رپورٹ: سیف الاسلام مدنی کانپوری
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
نئی دہلی(آئی این اے نیوز 4/مارچ 2018) آسٹریا کے دارالحکومت ویانہ میں ’’کیسیڈ‘‘ (K A I C II D) کی سہ روزہ بین المذاہب کانفرنس سے فراغت کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کے نام پر کسی بھی طرح کا تشدد قابل قبول نہیں ہوسکتا، انہوں نے کہا کہ مذہب تو انسانیت، رواداری، محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے اس لئے جو لوگ اس کا استعمال نفرت اور تشدد برپا کرنے کیلے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے اور ہمیں ہر سطح پر ایسے لوگوں کی مذمت اور مخالفت کرنی چاہئے، مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر دنیا کے تمام مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنی چاہئے کہ یہی انسانی فرض بھی ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سربراہان مملکت دل پزیر تقریریں تو کرتے ہیں مگر اپنی کہی ہوئی باتوں پر عام طور پر عمل نہیں کرتے دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں انہوں نے وضاحت کی کہ دنیا کے بیشتر ممالک بدامنی انتشار اور تشددکا شکار ہیں ،کہیں نسلی تعصب ہے تو کہیں لسانی، مذہبی تعصب کو ہوا دیکر انتشار و تفریق پیدا کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کہیں کہیں سیاست دانوں میں نفرت کی تخم ریزی کرکے اقتدار حاصل کرنے کی ہوس شدید تر ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں تعصب اور مذہبی تشدد میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا ہے بعض حکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنالیا ہے، لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل اور انصاف سے ہی چلا کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ حالات بہت دھماکہ خیز ہوتے جارہے ہیں ایسے میں ہمیں متحد ہوکر میدان عمل میں اترنا ہوگا، کیسڈ کی بین المذاہب کانفرنس کی ستائش کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے افہام وتفہیم کی راہیں کھلی ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کہ لوگوں کے اس طرح ایک ساتھ آنے اور بات چیت کرنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا نہ صرف ازالہ ہوگا بلکہ پوری دنیا میں اس کا ایک مثبت پیغام بھی جائے گا اور عالمی سطح پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان انشاء اللہ اتحاد واتفاق کی فضاء ہموار ہوگی، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی طرح مذہبی شدت پسندی بھی نسل انسانی کے لے انتہائی خطرناک ہے، لیکن مذہبی تشدد کے خلاف عالمی سطح پر اب تک کوئی مؤثر کوشش نہیں ہوئی ہے تاہم امید افزا بات یہ ہے کہ کیسڈ نے اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اوراس کے خاتمہ کے لئے مؤثر انداز میں پوری دنیا میں کام کررہی ہے.
مولانا مدنی نے کہا کہ شام میں جو کچھ ہورہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اقتدار کی بالادستی کی جنگ میں معصوم بچے ظلم و استبداد کا نشانہ بن رہے ہیں اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں اب تک کا اقوام متحدہ کا کردار بہت افسوسناک رہا ہے ہوسکتا ہے عالمی طاقتوں کے دباؤ میں ایسا ہو لیکن اس سے جن مقاصد کو لیکر اس عالمی ادارے کی تشکیل ہوئی تھی وہ فوت ہورہے ہیں، مولانا مدنی نے عالمی لیڈروں اور خصوصا اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کیاہے کہ شام میں جس طرح انسانیت کا خون ہورہا ہے اس کو روکنے کے لئے وہ آگے آئیں ورنہ کل تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی صرف مذمتی بیان نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں۔ اس اجلاس میں متعدد اہم قراردادیں منظور ہوئیں تین اہم کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں، ایک مشرق وسطیٰ کے لئے، دوسری یورپ وامریکہ اور تیسری ایشاء کے امور کو دیکھنے کے لئے بنائی گئی ہیں.
اجلاس کے دوران کیسڈ کے ذمہ داران نے بتایا کہ برما میں تین سو مقامی مذہبی لوگوں کا جن میں مسلمان ، عیسائی اور بودھ وغیرہ شامل ہیں باقاعدہ ایک گروپ تیار کرکے انہیں تربیت بھی دی گئی ہے، اس گروپ کی اب تک چار مٹینگیں ہوچکی ہیں، یہ برما میں مذہبی تشدد پر قابو پانے اور مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے مقصد کے تحت کام کررہا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے ہیں ۔ میٹنگ کے دوران صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا مدنی نے جو دو ماہ قبل بنگلہ دیش میں روہنگیائی مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا تھا اس کی تفصیل پیش کی مولانا مدنی نے جہاں پناہ گزینوں کے مسائل اور حالات سے مندوبین کو آگاہ کیا وہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کیمپوں میں ہم نے اب تک 165 ایسے اسکول قائم کئے ہیں اور روز بروز اس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن میں برما کا ہی نصاب تعلیم رکھا گیا ہے تاکہ جب یہ مہاجر بچے اپنے وطن واپس جائیں تو آگے کی تعلیم جاری رکھنے میں ان کو کوئی دشواری پیش نہ آئے، مدرسین کا انتخاب بھی برمی مہاجرین ہی میں سے کیا گیا ہے، اور تقریبا ایک اسکول کا خرچ چھ لاکھ اٹکا آتا ہے جو بنگلہ دیشی مخیر حضرات کے توسط اور تعاون سے پورا ہوتا ہے، مولانا مدنی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ برما کے مذہبی تشددمیں تقریبا چالیس ہزار بچے یتیم ہوئے ہیں، جن پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں وہ یتیموں کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے ہاتھ نہ لگ جائیں اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کا ایمان پر قائم رہنا مشکل ہوجائے گا.
واضح رہے کہ مولانا مدنی نے کہا کی ا یشاء کے لئے الگ سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کمیٹی میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کو بھی شامل کیا گیا ہے، یہ کمیٹی نہ صرف ان کی نگرانی کریگی بلکہ ایشاء میں اس طرح کے حالات میں مظلومین کے ضروریات کا بھی خیال رکھے گی، مولانا مدنی نے کہا کہ عالمی تناظرہ میں اس طرح کے کانفرنس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی یہی وقت ہے کہ جب مذہبی رہنما اگر مذہب کے امن وامان اور پیارومحبت کے پیغام کو لیکر آگے بڑھتے ہیں تو حالات پر قابو پایا جاسکتا ہے، یہ کانفرنس جن مقاصد کو لیکر ہورہی ہے اس میں بے حد کامیاب رہی مذہبی تشددپر قابو پانے کے لئے اجلاس میں نہ صرف یہ کہ راہ عمل کی منصوبہ بندی کی گئی بلکہ افہام وتفہم کے ذریعہ پوری دنیا میں امن قائم کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔
کانفرنس میں ہندوستان، عراق، سعودی عرب،فرانس، نائجیریا، لبنان، اٹلی، انڈونیشیا، برازیل، نیوزیلینڈ، امریکہ، مراکش، جرمنی، برطانیہ یورپ وغیرہ سے بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی جن میں مسٹر وینرل بیل سوگیتانی، چیئرمین ریلیجنس فار پیس جاپان، ڈاکٹر ویلیم وینڈیلی، سیکریٹری جنرل آف ریلیجنس فارپیس انٹرنیشنل ، محترمہ ایواردتھ پالمیری، منتخب کونسلرآف ایکزیکیوٹیو بورڈ آف دی یونین آف اٹلی جیوش کمیونیٹیز(یہودی سوسائٹی) سید علی بن محمد الامین ، مذہبی رہنما وسیاسی ومذہبی کارکن لبنان، ڈاکٹر جوہن جورجوپولس ، فرانس ، محترمہ سی روسالی ویلیسو برازیل، ڈاکٹر جورج آرم سٹرونگ، نیوزی لینڈ، چیف ربی ازاک ہلیوا، چیف ربی آف ترکی، ڈاکٹر محمد ہدایت نوروحید انڈونیشنا، ڈاکٹر حسین بن غازی السمیرا عراق، پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحیم حفیدی، فرانس، پروفیسر ڈاکٹر دین شمس الدین انڈونیشیا ، بشپ میتھیو کوکاہ ، نائجیریا ، بی بی کرنجوت کور، پنجاب، انڈیا، ہندودھرم گروسوامی چیدانند سادھوی بھگوتی سارتی، اور اچاریہ لوکیشن منی کے نام قابل ذکر ہیں۔
کانفرنس میں (KAICIID)کے جنرل سکریٹری فیصل بن معمر نے اپنے پیغام میں کہا کہ نفرت اوردوریوں کو ختم کرنے کے لئے اخوت ومحبت کوفروغ دینا ہوگا ، انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مذہب تفریق یا نفرت کا درس نہیں دیتا ہے اگر کسی مذہب کے نام پر تفریق اوردوری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ مذہب نہیں ہے یا پھر اسے سمجھا نہیں گیا ، فیصل بن معمر نے کہا کہ محبت ، اخوت اور امن کا پیغام دینے والے مذاہب میں اسلام سب سے آگے ہے، واضح رہے کہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بین الاقوامی مرکز برائے مکالمہ بین المذاہب والثقافات (KAICIID) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا مقصدتنازعات کے حل اور روک تھام کے حوالے سے افہام وتفہیم اور تعاون کو عالمی سطح پر مکالمے کے استعمال کو فروغ دینا ہے، سات سال کے طویل مذاکرات کے دوران (KAICIID) نے مختلف عقائد اور تہذیبوں کے لوگوں کے درمیان مکالمے کی راہ ہموار کی ہے ، جس نے آپس کی دشمنی کو ختم کرنے،خوف کو کم کرنے اور باہمی احترام کے جذبے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے، بین الثقافتی والمذاہب مکالموں نے باہمی معاشرتی مزاحمت اور تعصب کو بھی کم کیا ہے اور امن وآشتی کے حوالے سے سماجی اہم آہنگی کو مضبوط کرنے میں ایک خدمت انجام دی ہے ، ایک بین الاقوامی تنظیم کے طورپر (KAICIID) نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی حمایت کرتا ہے بالخصوص سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کے حقوق کے حوالے سے سینٹرثقافت، مذہب یا عقیدے کی بنیادپر امتیازات کی تمام شکلوں کی مخالفت کرتا ہے اس کا مقصد مذہبی رہنماؤں اور حکومتی نمائندوں کو پائیدار امن کے لئے مکالمے کی میز پر لانا ہے، (KAICIID) اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اپنے پارٹنرس پر انحصار کرتا ہے، تنظیم اپنے پنے مقاصدکو حاصل کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے رہنماؤں، مذہبی تنظیموں، مکالمے پریکٹیشنر، بین الاقوامی اداروں، حکومتوں، یونیورسیٹیوں اور نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ۔ ان پارٹنرس میں دنیا کی مشہور سماجی تنظیمیں ہیں، جن میں تنظیم تعاون اسلامی (OIC)انسٹی ٹیوٹ سپیریئر ڈی (Religioses Ciencies) باسلونا، (ISCREB)اسپین، اسلامی تعلیمی سائنس اور ثقافتی تنظیم (ISESCO )رباط، مراکش، یونیسکو، (DE UNIVERSITE) مونٹریال، کناڈا، سکاؤٹ تحریک کی عالمی تنظیم (WOSM)،جینیوا، سیوزرلینڈ، افریقی یونین کے نام قابل ذکر ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
نئی دہلی(آئی این اے نیوز 4/مارچ 2018) آسٹریا کے دارالحکومت ویانہ میں ’’کیسیڈ‘‘ (K A I C II D) کی سہ روزہ بین المذاہب کانفرنس سے فراغت کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کے نام پر کسی بھی طرح کا تشدد قابل قبول نہیں ہوسکتا، انہوں نے کہا کہ مذہب تو انسانیت، رواداری، محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے اس لئے جو لوگ اس کا استعمال نفرت اور تشدد برپا کرنے کیلے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے اور ہمیں ہر سطح پر ایسے لوگوں کی مذمت اور مخالفت کرنی چاہئے، مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر دنیا کے تمام مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنی چاہئے کہ یہی انسانی فرض بھی ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سربراہان مملکت دل پزیر تقریریں تو کرتے ہیں مگر اپنی کہی ہوئی باتوں پر عام طور پر عمل نہیں کرتے دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں انہوں نے وضاحت کی کہ دنیا کے بیشتر ممالک بدامنی انتشار اور تشددکا شکار ہیں ،کہیں نسلی تعصب ہے تو کہیں لسانی، مذہبی تعصب کو ہوا دیکر انتشار و تفریق پیدا کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کہیں کہیں سیاست دانوں میں نفرت کی تخم ریزی کرکے اقتدار حاصل کرنے کی ہوس شدید تر ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں تعصب اور مذہبی تشدد میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا ہے بعض حکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنالیا ہے، لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل اور انصاف سے ہی چلا کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ حالات بہت دھماکہ خیز ہوتے جارہے ہیں ایسے میں ہمیں متحد ہوکر میدان عمل میں اترنا ہوگا، کیسڈ کی بین المذاہب کانفرنس کی ستائش کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے افہام وتفہیم کی راہیں کھلی ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کہ لوگوں کے اس طرح ایک ساتھ آنے اور بات چیت کرنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا نہ صرف ازالہ ہوگا بلکہ پوری دنیا میں اس کا ایک مثبت پیغام بھی جائے گا اور عالمی سطح پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان انشاء اللہ اتحاد واتفاق کی فضاء ہموار ہوگی، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی طرح مذہبی شدت پسندی بھی نسل انسانی کے لے انتہائی خطرناک ہے، لیکن مذہبی تشدد کے خلاف عالمی سطح پر اب تک کوئی مؤثر کوشش نہیں ہوئی ہے تاہم امید افزا بات یہ ہے کہ کیسڈ نے اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اوراس کے خاتمہ کے لئے مؤثر انداز میں پوری دنیا میں کام کررہی ہے.
مولانا مدنی نے کہا کہ شام میں جو کچھ ہورہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اقتدار کی بالادستی کی جنگ میں معصوم بچے ظلم و استبداد کا نشانہ بن رہے ہیں اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں اب تک کا اقوام متحدہ کا کردار بہت افسوسناک رہا ہے ہوسکتا ہے عالمی طاقتوں کے دباؤ میں ایسا ہو لیکن اس سے جن مقاصد کو لیکر اس عالمی ادارے کی تشکیل ہوئی تھی وہ فوت ہورہے ہیں، مولانا مدنی نے عالمی لیڈروں اور خصوصا اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کیاہے کہ شام میں جس طرح انسانیت کا خون ہورہا ہے اس کو روکنے کے لئے وہ آگے آئیں ورنہ کل تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی صرف مذمتی بیان نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں۔ اس اجلاس میں متعدد اہم قراردادیں منظور ہوئیں تین اہم کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں، ایک مشرق وسطیٰ کے لئے، دوسری یورپ وامریکہ اور تیسری ایشاء کے امور کو دیکھنے کے لئے بنائی گئی ہیں.
اجلاس کے دوران کیسڈ کے ذمہ داران نے بتایا کہ برما میں تین سو مقامی مذہبی لوگوں کا جن میں مسلمان ، عیسائی اور بودھ وغیرہ شامل ہیں باقاعدہ ایک گروپ تیار کرکے انہیں تربیت بھی دی گئی ہے، اس گروپ کی اب تک چار مٹینگیں ہوچکی ہیں، یہ برما میں مذہبی تشدد پر قابو پانے اور مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے مقصد کے تحت کام کررہا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے ہیں ۔ میٹنگ کے دوران صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا مدنی نے جو دو ماہ قبل بنگلہ دیش میں روہنگیائی مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا تھا اس کی تفصیل پیش کی مولانا مدنی نے جہاں پناہ گزینوں کے مسائل اور حالات سے مندوبین کو آگاہ کیا وہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کیمپوں میں ہم نے اب تک 165 ایسے اسکول قائم کئے ہیں اور روز بروز اس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن میں برما کا ہی نصاب تعلیم رکھا گیا ہے تاکہ جب یہ مہاجر بچے اپنے وطن واپس جائیں تو آگے کی تعلیم جاری رکھنے میں ان کو کوئی دشواری پیش نہ آئے، مدرسین کا انتخاب بھی برمی مہاجرین ہی میں سے کیا گیا ہے، اور تقریبا ایک اسکول کا خرچ چھ لاکھ اٹکا آتا ہے جو بنگلہ دیشی مخیر حضرات کے توسط اور تعاون سے پورا ہوتا ہے، مولانا مدنی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ برما کے مذہبی تشددمیں تقریبا چالیس ہزار بچے یتیم ہوئے ہیں، جن پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں وہ یتیموں کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے ہاتھ نہ لگ جائیں اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کا ایمان پر قائم رہنا مشکل ہوجائے گا.
واضح رہے کہ مولانا مدنی نے کہا کی ا یشاء کے لئے الگ سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کمیٹی میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کو بھی شامل کیا گیا ہے، یہ کمیٹی نہ صرف ان کی نگرانی کریگی بلکہ ایشاء میں اس طرح کے حالات میں مظلومین کے ضروریات کا بھی خیال رکھے گی، مولانا مدنی نے کہا کہ عالمی تناظرہ میں اس طرح کے کانفرنس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی یہی وقت ہے کہ جب مذہبی رہنما اگر مذہب کے امن وامان اور پیارومحبت کے پیغام کو لیکر آگے بڑھتے ہیں تو حالات پر قابو پایا جاسکتا ہے، یہ کانفرنس جن مقاصد کو لیکر ہورہی ہے اس میں بے حد کامیاب رہی مذہبی تشددپر قابو پانے کے لئے اجلاس میں نہ صرف یہ کہ راہ عمل کی منصوبہ بندی کی گئی بلکہ افہام وتفہم کے ذریعہ پوری دنیا میں امن قائم کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔
کانفرنس میں ہندوستان، عراق، سعودی عرب،فرانس، نائجیریا، لبنان، اٹلی، انڈونیشیا، برازیل، نیوزیلینڈ، امریکہ، مراکش، جرمنی، برطانیہ یورپ وغیرہ سے بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی جن میں مسٹر وینرل بیل سوگیتانی، چیئرمین ریلیجنس فار پیس جاپان، ڈاکٹر ویلیم وینڈیلی، سیکریٹری جنرل آف ریلیجنس فارپیس انٹرنیشنل ، محترمہ ایواردتھ پالمیری، منتخب کونسلرآف ایکزیکیوٹیو بورڈ آف دی یونین آف اٹلی جیوش کمیونیٹیز(یہودی سوسائٹی) سید علی بن محمد الامین ، مذہبی رہنما وسیاسی ومذہبی کارکن لبنان، ڈاکٹر جوہن جورجوپولس ، فرانس ، محترمہ سی روسالی ویلیسو برازیل، ڈاکٹر جورج آرم سٹرونگ، نیوزی لینڈ، چیف ربی ازاک ہلیوا، چیف ربی آف ترکی، ڈاکٹر محمد ہدایت نوروحید انڈونیشنا، ڈاکٹر حسین بن غازی السمیرا عراق، پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحیم حفیدی، فرانس، پروفیسر ڈاکٹر دین شمس الدین انڈونیشیا ، بشپ میتھیو کوکاہ ، نائجیریا ، بی بی کرنجوت کور، پنجاب، انڈیا، ہندودھرم گروسوامی چیدانند سادھوی بھگوتی سارتی، اور اچاریہ لوکیشن منی کے نام قابل ذکر ہیں۔
کانفرنس میں (KAICIID)کے جنرل سکریٹری فیصل بن معمر نے اپنے پیغام میں کہا کہ نفرت اوردوریوں کو ختم کرنے کے لئے اخوت ومحبت کوفروغ دینا ہوگا ، انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مذہب تفریق یا نفرت کا درس نہیں دیتا ہے اگر کسی مذہب کے نام پر تفریق اوردوری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ مذہب نہیں ہے یا پھر اسے سمجھا نہیں گیا ، فیصل بن معمر نے کہا کہ محبت ، اخوت اور امن کا پیغام دینے والے مذاہب میں اسلام سب سے آگے ہے، واضح رہے کہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بین الاقوامی مرکز برائے مکالمہ بین المذاہب والثقافات (KAICIID) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا مقصدتنازعات کے حل اور روک تھام کے حوالے سے افہام وتفہیم اور تعاون کو عالمی سطح پر مکالمے کے استعمال کو فروغ دینا ہے، سات سال کے طویل مذاکرات کے دوران (KAICIID) نے مختلف عقائد اور تہذیبوں کے لوگوں کے درمیان مکالمے کی راہ ہموار کی ہے ، جس نے آپس کی دشمنی کو ختم کرنے،خوف کو کم کرنے اور باہمی احترام کے جذبے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے، بین الثقافتی والمذاہب مکالموں نے باہمی معاشرتی مزاحمت اور تعصب کو بھی کم کیا ہے اور امن وآشتی کے حوالے سے سماجی اہم آہنگی کو مضبوط کرنے میں ایک خدمت انجام دی ہے ، ایک بین الاقوامی تنظیم کے طورپر (KAICIID) نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی حمایت کرتا ہے بالخصوص سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کے حقوق کے حوالے سے سینٹرثقافت، مذہب یا عقیدے کی بنیادپر امتیازات کی تمام شکلوں کی مخالفت کرتا ہے اس کا مقصد مذہبی رہنماؤں اور حکومتی نمائندوں کو پائیدار امن کے لئے مکالمے کی میز پر لانا ہے، (KAICIID) اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اپنے پارٹنرس پر انحصار کرتا ہے، تنظیم اپنے پنے مقاصدکو حاصل کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے رہنماؤں، مذہبی تنظیموں، مکالمے پریکٹیشنر، بین الاقوامی اداروں، حکومتوں، یونیورسیٹیوں اور نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ۔ ان پارٹنرس میں دنیا کی مشہور سماجی تنظیمیں ہیں، جن میں تنظیم تعاون اسلامی (OIC)انسٹی ٹیوٹ سپیریئر ڈی (Religioses Ciencies) باسلونا، (ISCREB)اسپین، اسلامی تعلیمی سائنس اور ثقافتی تنظیم (ISESCO )رباط، مراکش، یونیسکو، (DE UNIVERSITE) مونٹریال، کناڈا، سکاؤٹ تحریک کی عالمی تنظیم (WOSM)،جینیوا، سیوزرلینڈ، افریقی یونین کے نام قابل ذکر ہیں۔