ازقلم: محمد صدرعالم نعمانی صدر جمیعت علماء سیتامڑھی
ـــــــــــــــــــــ
الجامعتہ العربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی بہار کے زمانہ طالب علمی سے لیکر آج تک ملک بھر کے چھوٹے بڑے درجنوں مدارس میں پڑھنے اوردیکھنے کا موقع ملا,مگر یہاں جو کچھ دیکھا, پایا, اور سمجھا ,وہ دوسری جگہ دیکھنے,سمجھنے سے قاصر رہا.
اللہ کے فضل وکرم سے ماہ شوال1984ء میں اشرف العلوم میں درجہ حفظ میں داخلے کیلئے درخواست دی جسے خود اس وقت کے ناظم اعلی عارف باللہ مخدوم بہار حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کنہواوی رحمت اللہ علیہ نے منظور فرماکر حصول علم دیں کا زریں موقع نصیب فرمایا ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب طلبہ کے لئے کتابیں ,اساتذہ، انتظامیہ، اور درسگاہ کے علاوہ ساری دنیا تاریک تھی ۔ نہ فون تھا، نہ واٹس ایپ، نہ فیس بک، نہ ٹیوٹر ,گھر پوسٹ کارڈ پر خط لکھتا اور ایک ماہ کے طویل انتظار کے بعدجوابی لفافہ آتاجس سے گھر کے احوال معلوم ہوتے, اس درمیان دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوکر اپنے اسباق کو یاد کرنے میں لگا رہتا,
دوران تعلیم میں نے اشرف العلوم کو کیسا پایا اورکیا پایا,
بلا مبالغہ اور امانت و دیانت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ تحریر کررہاہوں میں کہ تیتالیس سالہ زندگی میں علم وہنر, صحافت و خطابت اور عزت و شہرت جو میسر ہوئی ہے ,اس میں بنیادی کردار مادر علمی اشرف العلوم کنہواں کا ہی ہے ۔
اشرف العلوم جیسی مستعد انتظامیہ، اشرف العلوم جیسے مخلص و مشفق اساتذہ، اشرف العلوم جیسے محنتی اور جفاکش طلبہ, اور اشرف العلوم جیسی ھر دم ہرلمحہ علم وفضل کے انوار و برکات میں نہاتی لہلہاتی درسگاہیں نہیں دیکھی، اگر میرے ہاتھ میں انصاف کا ترازو تھمادیا جائے اور کہا جائے کہ ان درجنوں مدارس جس میں پڑھنے اور دیکھنے کاموقع ملا، ان میں سے کامیاب مدارس کےبارے میں اپنا تاثر پیش کیجئے ,تو بلاشبہ الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی کا ہی نام آیے گا، گرچہ آج مجھے اشرف العلوم سے رخصت ہو ئےتقریبا تیس سال کاعرصہ ہوگیا مگر اس وقت کے حالات و معمولات آج بھی اچھی طرح یاد ہیں، فجر کی نماز کے بعد سبھی طلباء قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہوجاتے، بعدہ اپنی صواب دید اور استطاعت کے مطابق ناشتہ کرتے (اس وقت مدرسہ کی جانب سے ناشتہ کا انتظام نہیں تھا ), پھر ترانہ کی گھنٹی بجتی، ترانہ کے بعد اسباق سنانے کا دور چلتا, گیارہ یاساڑھے گیارہ بجے چھٹی ہوتی ,پھر کھانے کی گھنٹی لگتی, کھانا تقسیم ہونے کے بعد استطاعت رکھنے والے طلباء دال اور سالن کی اصلاح کرتے، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تھوری دیر قیلولہ کرتے، پھر ظہر کی آذان ہوتی، نماز کےفورا بعد پھر درس گاہ میں اسباق سنانے حاضر ہوتے, عصر کی آذان سے چند منٹ پہلے فرصت ہوتی، وضو کرتے اور عصر کی نماز باجماعت ادا کرتے ,پھر ذکرو اذکار کیلئے دانے تقسیم کیئے جاتے، ذکر کی مجلس کے اختتام کے بعد طلبہ کھیل کود میں مصروف ہوجاتے, اگر کوئ طلباء بعد عصر بھی کسی ضرورت کے تحت کنہواں بازار کی جانب بغیر متعلقہ اساتذہ سے اجازت لئے چلا گیا تو واپسی پر اسے سزادی جاتی اور آئندہ بغیر اجازت کے نہ جانے کی تاکید کی جاتی، پھر مغرب کی آذان ہوتی اور نماز کے بعد طلباء اپنی اپنی جماعت میں بیٹھکر اپنے اسباق یاد کرتے, عشاء سے چند منٹ قبل فرصت ہوتی, عشاءکی نماز اداکرتے , نماز کے بعد طلباء کے درمیان اساتذہ مختصر خطاب فرماتے، بعدہ کھانے کی گھنٹی لگتی, کھانا تقسیم کیا جاتا، اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد پھر اسباق یاد کرتے, جمعرات کوبعدنماز مغرب طلباءکی انجمن کااجلاس اساتذہ کی نگرانی میں ہوتا جس میں طلبااپنےذو ق کےمطابق نعت حمد تقاریر پیش کرتے ساڑھے گیارہ بجے فرصت ہوتی، طلباء سونے کی تیاری کرتے، درجہ حفظ کے طلباء فجر کی آذان سے پہلے بیدار ہوکر اپنے اسباق کو یاد کرتے، ہمیں خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے رفقاء کو ایک بجے رات سے پہلے کبھی سونا نصیب نہیں ہوتا تھا، اور زمانہ امتحان میں تو آذان فجر تک جاگنا ایک عام سی بات تھی، مگرکبھی ایسا نہیں ہوا کہ فجر کی جماعت چھوٹ گئی ہو اس لئے کہ باری باری سے اساتذہ کرام کی گھن گرج آواز کانوں میں گونجتی, اور پھر ڈنڈا پٹخنے کی آواز سنکر سبھی طلباء بیدار ہوکر مسجد پہونچ جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے،
ان ہی شب وروز کے معمولات پہ عمل کرکے اشرف العلوم کے طلباء کوئی محدث، تو کوئی فقیہ, کوئی مصنف, کوئی خطیب , کوئی ادیب, کوئی مفسر, کوئی مبلغ , کوئی مدرس, کوئی صحافی, کوئی انجیر, تو کوئی افسر, کوئی ڈاکٹر, کوئی اللہ کا ولی, تو کوئی خانقاہ میں بیٹھ کر الااللہ کی ضربیں لگانے والے بنکر ملک وبیرون ملک دینی, تعلیمی,تدریسی , صحافتی اوردیگر شعبہ جات میں نمایاں کردار ادا کررہےہیں.
الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسکے بانی سے لیکر منتظم تک سب کے سب عالم باعمل, نمونہ اسلاف,عارف بااللہ, بلند پایہ بزرگ, اللہ کے ولی اور علم و فضل کے میدان میں خوشبئوں کا عطر مجموعہ, ان میں سر فہرست بانی جامعہ بلندپایہ بزرگ حضرت مولانا صوفی رمضان علی صاحب رحمت اللہ علیہ, اور کئی کتابوں کے مصنف عارف بااللہ حضرت مولانا عبد العزیز صاحب بسنتی رحمت اللہ علیہ,اس وقت کے ناظم اعلی مخدوم بہار عارف بااللہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کنہواوی رحمت اللہ علیہ, اور اس وقت کے صدرالمدرسین حضرت مولانا محمد طیب خان صاحب کماوی رحمت اللہ علیہ تھے.
موجودہ ناظم اعلی فقیہ وقت جید عالم دین حضرت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی مدظلہ العالی اور نائب ناظم وصدرالمدرسین نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد اظہار الحق المظاہری صاحب ہیں ,ان ہی حضرات کی قیادت سیادت اور رہنمائی میں ادارہ اشرف العلوم کنہواں نے تعلیمی تعمیری ہر اعتبار سے ترقی کے منازل کو بڑی تیزی کے ساتھ طے کرتے ہوئے سوسال مکمل کئے ہیں اور 24/25/26مارچ 2018 کو جشن صدسالہ منانے جارہے ہیں جواشرف العلوم کی کارکردگی میں اور چارچاند لگا دیگا.
اشرف العلوم کی انتظامیہ بہت ہی مضبوط، مستحکم، مستعد، اصول پسند، باھمی ربط، خدمت گزار، امانت دار، وسیع الظرف، اساتذہ اور طلبہ کے تئیں شفیق، نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کے لیے فکر مند، ادارہ کی ترقی کے لئے کوشاں اور ہندونیپال کے گوشے گوشے سے آنے والے مہمانان رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی علمی و عملی ضیافت کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں.
میں نے اشرف العلوم کے اساتذہ کو یہ پایا کہ وہ طلباء کےتئیں بےحد مخلصانہ جذبہ، الفت ومروت رکھنے والے ہیں، ہر عمل میں ان کا اخلاص، انابت الی اللہ، خشیت الی اللہ، چہرے پر راتوں کو مصلے پر جگنے کے آثار، وقت کی بےانتہا پابندی، ان کے شب و روز کے مرتب نظام کے ذریعے ملک اور ملت اسلامیہ کے درمیان بقا ,تحفظ دین, اور اشاعت اسلام کے فروغ کیلئے باصلاحیت طلباءکی ٹیم تیار کرنے کا دھن سوار رہتا تھا اور آج بھی ہے اور انشاءاللہ آگے بھی رہے گا.
ـــــــــــــــــــــ
الجامعتہ العربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی بہار کے زمانہ طالب علمی سے لیکر آج تک ملک بھر کے چھوٹے بڑے درجنوں مدارس میں پڑھنے اوردیکھنے کا موقع ملا,مگر یہاں جو کچھ دیکھا, پایا, اور سمجھا ,وہ دوسری جگہ دیکھنے,سمجھنے سے قاصر رہا.
اللہ کے فضل وکرم سے ماہ شوال1984ء میں اشرف العلوم میں درجہ حفظ میں داخلے کیلئے درخواست دی جسے خود اس وقت کے ناظم اعلی عارف باللہ مخدوم بہار حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کنہواوی رحمت اللہ علیہ نے منظور فرماکر حصول علم دیں کا زریں موقع نصیب فرمایا ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب طلبہ کے لئے کتابیں ,اساتذہ، انتظامیہ، اور درسگاہ کے علاوہ ساری دنیا تاریک تھی ۔ نہ فون تھا، نہ واٹس ایپ، نہ فیس بک، نہ ٹیوٹر ,گھر پوسٹ کارڈ پر خط لکھتا اور ایک ماہ کے طویل انتظار کے بعدجوابی لفافہ آتاجس سے گھر کے احوال معلوم ہوتے, اس درمیان دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوکر اپنے اسباق کو یاد کرنے میں لگا رہتا,
دوران تعلیم میں نے اشرف العلوم کو کیسا پایا اورکیا پایا,
بلا مبالغہ اور امانت و دیانت کا لحاظ کرتے ہوئے یہ تحریر کررہاہوں میں کہ تیتالیس سالہ زندگی میں علم وہنر, صحافت و خطابت اور عزت و شہرت جو میسر ہوئی ہے ,اس میں بنیادی کردار مادر علمی اشرف العلوم کنہواں کا ہی ہے ۔
اشرف العلوم جیسی مستعد انتظامیہ، اشرف العلوم جیسے مخلص و مشفق اساتذہ، اشرف العلوم جیسے محنتی اور جفاکش طلبہ, اور اشرف العلوم جیسی ھر دم ہرلمحہ علم وفضل کے انوار و برکات میں نہاتی لہلہاتی درسگاہیں نہیں دیکھی، اگر میرے ہاتھ میں انصاف کا ترازو تھمادیا جائے اور کہا جائے کہ ان درجنوں مدارس جس میں پڑھنے اور دیکھنے کاموقع ملا، ان میں سے کامیاب مدارس کےبارے میں اپنا تاثر پیش کیجئے ,تو بلاشبہ الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی کا ہی نام آیے گا، گرچہ آج مجھے اشرف العلوم سے رخصت ہو ئےتقریبا تیس سال کاعرصہ ہوگیا مگر اس وقت کے حالات و معمولات آج بھی اچھی طرح یاد ہیں، فجر کی نماز کے بعد سبھی طلباء قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہوجاتے، بعدہ اپنی صواب دید اور استطاعت کے مطابق ناشتہ کرتے (اس وقت مدرسہ کی جانب سے ناشتہ کا انتظام نہیں تھا ), پھر ترانہ کی گھنٹی بجتی، ترانہ کے بعد اسباق سنانے کا دور چلتا, گیارہ یاساڑھے گیارہ بجے چھٹی ہوتی ,پھر کھانے کی گھنٹی لگتی, کھانا تقسیم ہونے کے بعد استطاعت رکھنے والے طلباء دال اور سالن کی اصلاح کرتے، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تھوری دیر قیلولہ کرتے، پھر ظہر کی آذان ہوتی، نماز کےفورا بعد پھر درس گاہ میں اسباق سنانے حاضر ہوتے, عصر کی آذان سے چند منٹ پہلے فرصت ہوتی، وضو کرتے اور عصر کی نماز باجماعت ادا کرتے ,پھر ذکرو اذکار کیلئے دانے تقسیم کیئے جاتے، ذکر کی مجلس کے اختتام کے بعد طلبہ کھیل کود میں مصروف ہوجاتے, اگر کوئ طلباء بعد عصر بھی کسی ضرورت کے تحت کنہواں بازار کی جانب بغیر متعلقہ اساتذہ سے اجازت لئے چلا گیا تو واپسی پر اسے سزادی جاتی اور آئندہ بغیر اجازت کے نہ جانے کی تاکید کی جاتی، پھر مغرب کی آذان ہوتی اور نماز کے بعد طلباء اپنی اپنی جماعت میں بیٹھکر اپنے اسباق یاد کرتے, عشاء سے چند منٹ قبل فرصت ہوتی, عشاءکی نماز اداکرتے , نماز کے بعد طلباء کے درمیان اساتذہ مختصر خطاب فرماتے، بعدہ کھانے کی گھنٹی لگتی, کھانا تقسیم کیا جاتا، اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد پھر اسباق یاد کرتے, جمعرات کوبعدنماز مغرب طلباءکی انجمن کااجلاس اساتذہ کی نگرانی میں ہوتا جس میں طلبااپنےذو ق کےمطابق نعت حمد تقاریر پیش کرتے ساڑھے گیارہ بجے فرصت ہوتی، طلباء سونے کی تیاری کرتے، درجہ حفظ کے طلباء فجر کی آذان سے پہلے بیدار ہوکر اپنے اسباق کو یاد کرتے، ہمیں خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے رفقاء کو ایک بجے رات سے پہلے کبھی سونا نصیب نہیں ہوتا تھا، اور زمانہ امتحان میں تو آذان فجر تک جاگنا ایک عام سی بات تھی، مگرکبھی ایسا نہیں ہوا کہ فجر کی جماعت چھوٹ گئی ہو اس لئے کہ باری باری سے اساتذہ کرام کی گھن گرج آواز کانوں میں گونجتی, اور پھر ڈنڈا پٹخنے کی آواز سنکر سبھی طلباء بیدار ہوکر مسجد پہونچ جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے،
ان ہی شب وروز کے معمولات پہ عمل کرکے اشرف العلوم کے طلباء کوئی محدث، تو کوئی فقیہ, کوئی مصنف, کوئی خطیب , کوئی ادیب, کوئی مفسر, کوئی مبلغ , کوئی مدرس, کوئی صحافی, کوئی انجیر, تو کوئی افسر, کوئی ڈاکٹر, کوئی اللہ کا ولی, تو کوئی خانقاہ میں بیٹھ کر الااللہ کی ضربیں لگانے والے بنکر ملک وبیرون ملک دینی, تعلیمی,تدریسی , صحافتی اوردیگر شعبہ جات میں نمایاں کردار ادا کررہےہیں.
الجامعۃ العربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسکے بانی سے لیکر منتظم تک سب کے سب عالم باعمل, نمونہ اسلاف,عارف بااللہ, بلند پایہ بزرگ, اللہ کے ولی اور علم و فضل کے میدان میں خوشبئوں کا عطر مجموعہ, ان میں سر فہرست بانی جامعہ بلندپایہ بزرگ حضرت مولانا صوفی رمضان علی صاحب رحمت اللہ علیہ, اور کئی کتابوں کے مصنف عارف بااللہ حضرت مولانا عبد العزیز صاحب بسنتی رحمت اللہ علیہ,اس وقت کے ناظم اعلی مخدوم بہار عارف بااللہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کنہواوی رحمت اللہ علیہ, اور اس وقت کے صدرالمدرسین حضرت مولانا محمد طیب خان صاحب کماوی رحمت اللہ علیہ تھے.
موجودہ ناظم اعلی فقیہ وقت جید عالم دین حضرت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی مدظلہ العالی اور نائب ناظم وصدرالمدرسین نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد اظہار الحق المظاہری صاحب ہیں ,ان ہی حضرات کی قیادت سیادت اور رہنمائی میں ادارہ اشرف العلوم کنہواں نے تعلیمی تعمیری ہر اعتبار سے ترقی کے منازل کو بڑی تیزی کے ساتھ طے کرتے ہوئے سوسال مکمل کئے ہیں اور 24/25/26مارچ 2018 کو جشن صدسالہ منانے جارہے ہیں جواشرف العلوم کی کارکردگی میں اور چارچاند لگا دیگا.
اشرف العلوم کی انتظامیہ بہت ہی مضبوط، مستحکم، مستعد، اصول پسند، باھمی ربط، خدمت گزار، امانت دار، وسیع الظرف، اساتذہ اور طلبہ کے تئیں شفیق، نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کے لیے فکر مند، ادارہ کی ترقی کے لئے کوشاں اور ہندونیپال کے گوشے گوشے سے آنے والے مہمانان رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی علمی و عملی ضیافت کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں.
میں نے اشرف العلوم کے اساتذہ کو یہ پایا کہ وہ طلباء کےتئیں بےحد مخلصانہ جذبہ، الفت ومروت رکھنے والے ہیں، ہر عمل میں ان کا اخلاص، انابت الی اللہ، خشیت الی اللہ، چہرے پر راتوں کو مصلے پر جگنے کے آثار، وقت کی بےانتہا پابندی، ان کے شب و روز کے مرتب نظام کے ذریعے ملک اور ملت اسلامیہ کے درمیان بقا ,تحفظ دین, اور اشاعت اسلام کے فروغ کیلئے باصلاحیت طلباءکی ٹیم تیار کرنے کا دھن سوار رہتا تھا اور آج بھی ہے اور انشاءاللہ آگے بھی رہے گا.