تحریر: عزیز اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــــــ
سنہ 2014 میرا یونیورسٹی کا فائنل ایئر تھا اور ہندوستانی الیکشن کا جملہ ایئر مودی جی کی ریلی پر ریلی، بھاشن پر بھاشن اور ہر بھاش میں دو کروڑ ملازمت کے وعدے نے مجھے اتنا متآثر کیا اس قدر پر اعتماد بنایا کہ بس یونیوسٹی سے سند پاتے ہی نوکری پکی، دماغ میں خوش فہمی لئے آنکھوں میں نوکری کا خواب سجائے کلاس چھوڑ کر مودی کی ہر ریلی میں ہر ہر مودی گھر گھر مودی کا نعرہ لگانے پہونچ جاتا ، مودی جی کے وعدے ، ٹیلیویژن کے دعوے نے الیکشن میں ایسا ماحول پیدا کیا کہ بس مودی جی کی حکومت بنتے ہی ہندوستان پھرسے سونے کی چڑیا بن جائے گا ، ہر طرف دودھ و شہد کی نہریں بہیں گی ، سڑکیں شیشے کی ہو جائیں گی ، بجلی، پانی ، دوا ، علاج ، تعلیم ، سب فری ہو جائے گا یہ سوچ کر میں بھی اپنی کلاس چھوڑکرمودی سرکار بنانے کی خاطر اپنے حصے کی طاقت الیکشن پرچار میں جھونک دی بالآخر مودی جی پوری اکثریت سے جیت گئے اورسات ملکوں کے سربراہان کی موجودگی میں بڑی شان وشوکت کے ساتھ حلف اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے ۔۔
تین مہینے بعد میری انجینئرنگ مکمل ہوئی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی اور ٹائی لگا کر نوکری کے لئے نکل پڑا تین سال جوتے گھستا رہا ، دھکے کھاتا رہا من کی بات سنتا رہا ، مودی مودی کرتا رہا سب کچھ کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملی ، بچی کھچی امیدیں بھی اس دن دم توڑ گئیں جس دن امت شاہ نے یہ کہ دیا کہ الیکشن کی ساری باتیں چناوی جملہ تھیں ، ملک میں کوئی ترقی نہیں کسی شعبے میں کام تو نہیں لیکن مودی نواز صحافت میں بڑا کام اور بڑی ترقی ہے سوچا صحافت میں ہی ڈپلوما کرکے قسمت آزمائی کرتا ہوں اگر ضمیر بیچنے کا ہنر سیکھ لیا پھر تو پیسہ ہی پیسہ ہے ڈپلوما کرنے کے بعد صحافت کی نیت سے تو نہیں بلکہ دولت و شہرت کمانے کی نیت سے ضمیر بیچ کر جب ٹی وی چینل پرانٹرویو دینے گیا تو پتہ چلا کہ جہاں سچی صحافت اورانسانیت ہے وہاں تحفظ نہیں جہاں تحفظ و ترقی ہے وہاں انسانیت نہیں ۔ میں ضمیر تو بیچ سکتا تھا لیکن انسانیت نہیں- بالآخر تھک ہار کر گھر واپس آگیا اور آج جیسے ہی گھر پہونچا اماں نے پوچھ ہی لیا کہ بیٹا نوکری ملی کب ملے گی مودی سرکار آئے تین سال ہو گیا تمہیں کالج سے نکلے تین سال ہو گیا ، کالا دھن آگیا ، نوٹ بدل گئی ، ودیس یاترا ہو گئی ، یوگی کی سرکار بن گئی ، آنے والے الیکشن کی خونی و فسادی تیاری شروع ہو گئی اب نوکری کب آئے گی-
میں نے اماں سے کہا کہ اماں تین سال دھکے کھانے کے بعد ، اخبار اور ٹی وی پر بحث و مباحثہ دیکھنے کے بعد ، صحافیوں کی ذہنیت دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس حکومت میں نہ تو ترقی و خوشحالی آسکتی ہے اور نہ ہی امن ا آمان ، اس سرکار میں جانوروں کے اچھے دن تو آسکتے ہیں لیکن انسانوں کے نہیں ، اب تمہاری سمجھ میں آیا جب میں کہ رہی تھی کہ بیٹا پڑھائی پر دھیان دو اپنے اندر مہارت پیدا کرو مودی کی باتوں میں آکر کلاس چھوڑ کر ہر ہر مودی گھر گھر مودی مت کرو لیکن تم تو اس وقت اپنی عقل بیچ کر اس آدمی پر بھروسہ کر ر ہے تھے جو گوبر سے ہیرا نکال کر اچھے دن دکھا رہا تھا بیٹا نہ گوبر سے ہیرا کبھی نکلا ہے اور نہ کبھی نکلے گا مداری کے تھیلے میں دھوکے کی پڑیاں اور نوٹ بندی کی طرح نظر بندی کے سوا کچھ نہیں ہوتا یہ بات اپنے ان دوستوں کو بھی سمجھاوں جو ابتک اچھے دن کا خواب دیکھ رہے ہیں - مودی جی کو چائے کے ساتھ پکوڑے کا بھی روزگار دینا تھا وہ دے چکے تم بھی ڈگریوں کو میرے پرانے بکسے میں بند کرو اور اسی میدان میں قسمت آزماو –
اماں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے مودی جی کے سارے جملے اور نعرے کو دل و دماغ سے نکال پھینکا اور محلے کے حلوائی اومکار بھیا کے یہاں پندرہ دن پکوڑے بنانے کی ٹرینگ لی اور انکے حساب والی پرچی پر پکوڑا ماسٹر کی سند حاصل کی اور پکوڑا یافتہ بن کرپکوڑے کی دوکان کھول لی بھلا ہو زی نیوز کا جو مودی جی کا پکوڑے کی تجارت پر انٹرویو کراکر لوگوں کو روزگار سے جوڑ دیا اور دیس کو بے روزگاری سے بچا لیا ۔ اب آنے والے الیکشن میں فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ اپنے بچوں کو سند یافتہ بنانا ہے یا پکوڑا یافتہ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
سنہ 2014 میرا یونیورسٹی کا فائنل ایئر تھا اور ہندوستانی الیکشن کا جملہ ایئر مودی جی کی ریلی پر ریلی، بھاشن پر بھاشن اور ہر بھاش میں دو کروڑ ملازمت کے وعدے نے مجھے اتنا متآثر کیا اس قدر پر اعتماد بنایا کہ بس یونیوسٹی سے سند پاتے ہی نوکری پکی، دماغ میں خوش فہمی لئے آنکھوں میں نوکری کا خواب سجائے کلاس چھوڑ کر مودی کی ہر ریلی میں ہر ہر مودی گھر گھر مودی کا نعرہ لگانے پہونچ جاتا ، مودی جی کے وعدے ، ٹیلیویژن کے دعوے نے الیکشن میں ایسا ماحول پیدا کیا کہ بس مودی جی کی حکومت بنتے ہی ہندوستان پھرسے سونے کی چڑیا بن جائے گا ، ہر طرف دودھ و شہد کی نہریں بہیں گی ، سڑکیں شیشے کی ہو جائیں گی ، بجلی، پانی ، دوا ، علاج ، تعلیم ، سب فری ہو جائے گا یہ سوچ کر میں بھی اپنی کلاس چھوڑکرمودی سرکار بنانے کی خاطر اپنے حصے کی طاقت الیکشن پرچار میں جھونک دی بالآخر مودی جی پوری اکثریت سے جیت گئے اورسات ملکوں کے سربراہان کی موجودگی میں بڑی شان وشوکت کے ساتھ حلف اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے ۔۔
تین مہینے بعد میری انجینئرنگ مکمل ہوئی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی اور ٹائی لگا کر نوکری کے لئے نکل پڑا تین سال جوتے گھستا رہا ، دھکے کھاتا رہا من کی بات سنتا رہا ، مودی مودی کرتا رہا سب کچھ کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملی ، بچی کھچی امیدیں بھی اس دن دم توڑ گئیں جس دن امت شاہ نے یہ کہ دیا کہ الیکشن کی ساری باتیں چناوی جملہ تھیں ، ملک میں کوئی ترقی نہیں کسی شعبے میں کام تو نہیں لیکن مودی نواز صحافت میں بڑا کام اور بڑی ترقی ہے سوچا صحافت میں ہی ڈپلوما کرکے قسمت آزمائی کرتا ہوں اگر ضمیر بیچنے کا ہنر سیکھ لیا پھر تو پیسہ ہی پیسہ ہے ڈپلوما کرنے کے بعد صحافت کی نیت سے تو نہیں بلکہ دولت و شہرت کمانے کی نیت سے ضمیر بیچ کر جب ٹی وی چینل پرانٹرویو دینے گیا تو پتہ چلا کہ جہاں سچی صحافت اورانسانیت ہے وہاں تحفظ نہیں جہاں تحفظ و ترقی ہے وہاں انسانیت نہیں ۔ میں ضمیر تو بیچ سکتا تھا لیکن انسانیت نہیں- بالآخر تھک ہار کر گھر واپس آگیا اور آج جیسے ہی گھر پہونچا اماں نے پوچھ ہی لیا کہ بیٹا نوکری ملی کب ملے گی مودی سرکار آئے تین سال ہو گیا تمہیں کالج سے نکلے تین سال ہو گیا ، کالا دھن آگیا ، نوٹ بدل گئی ، ودیس یاترا ہو گئی ، یوگی کی سرکار بن گئی ، آنے والے الیکشن کی خونی و فسادی تیاری شروع ہو گئی اب نوکری کب آئے گی-
میں نے اماں سے کہا کہ اماں تین سال دھکے کھانے کے بعد ، اخبار اور ٹی وی پر بحث و مباحثہ دیکھنے کے بعد ، صحافیوں کی ذہنیت دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس حکومت میں نہ تو ترقی و خوشحالی آسکتی ہے اور نہ ہی امن ا آمان ، اس سرکار میں جانوروں کے اچھے دن تو آسکتے ہیں لیکن انسانوں کے نہیں ، اب تمہاری سمجھ میں آیا جب میں کہ رہی تھی کہ بیٹا پڑھائی پر دھیان دو اپنے اندر مہارت پیدا کرو مودی کی باتوں میں آکر کلاس چھوڑ کر ہر ہر مودی گھر گھر مودی مت کرو لیکن تم تو اس وقت اپنی عقل بیچ کر اس آدمی پر بھروسہ کر ر ہے تھے جو گوبر سے ہیرا نکال کر اچھے دن دکھا رہا تھا بیٹا نہ گوبر سے ہیرا کبھی نکلا ہے اور نہ کبھی نکلے گا مداری کے تھیلے میں دھوکے کی پڑیاں اور نوٹ بندی کی طرح نظر بندی کے سوا کچھ نہیں ہوتا یہ بات اپنے ان دوستوں کو بھی سمجھاوں جو ابتک اچھے دن کا خواب دیکھ رہے ہیں - مودی جی کو چائے کے ساتھ پکوڑے کا بھی روزگار دینا تھا وہ دے چکے تم بھی ڈگریوں کو میرے پرانے بکسے میں بند کرو اور اسی میدان میں قسمت آزماو –
اماں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے مودی جی کے سارے جملے اور نعرے کو دل و دماغ سے نکال پھینکا اور محلے کے حلوائی اومکار بھیا کے یہاں پندرہ دن پکوڑے بنانے کی ٹرینگ لی اور انکے حساب والی پرچی پر پکوڑا ماسٹر کی سند حاصل کی اور پکوڑا یافتہ بن کرپکوڑے کی دوکان کھول لی بھلا ہو زی نیوز کا جو مودی جی کا پکوڑے کی تجارت پر انٹرویو کراکر لوگوں کو روزگار سے جوڑ دیا اور دیس کو بے روزگاری سے بچا لیا ۔ اب آنے والے الیکشن میں فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ اپنے بچوں کو سند یافتہ بنانا ہے یا پکوڑا یافتہ۔