تحریر: سلمان کبیرنگری ایڈیٹر نئی روشنی برینیاں سنت کبیر نگر یوپی
ــــــــــــــــــ
مکرمی!
اردو زبان کی پیدائش اور نشوونما سے مطابق ماہرین متضاد نظریے ملتے ہیں، دراصل اس زبان کی تاریخ ہندوستان کے ہزار سالہ دور کی تاریخ ہے، ان ہزار سالوں میں ہندوستانی معاشرہ وعروج وزوال اور تغیر کے ان ادوار سے گزرا، اس کا اثر کم وبیش یہاں کی ہرزبان اور ادب پر پڑا، ملک کی سیاسی وسماجی صورتحال میں اس زبان کو بلندی تک پہونچا دیا، دسویں صدی کے بعد کچھ ایسے تاریخی حالات سامنے آئے کہ جدید زبانوں کے گروہ میں ایک نئی زبان نے جنم لیا، جس کو آج اردو کہا جاتا ہے یہ زبان حالات زمانے کے ساتھ مختلف نشیب وفراز سے دوچار ہوئی اور آج اپنی ترقی یافتہ شکل میں دنیا کے گوشے گوشے میں پڑھی لکھی اور بولی جاتی ہے، 19صدی میں اردو زبان وادب میں بہت سی تبدیلیاں رو نما ہوئیں، اس کے صف اول میں انگریزوں کا سیاسی اقتدار ہندوستان کے بڑے حصے میں پھیل چکا تھا، اور ملک کے معاشی حالات مکمل طور پر بدل چکے تھے، اس لئے زبان وادب پر بھی اثر انداز ہونے لگے فنکار اپنی تحریروں کے ذریعے ان تبدیلیوں کو اجاگر کرنے لگے، اپنے احساسات کو عوام تک پہونچانے کے لئے انہوں نے نئے نئے وسائل اختیار کئے، جو بڑی حد تک کامیاب رہے، ادب کے مختلف اصناف کے ذریعے عوامی بیداری کی کوشش کی جانے لگیں جس سے زبان وادب کو بھی کافی فروغ حاصل ہوا، لیکن 19صدی کے وسط سے تاریخ اور سماجی تغیرات جو اثر زیادہ نمایاں ہو اور نثر نگاری کا عروج اور نثری اصناف کا ارتقاء تھا.
ــــــــــــــــــ
مکرمی!
اردو زبان کی پیدائش اور نشوونما سے مطابق ماہرین متضاد نظریے ملتے ہیں، دراصل اس زبان کی تاریخ ہندوستان کے ہزار سالہ دور کی تاریخ ہے، ان ہزار سالوں میں ہندوستانی معاشرہ وعروج وزوال اور تغیر کے ان ادوار سے گزرا، اس کا اثر کم وبیش یہاں کی ہرزبان اور ادب پر پڑا، ملک کی سیاسی وسماجی صورتحال میں اس زبان کو بلندی تک پہونچا دیا، دسویں صدی کے بعد کچھ ایسے تاریخی حالات سامنے آئے کہ جدید زبانوں کے گروہ میں ایک نئی زبان نے جنم لیا، جس کو آج اردو کہا جاتا ہے یہ زبان حالات زمانے کے ساتھ مختلف نشیب وفراز سے دوچار ہوئی اور آج اپنی ترقی یافتہ شکل میں دنیا کے گوشے گوشے میں پڑھی لکھی اور بولی جاتی ہے، 19صدی میں اردو زبان وادب میں بہت سی تبدیلیاں رو نما ہوئیں، اس کے صف اول میں انگریزوں کا سیاسی اقتدار ہندوستان کے بڑے حصے میں پھیل چکا تھا، اور ملک کے معاشی حالات مکمل طور پر بدل چکے تھے، اس لئے زبان وادب پر بھی اثر انداز ہونے لگے فنکار اپنی تحریروں کے ذریعے ان تبدیلیوں کو اجاگر کرنے لگے، اپنے احساسات کو عوام تک پہونچانے کے لئے انہوں نے نئے نئے وسائل اختیار کئے، جو بڑی حد تک کامیاب رہے، ادب کے مختلف اصناف کے ذریعے عوامی بیداری کی کوشش کی جانے لگیں جس سے زبان وادب کو بھی کافی فروغ حاصل ہوا، لیکن 19صدی کے وسط سے تاریخ اور سماجی تغیرات جو اثر زیادہ نمایاں ہو اور نثر نگاری کا عروج اور نثری اصناف کا ارتقاء تھا.