تحریر: محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
قوم مصائب و آلام کے دلدل میں پھنستی جا رہی ہے، ان کی پریشانیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ان کی دل آزاری کے لیے مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں-
مثلاً، گئو رکشا کے نام پر قتل کرنا، توہین رسالت کا ارتکاب کرنا ، جمہوریت کا قلع قمع کرنے کی سعی کرنا، مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کرنا ، نہتے مسلم کو گروہی شکل میں موت کے گھاٹ اتار دینا، نفرت آمیز بیان بازی سے ذہنی طور پر ہراساں کرنا، مسلم قوم کی شبیہ کو داغ دار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا، فساد کی آگ بھڑکانے کا موقع تلاش کرنا -
ایسے اور بھی ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں جن کی وجہ سے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں، قوم ان پریشانیوں کی وجہ سے بے موت مر رہی ہے.
مزید اس قوم میں عصری تعلیم کا فقدان ہے اور آج غربت کی نچلی سطح تک پہنچ چکی ہے، ابھی حال ہی کا واقعہ ہے !!
مرادآباد میں ایک مفلس خاتون چار دن کی فاقہ کشی میں مبتلا رہکر اس دار فانی سے کوچ کر گئیں،
مسلم قوم کے حالات بد سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں، افسوس صد افسوس کچھ ناعاقبت اندیش ایسے بھی ہیں جو اپنی چودھراہٹ، انانیت، عیش و عشرت میں غرق ہو کر قوم کو تنزلی کی طرف دھکیل رہے ہیں -
مسلکی اختلاف کو ہوا دے کر قوم کو اس قدر متنفر کر دیا ہے کہ ایک فریق کا سلام بھی دوسرے فریق کو کانٹے کی طرح سے چبھتا ہے-
جو تحریکیں، تنظیمیں، مسلم قوم کی فلاح و بہبود کیلئے بنائی گئی تھیں، آج ان تنظیموں تحریکوں پر نگاہ ڈالو تو کلیجہ منہ کو آتا ہے،
ان کے مسند پر وہ لوگ براجمان ہیں، جنہوں نے اپنے عہدوں کی لالچ میں قوم کی مٹی پلید کر رکھی ہے ، یہ موجودہ دور قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے، کہ ان تنظیموں تحریکوں کے ذمہ داران جن کے پاس بودوباش، خورد و نوش کے تمام وسائل وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں، جو محل نما مکانوں میں میٹھی نیند سوتے ہیں، تمام انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اعلی قسم کی گاڑیوں میں سیر و تفریح کرتے ہیں، انہیں کب احساس ہوگا کہ فاقہ کشی کس مصیبت کا نام ہے، غربت کس بلا کو کہتے ہیں -
ستم بالائے ستم اس قوم پر!!
جس قوم کو بھروسہ تھا اپنے رہنماؤں پر یہ ہمارے حق میں صدائیں بلند کریں گے لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے، کہ بڑے پیمانے پر جلسے جلوس ، اجتماع، کانفرنس، منعقد کئے جاتے ہیں، کہیں پر کروڑوں، کہیں پر لاکھوں روپے برباد کر دئیے جاتے ہیں، لیکن نتیجہ اخذ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ قوم کی حالت جوں کی توں ہے، مقررین کی صدائیں فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتی ہیں، کہیں پر شیریں الفاظ سے لوگوں کو مسحور کیا جاتا ہے اور آہ زاری میں طویل دعائیں ہوتی ہیں لیکن دل میں اخلاص نہ ہونے کی بنا پر قوم مزید خستہ حال ہوتی جا رہی ہے-
جہاں پیسوں پر مقررین کی صدائیں بک جاتی ہوں، جن کی رہائش ہوٹلوں میں، سفر ہوائی جہاز میں، پیسہ پہلے سے طے شدہ ہو، ان کے بیان سے قوم کو کیا فائدہ ہوگا، ساری توانائی اسی پر صرف کر دیتے ہیں کہ میری کرسی سلامت رہے، میری جیب گرم رہے، مجھے کون سی تکلیف ہے ،میری دوکان چلتی رہے، جو مصیبت آئے گی وہ قوم پر آئے گی اس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑے گا-
قوم کی خستہ حالی کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جو الیکشن کے وقت برساتی میڈک کی طرح سے نکل کر آ جاتے ہیں اور مسلمانوں کے ووٹ کو منقسم کر کے ان کو غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، ان لوگوں کو قوم نہیں اپنی ذاتی زندگی سنوارنے کی فکر ہوتی ہے، اسی لئے ایک ہی سیٹ سے کئی لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں، کوئی نہیں سوچتا کہ ہم قوم کی خدمت کے لیے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں تو آپس میں اتحاد کرلیں، وہ تو جب سوچیں جب قوم کے لئے فکر مند ہوں، جن کی نگاہ میں دنیا کی سب سے عزیز ترین شئے پیسہ ہو وہ قوم کی خوش حالی کے لیے کیونکر فکر مند ہو سکتے ہیں -
یہ قوم کی بدقسمتی ہی تو ہے کہ قوم نے ہمیشہ اپنے رہبروں کا ساتھ دیا لیکن ان لوگوں نے قوم کو کیا دیا!! تعصب، غربت، ناخواندگی، ذلت و رسوائی، اس کے علاوہ اور کیا دیا ہے؟ کالج، یونیورسٹی، ہسپتال، بھی مسلمانوں کی ضروریات میں سے ہیں لیکن اس جانب توجہ نہیں دی گئی،ان چیزوں کو جنہوں نے اپنایا وہ قوم اس ملک میں سرخ رو ہے ، مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا قول ہے، اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں، بلکہ سوفیصد تہجد گزار بنا دیا جائے، لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے، اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کرایا جائے، تو ممکن ہے اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد کر دی جائے -
غور کریں!! وہ کون سی خوبیاں ہیں جن کی بنا پر سکھ، عیسائی، بدھسٹ، اقلیت میں ہوتے ہوئے معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہیں، ان کے یہاں گداگری کے پیشے سے وابستہ گلے میں کشکول لٹکائے ہوئے آپ کو دِکھائی نہیں دیں گے -
اس کے برعکس مسلمانوں کو دیکھ لیں سب سے زیادہ بھکاری ان میں ہی پائے جاتے ہیں -
سروے رپورٹ کے مطابق مسلمان اس ملک میں غربت کی نچلی سطح تک پہنچ گئے ہیں
اس جانب توجہ نہیں دی گئی تو آنے والی نسلوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
قوم مصائب و آلام کے دلدل میں پھنستی جا رہی ہے، ان کی پریشانیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ان کی دل آزاری کے لیے مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں-
مثلاً، گئو رکشا کے نام پر قتل کرنا، توہین رسالت کا ارتکاب کرنا ، جمہوریت کا قلع قمع کرنے کی سعی کرنا، مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کرنا ، نہتے مسلم کو گروہی شکل میں موت کے گھاٹ اتار دینا، نفرت آمیز بیان بازی سے ذہنی طور پر ہراساں کرنا، مسلم قوم کی شبیہ کو داغ دار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا، فساد کی آگ بھڑکانے کا موقع تلاش کرنا -
ایسے اور بھی ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں جن کی وجہ سے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں، قوم ان پریشانیوں کی وجہ سے بے موت مر رہی ہے.
مزید اس قوم میں عصری تعلیم کا فقدان ہے اور آج غربت کی نچلی سطح تک پہنچ چکی ہے، ابھی حال ہی کا واقعہ ہے !!
مرادآباد میں ایک مفلس خاتون چار دن کی فاقہ کشی میں مبتلا رہکر اس دار فانی سے کوچ کر گئیں،
مسلم قوم کے حالات بد سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں، افسوس صد افسوس کچھ ناعاقبت اندیش ایسے بھی ہیں جو اپنی چودھراہٹ، انانیت، عیش و عشرت میں غرق ہو کر قوم کو تنزلی کی طرف دھکیل رہے ہیں -
مسلکی اختلاف کو ہوا دے کر قوم کو اس قدر متنفر کر دیا ہے کہ ایک فریق کا سلام بھی دوسرے فریق کو کانٹے کی طرح سے چبھتا ہے-
جو تحریکیں، تنظیمیں، مسلم قوم کی فلاح و بہبود کیلئے بنائی گئی تھیں، آج ان تنظیموں تحریکوں پر نگاہ ڈالو تو کلیجہ منہ کو آتا ہے،
ان کے مسند پر وہ لوگ براجمان ہیں، جنہوں نے اپنے عہدوں کی لالچ میں قوم کی مٹی پلید کر رکھی ہے ، یہ موجودہ دور قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے، کہ ان تنظیموں تحریکوں کے ذمہ داران جن کے پاس بودوباش، خورد و نوش کے تمام وسائل وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں، جو محل نما مکانوں میں میٹھی نیند سوتے ہیں، تمام انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اعلی قسم کی گاڑیوں میں سیر و تفریح کرتے ہیں، انہیں کب احساس ہوگا کہ فاقہ کشی کس مصیبت کا نام ہے، غربت کس بلا کو کہتے ہیں -
ستم بالائے ستم اس قوم پر!!
جس قوم کو بھروسہ تھا اپنے رہنماؤں پر یہ ہمارے حق میں صدائیں بلند کریں گے لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے، کہ بڑے پیمانے پر جلسے جلوس ، اجتماع، کانفرنس، منعقد کئے جاتے ہیں، کہیں پر کروڑوں، کہیں پر لاکھوں روپے برباد کر دئیے جاتے ہیں، لیکن نتیجہ اخذ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ قوم کی حالت جوں کی توں ہے، مقررین کی صدائیں فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتی ہیں، کہیں پر شیریں الفاظ سے لوگوں کو مسحور کیا جاتا ہے اور آہ زاری میں طویل دعائیں ہوتی ہیں لیکن دل میں اخلاص نہ ہونے کی بنا پر قوم مزید خستہ حال ہوتی جا رہی ہے-
جہاں پیسوں پر مقررین کی صدائیں بک جاتی ہوں، جن کی رہائش ہوٹلوں میں، سفر ہوائی جہاز میں، پیسہ پہلے سے طے شدہ ہو، ان کے بیان سے قوم کو کیا فائدہ ہوگا، ساری توانائی اسی پر صرف کر دیتے ہیں کہ میری کرسی سلامت رہے، میری جیب گرم رہے، مجھے کون سی تکلیف ہے ،میری دوکان چلتی رہے، جو مصیبت آئے گی وہ قوم پر آئے گی اس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑے گا-
قوم کی خستہ حالی کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جو الیکشن کے وقت برساتی میڈک کی طرح سے نکل کر آ جاتے ہیں اور مسلمانوں کے ووٹ کو منقسم کر کے ان کو غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، ان لوگوں کو قوم نہیں اپنی ذاتی زندگی سنوارنے کی فکر ہوتی ہے، اسی لئے ایک ہی سیٹ سے کئی لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں، کوئی نہیں سوچتا کہ ہم قوم کی خدمت کے لیے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں تو آپس میں اتحاد کرلیں، وہ تو جب سوچیں جب قوم کے لئے فکر مند ہوں، جن کی نگاہ میں دنیا کی سب سے عزیز ترین شئے پیسہ ہو وہ قوم کی خوش حالی کے لیے کیونکر فکر مند ہو سکتے ہیں -
یہ قوم کی بدقسمتی ہی تو ہے کہ قوم نے ہمیشہ اپنے رہبروں کا ساتھ دیا لیکن ان لوگوں نے قوم کو کیا دیا!! تعصب، غربت، ناخواندگی، ذلت و رسوائی، اس کے علاوہ اور کیا دیا ہے؟ کالج، یونیورسٹی، ہسپتال، بھی مسلمانوں کی ضروریات میں سے ہیں لیکن اس جانب توجہ نہیں دی گئی،ان چیزوں کو جنہوں نے اپنایا وہ قوم اس ملک میں سرخ رو ہے ، مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا قول ہے، اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں، بلکہ سوفیصد تہجد گزار بنا دیا جائے، لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے، اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کرایا جائے، تو ممکن ہے اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد کر دی جائے -
غور کریں!! وہ کون سی خوبیاں ہیں جن کی بنا پر سکھ، عیسائی، بدھسٹ، اقلیت میں ہوتے ہوئے معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہیں، ان کے یہاں گداگری کے پیشے سے وابستہ گلے میں کشکول لٹکائے ہوئے آپ کو دِکھائی نہیں دیں گے -
اس کے برعکس مسلمانوں کو دیکھ لیں سب سے زیادہ بھکاری ان میں ہی پائے جاتے ہیں -
سروے رپورٹ کے مطابق مسلمان اس ملک میں غربت کی نچلی سطح تک پہنچ گئے ہیں
اس جانب توجہ نہیں دی گئی تو آنے والی نسلوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.