مفتی فہیم الدین رحمانی چیئرمین شیخ الھند ایجوکیشنل ٹرسٹ آف انڈیا
ـــــــــــــــــــــــ
آج ہماری میڈیا خواہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک دونوں ہی ملک میں بد کاری وریپ کے واقعات کو سب سے زیادہ چھاپنے پر مجبور ہے اس لئے کہ یورپی ممالک کی ترقی دیکھ کر ہر ملک اندھی ہی تقلید کرنا چاہتا ہے سائنسی ترقی اور اسی طرح ہر علمی و فنی چیز کے حصول کا داعیہ ایک اچھی عادت ہے لیکن ،، دع ماکدر وذخذ ماصفا،، کا ضابطہ سامنے رکھیں تو ہم اپنے معاشرے کو محفوظ کرسکتے ہیں خصوصی طور پر اگر ہماری حکومت تعلیم گاہوں میں کالجوں یونیورسٹیوں میں اسی طرح ملازمت گاہوں میں عورتوں کو سپریٹ روم دیدیں تو پھر بدکاری وریپ کے واقعات بہت کم ہوجائیں گے، اور اسی طرح لباس و پوشاک میں شائستگی بڑھائی جائے، عریاں نیم عریاں اسکارٹ اور ناقص لباس پر کالج والے اور گھر والے پابندی لگائیں تاکہ بدکاری زنا کاری اور ریپ کے حادثات اور جرائم و کرائم میں کمی واقع ہو اور آج جو پورے ملک میں مظاہرے ہورہے ہیں یہاں تک کہ بےگناہ بےقصور انسانی جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں یہ سب کیوں کر وجود پزیر ہوتے ہیں تمام باشندگان ملک کی گردنیں مارے شرم کے جھکی جاتی ہیں انسانیت پر حیوانیت کا غلبہ بڑی شرمندگی کا باعث ہیں اس لئے جو انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ نہ ہو اس کو اپنے معاشرے سے نکالا جائے کیونکہ آج کل ریپ اور زنا بالجبر کی وجہ سے کتنی قیمتی جانیں ضائع ہو تیں ہیں اور ناقابل بیان جرم سرزد ہو تے ہیں اس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے اسباب کا سد باب اربابِ حل وعقد کا پہلا کام ہے مگر ہمارے ہاں افسوس تو بہت ہوتا ہے تلافی کی فکر کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے واقعات ؤ حادثات میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے اور مقدمات کا فیصلہ اس قدر تاخیر سے ہوتا ہے کہ جرم ہلکا ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ ناقابل معافی جرم قابل رحم ہوکر رہا ہوجاتا ہے مگر آج کل تو عورتوں کا بیان آرہا ہے کہ ہم اپنے کو نہیں بدلیں گے مرد اپنے کو قابو میں رکھیں، بظاہر تو یہ جملہ صحیح ہے مگر حقیقت برعکس ہے اس لیے ہر ماں باپ کو چوکس رہنا چاہیے اور عزت و آبرو پر بہت دھیان دینا چاہیے بڑوں ہی کی غفلت سے بڑے بڑے جرائم و کرائم دنیا میں پائے جارہے ہیں میں جانتا ہوں کہ آج روپے پیسے کی لالچ ہی میں ڈگریاں حاصل کی جارہی ہیں، چلو آپ ڈگری دلوا دیں مگر عزت و آبرو کو تو فروخت نہ کریں اور اپنی نسل پر رحم کھائیں ورنہ آپ بھی پچھتائیں گے اور آپ کی نسل بھی آپ کو کوستی رہے گی، اور میں کہتا ہوں کہ صرف مذہب اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر مذہب یہی چاہتا ہے: ھندو دھرم میں بھی پردہ کی اھمیت ہے یہودیت و نصرانیت میں بھی اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ ہر دھرم تہذیب و حیاء کا تقاضا کرتا ہے کوئی بھی بےحیائی اور ننگے پن کی دعوت نہیں دیتا بلکہ "اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت" آج اسی جوہر حیاء کا فقدان ہورہا ہے اور اس وقت اسی عفت و عصمت و حیاء کو تارتار کیاجا رہا ہے اللہ کرے ہمارے بڑوں کو چھوٹوں کو حیاء حقیقی نصیب ہو.
ـــــــــــــــــــــــ
آج ہماری میڈیا خواہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک دونوں ہی ملک میں بد کاری وریپ کے واقعات کو سب سے زیادہ چھاپنے پر مجبور ہے اس لئے کہ یورپی ممالک کی ترقی دیکھ کر ہر ملک اندھی ہی تقلید کرنا چاہتا ہے سائنسی ترقی اور اسی طرح ہر علمی و فنی چیز کے حصول کا داعیہ ایک اچھی عادت ہے لیکن ،، دع ماکدر وذخذ ماصفا،، کا ضابطہ سامنے رکھیں تو ہم اپنے معاشرے کو محفوظ کرسکتے ہیں خصوصی طور پر اگر ہماری حکومت تعلیم گاہوں میں کالجوں یونیورسٹیوں میں اسی طرح ملازمت گاہوں میں عورتوں کو سپریٹ روم دیدیں تو پھر بدکاری وریپ کے واقعات بہت کم ہوجائیں گے، اور اسی طرح لباس و پوشاک میں شائستگی بڑھائی جائے، عریاں نیم عریاں اسکارٹ اور ناقص لباس پر کالج والے اور گھر والے پابندی لگائیں تاکہ بدکاری زنا کاری اور ریپ کے حادثات اور جرائم و کرائم میں کمی واقع ہو اور آج جو پورے ملک میں مظاہرے ہورہے ہیں یہاں تک کہ بےگناہ بےقصور انسانی جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں یہ سب کیوں کر وجود پزیر ہوتے ہیں تمام باشندگان ملک کی گردنیں مارے شرم کے جھکی جاتی ہیں انسانیت پر حیوانیت کا غلبہ بڑی شرمندگی کا باعث ہیں اس لئے جو انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ نہ ہو اس کو اپنے معاشرے سے نکالا جائے کیونکہ آج کل ریپ اور زنا بالجبر کی وجہ سے کتنی قیمتی جانیں ضائع ہو تیں ہیں اور ناقابل بیان جرم سرزد ہو تے ہیں اس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے اسباب کا سد باب اربابِ حل وعقد کا پہلا کام ہے مگر ہمارے ہاں افسوس تو بہت ہوتا ہے تلافی کی فکر کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے واقعات ؤ حادثات میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے اور مقدمات کا فیصلہ اس قدر تاخیر سے ہوتا ہے کہ جرم ہلکا ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ ناقابل معافی جرم قابل رحم ہوکر رہا ہوجاتا ہے مگر آج کل تو عورتوں کا بیان آرہا ہے کہ ہم اپنے کو نہیں بدلیں گے مرد اپنے کو قابو میں رکھیں، بظاہر تو یہ جملہ صحیح ہے مگر حقیقت برعکس ہے اس لیے ہر ماں باپ کو چوکس رہنا چاہیے اور عزت و آبرو پر بہت دھیان دینا چاہیے بڑوں ہی کی غفلت سے بڑے بڑے جرائم و کرائم دنیا میں پائے جارہے ہیں میں جانتا ہوں کہ آج روپے پیسے کی لالچ ہی میں ڈگریاں حاصل کی جارہی ہیں، چلو آپ ڈگری دلوا دیں مگر عزت و آبرو کو تو فروخت نہ کریں اور اپنی نسل پر رحم کھائیں ورنہ آپ بھی پچھتائیں گے اور آپ کی نسل بھی آپ کو کوستی رہے گی، اور میں کہتا ہوں کہ صرف مذہب اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر مذہب یہی چاہتا ہے: ھندو دھرم میں بھی پردہ کی اھمیت ہے یہودیت و نصرانیت میں بھی اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ ہر دھرم تہذیب و حیاء کا تقاضا کرتا ہے کوئی بھی بےحیائی اور ننگے پن کی دعوت نہیں دیتا بلکہ "اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت" آج اسی جوہر حیاء کا فقدان ہورہا ہے اور اس وقت اسی عفت و عصمت و حیاء کو تارتار کیاجا رہا ہے اللہ کرے ہمارے بڑوں کو چھوٹوں کو حیاء حقیقی نصیب ہو.