سیف الاسلام مدنی
ــــــــــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 10/مارچ 2018) جمعیۃ علماء اتردیش کی مجلس منتظمہ کا اجلاس ریاستی صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی کے زیر صدارت طیب ہال عیش باغ لکھنو میں بعد نماز عصر تلاوت کلام اور پرچم کشائی سے شروع ہوا، اس اجلاس میں ریاست بھر سے ایک ہزار سے زائد ممبران اور معروف علمائے کرام شریک ہوئے، جس میں ایک درجن سے زائد مسودہ تجاویز پیش کی گئیں جن پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلے لیے گئے، خاص طور سے ملک کے موجودہ حالات میں فرقہ پرستی اور باہمی منافرت کے خلاف ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے کا مسئلہ زیر غور رہا اور مقررین نے اس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے قومی جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی اور لکھنؤ کے معروف عالم دین مولانا خالد رشید فرنگی محلی بطو رمہمان خصوصی اسٹیج پر موجود تھے۔
مولانامحمود مدنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جمعےۃ علماء ہند نے اپنے سوسالہ عہد میں آزادی وطن سے لے کر آج تک اس ملک کی نمایاں خدمت انجام دی ہے۔اس لیے میں پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ یہ جماعت اس ملک کی وراثت اور تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند صرف سماجی اور مذہبی تنظیم نہیں ہے ؛بلکہ یہ ایک نظریہ اور ایک سوچ کے تحت قائم ہوئی تھی، جس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہو تی ہے، مولانا مدنی نے جماعتی ذمہ داروں کے سامنے اس عز م کااظہار کیاکہ ہم اپنے نظریہ،عقیدہ اور فکر کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ ان دنوں ہمارے ملک میں نظریاتی لڑائی چل رہی ہے، کچھ ملک دشمن عناصر اس خوبصورت ملک کے نظام اور اس کی جمہوریت کو یرغمال بنا نے کے درپہ ہیں جو ملک کے وسائل اور اس کی شناخت پر اپنا لیبل لگاکر دوسروں کو محرو م اور مایوس کردینا چاہتے ہیں، ایسے حالات میں جمعیۃ علماء ہند اپنے اکابر بالخصوص شیخ الاسلام مولانا حسین مدنی ؒ کے متحدہ قومیت کے نظریہ کی روشنی میں سماج کے دیگر مظلوم اور کمزور طبقوں کے ساتھ متحد ہو کر ایسے عناصر کی من مانی کو روکے گی، مولانا مدنی نے کہا کہ اسلام کا پیغام امن اور حسن کردار ہی وہ موثر ہتھیار ہے جس کے ذریعہ سے مسلمان باعزت زندگی گزار سکتے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ اس ملک میں اسلام کسی فاتح کی تلوار سے نہیں آیا بلکہ فقیر منش صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کے حسن اخلاق اور غیروں کے ساتھ مشفقانہ رویہ کی وجہ سے پھلا پھولا، اس کی سب سے بڑی مثال سلطان الہند خواجہ معین الدین رحمہ اللہ ہیں جنھوں نے اپنی دعوت و تبلیغ کا کام دہلی کے سلطنت میں نہیں؛ بلکہ پرتھوی راج کے اجمیرسے شروع کیا اور وہاں ان کے اچھے اخلاق کی وجہ سے لوگ جوق در جوق دین حق میں داخل ہوئے۔
اپنے صدارتی خطا ب میں مولانا متین الحق اسامہ کانپوری صدر جمعیۃ علماء اترپردیش نے اجلاس میں زیر غور تجاویز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج کے اجلاس کی ساری تجاویز اہم ہیں، انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر تجاویز کے مخاطب ہم خود ہیں ۔ سرکار سے ہماری شکایتیں اپنی جگہ ہیں، لیکن آج ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کررہے ہیں، جمعیۃ علما ء ہند کی خصوصیت ہے کہ وہ جہاں سرکار کے سامنے سینہ سپر ہو کر حق بات کہتی ہے ، وہیں وہ دوسری طرف اپنی قوم کو کمزوریوں سے متعارف کراتی ہے.
مولانا اسامہ نے کہا کہ ہم جذباتی باتیں سننے کے عادی ہو گئے ہیں، ہمیں اس سے باہر نکلنا ہوگا اور خود احتسابی کے ذریعہ اپنے اعمال و کردار کو درست کرنا ہوگا ۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء کی یہ تجاویز ہمارے لیے راہ عمل ہیں، ان شاء اللہ ان پر عمل کریں گے اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔انھو ں نے کہا تعلیمی بیداری کے سلسلے میں خاص طور سے ہمیں خاص طور سے محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس اجلاس میں دلت مسلم اتحاد اور کھان پان ،ملک کے عائلی اور خاندانی حقوق کے تحفظ، قومی یکجہتی کے فروغ، قومی و ملّی معاملات میں مسلکی تحفظات سے اوپر اُٹھ کرمتحدہ جدوجہد، سیکولر سیاسی پارٹیوں میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی، مسلمانوں کو تعلیمی واقتصادی اعتبار سے بیدار کر نے، زیادہ سے زیادہ دینی مکاتب کے قیام اور استحکام ، تحریک اصلاح معاشرہ چلانے ،دینی تعلیمی بیداری مہم چلانے اور صوبائی دینی تعلیمی بورڈ کے قیام اور نتظیمی استحکام وغیرہ سے متعلق تجاویز پیش کی گئیں اور تائیدات حاصل کی گئیں۔ یہ تجاویز کل کے عمومی اجلاس بعنوان’’ تحفظ ملک و ملت کانفرنس‘‘ میں پیش کی جائیں گی، جہاں تمام مذاہب کے رہنما اور کئی سماجی شخصیات موجود رہیں گی، اجلاس کے شروع میں مفتی محمد عفان منصور پوری نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جب کہ قاری احمد عبداللہ نے جمعیۃ علماء ہند کا ترانہ پڑھ کر سنایا، نظامت کے فرائض مولانا عبدالمعید قاسمی نے انجام دیے ۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء اترپردیش کے جنرل سکریٹری مولانا محمد مدنی نے سابقہ کاروائی کی خواندگی کرتے ہوئے سکریٹری رپورٹ بھی پیش کی۔
اجلاس میں مختلف عنوانات پر خطاب کرنے والوں اور اہم شرکاء میں مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، مولانا قاری شوکت علی ویٹ، مولانا معزالدین احمد، مولانا ابوشحمہ بنارس، محمود الظفر رحمانی رامپور، ماسٹر مست حفیظ رحمانی سیتاپور، مولانا عبدالرب اعظمی، سید محمد وزین صدر جمعیۃ علماء وسطی یوپی، مولانا محمد یامین امروہہ، مولانا نیاز احمد فاروقی، مولانا ظہور احمد، مولانا کلیم اللہ ہنسوڑ ، سید محمد ذہین، مولانا شبیر احمد پرتاپگڑھی، سید حسین احمدلکھنو، قاری عبد المعید چودھری، حافظ سعید اختر، مولانا سلمان میرٹھ، قاری ذاکر مظفرنگر، ذہین احمد دیوبند، مفتی عبدالحق، مولانا انعام الحق، مولانا محمد عمران خان شاہ جہاں پور، مولانا اعجاز ندوی، حافظ عبید اللہ بنارس، مفتی جمیل الرحمان قاسمی، مولانا نجیب الحسن صدیقی ،ڈاکٹر سلمان خالد کے نام قابل ذکر ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 10/مارچ 2018) جمعیۃ علماء اتردیش کی مجلس منتظمہ کا اجلاس ریاستی صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی کے زیر صدارت طیب ہال عیش باغ لکھنو میں بعد نماز عصر تلاوت کلام اور پرچم کشائی سے شروع ہوا، اس اجلاس میں ریاست بھر سے ایک ہزار سے زائد ممبران اور معروف علمائے کرام شریک ہوئے، جس میں ایک درجن سے زائد مسودہ تجاویز پیش کی گئیں جن پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلے لیے گئے، خاص طور سے ملک کے موجودہ حالات میں فرقہ پرستی اور باہمی منافرت کے خلاف ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے کا مسئلہ زیر غور رہا اور مقررین نے اس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے قومی جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی اور لکھنؤ کے معروف عالم دین مولانا خالد رشید فرنگی محلی بطو رمہمان خصوصی اسٹیج پر موجود تھے۔
مولانامحمود مدنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جمعےۃ علماء ہند نے اپنے سوسالہ عہد میں آزادی وطن سے لے کر آج تک اس ملک کی نمایاں خدمت انجام دی ہے۔اس لیے میں پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ یہ جماعت اس ملک کی وراثت اور تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند صرف سماجی اور مذہبی تنظیم نہیں ہے ؛بلکہ یہ ایک نظریہ اور ایک سوچ کے تحت قائم ہوئی تھی، جس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہو تی ہے، مولانا مدنی نے جماعتی ذمہ داروں کے سامنے اس عز م کااظہار کیاکہ ہم اپنے نظریہ،عقیدہ اور فکر کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ ان دنوں ہمارے ملک میں نظریاتی لڑائی چل رہی ہے، کچھ ملک دشمن عناصر اس خوبصورت ملک کے نظام اور اس کی جمہوریت کو یرغمال بنا نے کے درپہ ہیں جو ملک کے وسائل اور اس کی شناخت پر اپنا لیبل لگاکر دوسروں کو محرو م اور مایوس کردینا چاہتے ہیں، ایسے حالات میں جمعیۃ علماء ہند اپنے اکابر بالخصوص شیخ الاسلام مولانا حسین مدنی ؒ کے متحدہ قومیت کے نظریہ کی روشنی میں سماج کے دیگر مظلوم اور کمزور طبقوں کے ساتھ متحد ہو کر ایسے عناصر کی من مانی کو روکے گی، مولانا مدنی نے کہا کہ اسلام کا پیغام امن اور حسن کردار ہی وہ موثر ہتھیار ہے جس کے ذریعہ سے مسلمان باعزت زندگی گزار سکتے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ اس ملک میں اسلام کسی فاتح کی تلوار سے نہیں آیا بلکہ فقیر منش صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کے حسن اخلاق اور غیروں کے ساتھ مشفقانہ رویہ کی وجہ سے پھلا پھولا، اس کی سب سے بڑی مثال سلطان الہند خواجہ معین الدین رحمہ اللہ ہیں جنھوں نے اپنی دعوت و تبلیغ کا کام دہلی کے سلطنت میں نہیں؛ بلکہ پرتھوی راج کے اجمیرسے شروع کیا اور وہاں ان کے اچھے اخلاق کی وجہ سے لوگ جوق در جوق دین حق میں داخل ہوئے۔
اپنے صدارتی خطا ب میں مولانا متین الحق اسامہ کانپوری صدر جمعیۃ علماء اترپردیش نے اجلاس میں زیر غور تجاویز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج کے اجلاس کی ساری تجاویز اہم ہیں، انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر تجاویز کے مخاطب ہم خود ہیں ۔ سرکار سے ہماری شکایتیں اپنی جگہ ہیں، لیکن آج ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کررہے ہیں، جمعیۃ علما ء ہند کی خصوصیت ہے کہ وہ جہاں سرکار کے سامنے سینہ سپر ہو کر حق بات کہتی ہے ، وہیں وہ دوسری طرف اپنی قوم کو کمزوریوں سے متعارف کراتی ہے.
مولانا اسامہ نے کہا کہ ہم جذباتی باتیں سننے کے عادی ہو گئے ہیں، ہمیں اس سے باہر نکلنا ہوگا اور خود احتسابی کے ذریعہ اپنے اعمال و کردار کو درست کرنا ہوگا ۔ انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء کی یہ تجاویز ہمارے لیے راہ عمل ہیں، ان شاء اللہ ان پر عمل کریں گے اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔انھو ں نے کہا تعلیمی بیداری کے سلسلے میں خاص طور سے ہمیں خاص طور سے محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس اجلاس میں دلت مسلم اتحاد اور کھان پان ،ملک کے عائلی اور خاندانی حقوق کے تحفظ، قومی یکجہتی کے فروغ، قومی و ملّی معاملات میں مسلکی تحفظات سے اوپر اُٹھ کرمتحدہ جدوجہد، سیکولر سیاسی پارٹیوں میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی، مسلمانوں کو تعلیمی واقتصادی اعتبار سے بیدار کر نے، زیادہ سے زیادہ دینی مکاتب کے قیام اور استحکام ، تحریک اصلاح معاشرہ چلانے ،دینی تعلیمی بیداری مہم چلانے اور صوبائی دینی تعلیمی بورڈ کے قیام اور نتظیمی استحکام وغیرہ سے متعلق تجاویز پیش کی گئیں اور تائیدات حاصل کی گئیں۔ یہ تجاویز کل کے عمومی اجلاس بعنوان’’ تحفظ ملک و ملت کانفرنس‘‘ میں پیش کی جائیں گی، جہاں تمام مذاہب کے رہنما اور کئی سماجی شخصیات موجود رہیں گی، اجلاس کے شروع میں مفتی محمد عفان منصور پوری نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جب کہ قاری احمد عبداللہ نے جمعیۃ علماء ہند کا ترانہ پڑھ کر سنایا، نظامت کے فرائض مولانا عبدالمعید قاسمی نے انجام دیے ۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء اترپردیش کے جنرل سکریٹری مولانا محمد مدنی نے سابقہ کاروائی کی خواندگی کرتے ہوئے سکریٹری رپورٹ بھی پیش کی۔
اجلاس میں مختلف عنوانات پر خطاب کرنے والوں اور اہم شرکاء میں مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، مولانا قاری شوکت علی ویٹ، مولانا معزالدین احمد، مولانا ابوشحمہ بنارس، محمود الظفر رحمانی رامپور، ماسٹر مست حفیظ رحمانی سیتاپور، مولانا عبدالرب اعظمی، سید محمد وزین صدر جمعیۃ علماء وسطی یوپی، مولانا محمد یامین امروہہ، مولانا نیاز احمد فاروقی، مولانا ظہور احمد، مولانا کلیم اللہ ہنسوڑ ، سید محمد ذہین، مولانا شبیر احمد پرتاپگڑھی، سید حسین احمدلکھنو، قاری عبد المعید چودھری، حافظ سعید اختر، مولانا سلمان میرٹھ، قاری ذاکر مظفرنگر، ذہین احمد دیوبند، مفتی عبدالحق، مولانا انعام الحق، مولانا محمد عمران خان شاہ جہاں پور، مولانا اعجاز ندوی، حافظ عبید اللہ بنارس، مفتی جمیل الرحمان قاسمی، مولانا نجیب الحسن صدیقی ،ڈاکٹر سلمان خالد کے نام قابل ذکر ہیں۔