تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی کل ہی کی بات ہے (23/3/18)کہ اپنے دو ساتھی (ایوب اعظمی) اور (عبدالحفيظ اعظمی) کے ساتھ دہلی کے سفر پر تھا، سفر کا آغاز بروز جمعرات دوپہر سے ہوا، انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داروں کی طرف ہم لوگوں کو مدرسہ بیت العلوم جعفرآباد،مدرسہ امینہ دہلی، اور دہلی جمعیت دفتر جانے کا حکم ملا، بہر حال ہم لوگوں نے یہ طے کیا کہ ان تمام جگہوں پر جا کر وہاں کے ذمہ داران سے مل کر آج ہی فرصت لے لینگے، الحمد للہ اسی دن ان حضرات سے مل کر اپنی ذمہ داری کو نبھایا اور دیر رات تک فارغ ہوگئے،
اب ہمارے پاس جمعہ کا دن پورا بچا اور چھٹی بھی تھی،
یہی ہوا کہ انشاءاللہ دن بھر گھوم کر شام میں واپس انسٹی ٹیوٹ واپس ہوجائیں گے،
خیر امید سے زیادہ ویسا ہی ہوا
صبح دیر تک سونے کے بعد بیدار ہوئے ناشتے وغیرہ سے فراغت کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اب کون سی جگہ گھومنے چلیں گے دہلی کی مشہور جگہیں تو ہماری گھومی ہوئی ہیں
ایوب صاحب نے بہت دیر سے صرف اور صرف کوئی ایسی جگہ کی تلاشی میں مصروف تھے کہ جہاں ہم میں سے کوئی نہ گیا ہو،
تلاش ہی کے دوران انہیں اکشر دھام مندر کی عمارت دکھی، انہوں نے ہمیں بھی دکھایا اور یہی فیصلہ ہوا کہ یہیں پر چلتے ہیں ہاں لیکن جمعہ کی نماز جامع مسجد میں آکر پڑھنی ہے،
بہرحال ہم لوگوں نے اکشر دھام مندر کی طرف رخت سفر باندھا دل ہی دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ اس مندر کے بارے بہت کچھ سن رکھا ہے پر ابھی تک دیکھا نہیں، یہ وہی مندر ہے جس کے مشابہ کے مندر کا بنیاد ابھی کچھ ہی دنوں پہلے اہم ترین اسلامی ملک متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں رکھا گیا ہے پتھروں کے تراش خراش کے ماہرین نے 2020 تک مکمل کرنے کا دعوٰی کیا ہے اور یہ اس ملک کا پہلا مندر ہوگاافسوس صد افسوس،
اگر جامع مسجد دہلی تاریخی مسجد ہے تو وہیں پر اکشر دھام مندر دہلی بھی اپنے اندر بہت تاریخ رقم کیے ہوا ہے میں تاریخ میں نہ پڑ کر اصل موضوع پر آنا چاہتا ہوں،
کچھ ہی دیر میں ہم لوگ اکشر دھام مندر پہنچ گئے
جتنا سنا اور فوٹو دیکھا تھا امید سے کہیں زیادہ خوبصورت پایا، تین مرحلوں میں چیکنگ کے بعد اندر پہنچے،
یہ میرے گھومے ہوئے مقامات میں سے پہلی ایسی جگہ ہے جہاں پر ہر سامان کے علاوہ موبائل-فون بھی رکھوا لیا گیا تھا، تھوڑا سا ہمیں عجیب لگا کہ یہاں پر موبائل بھی جمع کروا لیتے ہیں لیکن ہمیں اندر جانا تھا اس کے لیے وہاں کے ہر قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اندر گئے،مسلم لوگ بہت کم دیکھنے کو ملے اکثر غیر مسلم ہی تھے اور رہیں گے ہی جب وہ مندر ہے،
وہاں کے لوگ ہم تینوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے کہ ایسے لوگ بھی مندر میں آیا کرتے ہیں،
بہرحال جوں جوں تھوڑا اور آگے بڑھے تو وہاں پر لوگ اپنے اپنے چپل جمع کروا رہے تھے ہم بھی جمع کروائے اور یہ وہاں کا ایک اہم اصول تھا، ہم لوگ اندر گئے بہت دیر تک گھومے کافی وسیع ترین پیمانے پر بنی اس خوبصورت مندر کو دیکھتے رہے
سب سے اہم چیز وہاں یہ دیکھنے کو ملی کہ وہاں پر صفائی انتہا سے زیادہ تھی کہیں پر کوئی گرد و غبار کا نشان تک نہیں تھا دیکھ کر رشک آنے لگا، اور من ہی من میں سوچنے لگا کہ واقعی صفائی جس کو کہتے ہیں آج یہاں دیکھنے کو ملی
پھر وہاں گھومنے کے بعد ہم لوگوں نے جامع مسجد کا رخ کیا ان دونوں کے درمیان کافی دوری ہونے کی وجہ سے وقت مقررہ (جمعہ کی نماز) تک نہ پہنچ سکے کافی وقت لگ گیا وہاں تک پہنچنے میں لیکن پھر بھی جامع مسجد گئے حالانکہ اس سے پہلے کئی مرتبہ وہاں جاچکے تھے،
دماغ کی رگوں میں وہی اکشر دھام مندر والی صفائی رقص کر رہی تھی پر افسوس کے یہاں پر اس کے بر عکس دیکھنے کو ملا افسوس کی مسجد کے اندر بھی کوئی خاص صفائی نہیں تھی کچھ لوگ ایسے بھی دکھے جو حوض کے ارد گرد چپل جوتے وغیرہ پہن کر گھوم رہے تھے،
اس منظر کو دیکھ کر دل کافی رنجیدہ ہوا،
ایسے ہی ابھی ایک مہینے پہلے اپنے ہی انسٹی ٹیوٹ کے تمام ساتھیوں اور اساتذہ کے ساتھ ریاست راجستھان کے دارالحکومت جے پور کا سفر ہوا تھا
وہاں پر بھی ایک تاریخی بڑلا مندر ہے
اس میں بھی جانا ہوا وہاں صفائی کا جو نظام دیکھا وہ بھی قابل فخر تھا پھر اتفاق وہاں سے اجمیر شریف درگاہ پر حاضری کا موقع ملا تو وہاں جو نظام اور لوگوں کے طور طریقوں کو دیکھا وہ بیان کرنے کے قابل نہیں،
ایسے ہی 2013 میں سرہند پنجاب کا سفر ہوا تھا وہاں صفائی تو کافی اچھی تھی لیکن وہیں قریب میں ایک گوردوارہ میں جانے کا موقع میسر آیا تو وہاں کی صفائی بھی اس سے کہیں زیادہ ہی تھی،
ان تمام جگہوں کو دیکھ کر دل یہ کہا کہ
صفائی نصف ایمان ہے
اور ایمان مسلمان کی شان ہے ہم سب خود کو بہت باعمل مسلمان بلکہ مومن گردانتے ہیں دوسرے کے مذاہب پر تنقید اور شک کرتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھا نکنے کی غلطی بھی نہیں کرتے، بلاشبہ اسلام اپنے پانچ ستونوں پر کھڑا ہے لیکن نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کچھ دوسری چیزوں کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا ہے جن میں سے صفائی ایک بہت بڑا جز ہے بلکہ اسے نصف ایمان قرار دیا، اب ذرا اسی تناظر میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم صفائی کا کتنا خیال رکھتے ہیں، شہروں میں مسلم کالونی اور اسی طرح گاؤں میں مسلم علاقے کی پہچان ہی کوڑے کے انبار سے ہوتی ہے یہ ہمارے ایمان کے اس جز کی کمزوری کی بہت بڑی دلیل ہے
ہمارا حال کیا ہے اگر ہمیں صفائی کے عنوان پر کچھ بولنے کو کہا جائے تو کئی گھنٹے ناکافی پڑ جاتے ہیں اگر لکھنے کو کہا جائے تو مکمل ایک کتاب تیار کرسکتے ہیں لیکن میدان عمل میں دور دور تک نام نہیں، افسوس کہ ہماری قوم اس میدان میں ذرا سا بھی دھیان نہیں دیتی اپنے ہی علاقے میں کوڑے کے انبار لگائے رہتے ہیں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں سے گزرنا بھی مشکل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مسلم علاقے میں بیماری بھی زیادہ پھیلتی ہے،
ہمیں صفائی جیسے اہم امور پر بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے،
خدائے عظیم ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
نوٹ: یہ میرے اپنے نظریات ہیں جن کا میں نے اب تک مشاہدہ کیا نظریات سے اختلاف کا حق ہر کسی کو ہے.
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی کل ہی کی بات ہے (23/3/18)کہ اپنے دو ساتھی (ایوب اعظمی) اور (عبدالحفيظ اعظمی) کے ساتھ دہلی کے سفر پر تھا، سفر کا آغاز بروز جمعرات دوپہر سے ہوا، انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داروں کی طرف ہم لوگوں کو مدرسہ بیت العلوم جعفرآباد،مدرسہ امینہ دہلی، اور دہلی جمعیت دفتر جانے کا حکم ملا، بہر حال ہم لوگوں نے یہ طے کیا کہ ان تمام جگہوں پر جا کر وہاں کے ذمہ داران سے مل کر آج ہی فرصت لے لینگے، الحمد للہ اسی دن ان حضرات سے مل کر اپنی ذمہ داری کو نبھایا اور دیر رات تک فارغ ہوگئے،
اب ہمارے پاس جمعہ کا دن پورا بچا اور چھٹی بھی تھی،
یہی ہوا کہ انشاءاللہ دن بھر گھوم کر شام میں واپس انسٹی ٹیوٹ واپس ہوجائیں گے،
خیر امید سے زیادہ ویسا ہی ہوا
صبح دیر تک سونے کے بعد بیدار ہوئے ناشتے وغیرہ سے فراغت کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اب کون سی جگہ گھومنے چلیں گے دہلی کی مشہور جگہیں تو ہماری گھومی ہوئی ہیں
ایوب صاحب نے بہت دیر سے صرف اور صرف کوئی ایسی جگہ کی تلاشی میں مصروف تھے کہ جہاں ہم میں سے کوئی نہ گیا ہو،
تلاش ہی کے دوران انہیں اکشر دھام مندر کی عمارت دکھی، انہوں نے ہمیں بھی دکھایا اور یہی فیصلہ ہوا کہ یہیں پر چلتے ہیں ہاں لیکن جمعہ کی نماز جامع مسجد میں آکر پڑھنی ہے،
بہرحال ہم لوگوں نے اکشر دھام مندر کی طرف رخت سفر باندھا دل ہی دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ اس مندر کے بارے بہت کچھ سن رکھا ہے پر ابھی تک دیکھا نہیں، یہ وہی مندر ہے جس کے مشابہ کے مندر کا بنیاد ابھی کچھ ہی دنوں پہلے اہم ترین اسلامی ملک متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں رکھا گیا ہے پتھروں کے تراش خراش کے ماہرین نے 2020 تک مکمل کرنے کا دعوٰی کیا ہے اور یہ اس ملک کا پہلا مندر ہوگاافسوس صد افسوس،
اگر جامع مسجد دہلی تاریخی مسجد ہے تو وہیں پر اکشر دھام مندر دہلی بھی اپنے اندر بہت تاریخ رقم کیے ہوا ہے میں تاریخ میں نہ پڑ کر اصل موضوع پر آنا چاہتا ہوں،
کچھ ہی دیر میں ہم لوگ اکشر دھام مندر پہنچ گئے
جتنا سنا اور فوٹو دیکھا تھا امید سے کہیں زیادہ خوبصورت پایا، تین مرحلوں میں چیکنگ کے بعد اندر پہنچے،
یہ میرے گھومے ہوئے مقامات میں سے پہلی ایسی جگہ ہے جہاں پر ہر سامان کے علاوہ موبائل-فون بھی رکھوا لیا گیا تھا، تھوڑا سا ہمیں عجیب لگا کہ یہاں پر موبائل بھی جمع کروا لیتے ہیں لیکن ہمیں اندر جانا تھا اس کے لیے وہاں کے ہر قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اندر گئے،مسلم لوگ بہت کم دیکھنے کو ملے اکثر غیر مسلم ہی تھے اور رہیں گے ہی جب وہ مندر ہے،
وہاں کے لوگ ہم تینوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے کہ ایسے لوگ بھی مندر میں آیا کرتے ہیں،
بہرحال جوں جوں تھوڑا اور آگے بڑھے تو وہاں پر لوگ اپنے اپنے چپل جمع کروا رہے تھے ہم بھی جمع کروائے اور یہ وہاں کا ایک اہم اصول تھا، ہم لوگ اندر گئے بہت دیر تک گھومے کافی وسیع ترین پیمانے پر بنی اس خوبصورت مندر کو دیکھتے رہے
سب سے اہم چیز وہاں یہ دیکھنے کو ملی کہ وہاں پر صفائی انتہا سے زیادہ تھی کہیں پر کوئی گرد و غبار کا نشان تک نہیں تھا دیکھ کر رشک آنے لگا، اور من ہی من میں سوچنے لگا کہ واقعی صفائی جس کو کہتے ہیں آج یہاں دیکھنے کو ملی
پھر وہاں گھومنے کے بعد ہم لوگوں نے جامع مسجد کا رخ کیا ان دونوں کے درمیان کافی دوری ہونے کی وجہ سے وقت مقررہ (جمعہ کی نماز) تک نہ پہنچ سکے کافی وقت لگ گیا وہاں تک پہنچنے میں لیکن پھر بھی جامع مسجد گئے حالانکہ اس سے پہلے کئی مرتبہ وہاں جاچکے تھے،
دماغ کی رگوں میں وہی اکشر دھام مندر والی صفائی رقص کر رہی تھی پر افسوس کے یہاں پر اس کے بر عکس دیکھنے کو ملا افسوس کی مسجد کے اندر بھی کوئی خاص صفائی نہیں تھی کچھ لوگ ایسے بھی دکھے جو حوض کے ارد گرد چپل جوتے وغیرہ پہن کر گھوم رہے تھے،
اس منظر کو دیکھ کر دل کافی رنجیدہ ہوا،
ایسے ہی ابھی ایک مہینے پہلے اپنے ہی انسٹی ٹیوٹ کے تمام ساتھیوں اور اساتذہ کے ساتھ ریاست راجستھان کے دارالحکومت جے پور کا سفر ہوا تھا
وہاں پر بھی ایک تاریخی بڑلا مندر ہے
اس میں بھی جانا ہوا وہاں صفائی کا جو نظام دیکھا وہ بھی قابل فخر تھا پھر اتفاق وہاں سے اجمیر شریف درگاہ پر حاضری کا موقع ملا تو وہاں جو نظام اور لوگوں کے طور طریقوں کو دیکھا وہ بیان کرنے کے قابل نہیں،
ایسے ہی 2013 میں سرہند پنجاب کا سفر ہوا تھا وہاں صفائی تو کافی اچھی تھی لیکن وہیں قریب میں ایک گوردوارہ میں جانے کا موقع میسر آیا تو وہاں کی صفائی بھی اس سے کہیں زیادہ ہی تھی،
ان تمام جگہوں کو دیکھ کر دل یہ کہا کہ
صفائی نصف ایمان ہے
اور ایمان مسلمان کی شان ہے ہم سب خود کو بہت باعمل مسلمان بلکہ مومن گردانتے ہیں دوسرے کے مذاہب پر تنقید اور شک کرتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھا نکنے کی غلطی بھی نہیں کرتے، بلاشبہ اسلام اپنے پانچ ستونوں پر کھڑا ہے لیکن نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کچھ دوسری چیزوں کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا ہے جن میں سے صفائی ایک بہت بڑا جز ہے بلکہ اسے نصف ایمان قرار دیا، اب ذرا اسی تناظر میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم صفائی کا کتنا خیال رکھتے ہیں، شہروں میں مسلم کالونی اور اسی طرح گاؤں میں مسلم علاقے کی پہچان ہی کوڑے کے انبار سے ہوتی ہے یہ ہمارے ایمان کے اس جز کی کمزوری کی بہت بڑی دلیل ہے
ہمارا حال کیا ہے اگر ہمیں صفائی کے عنوان پر کچھ بولنے کو کہا جائے تو کئی گھنٹے ناکافی پڑ جاتے ہیں اگر لکھنے کو کہا جائے تو مکمل ایک کتاب تیار کرسکتے ہیں لیکن میدان عمل میں دور دور تک نام نہیں، افسوس کہ ہماری قوم اس میدان میں ذرا سا بھی دھیان نہیں دیتی اپنے ہی علاقے میں کوڑے کے انبار لگائے رہتے ہیں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں سے گزرنا بھی مشکل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مسلم علاقے میں بیماری بھی زیادہ پھیلتی ہے،
ہمیں صفائی جیسے اہم امور پر بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے،
خدائے عظیم ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
نوٹ: یہ میرے اپنے نظریات ہیں جن کا میں نے اب تک مشاہدہ کیا نظریات سے اختلاف کا حق ہر کسی کو ہے.