
جسٹس سہیل نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بات جاننا بے حد ضروری ہے کہ ہمارا آئین ہمیں کس طرح کی آزادی اور حقوق فراہم کرتا ہے۔ہندوستان کا آئین دنیا کا سب سے بہترین آئین ہے۔ملک کے آئین میں آرٹیکل 25، 26، 29 اور 30 بہت اہم ہیں اور ان کا جاننا ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے۔ آرٹیکل 25 میں انسان کے بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے، اس میں ہر ہندوستانی کو یہ آزادی دی گئی ہے وہ اپنے مذہب پر عمل کرے۔ آرٹیکل 26 میں مذہبی ادارے کھولنے کی آزادی ہے اور آرٹیکل 29 میں ہر شہری کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی تہذیب کو قائم رکھے۔ آرٹیکل 30 ،اقلیتوں کے لیے ہے۔ اس کے تحت شہریوں کو ادارے قائم کرنے کی آزادی ہے۔ ان معاملات میں جب تک کوئی ادارہ بد نظمی کا شکار نہ ہو جائے، حکومت بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔
فیڈریشن کے جنرل سکریٹری ،جناب محمد احمد نے کہا کہ اس وقت ہم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے اداروں میں معیار کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے ہی فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ ملک میں موجود تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کرنے میں تعاون کیا جائے، مختلف سرکاری اسکیموں کا تعارف کرایا جائے اور ان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں اور پریشانیوںدور کرنے کی کوشش کرہے۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض فیڈریشن کے نیشنل کوارڈینیٹر انعام الرحمن نے انجام دیے۔