تحریر: محمد اُسامہ ثمرؔ
متعلم جامعہ فیض عام دیوگاؤں اعظم گڑھ
ـــــــــــــــــــــــ
شیخ الحدیث والفقہ جامعہ فیض عام کے اُستادِ محترم حضرت مولانا محمد سرورؔ صاحب قاسمی کی وفات حسرت آیات پر سمجھ ہی میں نہیں آرہا کہ آنسؤوں کو یکجا کرکے الفاظ کا جامہ کیسے پہناؤں ؟؟؟
دلِ نحیف کی مغموم و محزون صداؤں کو تحریر کی زبان کیسے عطا کروں ؟؟؟ شکستہ و مفلوج وجود کو دست و پا کیسے عنایت کروں ؟؟؟
جبکہ آج ہمارے محبوب ادارہ جامعہ فیض عام کے سر کا تاج، پیشانی کا جھومر، مخلص و نیک طینت، عصرِ حاضر کے عظیم داعی اور شاعرِ بے مثال میرے بڑے ہی مُخلص و مُشفق اُستادِ محترم حضرت مولانا محمد سرورؔ صاحب قاسمی ہمیں روتے بِلکتے، سسکیاں لیتے اور ہچکیاں مارتے ہوئے بحکمِ قضاء اِلٰھی اِس دارِ فانی کو خیرآباد کہہ کر دارِ بقا کی طرف خراماں خراماں روانہ ہوگئے ( اِنّاَلِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)
آپ رحمہ اللہ کی وفات سے جامعہ فیض عام کے گلشن میں جو خلا پیدا ہوا ہے اُسکا پُر ہونا ناممکن تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
لَا تَقْنَطُوْ مِنْ رّحْمَۃِ الّٰلہ.
لیکن مشکل تو ضرور نظر آرہا ہے کیونکہ آپ رحمہ اللہ آج کے اِس پُرفِتن دور میں رَبِّ ذُواْلجَلَال کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے، آپکی پوری زندگی مجھادہ و لِلّٰہیت سے آراستہ و پیراستہ تھی، آپ کو نہ تو کبھی کسی عہدہ و منصب کی خواہش تھی اور نہ ہی کسی کے داد و تحسین کی تمنا، بلکہ میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت رحمہ اللہ کی لغت میں رِیا، تکبر اور نام و نمود مثلِ عنقاء تھا، میں جب بھی حضرت رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اُنھیں احادیث و فقہ کی کتاب میں مستغرق ہی پاتا، میرے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ مجھے بھی حضرت کے سامنے زانووے تلمذ تہ کرنے کا شرف حاصل ہوا جس میں حضرت نے ہم کو اصول فقہ کی مشہور کتب "اصول الشاشی، نورالانوار اور حُسامی" اسی طرح عربی ادب کی مشکل ترین مانی جانے والی کتاب ”المقامات الحریریہ“ اور فقہ کی سب سے متسند کتاب ”الھدایہ“ کا درس دیا، مزید خوشی کی بات یہ کہ حضرت نے ان تمام کتابوں کی ابتدا مجھ ہی سے عبارت پڑھوا کر کی.
آپ رحمہ اللہ ایک انتہائی عمر کے پہنچ جانے کے باوجود تہجد گزار، اشراق و نوافل اور وقت کے بڑے ہی پابند تھے، شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ تعلیم کا وقت ہو گیا ہو اور حضرت درسگاہ میں موجود نہ ہوں، اور جب حضرت گھر تشریف لے جاتے تھے تو ہم رفقاء درس آپس میں کہتے کہ چلو یار مولانا صاحب تو گھر گئے ہیں اتنی جلدی تھوڑی آئیں گے چلو آج چھٹی کر لی جائے لیکن جب ہم احتیاطاً درس کے وقت انکے کمرہ جاتے تو کیا دیکھتے کہ حضرت رحمہ اللہ کتاب کا مطالعہ فرمارہے ہیں، قربان جائیے اُس مردِ مجاھد پر کہ جو ضعیف العمری کے باوجود تقریباً ٢٠٠ کلو میٹر کا سفر کرکے مدرسہ کے نظام کے مطابق بوقتِ درس درسگاہ میں حاضر ہو جاتا اور تشنگانِ علوم نبویہ کو اپنے بیش بہا علم سے سیراب کرنے بیٹھ جاتا، مجھے تو یہ کہتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ کبھی کبھی ہم لوگوں سے درسگاہ جانے میں تاخیر ہوجاتی تھی، لیکن حضرت اور درسگاہ میں تاخیر؟؟؟
ایں خیال است و محال است و جنوں
اور آپکے درس کے انداز کا تو کیا کہنا، غبی سے غبی طالب علم بھی سمجھنے پر مجبور ہوجاتا، بوقت درس آپ کی آواز میں وہ کشش اور جاذبیت پیدا ہو جاتی تھی کہ اکثر و بیشتر ملازم حضرات بھی آپ کے درس میں آکر بیٹھ جاتے تھے، آپ رحمہ اللہ جامعہ کے تمام اراکین کے ساتھ محبت و خلوص اور خوش دلی کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے
آپ جامعہ کے ننھے منھے (تحتانیہ) بچوں سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے، اور بچے بھی آپ پر مثلِ پروانہ قربان ہونے کو اپنے لئے خوش بختی اور سعادت سمجھتے تھے، بچے حضرت رحمہ اللہ کو پیار سے (دادا دادا) کہہ کر پکارا کرتے تھے، جب بچے حضرت کے کمرہ میں آتے تو آپ فرماتے: ماشاءاللہ ماشاءاللہ
آؤ بچو آؤ بیٹھو
بچوں کو بٹھاتے اگر پاس میں کچھ کھانے پینے کی چیز ہوتی تو بچوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور فرماتے: یہ بچے تو مہمانانِ رسول ہیں، ہمارے جامعہ کے گلشن کی کلی ہیں. جو ان شاءاللہ مستقبل قریب ہی میں مثل گلاب و عنبر بن کر کھِلیں گے اور اس علاقہ کو اپنے خوشبؤوں سے سیراب کریں گے.
ہم تمام رُفقاءدرس جب بھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے میرے بارے میں تو کچھ زیادہ ہی فکر مند تھے میں جب آپ کے کمرہ جاتا سلام و جواب کے بعد پہلا سوال :- اور اُسامہ کیا حال ہے ؟ خیریت سے ہو ؟ خصوصاً میری والدہ محترمہ کی حالت کے بارے میں ضرور دریافت فرمایا کرتے تھے کیونکہ انکی طبیعت اکثر ناساز رہتی ہے حضرت رحمہ اللہ خود بھی دعا کرتے اور مجھے بھی کوئی نہ کوئی دعا یا تجویز وغیرہ ضرور بتلاتے کہ ایسا کرو ان شاء اللہ ضرور شفایاب ہوجائیں گی. بہت تسلی دیا کرتے تھے.
اپنے اوپر کتنا بڑا ہی بوجھ کیوں نہ ہو آپ سے ملاقات کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ غم کا بوجھ دھوئیں کی طرح جانبِ سماء فرار ہوگیا.
حضرت رحمہ اللہ کا مجھ پر بے پناہ احسان ہے کہ آپ گذشتہ ٤سالہ دور میں اپنے اکثر کتابتی کام میں مجھے بھی شریک کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اُسامہ ؛ فلاں عنوان پہ ایک تقریر لکھکر لانا ہے ، فلاں موضوع پہ ایک مضمون لکھنا ہے . اور میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ دیتا اور حضرت کو دکھاتا تو آپ اس میں غلطیوں کی تصحیح فرمادیا کرتے تھے. اسی طرح حضرت نے مجھے اشعار کے چند منتشر مصرعے دئے اور کہا : اسکو ترتیب دیدو اور اگر ضرورت پڑے تو اپنی طرف سے بھی کچھ کمی بیشی کردینا.
حضرت کے حکم پر میں نے ہاں تو کردیا....... لیکن پوری گھنٹی میں سوچتا رہا آخر میں کیسے لکھوں گا ؟ کیسے ترتیب دونگا ؟
لیکن گھر پہنچنے کےبعد جب میں مصرعوں کو ترتیب دینے بیٹھا تو اللہ کا ایسا کرم ہوا کہ جس مصرعے کو میں ترتیب دیتا اسی سے ایک دو مصرعہ اور بن جاتا حتی کہ تقریبا کل ٢٠ ٢٢ اشعار بن گئے جب میں نے ان اشعار کو ڈرتے ڈرتے حضرت کی خدمت کی پیش کیا تو آپ بہہہہت خوش ہوئے ، خوب شاباشی دی اور کہا بیٹا اگر ایسےہی تھوڑا بہت لکھتے رہو گے تو انشاء اللہ کامیابی خود قدمبوسی کیلئے مجبور ہوگی بس ایسے ہی لکھتے رہو.
قارئین کرام!
آپکو بتلاتاچلوں کہ اب تک میرا جو بھی ٹوٹا پھوٹا علمی مشغلہ برقرار ہے وہ سب میرے استاد محترم حضرت مولانا سرورؔ صاحب قاسمی نوّر اللہ مرقدہ کی کاوشوں اور دعاؤں کا ثمرہ ہے.
کیونکہ میں نے اکثر و بیشتر اُمور میں حضرت رحمہ اللہ کی توجہات اور دعائیں شاملِ حال محسوس کی ہیں.
خلاصہ یہ کہ حضرت رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں بہت ہی علمی کارنامہ انجام دیا.
حضرتِ والا کی تبحّرِ علمی اور زھد و تقوی کے باوصف ان کی شگفتہ مزاجی ہر زائر و ملاقاتی کو گرویدہ بنا لیتی ہے، علم و ادراک اور فہم و شعور کے اعتبار سے حضرت رحمہ اللہ نے جامعہ میں ایسی تُخم ریزی کی کہ یہ ویرانہ بہار آفریں گلشن سے مزین و آراستہ ہو گیا اور علاقہء جامعہ اسکی عطربیزی سے مہک اُٹھا، احاطہ جامعہ کی در و دیوار آہیں بھریں گی ، دارالحدیث آپکے دیدار کو ترسےگی ، طلباء و طالبات اب کس سے درس حاصل کریں گے؟؟؟ آپ کی رحلت سے ہر قلب غمگین اور ہر آنکھ اشکبار ہے.
کیا لکھے اور کیا کہے ... بندہ ناتواں کے دستِ نحیف میں اب اتنی سکت نہیں کہ اب اور کچھ سپرد قرطاس کر سکے.
پس بندہءناتواں آپ تمام قارئین سے مؤدبانہ درخواست کرتا ہے کہ استادِمحترم کے حق میں مغفرت کی دعاء فرمائیں.
اللہ عز و جل میرے استاد محترم کی خطاؤں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرماکر اپنی شایانِ شان جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے، حضرت کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، اور جامعہ فیض عام کو حضرت رحمہ اللہ کا نعم البدل عطا فرمائے آمیـــن
متعلم جامعہ فیض عام دیوگاؤں اعظم گڑھ
ـــــــــــــــــــــــ
شیخ الحدیث والفقہ جامعہ فیض عام کے اُستادِ محترم حضرت مولانا محمد سرورؔ صاحب قاسمی کی وفات حسرت آیات پر سمجھ ہی میں نہیں آرہا کہ آنسؤوں کو یکجا کرکے الفاظ کا جامہ کیسے پہناؤں ؟؟؟
دلِ نحیف کی مغموم و محزون صداؤں کو تحریر کی زبان کیسے عطا کروں ؟؟؟ شکستہ و مفلوج وجود کو دست و پا کیسے عنایت کروں ؟؟؟
جبکہ آج ہمارے محبوب ادارہ جامعہ فیض عام کے سر کا تاج، پیشانی کا جھومر، مخلص و نیک طینت، عصرِ حاضر کے عظیم داعی اور شاعرِ بے مثال میرے بڑے ہی مُخلص و مُشفق اُستادِ محترم حضرت مولانا محمد سرورؔ صاحب قاسمی ہمیں روتے بِلکتے، سسکیاں لیتے اور ہچکیاں مارتے ہوئے بحکمِ قضاء اِلٰھی اِس دارِ فانی کو خیرآباد کہہ کر دارِ بقا کی طرف خراماں خراماں روانہ ہوگئے ( اِنّاَلِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)
آپ رحمہ اللہ کی وفات سے جامعہ فیض عام کے گلشن میں جو خلا پیدا ہوا ہے اُسکا پُر ہونا ناممکن تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
لَا تَقْنَطُوْ مِنْ رّحْمَۃِ الّٰلہ.
لیکن مشکل تو ضرور نظر آرہا ہے کیونکہ آپ رحمہ اللہ آج کے اِس پُرفِتن دور میں رَبِّ ذُواْلجَلَال کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے، آپکی پوری زندگی مجھادہ و لِلّٰہیت سے آراستہ و پیراستہ تھی، آپ کو نہ تو کبھی کسی عہدہ و منصب کی خواہش تھی اور نہ ہی کسی کے داد و تحسین کی تمنا، بلکہ میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت رحمہ اللہ کی لغت میں رِیا، تکبر اور نام و نمود مثلِ عنقاء تھا، میں جب بھی حضرت رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اُنھیں احادیث و فقہ کی کتاب میں مستغرق ہی پاتا، میرے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ مجھے بھی حضرت کے سامنے زانووے تلمذ تہ کرنے کا شرف حاصل ہوا جس میں حضرت نے ہم کو اصول فقہ کی مشہور کتب "اصول الشاشی، نورالانوار اور حُسامی" اسی طرح عربی ادب کی مشکل ترین مانی جانے والی کتاب ”المقامات الحریریہ“ اور فقہ کی سب سے متسند کتاب ”الھدایہ“ کا درس دیا، مزید خوشی کی بات یہ کہ حضرت نے ان تمام کتابوں کی ابتدا مجھ ہی سے عبارت پڑھوا کر کی.
آپ رحمہ اللہ ایک انتہائی عمر کے پہنچ جانے کے باوجود تہجد گزار، اشراق و نوافل اور وقت کے بڑے ہی پابند تھے، شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ تعلیم کا وقت ہو گیا ہو اور حضرت درسگاہ میں موجود نہ ہوں، اور جب حضرت گھر تشریف لے جاتے تھے تو ہم رفقاء درس آپس میں کہتے کہ چلو یار مولانا صاحب تو گھر گئے ہیں اتنی جلدی تھوڑی آئیں گے چلو آج چھٹی کر لی جائے لیکن جب ہم احتیاطاً درس کے وقت انکے کمرہ جاتے تو کیا دیکھتے کہ حضرت رحمہ اللہ کتاب کا مطالعہ فرمارہے ہیں، قربان جائیے اُس مردِ مجاھد پر کہ جو ضعیف العمری کے باوجود تقریباً ٢٠٠ کلو میٹر کا سفر کرکے مدرسہ کے نظام کے مطابق بوقتِ درس درسگاہ میں حاضر ہو جاتا اور تشنگانِ علوم نبویہ کو اپنے بیش بہا علم سے سیراب کرنے بیٹھ جاتا، مجھے تو یہ کہتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ کبھی کبھی ہم لوگوں سے درسگاہ جانے میں تاخیر ہوجاتی تھی، لیکن حضرت اور درسگاہ میں تاخیر؟؟؟
ایں خیال است و محال است و جنوں
اور آپکے درس کے انداز کا تو کیا کہنا، غبی سے غبی طالب علم بھی سمجھنے پر مجبور ہوجاتا، بوقت درس آپ کی آواز میں وہ کشش اور جاذبیت پیدا ہو جاتی تھی کہ اکثر و بیشتر ملازم حضرات بھی آپ کے درس میں آکر بیٹھ جاتے تھے، آپ رحمہ اللہ جامعہ کے تمام اراکین کے ساتھ محبت و خلوص اور خوش دلی کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے
آپ جامعہ کے ننھے منھے (تحتانیہ) بچوں سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے، اور بچے بھی آپ پر مثلِ پروانہ قربان ہونے کو اپنے لئے خوش بختی اور سعادت سمجھتے تھے، بچے حضرت رحمہ اللہ کو پیار سے (دادا دادا) کہہ کر پکارا کرتے تھے، جب بچے حضرت کے کمرہ میں آتے تو آپ فرماتے: ماشاءاللہ ماشاءاللہ
آؤ بچو آؤ بیٹھو
بچوں کو بٹھاتے اگر پاس میں کچھ کھانے پینے کی چیز ہوتی تو بچوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور فرماتے: یہ بچے تو مہمانانِ رسول ہیں، ہمارے جامعہ کے گلشن کی کلی ہیں. جو ان شاءاللہ مستقبل قریب ہی میں مثل گلاب و عنبر بن کر کھِلیں گے اور اس علاقہ کو اپنے خوشبؤوں سے سیراب کریں گے.
ہم تمام رُفقاءدرس جب بھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے میرے بارے میں تو کچھ زیادہ ہی فکر مند تھے میں جب آپ کے کمرہ جاتا سلام و جواب کے بعد پہلا سوال :- اور اُسامہ کیا حال ہے ؟ خیریت سے ہو ؟ خصوصاً میری والدہ محترمہ کی حالت کے بارے میں ضرور دریافت فرمایا کرتے تھے کیونکہ انکی طبیعت اکثر ناساز رہتی ہے حضرت رحمہ اللہ خود بھی دعا کرتے اور مجھے بھی کوئی نہ کوئی دعا یا تجویز وغیرہ ضرور بتلاتے کہ ایسا کرو ان شاء اللہ ضرور شفایاب ہوجائیں گی. بہت تسلی دیا کرتے تھے.
اپنے اوپر کتنا بڑا ہی بوجھ کیوں نہ ہو آپ سے ملاقات کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ غم کا بوجھ دھوئیں کی طرح جانبِ سماء فرار ہوگیا.
حضرت رحمہ اللہ کا مجھ پر بے پناہ احسان ہے کہ آپ گذشتہ ٤سالہ دور میں اپنے اکثر کتابتی کام میں مجھے بھی شریک کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اُسامہ ؛ فلاں عنوان پہ ایک تقریر لکھکر لانا ہے ، فلاں موضوع پہ ایک مضمون لکھنا ہے . اور میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ دیتا اور حضرت کو دکھاتا تو آپ اس میں غلطیوں کی تصحیح فرمادیا کرتے تھے. اسی طرح حضرت نے مجھے اشعار کے چند منتشر مصرعے دئے اور کہا : اسکو ترتیب دیدو اور اگر ضرورت پڑے تو اپنی طرف سے بھی کچھ کمی بیشی کردینا.
حضرت کے حکم پر میں نے ہاں تو کردیا....... لیکن پوری گھنٹی میں سوچتا رہا آخر میں کیسے لکھوں گا ؟ کیسے ترتیب دونگا ؟
لیکن گھر پہنچنے کےبعد جب میں مصرعوں کو ترتیب دینے بیٹھا تو اللہ کا ایسا کرم ہوا کہ جس مصرعے کو میں ترتیب دیتا اسی سے ایک دو مصرعہ اور بن جاتا حتی کہ تقریبا کل ٢٠ ٢٢ اشعار بن گئے جب میں نے ان اشعار کو ڈرتے ڈرتے حضرت کی خدمت کی پیش کیا تو آپ بہہہہت خوش ہوئے ، خوب شاباشی دی اور کہا بیٹا اگر ایسےہی تھوڑا بہت لکھتے رہو گے تو انشاء اللہ کامیابی خود قدمبوسی کیلئے مجبور ہوگی بس ایسے ہی لکھتے رہو.
قارئین کرام!
آپکو بتلاتاچلوں کہ اب تک میرا جو بھی ٹوٹا پھوٹا علمی مشغلہ برقرار ہے وہ سب میرے استاد محترم حضرت مولانا سرورؔ صاحب قاسمی نوّر اللہ مرقدہ کی کاوشوں اور دعاؤں کا ثمرہ ہے.
کیونکہ میں نے اکثر و بیشتر اُمور میں حضرت رحمہ اللہ کی توجہات اور دعائیں شاملِ حال محسوس کی ہیں.
خلاصہ یہ کہ حضرت رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں بہت ہی علمی کارنامہ انجام دیا.
حضرتِ والا کی تبحّرِ علمی اور زھد و تقوی کے باوصف ان کی شگفتہ مزاجی ہر زائر و ملاقاتی کو گرویدہ بنا لیتی ہے، علم و ادراک اور فہم و شعور کے اعتبار سے حضرت رحمہ اللہ نے جامعہ میں ایسی تُخم ریزی کی کہ یہ ویرانہ بہار آفریں گلشن سے مزین و آراستہ ہو گیا اور علاقہء جامعہ اسکی عطربیزی سے مہک اُٹھا، احاطہ جامعہ کی در و دیوار آہیں بھریں گی ، دارالحدیث آپکے دیدار کو ترسےگی ، طلباء و طالبات اب کس سے درس حاصل کریں گے؟؟؟ آپ کی رحلت سے ہر قلب غمگین اور ہر آنکھ اشکبار ہے.
کیا لکھے اور کیا کہے ... بندہ ناتواں کے دستِ نحیف میں اب اتنی سکت نہیں کہ اب اور کچھ سپرد قرطاس کر سکے.
پس بندہءناتواں آپ تمام قارئین سے مؤدبانہ درخواست کرتا ہے کہ استادِمحترم کے حق میں مغفرت کی دعاء فرمائیں.
اللہ عز و جل میرے استاد محترم کی خطاؤں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرماکر اپنی شایانِ شان جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے، حضرت کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، اور جامعہ فیض عام کو حضرت رحمہ اللہ کا نعم البدل عطا فرمائے آمیـــن