اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: شہر، قصبہ اور گاؤں والوں کی ذمہ داری!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 10 February 2018

شہر، قصبہ اور گاؤں والوں کی ذمہ داری!

تحریر: مولوی اظہار احمد
ــــــــــــــــــــــــــــــ
حامدو مصلیا اما بعد.
    آج ہم تو صبح و شام اس فکر میں رہتے ہیں کہ ہماری دکان چمک جائے، ہمارا کاروبار ترقی کر جائے، ہم معاشرے میں ممتاز ہو جائیں، بڑے بڑے لوگ مجھکو سلام کریں، قصبہ و بستی میں میرا وقار بن جائے، ہم تو دینی سوچ سے بہت دور ہوگئے نہ آخرت کا خیال ہے نہ عقبی کی فکر نہ دینی تعلیم کا خیال نہ دینی معلمین و مدرسین کا خیال.
دینی معلمین و مدرسین کا خیال کرنا ہم سے بالکل چھوٹ چکا ہے، ہم غور کریں کہ ہم انکو کتنی معمولی تنخواہ دیتے ہیں 4000/5000 روپئے، کیا ہمارے گهر کے اخراجات کیلئے اتنی معمولی رقم کافی ہے ہرگز نہیں، اس میں سب لوگ شریک ہیں خواہ وہ مسجد کا متولی ہو یا مدرسہ کا ذمہ دار، مرد ہو یا عورت، ہر ایک سے اللہ پوچھے گا کہ میرے انبیاء کے وارث کی تنخواہ اتنی معمولی کیوں رکھی؟ کیا تمہارے گزر بسر کیلئے اتنی رقم کافی ہوتی؟ اس قصبہ و بستی کے مرد سے سوال ہوگا کہ تم اپنی ذاتی جیب سے میرے نیک بندوں پر جو تمہاری بستی میں دینی خدمت انجام دے رہے تھے کیوں نہیں خرچ کیا.
عورت سے سوال ہوگا کہ تمہارا شوہر تمکو موٹی رقم دیتا تھا خرچ کیلئے، خرچ کے بعد بهی رقم باقی رہ جاتی تھی تو تم نے اپنے بچوں کے ذریعہ ان کی خدمت میں کیوں نہیں پیش کیا.
خدا ان سے بهی پوچھے گا جو بیرون ملک میں 20000/25000 روپئے کماتے ہیں کہ تم اتنی موٹی رقم کماتے تھے اسمیں ممبر رسول پر بیٹھنے والوں کا حصہ نکالا.
دوستوں!
آج ہماری توجہ علماء کرام کیطرف سے بالکل ہٹ چکی ہے جب ہم کوئی تقریب کرتے ہیں تو بڑے بڑے لوگوں کو مدعو کرتے ہیں، جو ہمارے بچوں کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کرتے ہیں ہم ان کو بھول جاتے ہیں
اگر ہم انکو مدعو کرتے تو بوقت آمد سلام و مصافحہ کرتے جس نے علماء سے مصافحہ کیا گویا اس نے اللہ سے مصافحہ کیا، انکی آمد باعث خیر و برکت، انکی خدمت میں کھانا پیش کرنا باعث اجرو ثواب، انکی مالی خدمت کرنا زاد آخرت، ہمیں أن تمام باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں جو لوگ امامت یا درس و تدریس کا کام کرتے انکی تنخواہ بیت المال سے ملتی اور اتنی ملتی کہ انکے پورے اهل و عیال کو کافی ہوتی.
حضرت مولانا اشرف علی تهانوی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ تم اپنے مدرسین کی اچھی تنخواہ دو، اگر ایسا نہیں کروگے تو پهر یہ اپنی اپنی دوکانیں کهول کر بیٹھ جائیں گے.
ذمہ داران مساجد مدارس و مکاتب کو اس امر میں سرد دماغ سے سوچنا چاہئے اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کی تدبیر اختیار کرنی چاہئے.
 ایک تدبیر یہ ہے کہ فی گهر 100/200  روپئے ماہانہ مقرر کرنا چاہئے، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ سلسلہ چند ماہ بعد ختم ہوجائے گا،  ٹوٹ جائے گا، نہیں چلے گا، تو میں کہتا ہوں کہ یہ ہماری لاپرواہی اور بے رغبتی کی دلیل ہے، کیا ہم اپنے بچوں کی فیس جو اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں ادا نہیں کرتے ہیں، ضرور ادا کرتے ہیں بلکہ پیشگی جمع کردیتے ہیں.
دوسری تدبیر یہ ہیکہ ذمہ داران مساجد و مدارس ان سے کہیں جو لوگ بیرون ملک میں رهتے ہیں کہ آپ لوگ ہر ماہ کم از کم 500 روپئے  اساتذہ کی خدمت میں ارسال کریں، آج ہر بستی سے 40 /50 آدمی بیرون ملک میں رہتے ہیں جب اک اک آدمی 500 /500 روپئے دیگا تو اساتذہ کے لئے بهت زیادہ روپئے جمع ہوں گے اور شاید وہ ان کیلئے کافی ہوجائے.
جب انکو زیادہ تنخواہ ملے گی تو وہ یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ کام کریں گے ادھر ادھر انکا دماغ منتشر نہیں ہوگا.
علماء کرام کی مالی خدمت کرنا دین کی بقا کا اک حصہ ہے، ہم ازروئے خدمت انکے حق میں جواد بن جائیں، فیاض بن جائیں، ہم اپنے اندر سے بخل والی صفت کو نکال کر ان پر خرچ کرنے والے بن جائیں، جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم پڑهانے والے بن جاؤ اگر یہ نہیں ہو سکتا ہے تو تم علم سیکهنے والے بن جاؤ اگر یہ بهی نہیں ہو سکتا ہے تو تم ان پر خرچ کرنے والے بن جاؤ
آج ہمارے پاس دونوں صفتیں نہیں ہیں نہ پڑھاتے ہیں نہ پڑھتے ہیں صرف مال کماتے ہیں، تو کیوں نہ ہم آخری حکم پر عمل کرنے والے بن جائیں ان پر خوب خرچ کرنے بن جائیں، یہ ہمارا خرچ کرنا ہمارے لئے زاد آخرت ہے، باعث اجرو ثواب ہے.
خرچ کرنے سے آدمی غریب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ مزید اسکو عطا فرماتے ہیں، دین کے راستہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ برکت ہوتی ہے مال پاکیزہ بن جاتا ہے.
اگر ہم نے علماء کرام پر خرچ کرنا شروع نہ کیا اور پہلے کی طرح ناجائز وحرام چیزوں میں اپنی کمائی کو استعمال کرتے رہے، لغویات اور بیہودہ کاموں میں خرچ کرتے رہے تو یاد رکهیں خدا ہم سے سوال کرے گا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن انسان کے قدم نہیں اٹھیں گے اللہ کے پاس سے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہ کرلیا جائے، اسکی عمر کے بارے میں کہ اسنے عمر کو کہاں صرف کیا، اسکی جوانی کے بارے میں کہ اسنے اپنی جوانی کو کہاں گزارا، اور اسکے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اپنے علم پر کتنا عمل کیا.
یہاں پر دو باتیں قابل ذکر ہیں ایک مال کہاں سے کمایا دوسری بات کمایا ہوا مال کہاں خرچ کیا، یعنی مال کو حلال جگہ سے کمایا یا حرام جگہ سے، پهر اسکو حلال جگہ میں خرچ کیا یا حرام جگہ میں.
آج ہم روپئے پیسے خوب کماتے ہیں لیکن اس کو حلال جگہ کو چھوڑ کر کے حرام جگہ پر خرچ کرتے ہیں.
اللہ تعالیٰ ہم کو حلال جگہ پر خرچ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے،
خصوصاً علماء کرام پر جو وارث انبیاء ہیں اور ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ان پر خرچ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، اللہ تعالیٰ ہم کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے. آمیــــن