ازقلم: ذیشان مسلمی
ــــــــــــــــــــــــــ
جب نفرت انتہا کی حدوں سے آگے نکل جائے تو ضمیر کبھی نہ کبھی آپ کو ضرور آواز دیتا ہے اور آپ کو دل کی بات سننے پر مجبور کرتا ہے
ملک میں ایک مہینہ کے اندر واقعات کا جائزہ لینے پر ذہن میں بار بار یہ سوال آتا ہے کہ دلت تو بیداری کا مظاہرہ کرجاتے ہیں لیکن آزادی کے بعد سے کٹتے پٹتے اور لٹتے رہنے کے باوجود ہم مسلمانوں میں بیداری کی رمق کیوں نہیں پائی جاتی ؟؟؟
گذشتہ سال حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی کے دلت اسکالر روہت ویمولا کی خود کشی دلتوں کے احتجاج کا نقطہ آغاز تھی اسی سال جولائی میں اونا میں چار دلتوں کی سر عام پٹائی ہونے کے بعد دلت بپھر گئے ان کے بگڑے تیور اور انکی طرف سے نکالی گئی مہا ریلی نے ریاستی حکومت کو دہلا دیا اور اس وقت کی وزیر اعلی آنندی بین کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا، طاقت کا ایسا ہی مظاہرہ امسال بھیما کورے گاؤں واقعہ کے رد عمل میں 3/جنوری کو مہاراشٹر بند کی شکل میں دیکھنے کو ملا.
پوری ملت اسلامیہ ہند کو سوچنا چاہئے کہ کیا ہم دلتوں سے بھی گئے گزرے ہیں ؟
کیا ہمارا ضمیر مر چکا ہے ؟
یا ہم اپنے ضمیر کی آواز کو کچل رہے ہیں، ہمیں دلتوں سے سبق لینا ہوگا. دلت طبقہ اپنی برادری پر ہو رہے مظالم کے خلاف سڑکوں پر اتر کر بڑے پیمانہ پر حکومت سے بر سر پیکار ہیں، اپنے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر قوم کی ترقی اور اس پر ہو رہی زیادتیوں کے خاتمہ کے لئے دلت طبقہ محض چند نوجوانوں کے ساتھ کھڑا ہے.
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کس طرح ایک غیر منظم اور افلاس زدہ لوگ اتحاد کا ثبوت پیش کر رہے ہیں، مثالیں تو بہت ہیں، واقعات بہت کچھ بتا رہے ہیں، کہیں اخلاق کا قتل تو کہیں نجیب کی گمشدگی تو کہیں جنید کی موت اور افروز الاسلام کا قتل تو کہیں شریعت اسلامی سے کھلواڑ، مسلکی اختلافات اور فرقہ بندیوں کے باوجود آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمان اتنے بے بس کبھی نہ تھے یہ ہماری بے ضمیری ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم لٹے اور پٹے جا رہے ہیں پھر بھی ہم بیدار نہیں ہوتے، نہایت افسوس کی گھڑی ہے.
مسلمانوں!
خدارا اپنے بے ضمیری اور خوف کی وادیوں سے نکل کر اپنے سرد ترین رویے کو تبدیل کرلو کیونکہ ظالمانہ نظام سے ایک وقت ایسا آتا ہے جب ٹکرانا ہی ہوتا ہے. دلتوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ انقلاب کے اشارہ کو سمجھ گئے ہیں پرکاش امبیڈکر ہوں یا جگنیش میوانی....... دلتوں کو اب قائد مل چکے ہیں.
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو قائد کب ملے گا ؟اگر دیکھا جاءے تو قائدانہ صلاحیت کے مالک تو بہت ہیں لیکن ملی حمیت اور دینی جزبہ بھی بہت اہم چیز ہے.
تمام مسلمانان ہند سے ایک اپیل ہے کہ اپنا قائد جلد سے جلد طے کر لیں( کیونکہ کوئی کام قائد کے بغیر نہیں ہونے والا، تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم کے پاس بہترین لیڈر یا قائدانہ صلاحیت موجود نہ ہو تو ذلت و رسوائی اسکا مقدر بن جاتی ہے) اور اس شخص کو اپنا قائد بناءیں جس کے اندر ملی حمیت کے ساتھ دینی جزبہ بھی موجود ہو اور ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے باکانہ گفتگو کرنے کی صلاحیت موجود ہو، اور کانفرنس سے لیکر پارلیمنٹ تک اور جلسوں سے لیکر ڈیبیٹ تک گویا ہر جگہ وہ تمام مسلمانوں اور شریعت کا دفاع کرنے والا ہو.
اور سال نو 2018 کے طلوع ہوتے ہوئے مغموم سورج کا سوال ہے کہ ہندوستانی مسلمان کب تک خواب غفلت میں پڑے رہیں گے اور ہندوستانی مسلمانوں میں انقلاب کب آئے گا ؟؟؟؟؟؟؟
ــــــــــــــــــــــــــ
جب نفرت انتہا کی حدوں سے آگے نکل جائے تو ضمیر کبھی نہ کبھی آپ کو ضرور آواز دیتا ہے اور آپ کو دل کی بات سننے پر مجبور کرتا ہے
ملک میں ایک مہینہ کے اندر واقعات کا جائزہ لینے پر ذہن میں بار بار یہ سوال آتا ہے کہ دلت تو بیداری کا مظاہرہ کرجاتے ہیں لیکن آزادی کے بعد سے کٹتے پٹتے اور لٹتے رہنے کے باوجود ہم مسلمانوں میں بیداری کی رمق کیوں نہیں پائی جاتی ؟؟؟
گذشتہ سال حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی کے دلت اسکالر روہت ویمولا کی خود کشی دلتوں کے احتجاج کا نقطہ آغاز تھی اسی سال جولائی میں اونا میں چار دلتوں کی سر عام پٹائی ہونے کے بعد دلت بپھر گئے ان کے بگڑے تیور اور انکی طرف سے نکالی گئی مہا ریلی نے ریاستی حکومت کو دہلا دیا اور اس وقت کی وزیر اعلی آنندی بین کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا، طاقت کا ایسا ہی مظاہرہ امسال بھیما کورے گاؤں واقعہ کے رد عمل میں 3/جنوری کو مہاراشٹر بند کی شکل میں دیکھنے کو ملا.
پوری ملت اسلامیہ ہند کو سوچنا چاہئے کہ کیا ہم دلتوں سے بھی گئے گزرے ہیں ؟
کیا ہمارا ضمیر مر چکا ہے ؟
یا ہم اپنے ضمیر کی آواز کو کچل رہے ہیں، ہمیں دلتوں سے سبق لینا ہوگا. دلت طبقہ اپنی برادری پر ہو رہے مظالم کے خلاف سڑکوں پر اتر کر بڑے پیمانہ پر حکومت سے بر سر پیکار ہیں، اپنے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر قوم کی ترقی اور اس پر ہو رہی زیادتیوں کے خاتمہ کے لئے دلت طبقہ محض چند نوجوانوں کے ساتھ کھڑا ہے.
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کس طرح ایک غیر منظم اور افلاس زدہ لوگ اتحاد کا ثبوت پیش کر رہے ہیں، مثالیں تو بہت ہیں، واقعات بہت کچھ بتا رہے ہیں، کہیں اخلاق کا قتل تو کہیں نجیب کی گمشدگی تو کہیں جنید کی موت اور افروز الاسلام کا قتل تو کہیں شریعت اسلامی سے کھلواڑ، مسلکی اختلافات اور فرقہ بندیوں کے باوجود آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمان اتنے بے بس کبھی نہ تھے یہ ہماری بے ضمیری ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم لٹے اور پٹے جا رہے ہیں پھر بھی ہم بیدار نہیں ہوتے، نہایت افسوس کی گھڑی ہے.
مسلمانوں!
خدارا اپنے بے ضمیری اور خوف کی وادیوں سے نکل کر اپنے سرد ترین رویے کو تبدیل کرلو کیونکہ ظالمانہ نظام سے ایک وقت ایسا آتا ہے جب ٹکرانا ہی ہوتا ہے. دلتوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ انقلاب کے اشارہ کو سمجھ گئے ہیں پرکاش امبیڈکر ہوں یا جگنیش میوانی....... دلتوں کو اب قائد مل چکے ہیں.
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو قائد کب ملے گا ؟اگر دیکھا جاءے تو قائدانہ صلاحیت کے مالک تو بہت ہیں لیکن ملی حمیت اور دینی جزبہ بھی بہت اہم چیز ہے.
تمام مسلمانان ہند سے ایک اپیل ہے کہ اپنا قائد جلد سے جلد طے کر لیں( کیونکہ کوئی کام قائد کے بغیر نہیں ہونے والا، تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم کے پاس بہترین لیڈر یا قائدانہ صلاحیت موجود نہ ہو تو ذلت و رسوائی اسکا مقدر بن جاتی ہے) اور اس شخص کو اپنا قائد بناءیں جس کے اندر ملی حمیت کے ساتھ دینی جزبہ بھی موجود ہو اور ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے باکانہ گفتگو کرنے کی صلاحیت موجود ہو، اور کانفرنس سے لیکر پارلیمنٹ تک اور جلسوں سے لیکر ڈیبیٹ تک گویا ہر جگہ وہ تمام مسلمانوں اور شریعت کا دفاع کرنے والا ہو.
اور سال نو 2018 کے طلوع ہوتے ہوئے مغموم سورج کا سوال ہے کہ ہندوستانی مسلمان کب تک خواب غفلت میں پڑے رہیں گے اور ہندوستانی مسلمانوں میں انقلاب کب آئے گا ؟؟؟؟؟؟؟