اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 3 January 2018

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں!

ازقلم: محمد ساجد قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
28دسمبر کو ہندوستان کے مسلمان کبھی نہی بھول پائیں گے اسے یوم سیاہ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جاے گا ملت اسلامیہ کی تاریخ میں اگر چہ چھ دسمبر کا سانحہ بھی ایک افسوس ناک باب ہے لیکن دونوں حادثوں میں فرق یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت میں شرپسندوں کا ہاتھ تھا اور اسلام کے ظاہری ڈھانچے کو مسمار کیا گیا تھا لیکن اب جو کچھ ہوا وہ دستور سازی، قانون اور انصاف کے نام پر ہوا ہے.
 اس دن تیس کڑوروں مسلمانوں کے جذبات  کو  مجروح کر کے مسلم عورتوں کو انصاف دلانے کے نام پر ایک ایسی حکومت نے طلاق ثلاثہ پر بل پیش کیا جو روز اول سے ہی مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے اور انہیں نیست و نابود کرنے کے لیے کوشا رہی ہے جس کا مقصد اس جمہوری ملک کو بھگوا رنگ میں رنگنا اور ہندتوا کا نفاذ ہے انکا یہ مقصد اس وقت تک پورا  نہی ہو سکتا جب تک  اس ملک میں مسلمان اور مسلم پرسنل لا باقی ہے اسی لیے حکومت نے مسلم خواتین کو  انصاف دلانے اعر جرنل جسٹس کے نام پر طلاق ثلاثہ پر بل بنا کر شریعت میں مداخلت کی مذموم کوشش کی ہے جس کی وجہ مسلمانوں میں نا امیدی و مایوسی کیفیت پائی جا رہی ہے مسلم نوجوان امت کی قیادت پر سوال اٹھا  رہے ہیں مسلم پرسنل لا بورڈ  اور جمعیت  علماء ہند پر اعتماد متزلزل  ہو گیاہے  پڑھا لکھا طبقہ بھی علماء سے بد ظنی کا شکار ہو چکا ہے.
لوک سبھا میں جب  حکومت نے  جمہوری اصولوں کو کچلتے ہوئے پارلیمنٹ میں  اس بل کو پیش کیا تو اپوزیشن پارٹیوں کا رویہ بھی بے حد افسوس ناک رہا کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے الکفر ملة واحدة کا ثبوت دیتے ہوے اس پر خاموشی اختیار کر کے اس بل کی تائید کی
جناب اسد الدین کے علاوہ۲۲مسلم ممبران پالیمنٹ میں  موجود تھے انہوں نے بھی خاموشی میں عافیت سمجھی اور لب کشائی کی جرأت گوارا نہ کی جبکہ آسام سے کانگریس کی ایم پی ششمتا دیوی نے بل کی کئی دفعات کے خلاف آواز بلند کی اسی طرح رکن پارلیمان جے پرکاش نارائن اور ایم ای شنواس اور پپو یادونے  بھی اس بل پر کئی سوال کھڑے کیےتو انہیں خواتین مخالف کہ کر چپ کرا دیا گیا.
لیکن اس ایوان باطل اور فرعونی دربار میں ایک مرد مجاہد ایسا بھی تھا جس نے حق  کی بھر پور ترجمانی کر کے مسلمانوں کا دل جیت لیا جس کی لیے امت مسلمہ اسکی مشکور رہے گی جس طرح موسی علیہ السلام کو حق کا پیغام سنانے پر فرعونیوں نے *ان هذا لسحر عليم*کہا  تھا اسی  طرح اس حق کے علمبردار امت کے غمخوار  کو بھی حق گوی کے جرم میں پاگل و دیوانہ   کہا گیا ان سب کی پرواہ کیے بغیر اکیلے ہی سلطان صلاح الدین اویسی کے سپوت  نے بل کی پر زور مخالفت کی اور اس بل پر کئی سوال کھڑے کئے جسکا حکومت کے پاس کوی جواب نہیں تھا.
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب اسد الدین اویسی نے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھای ہے بلکہ  اعداد شمار  کے مطابق انہوں 60 فیسد حاضری کے ساتھ 594 سوالات کیے ہیں اور پچاس مباحثوں میں انکی شرکت رہی ہے   وہ ہمیشہ مظلوموں کمزوروں اور دلتوں کے  حقوق کےلیے آواز اٹھاتے رہے ہیں.
انہوں نےاپنے سوالات میں سیاسی سماجی معاشی عائلی اوقاف خواتین کے مسائل فاسٹ تریک عدالتیں مدارس تعلیم روزگار صحت زراعت فرقہ وارانہ فساد سرحد پر فائرنگ مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کشمیر میں تشدد عدالتوں میں زیر التوا مقدمات عازمین حج کے مسائل اسلامک بینکنگ اردو زبان کی ترقی انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل نجیب اخلاق پہلوں خان جنیدکے قتل  جیسے حساس موضوعات کا احاطہ کر کے اپنا حق نماءندگی ادا کیا ہے انکی انہی خوبیوں کی وجہ سے انہیں 2014 میں  سنسد رتن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا.
وہیں دوسری طرف مولانا اسرا الحق صاحب کی پارلیمنٹ میں نوے فیصد حاضری رہی ہے لیکن اس مدت میں انہوں نے صرف ایک سوال کیا ہ اور بارہ ڈبیٹ میں شرکت کی.
آسام سے یو ڈی ایف کے سربراہ   رکن پارلیمان مولانا بدر الدین اجمل نے 63 فیصد حاضری کے ساتھ انہوں 318 سوال کیے  اور 60 ڈبیٹ میں شرکت کی.
البتہ بل پیش ہونے کے دن مولانا اجمل صاحب  ایوان میں  حاضر نہی تھے اور مولانا اسرار الحق صاحب شروع میں حاضر تھے  لیکن پارٹی کی وفاداری کی زنجیر میں بندھے نظر آیے اور  ووٹنگ کے وقت بھی  موجود نہی تھے  جسکی وجہ سے ان حضرات کو سخت  تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.
مسلم نوجوان سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں
یقینا ان حضرات  کا طلاق ثلاثہ پر بحث اور ووٹنگ  کے دوران غائب  رہنا ایک نامناسب عمل تھا لیکن اس کی وجہ سے انکے لیے نازیبہ کلمات کہنا اور دشنام طرازی کرنا ایک جاہلانہ اور بے سود  عمل ہے.
کیونکہ ان حضرات نے اپنی پوری زندگی امت کی  زبوں حالی کو دور کرنے اور قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے میں صرف کی ہے ان حضرات کی امت کے لیے عظیم خدمات ہیں جسکو کبھی فراموش نہی کیا جا سکتا ہمیں آسام و بہار کی سیلاب کی وہ تصویریں بھی یاد  جب یہ دونوں حضرات قریہ قریہ بستی بستی متاثرین کی امداد کر رہے تھے اس لیے اپنے علماء وہ ملی تنظیموں کو برا بھلا کہنے کے بجاے ان کے دست بازو بن کر تعاون کرنا چاہیے ان سے اپنی عقیدت اور حسن ظن کو برقرار رکھنا چاہیے .
 اس موقع پر اردگان ہند  جناب اسد الدین اویسی نے جو امت مسلمان کی ترجمانی کی ہے اور اپنی بے باک تقریر کے ذریعہ جو ایوان میں زلزلہ پیدا کیا ہے اسکو  عام خاص کے درمیان خوب سراہا گیا جسکے کہ وہ مستحق بھی ہیں  انکے اس کردار کو تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھا جائے گا.
درو حاضر کے نامور شاعر محدث عظیم مولانا فضیل احمد ناصری  صاحب نے اپنے اشعار میں انہیں اردگان ہند کا خطاب دیا ہے:
                  ــــــــعــــــ
خدا سلامت رکھے اویسی کی جوانی کو
یہی ہے ہند کی دھرتی پر طیب اردگاں اپنا