اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس نے تاریخ رقم کی، پٹنہ شہر اپنی وسعت کے باوجود شرکاء کی تعداد کی وجہ سے تنگ!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 16 April 2018

دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس نے تاریخ رقم کی، پٹنہ شہر اپنی وسعت کے باوجود شرکاء کی تعداد کی وجہ سے تنگ!

پٹنہ(آئی این اے نیوز 16/اپریل 2018) امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے زیر اہتمام منعقد دین بچاؤ، دیش بچاؤ کانفرنس میں شرکاء کے اعتبار سے تاریخ رقم کی اتنی بھیڑ سیاسی پارٹیوں کی ریلیوں میں بھی کبھی دیکھا نہیں گیا،
پورا گاندھی میدان کچھا کچ بھرا ہوا تھا تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی ، اور اس سے کہیں بڑا مجمع گاندھی میدان کے ارد گرد اور پٹنہ کی شہروں میں تھا ، ٹریفک کے اچھے نظام کے با وجود شرکاء کو دور دراز سے پیدل آنے کے لئے کئی کئی کیلو میٹر کا پیدل سفر کرنا پڑااس موقع سے جوش وخروش دیکھنے کے لائق تھا ، ایسا جوش جس میں کوئی نعرہ بازی نہیں تھی، لیکن ایک جذبہ تھا ایک حوصلہ تھا او راولو العزمی تھی جو بوڑھے جوان بچوں کو تیزی کے ساتھ گاندھی میدان کی طرف رواں دواں رکھے ہوئی تھی ، اس موقع سے پٹنہ نے میزبانی کا بے مثال نمونہ پیش کیا، سڑکوں کے کنارے پارکنگ کے قریب ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹیشن پہ بڑی تعداد میں لوگ پانی شربت اور کھانے کی دوسری چیزیں لیکر استقبال میں کھڑے ہوئے تھے، مجمع رات ہی سے آنے لگا تھا ، اور صبح کے دس بجے تک چلچلاتی دھوپ میں گاندھی میدان کا بیشتر حصہ بھر چکا تھا، مجمع پورے دن گرمی کی شدت کے با وجودشام کے ساڑھے پانچ بجے تک اطمینان وسکون کے ساتھ بیٹھا رہا ، جیسے دھوپ کی تمازت اس پر اثر کر ہی نہ رہی ہو، پونے ایک بجے حضرت امیر شریعت اسٹیج پر تشریف لائے اور ٹھیک ایک بجے قاری نظام الدین صاحب کی تلاوت کلام پاک اور منظر رحمانی کی نعت پاک سے کانفرنس کا آغاز ہوا،اس موقع سے اپنے صدارتی خطاب میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم امیر شریعت امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے فرمایا : ان حالات میں بھڑکنا،جذباتیت کا مظاہرہ کرنا، بلاوجہ جوش میں آجانا  مسئلہ کا حل نہیں ہے____مسئلہ کا حل آئین کے دائرے میں تلاش کرنا ہے،ٹھنڈے دل ودماغ سے فیصلہ کرنا ہے، لانبی پلاننگ کرنی ہے، دشمنوں کو پہچاننا ہے، نئے دوستوں کو تلاش کرنا ہے اور ان غلطیوں سے بچنا ہے جنہیں اس ملت نے ماضی قریب یا ماضی بعید میں کیا ہے۔
میرے عزیزو!
ہمیں مثبت حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے،اپنے جمہوری حقوق کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ہے، ہمیں اپنے سماج کے مزاج کو بدلنے کی پالیسی بنانی ہے، ہمیں اندھی حمایت اور روایتی وابستگی سے باہر نکلنا ہوگا،ہماری ذمہ داری ہے کہ سیاسی استحصال کرنے والوں کو پہچانیں، اپنے اندر شعور وآگہی پیدا کریں ،اورکلمہ واحدہ کی بنیاد پر جینے کا مزاج پیدا کریں۔
مسلک راہ عمل ہے،یہ دینی راہ ہے،یہ اختلاف اور ٹکرائو کا ذریعہ نہیں ہے، ہم نے اس دینی راہ کو اختلاف وانتشار کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔اسلام نے دوسرے مذاہب کے قدرمشترک کو آواز دی ہے، کیا شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ان کے نام لیوا تھوڑے سے مسلکی اختلا ف کو ایک واضح دائرہ میں نہیں رکھ سکتے ؟ ___اورآپس میں بھائی بھائی بن کر نہیں رہ سکتے؟
اللہ کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ،برادری، گورے اور کالے کے فرق کو مٹایا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دیوار ڈھادی جو قبیلہ واد اور برادری واد کے نام پر جاہلی عرب نے قائم کیا تھا۔لیکن ہم دورجاہلیت کی اس لعنت کی طرف لوٹ رہے ہیں ،ہم پھران دیواروں کو کھڑا کررہے ہیں ۔سرکاری مراعات کے لئے اگر کوئی کام ہورہاہے اسے وہیں تک محدود رکھیں،عقل کا تقاضہ اور دین سے وابستگی کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دامن اورکانٹوں میں نہ الجھے۔
ہماری ذمہ داری ہے اور دینی سمجھ کا تقاضۃ ہے کہ ہم مسلک پر عمل کرتے رہیں، مسلک پر جھگڑا نہ کریں، یہ تھوڑے تھوڑے فرق اور فاصلے اور یہ سارے راستے شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے نشان قدم تک پہونچتے ہیں،یہ برادریاں جو پائی جاتی ہیں، اسلام نے انہیں معیار نہیں بنایا ،اسلام نے تقوی اور پرہیزگاری کو معیار اور مطلوب بنایا ہے،سچائی یہ ہے کہ ہماری یہ ساری برادریاں بھارتی تہذیب اور رواج کی دین ہیں، یہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہیں۔انہیں اختلاف کا ذریعہ بنانا ناسمجھی ہے،اوردینی فکر سے ناواقفیت کی علامت !   ہماری ذمہ داری ہے کہ نفرتوں ،دوریوں اور اونچ نیچ کے جن احساسات کو ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے مٹایا ،ہم انہیں پنپنے نہ دیں۔
ہمارا قومی مزاج یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی قیادت پر زیادہ پر اعتماد نہیں کیا، ہم نے جذباتی باتوں کو قبول کیا، مگر سنجیدگی ،دوراندیشی اور یکسوئی سے معاملات پر سوچانہیں ، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، حالات برے ہوتے چلے گئے،اور بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔سوچ سمجھ کر صحیح قیادت کو قبول کیجئے،اوریکسوئی کے ساتھ اس کی باتوں کو مانئے ،اپنے آپ کو خوف کی نفسیات سے نکالئے،اورایک زندہ ،باغیرت، باحمیت ، باضمیر ملت کی طرح زندگی گذارئیے،مشقتوں کو دل سے قبول کیجئے، ملت کی اجتماعی زندگی کے لئے وقت نکالئے اور وقت لگائیے۔وقت کی قربانی دیجئے،مال نچھاور کیجئے اور ضرورت پڑے تو جان دینے سے پیچھے نہ رہئے،انفرادی قربانیاں ملت کی اجتماعی زندگی کا ذریعہ ہیں۔
 مولانا ابو طالب رحمانی سے تقریری سلسلہ کا آغاز ہوا، انہوں نے کہا کہ سرکار نے دین میں مداخلت کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ، وہ ناقابل برداشت ہے ، اور مختلف ریاستوں سے آیا ہوا یہ بڑا مجمع اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ وہ اپنے جان کی قربانی دیکر بھی دین وشریعت کی حفاظت کے لئے امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کی قیادت میں کمر بستہ ہو چکا ہے ۔ انہوں نے کہا خواتین کے تحفظ کے نام پر اسلام کے نظام طلاق میں دخل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ، ہمارا کہنا یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی بیوی کو بھی گھر میں عزت کے ساتھ رکھیں اور ہمیں بھی اپنی بیویوں کو عزت کے ساتھ رکھنے دیں ، اس موقع سے اپنے خطاب میں مولانا عمرین محفوظ نے قرآن کریم کی آیتوں کے حوالہ سے اسلامی احکام پر عمل کرنے اور غیروں کی مداخلت سے اسے بچانے پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہ کی شکل میں ایک مضبوط مسلم قیادت ہمارے درمیان موجود ہے ، ہمیں ان کی راہنمائی میں ہندوستان میں دین کی بقاء اور دوسرے ملکی اور ملی مسائل کے لئے جد وجدہ جاری رکھنی چاہیے۔ مولانا اصغر امام مہدی سلفی نے جد وجہد آزادی مین بہار کے لوگوں کی قربانیاں یاد دلائی اور بتایا کہ اس سر زمین سے جو آواز اٹھتی ہے اس کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ بہار سے دین بچاؤ ، دیش بچاؤ کانفرنس ایک تحریک کی شکل اختیار کرے گااور اس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے ، دین کے تحفظ اور شریعت کے سلسلے میں ہم سب ایک ساتھ ہیں، مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے اپنی مؤثر اور پر جوش تقریر میں مرکزی حکومت کی کوتاہیوں اور کمیوں کی نشاندہی کی انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے جھوٹ بولنے کا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے ، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اب تک صرف ایک بات سچ کہی ہے اور وہ یہ کہ وہ چائے بیچنے والے ہیں، ان کی پالیسی سے ملک کی گنگا جنمی تہذیب کو سخت نقصان پہونچا ہے ، ہمیں دین اور دیش بچانے کی غرض سے پوری قوت اور طاقت کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا، اور مسلکی جھگڑوں کو چھوڑ کر ملت کے مفاد میں آگے بڑھنا ہوگا، امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نے جو تحریک چھیڑی ہے یہ تحریک وقت کی ضرورت ہے اور ہم تمام لوگوں کو دین کی بنیاد پر حضرت کا ساتھ دینا چاہیے، میں مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پوری مضبوطی کے ساتھ اس تحریک کے دست وبازو بنیں تاکہ ہندوستان مین پر امن بقاء باہم کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن ہو سکے۔ بام سیف کے وامن وشرام نے بہت واضح طور پر یہ بات کہی کہ بر ہمنوں نے اقلیتوں دلتوں اور ایس سی ، ایس ٹی والوں کو سخت نقصان پہونچایا ہے، ہماری لڑائی تین ہزار سال سے چل رہی ہے اور ہم اتنے ہی دنوں سے پٹ رہے ہیں، مسلمانوں پر یہ آفت آزادی کے بعد آئی اور دلتوں کے ذریعہ فساد کراکر برہمنوں نے مسلمانوں کو برباد کرنے کا کام کیا، چونکہ دلت کم پڑھے لکھے ہیں اس لئے برہمن ان کو اکسا کر مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرتے رہے ہیں، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ہم ہندو نہیں ہیں ، ہمیں زبر دستی کام لینا ہوتا ہے تو ہندو ثابت کیا جاتا ہے ، ہم ہزاروں برس سے الگ ہیں اور ہندو مذہب سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ اقلیتوں دلتوں اور مسلمانوں کا اتحاد ہی اس صورت حال کو ختم کر سکتا ہے ، ہم اس اتحاد کے بل پر ایک ایسی حکومت قائم کر سکتے ہیں، جو حکومت انصاف پر مبنی ہوگی اور جس میں ہر طبقہ کے لئے راحت اور آرام کا سامان ہوگا، اس موقع سے شریعت میں مداخلت کے خلاف ، عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے،  ہجومی تشدد کے ذریعہ قانون شکنی قتل وغارت گری، تعلیم وتربیت کے میدان میں مسلمانوں کو آگے آنے اور خواتین کو بیدا ر کرنے کی ضرورت سے متعلق تجاویز منظور ہوئیں، جسے ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی نائبین نظماء مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ، مولانا سہیل احمد ندوی ، مولانا شبلی قاسمی اورمولانا محمد سہراب ندوی نے پیش کیا جسے سامعین نے باالاتفاق ہاتھ اٹھا کر منظوری دی ، جلسہ کی نظامت مولانا جناب ڈاکٹر خالد انور نے انجام دیا۔مفتی محمد سہراب صاحب ندوی نے مجمع کو کنٹرول میں رکھااور اپنی پر اثر باتوں سے دھوپ کی تمازت کا احساس نہیں ہونے دیا۔اسٹیج پر مختلف تنظیموں اور جماعتوں کے سر براہ علماء اور دانشور بڑی تعداد میں موجود تھے، جمیعۃ علماء بہار کے صدر مولانا محمد قاسم ، جمیعۃ علماء کے سکریٹری الحاج حسن احمد قادری، جماعت اسلامی کے مولانا رضوان احمد اصلاحی ،ادارہ شرعیہ کے ناظم الحاج محمد ثناء اللہ ، امارت اہل حدیث کے امیر مولانا خورشید مدنی سلفی، شیعہ امامیہ کے ذمہ دار مولانا امانت حسین، مومن کانفرنس کے صدر مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی، جامعہ رحمانی مونگیر کے جناب مولانا محمد عارف رحمانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آفس سکریٹری ڈاکٹر وقار الدین لطیفی وغیرہ خصوصیت سے رونق اسٹیج تھے۔کانفرنس میں جو تجاویز منظور ہوئیں وہ درج ذیل ہیں:
پروگرام کا اختتام صدارتی خطاب کے بعد امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کی دعا پر ہوا۔ اس پروگرام کے کامیاب انعقاد پر مختلف ملی تنظیموں اور تعلیمی اداروں نیز نامور شخصیات نے حضرت امیر شریعت اور ان کے رفقاء کو مبارکباد پیش کی یقینا اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا ہے اور وہ امارت شرعیہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ کچھ ایسے لائحہ عمل تیار کریں گے جس سے ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ ملے گااور دین وشریعت میں مداخلت کا دروزاہ بند ہوگا۔
جو تجاویز منظور ہوئیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
تجاویز: بموقع دین بچائو دیش بچائو کانفرنس، منعقدہ 15 اپریل 2018
بمقام گاندھی میدان پٹنہ
زیر صدارت :  مولانا محمد ولی رحمانی دامت بر کاتہم امیر شریعت بہار ، اڑیسہ ، جھارکھنڈ، امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
تجویز نمبر1 ۔ہماری شریعت ہماری جان
1. گذشتہ کچھ برسوں سے ہمارے ملک میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ہمارے دین و شریعت سے کھلواڑ کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسلامی تہذیب اور قرآنی تعلیمات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے مسلم خواتین تحفظ بل 2017 کے نام سے لاکر شریعت میں حکومتی مداخلت کا نیا دروازہ کھول دیا ہے۔یہ عظیم مجمع شریعت میں مداخلت کی ہر کوشش کی مذمت کر تا ہے۔اور آج کی کانفرنس کے ذریعہ مطالبہ کر تا ہے کہ حکومت اپنے رویہ میں تبدیلی لائے اور قرآن و حدیث کے تقدس کو پامال کر نے سے گریز کر تے ہوئے مسلم خواتین بل 2017 واپس لے اور شریعت میں مداخلت بند کرے۔
2۔ ہجومی تشدد اور کچھ بے لگام لیڈروں کے بیانات کے ذریعہ ملک کے مسلمانوں، دلتوں اور محروم طبقات میں خوف و ہراس پیدا کر نے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آج کی یہ کانفرنس ان واقعات کی شدید مذمت کر تی ہے اور حکومت سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ سماج میں مساوات کے قیام کی کوشش کرے اور نفرت و خوف و ہراس کے ماحول کو ختم کرے، ملک کی سا  لمیت و اتحاد کو خطرہ میں نہ ڈالے۔
3۔ ہمارے ملک کا دستور سیکولر روایات و اقدار کا امین ہے۔ آئین ہند نے سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی دی ہے۔ گذشتہ کچھ مدت سے پورے ملک پر ایک نظریہ کو تھوپنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ آج کی یہ کانفرنس دستور ہند کا احترام نہ کر نے والوں کے رویہ کی مذمت کر تے ہوئے حکومت ہند، آئینی اداروں اورسیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ مکمل طور پرملک کے آئین کا احترام کریں۔یہ کانفرنس خبردار کر تی ہے کہ دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے دیش کے خیر خواہ نہیں ہیں،انہیں ملک کے عوام جمہوری طریقہ سے سزادیں گے۔
4۔ ایک طرف حکومت عورتوں کے تحفظ کی بات کر تی ہے اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ معصوم بچیوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ یو پی اور جموں کشمیر کے واقعات کی مذمت کر تے ہوئے یہ کانفرنس مطالبہ کر تی ہے کہ حکومت ایسا ماحول تیار کرے جس میں آئندہ اس قسم کے واقعات پیش نہ آئیں اور مجرمین کو عبرتناک سزا دے۔
تجویز -2 آزاد عدلیہ جمہوریت کا ستون ہے:
1۔ جمہوریت کا وجود ہماری عدالتوں کی آزادی اور احترام پر منحصر ہے۔ آج حکومتی سطح پر عدالتوں کو مسلسل متاثر کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے چار موقر ججوں نے جس طرح آئینی اداروں کو بر باد کرنے کی کوششوں کے خلاف پریس کانفرنس کی اور جمہوریت کے درپشت خطرات سے ملک کو با خبر کیا وہ عدلیہ کی صحیح صورت حال کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ آج کی یہ کانفرنس سپریم کورٹ کے چاروں ججوں کی جرأت کی ستائش کر تی ہے اور مرکزی حکومت، پارلیامنٹ، تمام سیاسی پارٹیوں اور عوام سے اپیل کر تی ہے کہ عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کو ہر حال میں بچایا جائے۔ جو فاشسٹ ادارے عدالتوں کی توہین کر رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ آج کی کانفرنس حکومت کے ذریعہ عدالتوں کو متاثر کر نے کی کوششوں کی بھر پور مذمت کر تی ہے۔
2۔ آزاد و خود مختار عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ ججوں کی تقرری میں سرکاری مداخلت نہ ہو۔ بد قسمتی سے موجودہ حکومت ججوں کی تقرری من مانے ڈھنگ سے کر رہی ہے۔ آج کی کانفرنس مرکزی سرکار سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ ججوں کی تقرری کے معاملات کو عدالتوں پر چھوڑ دے۔
3۔ عدالتوں کے بعض فیصلوں کی وجہ سے یہ تاثر جارہا ہے کہ عدالتیں اسلامی احکام و قوانین کی تشریح من مانے طور پر کر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو فیصلے آتے ہیں اس سے شریعت میں مداخلت ہو تی ہے۔ عدالتوں کے فیصلوں کے احترام کے ساتھ یہ کانفرنس اس رویہ میں تبدیلی کا مطالبہ کر تی ہے تا کہ دستور ہند میں دیے گئے حقوق کی حفاظت ہو سکے۔
تجویز -3 مساجد و مقابر و مدارس کی حفاظت
1۔   مسجدیں ہمارے دین و شریعت کا مرکز اور مدارس دین کے قلعے اور ہماری تہذیب کی شناخت ہیں۔ ہماری درگاہیں اور خانقاہیں عوام الناس کے روحانی مراکز ہیں۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ہمارے ان مقامات کے خلاف مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں۔ مسجدوں کی تعمیر اور یہاں سے اٹھنے والی صدا پر لگام لگانے کے لئے قانون بنائے جار ہے ہیں۔ مدارس کو دہشت گردی سے جوڑ کر نشانہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ خانقاہوں اور درسگاہوں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ آج کی کانفرنس حکومت سے یہ مطالبہ کر تی ہے کہ ہمارے مساجد ، مقابر و مدارس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ سماج دشمن عناصر کو لگام دے کر ملک کی ان وراثتوں کی حفاظت کی جائے۔
تجویز -4 فسادات سماج کے لئے ناسور اور اجتماعی ترقی کے دشمن ہیں
1۔ فرقہ وارانہ فسادات نے ہمارے سماج کو توڑ دیا ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مرکز میں جب سے نئی سرکار آئی ہے فسادیوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔ ملک میں ہر جگہ فسادی گروہ سر گرم ہو گیا ہے۔ مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ چن چن کر مسلمانوں کی دکانوں مکانوں اور کار خانوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ کچھ ریاستی حکومتیں ایسے سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اس سے ان کا ووٹ بڑھ رہا ہے۔ یہ کانفرنس ایسی سرکاروںکی شدید مذمت کر تی ہے۔ یہ کانفرنس مطالبہ کر تی ہے کہ فسادات کو روکنے کے لئے مستحکم کارروائی کی جائے۔ فسادات میں شامل عناصر کے خلاف قتل عمدکا مقدمہ چلایا جائے۔ یہ کانفرنس تمام ریاستی سرکاروں اورمرکز سے مطالبہ کر تی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات مخالف بل پاس کرے، متاثرین کو ہر جانہ ادا کرے اور فسادیوں کو سزا دے۔
تجویز -5 دلتوں کے خلاف مظالم بند ہوں
1۔ درج فہرست ذات و درج فہرست قبائل کی آبادی سخت بے چینی کا شکار ہے۔دلتوں پر مظالم عام بات ہے۔ ایس سی،ایس ٹی ایکٹ کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔ آج کی کانفرنس ملک میں بسنے والے دلت بھائیوں سے اظہار ہمدردی کر تے ہوئے سرکار سے مطالبہ کر تی ہے کہ وہ دلتوں، محروموںپر ظلم کر نے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ریزر ویشن کی پالیسی میں چھیڑ چھاڑ نہ کرے اور ایس سی ایس ٹی ایکٹ کو مضبوط بنائے۔
2۔ غیر مسلموں اور خاص طور پر دلتوں کے ساتھ سماجی رابطے کی کمی ہے۔ یہ کانفرنس تمام مسلمانوں سے اپیل کر تی ہے کہ سماجی ہم آہنگی کی فضا بنائی جائے اور دلتوں کے ساتھ میل ملاپ میں اضافہ کیا جائے۔
تجویز 6- خواتین بیداری مہم
اس کانفرنس کا احساس ہے کہ مختلف وجوہات سے ہمارا گھریلو اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا جا رہا ہے۔ دینی معاملات میں بھی مسلمان کمزور ہو رہے ہیں اور خواتین کے معاملے میں دینی علوم اور مذہبی شعور کی کافی کمی پائی جاتی ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان دین بچانے کے لئے اپنی ذاتی اور خانگی زندگی میں بھی حساس اور بیدار ہوں۔ دین بچانے کا یہ سب سے اہم طریقہ ہے۔اس سلسلے میں خواتین بیداری مہم چلائی جائے۔ اس کے لئے صوبائی سطح سے ضلع اور بلاک کی سطح تک پڑھی لکھی دیندار اور مہذب خواتین کی کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس کمیٹی کے ذریعہ عورتوں کے اسلامی طور طریقے ، شرعی قوانین اور حکم دین کے تئیں بیداری لائی جائے اور امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر کو اس کی پیش رفت سے مطلع کیا جائے۔
تجویز -7 تعلیم و تر بیت
2۔ مسلمانوں کے لئے بنیادی دینی تعلیم کا حصول فرض عین ہے۔ اس لئے لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم ایسی جگہوں پر دلوائی جائے جہاں بنیادی دینی تعلیم کا حصول ممکن ہو۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عصری تعلیم دینی تربیت کے ساتھ اسلامی ماحول میں بچوں کو دی جائے۔ ایسے بچے جن کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی سہولت نہیں ہے ان کے لئے مختلف چھٹیوں کے ایام میں ووکیشنل کورسیز چلائے جائیں۔
تجویز -8 اردو زبان کی بقا
سرکاری سطح پر حکومت اپنے انداز میں اردو کی ترویج و اشاعت اور بحیثیت زبان اس کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن اردو زبان کو گھر گھر داخل کئے بغیر اس کو زندہ زبان کی حیثیت سے باقی رکھنا دشوار ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ گھر گھر میں اردو زبان بولی جائے، اردو کے اخبارات و رسائل خرید کر پڑھے جائیں، دکانوں کے بورڈ اور ناموں کے نیم پلیٹ اردو میں بھی لکھے جائیں۔ تا کہ جو ورثہ ہمارے بڑوں نے ہمیں دیا ہے ہم اس کی حفاظت کر سکیں۔
تجویز -9 اوقاف
اوقاف انتہائی کسم پرسی کی حالت میں ہیں۔ سروے کے کام مکمل نہ ہو نے کی وجہ سے اوقاف کی جائیداد تیزی  سے خرد برد ہو رہے ہیں اور ان پر زمین مافیائوں کا قبضہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سروے کے کام کو جلد سے جلد مکمل کرائے اور وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم 2013 کے مطابق اوقاف کی جائیداد کو خالی کرانے کے لئے اپنی سطح سے کارروائی کرے۔
تجویز -10عالم اسلام
عالمی سطح پر برما ، میانمار ، شام اور فلسطین کے مسلمانوں کو مختلف مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ نسل کشی اور کیمیاوی اسلحوں کے استعمال کی وجہ سے حالات نا گفتہ بہ ہیں۔ اس لئے عالم اسلام کی تنظیموں عرب لیگ وغیرہ اور اقوام متحدہ کو ان ممالک میں امن و امان کی فضا قائم کر نے کی کوشش کرنی چاہیئے، مسلم ممالک میں امن و سکون نہ ہو نے کی وجہ سے طاقت کا توازن بگڑتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو اس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے.