تحریر: محمد شاہ نواز عادل متعلم شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند
ــــــــــــــــــــــــــ
محبت ایک ایسا انسانی جذبہ ہے، جو کسی کی زندگی کو آباد کر سکتی ہے، اور برباد بھی کرسکتی ہے، انسانی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت رہی ہے، اہل مغرب نے اس کے اظہار کے لیے ویلنٹائن ڈے کا دن متعین کیا ہے، ویلنٹائن ڈے چونکہ اہل مغرب کا پسندیدہ تہوار ہے، پہلے پہل محبت کا یہ بدنام دن صرف امریکہ اور یوروپ کی اخلاق و اقدار سے عاری تنگ و تاریک محفلوں اور جھومتے گاتے نائٹ کلب کی بزم میں ہی روایتی انداز سے منایا جاتا تھا، مگر آج تو ہر جگہ مغرب اور اس کی بدبخت تہذیب کی اندھی تقلید کا دور ہے، اہل شرف جہاں ان کی نقالی اور رسم و رواج کو اپنانے ہی میں اپنا طرہ امتیاز جان رہے اور اخلاق و اقدار کو ختم والے رسم و رواج، عید و تہوار اور خصوصی دنوں کو دین و شریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بلا چوں چرا ماننے، اور منانے اور جشن کرنے کو اپنے مہذب اور مشقف ہونے کی علامت سمجھ رہے ہیں تو وہیں یوم محبت(ویلنٹائن ڈے) بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔
ویلنٹائن ڈے ابتداء،تاریخ :
اس کی ابتداءکی کے متعلق کئی روایات ہیں، لیکن سب سے زیادہ قابل بھروسہBritannica Encyclopediaکی وہ روایت جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس دن کا تعلق Valentine Saint سے نہیں بلکہ قدیم رومیوں کے ایک دیوتا Lupercallia کے مشرکانہ تہوار سے ہے۔ یہ تہوار 15/فروی کو juno Februata کے آغاز میں منعقد ہوتا تھا۔ لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دیے جاتے اور مرد دیکھے بغیر جس لڑکی کا نام نکالتے وہی تہوار کے ختم ہونے تک ان کی ساتھی بن جاتی۔
جب روم میں عیسائیت کو فروغ ملا تو اس تہوار کو عیسائیت کا جامہ پہنانے کی اس طرح کوشش کی کہ لڑکیوں کے ناموں کے بجائے اولیائs Saint کے نام ڈال دئیے گئے۔اب جس Saint کا نام نکلتا مرد حضرات کو اس کی تقلید سارا سال کرنی پڑتی۔ لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور دوبارہ لڑکیوں کے ناموں کا قرعہ ڈالا جانے لگا۔
کئی لوگ اس تہوار کو Cupid سے متعلق سمجھتے ہیں، جو رومیوں کا محبت کا دیوتا تھا، جس کا یوم ویلنٹائن میں اہم کردار ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں میں تیر مار کر ان کو عشق میں مبتلا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے اس کی ماں محبت کی دیوی Venus ہے، جس کا پسندیدہ پھول گلاب ہے۔
ایک اور روایت کے مطابق اس کا تعلق Valentine Saint سے ہے، جس کو شاہClaudius نے 14 /فروری کو اس جرم میں قتل کروادیا کہ وہ اس کے فوجیوں کی خفیہ طور پر شادیاں کرواتا، جن کو شادیوں کی اجازت نہ تھی۔ دوران قید، قید خانے کے داروغہ کی بیٹی سے عشق ہو گیا اور انہوں نے اس کو خط لکھا جس کے آخر میں دستخط کیے ”تمہارا Valentine “ یہ طریقہ بعد میں لوگوں میں رواج پا گیا۔496 ءمیں پائے روم Gelusiusنے سرکاری طور پر 14 /فروری کے مشرکانہ تہوار کو یوم Valentine Saint میں تبدیل کر دیا۔
چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط پیغامات کارڈز اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پا گیا۔
برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کو بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منایا جانے لگا، برطانوی کاوءنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ /14فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کے لیے تراشے جاتے اور خوبصورتی کے لیے ان کے اوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کے لیے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔
ویلنٹائن ڈے کے متعلق یوں بھی مشہور ہے کہ اگر کوئی چڑیا کسی عورت کے سر پر سے گزر جائے تو اس کی شادی ملاح سے ہوتی ہے۔ اور اگر عورت کوئی چڑیا دیکھ لے تو اس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے۔ جب کہ زندگی بھی خوشگوار گزرے گی اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پر کسی سنہرے پرندے کو دیکھ لے تو اس کی شادی کسی امیر کبیر شخص سے ہوگی اور زندگی ناخوش گوار گزرے گی۔
امریکہ میں مشہور ہے کہ /14فروری کو وہ لڑکے اور لڑکیاں جوآپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاوءس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں جونہی رقص کا عمل ختم ہوگا اور جوآخری نام ان کے لبوں پر ہوگا اس سے ہی اس کی شادی قرار پائے گی۔
جب کہ زمانہ قدیم سے مغربی ممالک میں یہ دلچسپ روایت بھی زبان زد عام ہے کہ اگر آپ اس بات کے خواہش مند ہیں کہ یہ جان سکیں آپ کی کتنی اولاد ہوگی تو ویلنٹائن ڈے پر ایک سیب درمیان سے کاٹیں ،کٹے ہوئے سیب کے آدھے حصے پر جتنے بیج ہوں گے اتنے ہی آپ کے بچے پیدا ہوں گے۔ جاپان میں خواتین ویلنٹائن ڈے پر اپنے جاننے والے تمام مردوں کو تحائف پیش کرتی ہیں۔
اٹلی میں غیر شادی شدہ خواتین سورج نکلنے سے پہلے کھڑکی میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور جو پہلا مرد ان کے سامنے سے گزرتا ہے ان کے عقیدے کے مطابق وہ ان کا ہونے والا خاوند ہوتا ہے۔
ڈنمارک میں برف کے قطرے محبوب کو بھیجے جاتے ہیں تحریری طور پر ویلنٹائن کی مبارک باد دینے کا رواج /14صدی میں ہوا ابتدا میں رنگین کاغذوں پر واٹر کلر اور رنگین روشنائی سے کام لیا جاتا تھا ،جس کی مشہور اقسام کروسٹک ویلنٹائن’ کٹ آﺅٹ‘ اورپرل پرس ویلنٹائن کا رخانوں میں بننے لگے /19ویں صدی کے آغاز پر ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی روایت باقاعدہ طور پر پڑی جو اب ایک مستقل حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
آج کایوم ویلنٹائن ڈے :
اس دن کو منانے کی ابتداءکسی بھی طرح ہوئی ہو، آج یہ تہوار اپنی مشرکانہ اور فضول روایات کی طرف لوٹتا نظر آتا ہے، اب ہر جگہ اس موقع کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، نوجوان کے دلوں میں جذبات کی آگ بھڑکا کر کسی خاص محبوب کی ضرورت کا احساس دلایا جاتا ہے، اخبار میں یہ خبر چھپتی ہے کہ ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق صرف اس وجہ سے مانگی کہ اس نے ویلنٹائن ڈے پر بیوی کو کوئی تحفہ نہیں دیا، یوم ویلنٹائن نے اس خاتون کو محبت کے بجائے، محبت سے محرومی میں مبتلا کر دیا، آخر یہ کیسی محبت ہے جس کی بقا تحفوں پر منحصر ہے؟ یہ کیسی محبت ہے جو سارے سال میں صرف ایک دن تک محدود ہے؟ یہ کیسی محبت ہے جو نفرت، جلن اور احساس کمتری پیدا کرتی ہے، یوم ویلنٹائن کالج، یونیورسٹی کے ان لڑکوں، لڑکیوں کے لیے بھی بہت تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے جو زیادہ مقبول نہیں ہوتے، اس وجہ سے کہ انہیں اتنے ویلنٹائن کارڈز نہیں ملتے جتنے ان کے ساتھیوں کو ملی تھی۔
یوم ویلنٹائن پر سرخ رنگ کپڑے پہننا، ویلنٹائن کارڈز، دل اور چاکلیٹس کے تحائف بھیجنا پوری دنیا میں عام ہوتا جا رہا ہے، بظاہر معصوم اور بے ضرر نظر آنے والی ان چیزوں کے ذریعے جنسی آزادی اور لڑکے، لڑکیوں کے آزادانہ تعلق کو فروغ دیا جارہا ہے، ساتھ ہی جذبات کے آزادانہ تعلق اور کھلے اظہار کو عام کیا جا رہا ہے،” جس میں اخبارات میں محبت بھرے پیغامات چھپوانا، تنہائی میں ملاقاتیں کرنا، رقص و موسیقی کی محفلوں میں عیاشی و مستی کرنا وغیرہ شامل ہیں“۔ حتی کہ تعلیمی ادارے بھی اپنے طالب علموں کے لیے اس قسم کی پارٹیز منعقد کرانے میں پیچھے نہیں رہتے، نتیجتاً بچوں میں بھی شہوانی احساسات اور ان کو کھلم کھلا اظہار کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
نوجوان اپنی پسندیدہ فلموں کےScene Love کی نقل کرتے دن دھاڑے نظر آتے ہیں۔ عشق و محبت کے اس سارے خبط میں اسلام کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، اور اسلامی تعلیمات کا سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے،۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ویلنٹائن ڈے کیوں منا رہے ہیں؟
کیا یہ ہمارا قومی یا دینی تہوارہے؟
تہوار تو قوموں کی پہچان ہوتی ہیں۔ دین یا ثقافت کی کی علامت ہوتے ہیں۔
کیا ویلنٹائن ڈے کے مخالف،محبتِ دشمن ہیں :
ہو سکتا ہے کہ بعض نادان یہ کہیں کہ تم تو ہمیں محبت سے محروم کرنا چاہتے ہو، حالاں کہ ہم تو اس دن اپنے شعور اور خیالات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس کی تعبیر کرتے ہیں، تو اس میں ممانعت کیا؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے، اس دن کے ظاہری نام اور اس کے پیچھے جو ان کا حقیقی مقصد ہے، وہ چاہتے ہیں اس میں خلط ملط کرنا غلط ہے، لہذا اس تہوار کے نام پر جو محبت مقصود ہے وہ عشق مجازی کی وہ کم ترین درجہ ہے جس کا مقصد چوری چھپے لڑکے، لڑکیوں کا ایک دوسرے سے ملنا، دوستی کرنا اور یار بنانا ہے۔
اس دن کے بارے میں معروف ہے کہ یہ تہوار فحاشی، آزادانہ میل ،ملاپ اور بغیر نکاح جنسی تعلقات کا قائم کرنے کا ذریعہ ہے،یہ لوگ خاوند اور بیوی، بیوی اور اس کے خاوند کے مابین پاکیزہ محبت کی بات نہیں کرتے، یا پھر کم از کم وہ خاوند اور بیوی کے مابین شرعی محبت اور عاشق و معشوق اور چوری چھپے دوستیاں لگانے والوں کی حرمت کے مابین کسی قسم کا کوئی فرق نہیں کرتے، لہذا یہ تہوار ان کے لیے ساری محبت کی تعبیر کا وسیلہ ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ ملک کا وہ دانش ور طبقہ جس کے ہاتھ ذرائع ابلاغ کی باگ ڈور ہے، جسے لفظوں سے کھیلنا اور حرفوں کے تانے بانے بننے کا فن آتا ہے وہ روشن خیال اور معصوم تفریح کی آڑ میں نوجوان نسل کو مذہبی حدود اور اخلاق قیود سے آزاد کرانے پر ابلیس کے چیلوں سے ادھار کھائے بیٹھا ہے، غیرت فروشی کے اس نمائندہ تہوار میں آخر یہ دانش رو ٹائپ لوگ ہی پیچھے کیوں رہتے ہیں...؟
انہی کے بارے میں تو اقبال نے کہا ہے ۔ع
شاعر و صورت گرو افسانہ نگار
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
انہوں نے اپنے شاطر دماغ سے جو موتی برآمد کیے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
(۱)یہ تہوار موسم بہار کی طرح دلوں میں خوشی کے پھول اگاتا ہے ۔
(۲)اپنے چاہنے والے کو سامنے دیکھنا، پھول دینا، اظہار محبت کرنا ایک جراءت مندانہ اور تخلیقی عمل ہے۔
(۳)موسم کی تبدیلی اور پھولوں کی آمد چاہنے والوں کو اپنی بات کھل کر، کرنے اور جراءتِ اظہار کا موقع دیتی ہے۔
(۴)ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار جذباتی توازن کے لیے بہت ضروری ہیں، کیونکہ کہ گھٹن، نفسیاتی مسائل پیدا کرتی ہے، جو بعض اوقات ہسٹیریا، یا دوسری ذہنی بیماریوں کا باعث بن جاتی ہے۔
واقعی! باکمال دانش ور ہیں یہ لوگ، جنہوں نے ویلنٹائن ڈے سے جراءت مندانہ تخلیق اور گھٹن سے بچنے کا نایاب نسخہ بر آمد کر لیا ہے، اوریہ ایسی کیمیائی دوا ہے، کہ ایک بار کے عمل سے پورے سال کے لیے کافی ہوجاتا ہے، اور ایک سال تک مسلسل آرام و سکون کی ہوا آتی رہتی ہے، ہاںجس نے بھی یہ نسخہ تیار کیا ہے ،نیم حکیم خطرے ایمان سے کم نہیں ہے۔
خیر! ہم ان جیسوں کے لیے سوائے دعائِ ہدایت کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟؟
ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت:
اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ کامل اور مکمل طرز حیات ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونے کے ساتھ یہ اعتراف بھی ہے کہ اسلام کے ماننے والے اپنی اصل شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت دین کی بنیادی تعلیمات آداب و شعائر سے نا آشنا ہے، ہم نے اپنے دستورِ حیات کو بھول کر مغرب کے باطل نظریات کو قبول کر لیا ہے، جو محض دنیا وی حرص و ہوس کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خوشیاں منانے کے لیے سال میں دو تہوار عطا کیے ہیں اور ان کیادائیگی کا طریقہ کار بھی بتا دیا ہے، مگر ہم نے اپنی زندہتہذیب کو چھوڑ کر اس قوم کی دم توڑتی تہدیب کو سینے سے لگا لیا جو ”مہذب“ ہونے کی دعویدار ضرور ہے لیکن سائشتگی کا عنصر ،ان میں نہیں۔
جن نے انسداد دہشت گردی کے نام پر افغانستان و عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا کر وہاں کے قید یوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اپنا تشخص اور پہچان ہے، جو ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید میں بھول بیٹھے ہیں۔اورویلنٹائن ڈے اس طرح منانے لگے ہیں کہ شاید ہندؤں اور انگریزوں کے یہاں بھی نہ منائے جاتے ہوں۔ آج جب کہ ہماری اکثریت بھی اس بات سے ناواقف ہے کہ ان تہواروں کو منائے جانے کی کیا وجوہات ہیں؟
ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے زبانی دعویدار یہ تک نہیں جانتے کہ لا علمی میں ہم کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ویلنٹائن ڈے پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہا کر Celebrate کرتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں نصف سے زائد آبادی کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا، بھوک مٹانے کے لیے روٹی اور سر چھپانے کے لیے رہائش بھی پوری طرح میسر نہیں ہے۔ اورکیا قرض میں جکڑے ملک کو یہ فضول خرچیاں زیب دیتی ہیں؟پھر زیب و آرائش میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش ،آخر یہ کسی تہذیب اور کون سی ثقافت کی نمائندگی ہے۔؟
جبکہ ہمارا مذہب اسلام پھول اور کارڈز پر رقم ضائع کرنے کے بجائے حقوق و فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
دل کی گہرائی کے ساتھ والدین کے لیے بازو جھکا دینے اور بزرگوں کی خدمت کے لیے کوشاں رہنے کی تعلیم و تلقین کرتا ہے۔
بچوں کی پرورش کے لیے تکلیف اٹھانے اور دن و رات مشقت برداشت کرنے کو پدرانہ و مادرانہ محبت سے تعبیر کرتا ہے۔
باحیا اور باوقار طریق محبت(نکاح) کے بعد میاں، بیوی کو زندگی کے آخری سانس تک باہم وفا ،اخلاص، ہم دردی، موانست اور تحمل کے ساتھ رفاقت نبھانے کو اصل محبت قرار دیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت چاہے شادی شدہ اور بال بچے دار ہی کیوں نہ ہو، اس کا اجنبی مردوں کے سامنے آنا اور ضرورت کے وقت بھی نرم آواز میں بات چیت کرنا درست نہیں، پھر اس کے لیے یہ کیسے روا ہوسکتا ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو اپنا دوست بنائے اور ہدیہ، تحائف پیش کرے۔
ویلنٹائن ڈے اگر کنوارے، کنواریوں کے رشتے تلاش کرنے کا دن ہے تو اسلام کنواری لڑکی کو قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ اپنا رشتہ خود تلاش کرتی پھرے، بلکہ یہ اس کے سر پرست مرد کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے مناسب اور صالح رشتہ تلاش کرکے شریعت کے مطابق اس کا نکاح کردے، اگر یہ سینٹ (پادری) ویلنٹائن کی داستان عشق کی یاد منانے کا دن ہے تو یہ ایک انتہائی غلیظ اور خبیث فعل ہے، جو زنا جیسا قبیح فعل کرکے مذہب کے نام پر عورت کو دھوکہ دے کر پھانس لے۔ اسلام تو ایسے معمولی واقعات کو بھی دوسرے کے سامنے بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔اساف اور نائلہ نے حرم میں زنا کیا تو ان کے جسم سزا کے طور پر پتھر بنا دیے گئے،لیکن اوباش پسند لوگوں نے انھیں دیوتا بنا لیا۔پنجاب میں ہیر رانجے نے ایسی حرکت کی تو انہیں بھی آوارہ مزاجوں نے مرشد بنا لیا۔ اگر یہ محبت کے دیوتا کی یاد میں منایا جانے والا دن ہے تو یہ غیر قوموں کا تصور معبودیت ہے، جس کی اسلام بالکل بھی اجازت نہ دیتا ہے اور نہ کبھی دے گا۔
لیکن اگر کوئی زبردستی جائز صورت نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ آخرت میں اپنے انجام بد کی فکر میں لگ جائے۔
طویل وضاحت کے بعد، یہ بات ہمارے سامنے بالکل عیاں ہو گئی کہ معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پروان چڑھانا، اسلامی معاشرے کی تباہی و بربادی پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ہمیں اس بارے میں بہت گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اخیر میں ،میں آپ تمام کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ مجھے اور آپ تمام کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے۔ ”آمین یار ب العلمین۔“
ــــــــــــــــــــــــــ
محبت ایک ایسا انسانی جذبہ ہے، جو کسی کی زندگی کو آباد کر سکتی ہے، اور برباد بھی کرسکتی ہے، انسانی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت رہی ہے، اہل مغرب نے اس کے اظہار کے لیے ویلنٹائن ڈے کا دن متعین کیا ہے، ویلنٹائن ڈے چونکہ اہل مغرب کا پسندیدہ تہوار ہے، پہلے پہل محبت کا یہ بدنام دن صرف امریکہ اور یوروپ کی اخلاق و اقدار سے عاری تنگ و تاریک محفلوں اور جھومتے گاتے نائٹ کلب کی بزم میں ہی روایتی انداز سے منایا جاتا تھا، مگر آج تو ہر جگہ مغرب اور اس کی بدبخت تہذیب کی اندھی تقلید کا دور ہے، اہل شرف جہاں ان کی نقالی اور رسم و رواج کو اپنانے ہی میں اپنا طرہ امتیاز جان رہے اور اخلاق و اقدار کو ختم والے رسم و رواج، عید و تہوار اور خصوصی دنوں کو دین و شریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بلا چوں چرا ماننے، اور منانے اور جشن کرنے کو اپنے مہذب اور مشقف ہونے کی علامت سمجھ رہے ہیں تو وہیں یوم محبت(ویلنٹائن ڈے) بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔
ویلنٹائن ڈے ابتداء،تاریخ :
اس کی ابتداءکی کے متعلق کئی روایات ہیں، لیکن سب سے زیادہ قابل بھروسہBritannica Encyclopediaکی وہ روایت جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس دن کا تعلق Valentine Saint سے نہیں بلکہ قدیم رومیوں کے ایک دیوتا Lupercallia کے مشرکانہ تہوار سے ہے۔ یہ تہوار 15/فروی کو juno Februata کے آغاز میں منعقد ہوتا تھا۔ لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دیے جاتے اور مرد دیکھے بغیر جس لڑکی کا نام نکالتے وہی تہوار کے ختم ہونے تک ان کی ساتھی بن جاتی۔
جب روم میں عیسائیت کو فروغ ملا تو اس تہوار کو عیسائیت کا جامہ پہنانے کی اس طرح کوشش کی کہ لڑکیوں کے ناموں کے بجائے اولیائs Saint کے نام ڈال دئیے گئے۔اب جس Saint کا نام نکلتا مرد حضرات کو اس کی تقلید سارا سال کرنی پڑتی۔ لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور دوبارہ لڑکیوں کے ناموں کا قرعہ ڈالا جانے لگا۔
کئی لوگ اس تہوار کو Cupid سے متعلق سمجھتے ہیں، جو رومیوں کا محبت کا دیوتا تھا، جس کا یوم ویلنٹائن میں اہم کردار ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں میں تیر مار کر ان کو عشق میں مبتلا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے اس کی ماں محبت کی دیوی Venus ہے، جس کا پسندیدہ پھول گلاب ہے۔
ایک اور روایت کے مطابق اس کا تعلق Valentine Saint سے ہے، جس کو شاہClaudius نے 14 /فروری کو اس جرم میں قتل کروادیا کہ وہ اس کے فوجیوں کی خفیہ طور پر شادیاں کرواتا، جن کو شادیوں کی اجازت نہ تھی۔ دوران قید، قید خانے کے داروغہ کی بیٹی سے عشق ہو گیا اور انہوں نے اس کو خط لکھا جس کے آخر میں دستخط کیے ”تمہارا Valentine “ یہ طریقہ بعد میں لوگوں میں رواج پا گیا۔496 ءمیں پائے روم Gelusiusنے سرکاری طور پر 14 /فروری کے مشرکانہ تہوار کو یوم Valentine Saint میں تبدیل کر دیا۔
چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط پیغامات کارڈز اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پا گیا۔
برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کو بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منایا جانے لگا، برطانوی کاوءنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ /14فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کے لیے تراشے جاتے اور خوبصورتی کے لیے ان کے اوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کے لیے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔
ویلنٹائن ڈے کے متعلق یوں بھی مشہور ہے کہ اگر کوئی چڑیا کسی عورت کے سر پر سے گزر جائے تو اس کی شادی ملاح سے ہوتی ہے۔ اور اگر عورت کوئی چڑیا دیکھ لے تو اس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے۔ جب کہ زندگی بھی خوشگوار گزرے گی اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پر کسی سنہرے پرندے کو دیکھ لے تو اس کی شادی کسی امیر کبیر شخص سے ہوگی اور زندگی ناخوش گوار گزرے گی۔
امریکہ میں مشہور ہے کہ /14فروری کو وہ لڑکے اور لڑکیاں جوآپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاوءس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں جونہی رقص کا عمل ختم ہوگا اور جوآخری نام ان کے لبوں پر ہوگا اس سے ہی اس کی شادی قرار پائے گی۔
جب کہ زمانہ قدیم سے مغربی ممالک میں یہ دلچسپ روایت بھی زبان زد عام ہے کہ اگر آپ اس بات کے خواہش مند ہیں کہ یہ جان سکیں آپ کی کتنی اولاد ہوگی تو ویلنٹائن ڈے پر ایک سیب درمیان سے کاٹیں ،کٹے ہوئے سیب کے آدھے حصے پر جتنے بیج ہوں گے اتنے ہی آپ کے بچے پیدا ہوں گے۔ جاپان میں خواتین ویلنٹائن ڈے پر اپنے جاننے والے تمام مردوں کو تحائف پیش کرتی ہیں۔
اٹلی میں غیر شادی شدہ خواتین سورج نکلنے سے پہلے کھڑکی میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور جو پہلا مرد ان کے سامنے سے گزرتا ہے ان کے عقیدے کے مطابق وہ ان کا ہونے والا خاوند ہوتا ہے۔
ڈنمارک میں برف کے قطرے محبوب کو بھیجے جاتے ہیں تحریری طور پر ویلنٹائن کی مبارک باد دینے کا رواج /14صدی میں ہوا ابتدا میں رنگین کاغذوں پر واٹر کلر اور رنگین روشنائی سے کام لیا جاتا تھا ،جس کی مشہور اقسام کروسٹک ویلنٹائن’ کٹ آﺅٹ‘ اورپرل پرس ویلنٹائن کا رخانوں میں بننے لگے /19ویں صدی کے آغاز پر ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی روایت باقاعدہ طور پر پڑی جو اب ایک مستقل حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
آج کایوم ویلنٹائن ڈے :
اس دن کو منانے کی ابتداءکسی بھی طرح ہوئی ہو، آج یہ تہوار اپنی مشرکانہ اور فضول روایات کی طرف لوٹتا نظر آتا ہے، اب ہر جگہ اس موقع کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، نوجوان کے دلوں میں جذبات کی آگ بھڑکا کر کسی خاص محبوب کی ضرورت کا احساس دلایا جاتا ہے، اخبار میں یہ خبر چھپتی ہے کہ ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق صرف اس وجہ سے مانگی کہ اس نے ویلنٹائن ڈے پر بیوی کو کوئی تحفہ نہیں دیا، یوم ویلنٹائن نے اس خاتون کو محبت کے بجائے، محبت سے محرومی میں مبتلا کر دیا، آخر یہ کیسی محبت ہے جس کی بقا تحفوں پر منحصر ہے؟ یہ کیسی محبت ہے جو سارے سال میں صرف ایک دن تک محدود ہے؟ یہ کیسی محبت ہے جو نفرت، جلن اور احساس کمتری پیدا کرتی ہے، یوم ویلنٹائن کالج، یونیورسٹی کے ان لڑکوں، لڑکیوں کے لیے بھی بہت تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے جو زیادہ مقبول نہیں ہوتے، اس وجہ سے کہ انہیں اتنے ویلنٹائن کارڈز نہیں ملتے جتنے ان کے ساتھیوں کو ملی تھی۔
یوم ویلنٹائن پر سرخ رنگ کپڑے پہننا، ویلنٹائن کارڈز، دل اور چاکلیٹس کے تحائف بھیجنا پوری دنیا میں عام ہوتا جا رہا ہے، بظاہر معصوم اور بے ضرر نظر آنے والی ان چیزوں کے ذریعے جنسی آزادی اور لڑکے، لڑکیوں کے آزادانہ تعلق کو فروغ دیا جارہا ہے، ساتھ ہی جذبات کے آزادانہ تعلق اور کھلے اظہار کو عام کیا جا رہا ہے،” جس میں اخبارات میں محبت بھرے پیغامات چھپوانا، تنہائی میں ملاقاتیں کرنا، رقص و موسیقی کی محفلوں میں عیاشی و مستی کرنا وغیرہ شامل ہیں“۔ حتی کہ تعلیمی ادارے بھی اپنے طالب علموں کے لیے اس قسم کی پارٹیز منعقد کرانے میں پیچھے نہیں رہتے، نتیجتاً بچوں میں بھی شہوانی احساسات اور ان کو کھلم کھلا اظہار کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
نوجوان اپنی پسندیدہ فلموں کےScene Love کی نقل کرتے دن دھاڑے نظر آتے ہیں۔ عشق و محبت کے اس سارے خبط میں اسلام کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، اور اسلامی تعلیمات کا سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے،۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ویلنٹائن ڈے کیوں منا رہے ہیں؟
کیا یہ ہمارا قومی یا دینی تہوارہے؟
تہوار تو قوموں کی پہچان ہوتی ہیں۔ دین یا ثقافت کی کی علامت ہوتے ہیں۔
کیا ویلنٹائن ڈے کے مخالف،محبتِ دشمن ہیں :
ہو سکتا ہے کہ بعض نادان یہ کہیں کہ تم تو ہمیں محبت سے محروم کرنا چاہتے ہو، حالاں کہ ہم تو اس دن اپنے شعور اور خیالات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس کی تعبیر کرتے ہیں، تو اس میں ممانعت کیا؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے، اس دن کے ظاہری نام اور اس کے پیچھے جو ان کا حقیقی مقصد ہے، وہ چاہتے ہیں اس میں خلط ملط کرنا غلط ہے، لہذا اس تہوار کے نام پر جو محبت مقصود ہے وہ عشق مجازی کی وہ کم ترین درجہ ہے جس کا مقصد چوری چھپے لڑکے، لڑکیوں کا ایک دوسرے سے ملنا، دوستی کرنا اور یار بنانا ہے۔
اس دن کے بارے میں معروف ہے کہ یہ تہوار فحاشی، آزادانہ میل ،ملاپ اور بغیر نکاح جنسی تعلقات کا قائم کرنے کا ذریعہ ہے،یہ لوگ خاوند اور بیوی، بیوی اور اس کے خاوند کے مابین پاکیزہ محبت کی بات نہیں کرتے، یا پھر کم از کم وہ خاوند اور بیوی کے مابین شرعی محبت اور عاشق و معشوق اور چوری چھپے دوستیاں لگانے والوں کی حرمت کے مابین کسی قسم کا کوئی فرق نہیں کرتے، لہذا یہ تہوار ان کے لیے ساری محبت کی تعبیر کا وسیلہ ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ ملک کا وہ دانش ور طبقہ جس کے ہاتھ ذرائع ابلاغ کی باگ ڈور ہے، جسے لفظوں سے کھیلنا اور حرفوں کے تانے بانے بننے کا فن آتا ہے وہ روشن خیال اور معصوم تفریح کی آڑ میں نوجوان نسل کو مذہبی حدود اور اخلاق قیود سے آزاد کرانے پر ابلیس کے چیلوں سے ادھار کھائے بیٹھا ہے، غیرت فروشی کے اس نمائندہ تہوار میں آخر یہ دانش رو ٹائپ لوگ ہی پیچھے کیوں رہتے ہیں...؟
انہی کے بارے میں تو اقبال نے کہا ہے ۔ع
شاعر و صورت گرو افسانہ نگار
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
انہوں نے اپنے شاطر دماغ سے جو موتی برآمد کیے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
(۱)یہ تہوار موسم بہار کی طرح دلوں میں خوشی کے پھول اگاتا ہے ۔
(۲)اپنے چاہنے والے کو سامنے دیکھنا، پھول دینا، اظہار محبت کرنا ایک جراءت مندانہ اور تخلیقی عمل ہے۔
(۳)موسم کی تبدیلی اور پھولوں کی آمد چاہنے والوں کو اپنی بات کھل کر، کرنے اور جراءتِ اظہار کا موقع دیتی ہے۔
(۴)ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار جذباتی توازن کے لیے بہت ضروری ہیں، کیونکہ کہ گھٹن، نفسیاتی مسائل پیدا کرتی ہے، جو بعض اوقات ہسٹیریا، یا دوسری ذہنی بیماریوں کا باعث بن جاتی ہے۔
واقعی! باکمال دانش ور ہیں یہ لوگ، جنہوں نے ویلنٹائن ڈے سے جراءت مندانہ تخلیق اور گھٹن سے بچنے کا نایاب نسخہ بر آمد کر لیا ہے، اوریہ ایسی کیمیائی دوا ہے، کہ ایک بار کے عمل سے پورے سال کے لیے کافی ہوجاتا ہے، اور ایک سال تک مسلسل آرام و سکون کی ہوا آتی رہتی ہے، ہاںجس نے بھی یہ نسخہ تیار کیا ہے ،نیم حکیم خطرے ایمان سے کم نہیں ہے۔
خیر! ہم ان جیسوں کے لیے سوائے دعائِ ہدایت کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟؟
ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت:
اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ کامل اور مکمل طرز حیات ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونے کے ساتھ یہ اعتراف بھی ہے کہ اسلام کے ماننے والے اپنی اصل شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت دین کی بنیادی تعلیمات آداب و شعائر سے نا آشنا ہے، ہم نے اپنے دستورِ حیات کو بھول کر مغرب کے باطل نظریات کو قبول کر لیا ہے، جو محض دنیا وی حرص و ہوس کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خوشیاں منانے کے لیے سال میں دو تہوار عطا کیے ہیں اور ان کیادائیگی کا طریقہ کار بھی بتا دیا ہے، مگر ہم نے اپنی زندہتہذیب کو چھوڑ کر اس قوم کی دم توڑتی تہدیب کو سینے سے لگا لیا جو ”مہذب“ ہونے کی دعویدار ضرور ہے لیکن سائشتگی کا عنصر ،ان میں نہیں۔
جن نے انسداد دہشت گردی کے نام پر افغانستان و عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا کر وہاں کے قید یوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اپنا تشخص اور پہچان ہے، جو ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید میں بھول بیٹھے ہیں۔اورویلنٹائن ڈے اس طرح منانے لگے ہیں کہ شاید ہندؤں اور انگریزوں کے یہاں بھی نہ منائے جاتے ہوں۔ آج جب کہ ہماری اکثریت بھی اس بات سے ناواقف ہے کہ ان تہواروں کو منائے جانے کی کیا وجوہات ہیں؟
ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے زبانی دعویدار یہ تک نہیں جانتے کہ لا علمی میں ہم کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ویلنٹائن ڈے پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہا کر Celebrate کرتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں نصف سے زائد آبادی کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا، بھوک مٹانے کے لیے روٹی اور سر چھپانے کے لیے رہائش بھی پوری طرح میسر نہیں ہے۔ اورکیا قرض میں جکڑے ملک کو یہ فضول خرچیاں زیب دیتی ہیں؟پھر زیب و آرائش میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش ،آخر یہ کسی تہذیب اور کون سی ثقافت کی نمائندگی ہے۔؟
جبکہ ہمارا مذہب اسلام پھول اور کارڈز پر رقم ضائع کرنے کے بجائے حقوق و فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
دل کی گہرائی کے ساتھ والدین کے لیے بازو جھکا دینے اور بزرگوں کی خدمت کے لیے کوشاں رہنے کی تعلیم و تلقین کرتا ہے۔
بچوں کی پرورش کے لیے تکلیف اٹھانے اور دن و رات مشقت برداشت کرنے کو پدرانہ و مادرانہ محبت سے تعبیر کرتا ہے۔
باحیا اور باوقار طریق محبت(نکاح) کے بعد میاں، بیوی کو زندگی کے آخری سانس تک باہم وفا ،اخلاص، ہم دردی، موانست اور تحمل کے ساتھ رفاقت نبھانے کو اصل محبت قرار دیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت چاہے شادی شدہ اور بال بچے دار ہی کیوں نہ ہو، اس کا اجنبی مردوں کے سامنے آنا اور ضرورت کے وقت بھی نرم آواز میں بات چیت کرنا درست نہیں، پھر اس کے لیے یہ کیسے روا ہوسکتا ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو اپنا دوست بنائے اور ہدیہ، تحائف پیش کرے۔
ویلنٹائن ڈے اگر کنوارے، کنواریوں کے رشتے تلاش کرنے کا دن ہے تو اسلام کنواری لڑکی کو قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ اپنا رشتہ خود تلاش کرتی پھرے، بلکہ یہ اس کے سر پرست مرد کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے مناسب اور صالح رشتہ تلاش کرکے شریعت کے مطابق اس کا نکاح کردے، اگر یہ سینٹ (پادری) ویلنٹائن کی داستان عشق کی یاد منانے کا دن ہے تو یہ ایک انتہائی غلیظ اور خبیث فعل ہے، جو زنا جیسا قبیح فعل کرکے مذہب کے نام پر عورت کو دھوکہ دے کر پھانس لے۔ اسلام تو ایسے معمولی واقعات کو بھی دوسرے کے سامنے بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔اساف اور نائلہ نے حرم میں زنا کیا تو ان کے جسم سزا کے طور پر پتھر بنا دیے گئے،لیکن اوباش پسند لوگوں نے انھیں دیوتا بنا لیا۔پنجاب میں ہیر رانجے نے ایسی حرکت کی تو انہیں بھی آوارہ مزاجوں نے مرشد بنا لیا۔ اگر یہ محبت کے دیوتا کی یاد میں منایا جانے والا دن ہے تو یہ غیر قوموں کا تصور معبودیت ہے، جس کی اسلام بالکل بھی اجازت نہ دیتا ہے اور نہ کبھی دے گا۔
لیکن اگر کوئی زبردستی جائز صورت نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ آخرت میں اپنے انجام بد کی فکر میں لگ جائے۔
طویل وضاحت کے بعد، یہ بات ہمارے سامنے بالکل عیاں ہو گئی کہ معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پروان چڑھانا، اسلامی معاشرے کی تباہی و بربادی پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ہمیں اس بارے میں بہت گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اخیر میں ،میں آپ تمام کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ مجھے اور آپ تمام کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے۔ ”آمین یار ب العلمین۔“