تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہر انسان کی یہ خواہش و چاہت ہوتی ہے کہ اس کی لغزشوں خطاؤں کو معاف کردیا جائے، اور یہ اسی وقت ممکن ہوپائے گا جب خود اپنے دل میں دوسروں کو معاف کرنے کا جذبہ موجود ہو، انسان تو مرکب ہے خطاء ونسیان سے، غلطی تو اس سے صادر ہوگی ہی، وہی غلطیاں ہمیں معاف کردینی چاہیے.
عفو در گزر ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی وجہ سے انسان خود تو خود دوسروں کو بھی ظلم و نا انصافی سے محفوظ رکھتا ہے، ہماری روز مرہ کی زندگی میں عفو در گزر سے بہت کام بن جاتے ہیں قرآن و حدیث میں بیشمار جگہوں پر اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے،
عفو کا معنی اورمفہوم: عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنیٰ معاف کرنا،بخش دینا ،درگزر کرنا،بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔اصطلاح شریعت میں عفو سے مراد کسی کی زیادتی وبرائی پر انتقام کی قدرت و طاقت کے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کر دینا ہے،
دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزر حق و باطل کا پہلا معرکہ جنگ بدر کے نام سے مشہور ہے جنگ بدر سنہ۲ہجری میں ہوئی اس جنگ میں مسلمان ہر اعتبار سے کفار کے مقابلہ میں کم تر تھے لیکن اللہ کے حکم سے جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور میدان جنگ میں کچھ دشمن کے بڑے بڑے سرغنہ قیدی بن کر رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بغرض حفاظت تقسیم فرما دیا اور حکم دیا کے ان کے ساتھ مہربانی اور محبت سے پیش آنا یہاں تک کہ خود بھوکے رہنا مگر ان کو پیٹ بھر کھانا کھلانا،
جنگ احد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اجتہادی غلطی ہوگئی اور مسلمانوں کا کافی جان و مال کا نقصان اٹھانا پڑا، پھر بھی اللہ تعالٰی نے اس غلطی کو معاف فرما دیا اور قرآن میں یہ اعلان کیا ہے،
ولقد عفا الله عنهم إن الله غفور حليم،
اور یقین سمجھو کہ اللہ نے ان کو معاف فرما دیا، واقعی اللہ بڑے مغفرت والے اور بہت رحم والے ہیں،
دشمن سے انتقام لینا فطرت انسانی کا خاصہ ہے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ دشمنوں سے انتقام کے قائل نہیں تھے بلکہ ہر موقع پر آپ نے اپنے بدترین دشمنوں سےحسن سلوک برتااور ان کے ساتھ ہر ممکن مہربانی سے پیش آئے، آپ نے فرمایا: ’’میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے، میں اس کو قدرتِ انتقام کے باوجود معاف کردوں، جو مجھ سے قطع کرے میں اس کو ملاؤں، جو مجھے محروم رکھے، میں اس کو عطا کروں، غضب اور خوشنودی، دونوں حالتوں میں حق گوئی کو شیوہ بناؤں؛ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اس کا مظہر رہی ہے، آپ ہمیشہ دشمنوں کے حق میں دعا کرتے رہتے تھے،
آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہمیں دوسروں کو معاف کرنا چاہئے، لیکن آپ شاید سوچیں کہ یہ سب کہنا تو آسان ہے مگر کرنا بہت مشکل ہے۔ جب کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہم اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں، ہم شایدغصے میں آ جائیں یا پھر ہمیں لگے کہ ہمارے ساتھ دھوکا یا ناانصافی ہوئی ہے، ہو سکتا ہے کہ ہم بدلہ لینے کی ٹھان لیں،
جب ہم برائی کا بدلہ برائی سے دیں گے تو برائی کہاں سے ختم ہوگی؟
غور کریں! کسی نے آپ کو ستایا، دل دکھایا، اگر اس کے جواب میں آپ بھی ویسا ہی کرنے لگ جائیں تو معاشرے کے اندر برائی دوگنی ہوجائے گی؛ اچھائی کہاں سے آئے گی؟
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم قدرت ہونے کے باوجود دوسروں سے بدلہ نہ لیں، انہیں اللہ تعالٰی کے لیے معاف کردیں،
عفو و درگزر اگر ایک طرف اعلی ظرفی کی پہچان ہے تو وہیں دوسری طرف حکمت کا تقاضا معاشرتی ضرورت اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا طریقہ بھی ہے، اگر انسان ہر چھوٹی بڑی غلطی پر مؤاخذہ کرنے لگے تو یہ اس کے لیے بے حد نقصان دہ ہے، اس لیے خاص طور پر حتی الامکان ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے عام طور پر دوسروں کو مجرم و مشکوک سمجھنا غلط فہمی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جب کسی کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے تو اس کی ہر بات بری لگتی ہے اس کے بارے میں جو بھی غلط بات سننے میں آتی ہے وہ سب ہمیں صحیح لگتی ہے اس لیے صحیح بات تو یہ ہے کہ پہلے پورے معاملے کی دیانت داری کے ساتھ تحقیق کی جائے، اگر تحقیق کے بعد کسی کی غلطی سامنے آتی ہے تو حتی الامکان نظر انداز کیا جائے، اور جہاں سزا کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہاں صرف اتنی سزا دیں کہ جس سے اصلاح ممکن ہو،
خود رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کا حال یہ تھا کہ آپ اپنے ساتھ کیے گئے ہر برے سلوک کو معاف فرمادیتے تھے، لیکن جب دیکھتے کہ شریعت کا کوئی حکم پامال کیا جارہا ہے تو عضب ناک ہوجاتے اور جب تک اصلاح نہ فرمادیتے سکون سے نہ بیٹھتے، یہ آپ کا اسوہ بتاتا ہے کہ دین کے اور حلال و حرام کے مسئلے میں مداہنت و نرمی کی گنجائش نہیں، البتہ اپنے ذاتی معاملات میں ضرور ایک مسلمان کو عفو درگزر، پیار، محبت، نرمی، آسانی اور رواداری جیسی عظیم صفات کو اختیار کرنا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ عفو در گزر کرنے والے انسان کے چہرے سے نرمی و محبت ظاہر ہوتی ہے، ایسا آدمی ہمیشہ ہشاش و بشاش، خوش وخرم اور ہنس مکھ دکھائی دیتا ہے؛ اور اس کے مخالف سنگ دل انسان نہ لوگوں سے محبت کرپاتا ہے اور نہ ہی اسے لوگوں کی محبت حاصل ہوپاتی ہے، جو نرم اخلاق اور شیریں گفتار ہوتے ہیں وہ لوگوں کے محبوب بن جاتے جس کی زبان شیریں ہوتی ہے اس کے خیرخواہ احباب بھی زیادہ ہوتے ہیں.
خدائے عظیم ہم سب کو اس عالی صفات سے متصف فرمائے آمین ثم آمیـــــن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہر انسان کی یہ خواہش و چاہت ہوتی ہے کہ اس کی لغزشوں خطاؤں کو معاف کردیا جائے، اور یہ اسی وقت ممکن ہوپائے گا جب خود اپنے دل میں دوسروں کو معاف کرنے کا جذبہ موجود ہو، انسان تو مرکب ہے خطاء ونسیان سے، غلطی تو اس سے صادر ہوگی ہی، وہی غلطیاں ہمیں معاف کردینی چاہیے.
عفو در گزر ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی وجہ سے انسان خود تو خود دوسروں کو بھی ظلم و نا انصافی سے محفوظ رکھتا ہے، ہماری روز مرہ کی زندگی میں عفو در گزر سے بہت کام بن جاتے ہیں قرآن و حدیث میں بیشمار جگہوں پر اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے،
عفو کا معنی اورمفہوم: عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنیٰ معاف کرنا،بخش دینا ،درگزر کرنا،بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔اصطلاح شریعت میں عفو سے مراد کسی کی زیادتی وبرائی پر انتقام کی قدرت و طاقت کے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کر دینا ہے،
دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزر حق و باطل کا پہلا معرکہ جنگ بدر کے نام سے مشہور ہے جنگ بدر سنہ۲ہجری میں ہوئی اس جنگ میں مسلمان ہر اعتبار سے کفار کے مقابلہ میں کم تر تھے لیکن اللہ کے حکم سے جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور میدان جنگ میں کچھ دشمن کے بڑے بڑے سرغنہ قیدی بن کر رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بغرض حفاظت تقسیم فرما دیا اور حکم دیا کے ان کے ساتھ مہربانی اور محبت سے پیش آنا یہاں تک کہ خود بھوکے رہنا مگر ان کو پیٹ بھر کھانا کھلانا،
جنگ احد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اجتہادی غلطی ہوگئی اور مسلمانوں کا کافی جان و مال کا نقصان اٹھانا پڑا، پھر بھی اللہ تعالٰی نے اس غلطی کو معاف فرما دیا اور قرآن میں یہ اعلان کیا ہے،
ولقد عفا الله عنهم إن الله غفور حليم،
اور یقین سمجھو کہ اللہ نے ان کو معاف فرما دیا، واقعی اللہ بڑے مغفرت والے اور بہت رحم والے ہیں،
دشمن سے انتقام لینا فطرت انسانی کا خاصہ ہے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ دشمنوں سے انتقام کے قائل نہیں تھے بلکہ ہر موقع پر آپ نے اپنے بدترین دشمنوں سےحسن سلوک برتااور ان کے ساتھ ہر ممکن مہربانی سے پیش آئے، آپ نے فرمایا: ’’میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے، میں اس کو قدرتِ انتقام کے باوجود معاف کردوں، جو مجھ سے قطع کرے میں اس کو ملاؤں، جو مجھے محروم رکھے، میں اس کو عطا کروں، غضب اور خوشنودی، دونوں حالتوں میں حق گوئی کو شیوہ بناؤں؛ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اس کا مظہر رہی ہے، آپ ہمیشہ دشمنوں کے حق میں دعا کرتے رہتے تھے،
آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہمیں دوسروں کو معاف کرنا چاہئے، لیکن آپ شاید سوچیں کہ یہ سب کہنا تو آسان ہے مگر کرنا بہت مشکل ہے۔ جب کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہم اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں، ہم شایدغصے میں آ جائیں یا پھر ہمیں لگے کہ ہمارے ساتھ دھوکا یا ناانصافی ہوئی ہے، ہو سکتا ہے کہ ہم بدلہ لینے کی ٹھان لیں،
جب ہم برائی کا بدلہ برائی سے دیں گے تو برائی کہاں سے ختم ہوگی؟
غور کریں! کسی نے آپ کو ستایا، دل دکھایا، اگر اس کے جواب میں آپ بھی ویسا ہی کرنے لگ جائیں تو معاشرے کے اندر برائی دوگنی ہوجائے گی؛ اچھائی کہاں سے آئے گی؟
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم قدرت ہونے کے باوجود دوسروں سے بدلہ نہ لیں، انہیں اللہ تعالٰی کے لیے معاف کردیں،
عفو و درگزر اگر ایک طرف اعلی ظرفی کی پہچان ہے تو وہیں دوسری طرف حکمت کا تقاضا معاشرتی ضرورت اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا طریقہ بھی ہے، اگر انسان ہر چھوٹی بڑی غلطی پر مؤاخذہ کرنے لگے تو یہ اس کے لیے بے حد نقصان دہ ہے، اس لیے خاص طور پر حتی الامکان ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے عام طور پر دوسروں کو مجرم و مشکوک سمجھنا غلط فہمی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جب کسی کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے تو اس کی ہر بات بری لگتی ہے اس کے بارے میں جو بھی غلط بات سننے میں آتی ہے وہ سب ہمیں صحیح لگتی ہے اس لیے صحیح بات تو یہ ہے کہ پہلے پورے معاملے کی دیانت داری کے ساتھ تحقیق کی جائے، اگر تحقیق کے بعد کسی کی غلطی سامنے آتی ہے تو حتی الامکان نظر انداز کیا جائے، اور جہاں سزا کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہاں صرف اتنی سزا دیں کہ جس سے اصلاح ممکن ہو،
خود رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کا حال یہ تھا کہ آپ اپنے ساتھ کیے گئے ہر برے سلوک کو معاف فرمادیتے تھے، لیکن جب دیکھتے کہ شریعت کا کوئی حکم پامال کیا جارہا ہے تو عضب ناک ہوجاتے اور جب تک اصلاح نہ فرمادیتے سکون سے نہ بیٹھتے، یہ آپ کا اسوہ بتاتا ہے کہ دین کے اور حلال و حرام کے مسئلے میں مداہنت و نرمی کی گنجائش نہیں، البتہ اپنے ذاتی معاملات میں ضرور ایک مسلمان کو عفو درگزر، پیار، محبت، نرمی، آسانی اور رواداری جیسی عظیم صفات کو اختیار کرنا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ عفو در گزر کرنے والے انسان کے چہرے سے نرمی و محبت ظاہر ہوتی ہے، ایسا آدمی ہمیشہ ہشاش و بشاش، خوش وخرم اور ہنس مکھ دکھائی دیتا ہے؛ اور اس کے مخالف سنگ دل انسان نہ لوگوں سے محبت کرپاتا ہے اور نہ ہی اسے لوگوں کی محبت حاصل ہوپاتی ہے، جو نرم اخلاق اور شیریں گفتار ہوتے ہیں وہ لوگوں کے محبوب بن جاتے جس کی زبان شیریں ہوتی ہے اس کے خیرخواہ احباب بھی زیادہ ہوتے ہیں.
خدائے عظیم ہم سب کو اس عالی صفات سے متصف فرمائے آمین ثم آمیـــــن