پٹنہ(آئی این اے نیوز 15/مارچ 2118)اردو کی روٹی کھارہےہو تو اردو کا کام کیجئے۔ اگر کہیں پر دشواری محسوس کر رہےہوں تو اس کی اطلاع اردو ڈائرکٹوریٹ کو دیں۔ اردو ڈائرکٹوریٹ اردو کے فروغ کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا، یہ باتیں اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی نے منگل کو چوتھے ایک روزہ ’’ریاستی عمل گاہ‘‘ کی صدارت کرتےہوئے کہی۔ اس کا اہتمام اردو ڈائرکٹوریٹ (محکمہ کابینہ سکریٹریٹ) نے منگل کو گیان بھون کے وسیع و عریض اور خوبصورت ہال میں کیا تھا، اس موقع پر ریاست کے 38اضلاع سے آئے اردو ملازمین کو مشورہ دیا کہ وہ اردو کوفروغ دینے کے کام پر پہلے توجہ دیں۔اس کے بعد دوسرے کام کریں۔ انہوں نے اردو عمل گاہ کے انعقاد کی غرض وغایت اور اردو کے فروغ کے سلسلے میں پوری ریاست میں چلائے جانے والے منصوبوں کا تفصیل سے ذکر کیا
اور اردو ملازمین کو ان کے فرائض منصبی بتائے، امتیازاحمد کریمی نے اپنی صدارتی تقریر میں اردو ملازمین کو اردو میں کام کرنے کی ترغیب دی اور کہا کہ وہ اردو کی روزی روٹی کھا رہے ہیں حق بنتا ہے کہ اردو کے لئے ،اردو کے فروغ کے لئے کام کریں تب ہی ہماری روزی جائز اور مناسب ہوگی، انہوں نے کہا کہ اگر آپ سے کوئی دوسرا کام لیا جاتا ہے تو اس کام کو انجام دیتے ہوئے بھی آپ اردو کام کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اردو کے سلسلے میں کئی بار ہر کلکٹر، سب ڈویزن افسر، بی ڈی او وغیرہ کو اردو کے سلسلے میں خطوط ڈائرکٹوریٹ سے بھیجے جا چکے ہیں اب وہ لوگ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ اردو کے ملازمین کے لئے اردو کا کام بھی ضروری ہے۔آپ اردو کے ملازم ہیں آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اردو میں آنے والی درخواستوں پر خصوصی توجہ دے کر کام کریں ۔ رہائشی سرٹیکٹ ،پیدائش /موت سرٹی فیکٹ، ذات سرٹی فیکٹ ،آمدنی اورضعیف العمری پنشن سے متعلق در خواست وغیرہ کے اردو فارمیٹ / نمونے وغیرہ اردو میں تیار کراکر کائونٹر پر رکھیں۔ لوگوں کو فراہم کرائیں۔ اردو میں درخواستوں کا نمونے آپ کے دفتر میں، کائونٹر پر موجود رہنے چاہئیں۔ اس کے نمونے دیواروں پر چسپاں کریں ۔ اردو والوں کو اس جانب توجہ دلائیں کہ وہ اردو میں درخواستیں دیں۔ ان کی درخواستوں پر تمام طرح کے سرکاری کام بلا تاخیر انجام دئیے جائیں گے۔ انہوں نے ہر اضلاع کو بار باری اس جانب توجہ دلائی کہ آپ جلد سے جلد ورکشاپ کا انعقاد کریں، فروغ اردو سمینار منعقد ہونا چاہئے، طلباء حوصلہ افزائی مسابقاتی منصوبہ پر عمل درآمدگی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے لئے اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے مرتب شدہ لائحہ عمل کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جو اضلاع ان کاموں پر عمل درآمد کر چکے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں اور جو بچے ہوئے ہیں انہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ جلد سے جلد وہ اردو کے فروغ کے کام کو تکمیل تک پہنچائیں۔انہوں نے کہا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے ہر ایک کام کے لئے وافر مقدار میں فنڈ فراہم کرا دیا جاتا ہے مگر افسوس کہ کچھ اضلاع اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور پیسے پھر سرنڈر ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اردو ملازمین کو ہدایت دی جاتی ہے کہ کہ وہ اپنے بلاک کے سرکار ی اسکولوںکا سروے کریں کہ یہاں کتنے بچے اسکول میں اردو پڑھتے ہیں اور کتنے ٹیچر ہیں، ان کو اردو کی کتاب دستیاب کرائے جاتے ہیں یا نہیں؟ ان کا جائزہ لے کر اردو ڈائرکٹوریٹ کو رپورٹ کریں۔ انہوں نے تعلیم کی اہمیت و افادیت پر بھی بھر پور روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے بچوں کی ہر طرح کی تعلیم حاصل دینے کیلئے مختار ہیں ۔ لیکن میری گذارش ہوگی کہ اپنی مادری زبان اردو کو بھی انہیں لازمی طور پر پڑھائیں ۔بچے اردو نہیںپڑھیں گے تو ہمارے اکابرین جو اردو ادب میں بیش قیمتی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں اس سے استفادہ کون کرے گا؟ ہماری تہذیب کیسے زندہ رہے گی؟ ڈائرکٹر موصوف نے کہا کہ تمام اردو ملازمین بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اسے ضرور پورا کریں۔ اس سلسلے میں دشواری ہونے پر اردو ڈائرکٹوریٹ کے ضرورذریعہ رہنمائی کی جائے گی۔ انہوں نے اردو ملازمین کو ضلعی صدر مقام میں ماہانہ احتسابی نشست منعقد کرنا چاہئے۔تقریب کی نظامت ڈاکٹر اسلم جاوداں نے کی۔ انہوں نے اپنے ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر امتیاز احمدکریمی کی انتظامی کارگذاریوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
اس موقع پر سابق ڈائرکٹر اردو ،اردو ڈائرکٹوریٹ عبد الرحمن سرور نے کہا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کا ایک بڑا اہم کارنامہ ہے کہ غیر اردو داں کو یہ اردو سکھارہے ہیں۔سابق ڈائرکٹر اردو مسلم ضیاء نے کہا کہ امتیاز احمد کریمی اپنی کارکردگی سے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کی موجودہ کار گذاریوں کی ستائش کی اور کہا کہ اردو کے فروغ و تشہیر کے لئے ڈائرکٹر صاحب کی جدو جہد ،لگن اور محنت قابلِ ستائش اور لائق مبارکباد ہے۔انہوں نے ریاستی اردو عمل گاہ کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مجھے اس تاریخی اور یاد گار اردو عمل گاہ میں بے حد مسرت و شادمانی کا احساس ہور ہا ہے۔ انہوں نے اردو ڈائرکٹوریٹ میں ایک جان پھونک دی ہے۔ فخر الدین عارفی نے کہا کہ مستقبل کا مورخ امتیاز احمد کریمی کو فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ جو کام اردو کے غیر سرکاری اداروں اور تنظیم کو کرنا چاہئے وہ کام ایک سرکاری ادارہ کر رہا ہے۔یہ خوش آئند بات ہے۔ محسن رضا رضوی نے کہا کہ اردو کا ایک بڑا مسئلہ تلفظ کا مسئلہ ہے جس پر غور کرنا چاہئے۔ پروفیسر صفدر امام قادری نے کہا کہ اردو عملوں کو جیسا کہ امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ اپنی کمائی کا ایک حصہ وہ اردو کی ترویج و اشاعت میں خرچ کرے تو بڑا کام ہوگا۔ میں اردو کے پاسبانوں سے خصوصی طور پر اردو عملوں سے یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اگر وہ یہ کام کریں تو اردو کو فروغ سے کوئی روک نہیں سکتا۔ قاسم خورشید نے کہا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کے فعال ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی نے اردو کی ترویج و اشاعت میں جو اہم رول ادا کیا ہے اس کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ریحان غنی نے کہا کہ میں اردو کا صحافی ہوں صحافی کا کام لکھنا ہوتا ہے، بولنا نہیں۔ ۱۹۵۲ء میں ایک چھوٹے سے کاررواں نے اردو کی جو شمع روشن کی تھی آج وہ ترقی کرکے گیان بھون جیسی شاندار عمارت میں پہنچ گئی ہے۔ میں اردو کے پروگرام کو اس عالیشان عمارت میں انعقاد پر میں اردو کے بنیادوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو اردو کی تحریک کے بانی تھے۔ پروفیسر جاوید حیات نے کہا کہ امتیاز احمد کریمی جو کام کرتے ہیں وہ خلوص دل سے کرتے ہیں ۔ مشتاق احمد نوری نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اعلیٰ عہدیدار کی عدم توجہی کے شکاراردو کے عملے ہوتے ہیں۔ مگر آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو ایک مضبوط کاندھا ملا ہوا ہے۔ پروفیسر امتیاز احمد سابق ڈائرکٹر خدا بخش لائبریری نے اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل گاہ ایک احتسابی عمل ہے۔ اسے احتساب سے ہمیں ایک بلند حوصلہ ملے گا اور اس سے ہم اپنی کمزوریوں کو دور کر پائیں گے۔ پروفیسر عبد الصمد نے کہا کہ امتیاز احمد کریمی نے اردو تحریک میں ایک روح پھونک دی ہے۔ میجر سنگھ بلبیر نے کہا کہ ایسے فعال ڈائرکٹر پر نازاں ہیں ۔ مہمان خصوصی پروفیسر علیم اللہ حالی نے کہا کہ جب تک آپ اردو سے عشق نہیں کریں گے تب تک اپنے فرائض کو پورا نہیں کر پائیں گے۔ اردو ایک سیکولر زبان ہے آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ اردو کے سیکولر مزاج کو قائم رکھیں۔
اس پروگرام کے بعد شام ساڑھے چار بجے سے غزل کی ایک خوبصورت اور دِلنشیں محفل بعنوان ’’محفلِ نغمہ و مضراب‘‘ آراستہ ہوئی۔ مایہ ناز گلوکار اِندرجیت گانگولی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اس پروگرام کو یادگار اور حسین اور دلکش بنانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ’’ ہماری پیاری زبان اردو، ہمارے نغموں کی جان اردو ، حسین دلکش جوان اردو،ہمارے نغموں کی شان اردو گاکر پوری محفل کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے شاد عظیم آبادی کی غزل ’’ گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘‘، قتیل شفائی کی غزل ’’ ڈھونڈوگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘حسرت موہانی ،فیض احمد فیض اور ڈاکٹر کلیم عاجز وغیرہ سمیت مختلف شعراء کی غزلوں کو اپنی خوبصورت آواز میں گاکر سامعین کا دل جیت لیا۔ ڈاکٹر کلیم عاجز کی مشہور غزل ’دن ایک ستم ایک سات رات کروہو‘ گاکر سامعین سے خوب داد وصول کی۔انہوں نے ’’ جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں‘‘، چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارہ بنا ڈالا‘‘وغیرہ غزلوں کو اپنی ساز اور آواز دی۔ جسے سن کر سامعین جھوم اٹھے۔آخر میں ’’ دما دم مست قلندر ، علی کا پہلا نمبر پر لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے پورا ہال گونج اٹھا.
اور اردو ملازمین کو ان کے فرائض منصبی بتائے، امتیازاحمد کریمی نے اپنی صدارتی تقریر میں اردو ملازمین کو اردو میں کام کرنے کی ترغیب دی اور کہا کہ وہ اردو کی روزی روٹی کھا رہے ہیں حق بنتا ہے کہ اردو کے لئے ،اردو کے فروغ کے لئے کام کریں تب ہی ہماری روزی جائز اور مناسب ہوگی، انہوں نے کہا کہ اگر آپ سے کوئی دوسرا کام لیا جاتا ہے تو اس کام کو انجام دیتے ہوئے بھی آپ اردو کام کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اردو کے سلسلے میں کئی بار ہر کلکٹر، سب ڈویزن افسر، بی ڈی او وغیرہ کو اردو کے سلسلے میں خطوط ڈائرکٹوریٹ سے بھیجے جا چکے ہیں اب وہ لوگ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ اردو کے ملازمین کے لئے اردو کا کام بھی ضروری ہے۔آپ اردو کے ملازم ہیں آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اردو میں آنے والی درخواستوں پر خصوصی توجہ دے کر کام کریں ۔ رہائشی سرٹیکٹ ،پیدائش /موت سرٹی فیکٹ، ذات سرٹی فیکٹ ،آمدنی اورضعیف العمری پنشن سے متعلق در خواست وغیرہ کے اردو فارمیٹ / نمونے وغیرہ اردو میں تیار کراکر کائونٹر پر رکھیں۔ لوگوں کو فراہم کرائیں۔ اردو میں درخواستوں کا نمونے آپ کے دفتر میں، کائونٹر پر موجود رہنے چاہئیں۔ اس کے نمونے دیواروں پر چسپاں کریں ۔ اردو والوں کو اس جانب توجہ دلائیں کہ وہ اردو میں درخواستیں دیں۔ ان کی درخواستوں پر تمام طرح کے سرکاری کام بلا تاخیر انجام دئیے جائیں گے۔ انہوں نے ہر اضلاع کو بار باری اس جانب توجہ دلائی کہ آپ جلد سے جلد ورکشاپ کا انعقاد کریں، فروغ اردو سمینار منعقد ہونا چاہئے، طلباء حوصلہ افزائی مسابقاتی منصوبہ پر عمل درآمدگی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے لئے اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے مرتب شدہ لائحہ عمل کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جو اضلاع ان کاموں پر عمل درآمد کر چکے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں اور جو بچے ہوئے ہیں انہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ جلد سے جلد وہ اردو کے فروغ کے کام کو تکمیل تک پہنچائیں۔انہوں نے کہا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے ہر ایک کام کے لئے وافر مقدار میں فنڈ فراہم کرا دیا جاتا ہے مگر افسوس کہ کچھ اضلاع اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور پیسے پھر سرنڈر ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اردو ملازمین کو ہدایت دی جاتی ہے کہ کہ وہ اپنے بلاک کے سرکار ی اسکولوںکا سروے کریں کہ یہاں کتنے بچے اسکول میں اردو پڑھتے ہیں اور کتنے ٹیچر ہیں، ان کو اردو کی کتاب دستیاب کرائے جاتے ہیں یا نہیں؟ ان کا جائزہ لے کر اردو ڈائرکٹوریٹ کو رپورٹ کریں۔ انہوں نے تعلیم کی اہمیت و افادیت پر بھی بھر پور روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے بچوں کی ہر طرح کی تعلیم حاصل دینے کیلئے مختار ہیں ۔ لیکن میری گذارش ہوگی کہ اپنی مادری زبان اردو کو بھی انہیں لازمی طور پر پڑھائیں ۔بچے اردو نہیںپڑھیں گے تو ہمارے اکابرین جو اردو ادب میں بیش قیمتی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں اس سے استفادہ کون کرے گا؟ ہماری تہذیب کیسے زندہ رہے گی؟ ڈائرکٹر موصوف نے کہا کہ تمام اردو ملازمین بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اسے ضرور پورا کریں۔ اس سلسلے میں دشواری ہونے پر اردو ڈائرکٹوریٹ کے ضرورذریعہ رہنمائی کی جائے گی۔ انہوں نے اردو ملازمین کو ضلعی صدر مقام میں ماہانہ احتسابی نشست منعقد کرنا چاہئے۔تقریب کی نظامت ڈاکٹر اسلم جاوداں نے کی۔ انہوں نے اپنے ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر امتیاز احمدکریمی کی انتظامی کارگذاریوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
اس موقع پر سابق ڈائرکٹر اردو ،اردو ڈائرکٹوریٹ عبد الرحمن سرور نے کہا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کا ایک بڑا اہم کارنامہ ہے کہ غیر اردو داں کو یہ اردو سکھارہے ہیں۔سابق ڈائرکٹر اردو مسلم ضیاء نے کہا کہ امتیاز احمد کریمی اپنی کارکردگی سے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کی موجودہ کار گذاریوں کی ستائش کی اور کہا کہ اردو کے فروغ و تشہیر کے لئے ڈائرکٹر صاحب کی جدو جہد ،لگن اور محنت قابلِ ستائش اور لائق مبارکباد ہے۔انہوں نے ریاستی اردو عمل گاہ کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مجھے اس تاریخی اور یاد گار اردو عمل گاہ میں بے حد مسرت و شادمانی کا احساس ہور ہا ہے۔ انہوں نے اردو ڈائرکٹوریٹ میں ایک جان پھونک دی ہے۔ فخر الدین عارفی نے کہا کہ مستقبل کا مورخ امتیاز احمد کریمی کو فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ جو کام اردو کے غیر سرکاری اداروں اور تنظیم کو کرنا چاہئے وہ کام ایک سرکاری ادارہ کر رہا ہے۔یہ خوش آئند بات ہے۔ محسن رضا رضوی نے کہا کہ اردو کا ایک بڑا مسئلہ تلفظ کا مسئلہ ہے جس پر غور کرنا چاہئے۔ پروفیسر صفدر امام قادری نے کہا کہ اردو عملوں کو جیسا کہ امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ اپنی کمائی کا ایک حصہ وہ اردو کی ترویج و اشاعت میں خرچ کرے تو بڑا کام ہوگا۔ میں اردو کے پاسبانوں سے خصوصی طور پر اردو عملوں سے یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اگر وہ یہ کام کریں تو اردو کو فروغ سے کوئی روک نہیں سکتا۔ قاسم خورشید نے کہا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کے فعال ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی نے اردو کی ترویج و اشاعت میں جو اہم رول ادا کیا ہے اس کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ریحان غنی نے کہا کہ میں اردو کا صحافی ہوں صحافی کا کام لکھنا ہوتا ہے، بولنا نہیں۔ ۱۹۵۲ء میں ایک چھوٹے سے کاررواں نے اردو کی جو شمع روشن کی تھی آج وہ ترقی کرکے گیان بھون جیسی شاندار عمارت میں پہنچ گئی ہے۔ میں اردو کے پروگرام کو اس عالیشان عمارت میں انعقاد پر میں اردو کے بنیادوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو اردو کی تحریک کے بانی تھے۔ پروفیسر جاوید حیات نے کہا کہ امتیاز احمد کریمی جو کام کرتے ہیں وہ خلوص دل سے کرتے ہیں ۔ مشتاق احمد نوری نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اعلیٰ عہدیدار کی عدم توجہی کے شکاراردو کے عملے ہوتے ہیں۔ مگر آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو ایک مضبوط کاندھا ملا ہوا ہے۔ پروفیسر امتیاز احمد سابق ڈائرکٹر خدا بخش لائبریری نے اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل گاہ ایک احتسابی عمل ہے۔ اسے احتساب سے ہمیں ایک بلند حوصلہ ملے گا اور اس سے ہم اپنی کمزوریوں کو دور کر پائیں گے۔ پروفیسر عبد الصمد نے کہا کہ امتیاز احمد کریمی نے اردو تحریک میں ایک روح پھونک دی ہے۔ میجر سنگھ بلبیر نے کہا کہ ایسے فعال ڈائرکٹر پر نازاں ہیں ۔ مہمان خصوصی پروفیسر علیم اللہ حالی نے کہا کہ جب تک آپ اردو سے عشق نہیں کریں گے تب تک اپنے فرائض کو پورا نہیں کر پائیں گے۔ اردو ایک سیکولر زبان ہے آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ اردو کے سیکولر مزاج کو قائم رکھیں۔
اس پروگرام کے بعد شام ساڑھے چار بجے سے غزل کی ایک خوبصورت اور دِلنشیں محفل بعنوان ’’محفلِ نغمہ و مضراب‘‘ آراستہ ہوئی۔ مایہ ناز گلوکار اِندرجیت گانگولی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اس پروگرام کو یادگار اور حسین اور دلکش بنانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ’’ ہماری پیاری زبان اردو، ہمارے نغموں کی جان اردو ، حسین دلکش جوان اردو،ہمارے نغموں کی شان اردو گاکر پوری محفل کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے شاد عظیم آبادی کی غزل ’’ گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘‘، قتیل شفائی کی غزل ’’ ڈھونڈوگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘حسرت موہانی ،فیض احمد فیض اور ڈاکٹر کلیم عاجز وغیرہ سمیت مختلف شعراء کی غزلوں کو اپنی خوبصورت آواز میں گاکر سامعین کا دل جیت لیا۔ ڈاکٹر کلیم عاجز کی مشہور غزل ’دن ایک ستم ایک سات رات کروہو‘ گاکر سامعین سے خوب داد وصول کی۔انہوں نے ’’ جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں‘‘، چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارہ بنا ڈالا‘‘وغیرہ غزلوں کو اپنی ساز اور آواز دی۔ جسے سن کر سامعین جھوم اٹھے۔آخر میں ’’ دما دم مست قلندر ، علی کا پہلا نمبر پر لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے پورا ہال گونج اٹھا.