تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
موت اس دھرتی پر تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے اس دنیا میں ہر ذی روح چیز کی انتہا موت ہے اللہ جل مجدہ نے موت فرشتوں پر بھی لکھ دی ہے چاہے وہ جبرئیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام ہی کیوں نہ ہوں حتی کہ ملک الموت بھی موت کے منھ میں چلے جائیں گے-
ارشاد خداوندی ہے
كل من عليها فان، ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام
اس دھرتی پر موجود ہر چیز فنا ہوجائے گی صرف تیرے پروردگار کی ذات ذوالجلال باقی رہے گی،
الرحمن26-27
موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتداء ہے موت کے ساتھ ہی دنیاوی آسائشیں ختم ہوجاتی ہیں اور میت مرنے کے بعد یا تو عظیم نعمتیں دیکھتی ہے یا پھر دردناک عذاب وہ تو اس کے اعمال پر منحصر ہے ،
مگر اس دار فانی میں کچھ انسان ایسے بھی وجود پذیر ہوتے ہیں جو متعینہ وقت گزار کر تو رخصت ہوجاتے ہیں مگر افراد زمانہ ان کو یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ اپنے افکار و نظریات، اوصاف و کمالات تواضع و انکساری علم و عمل زہد و تقویٰ اور خلوص و للہیت کی بناء پر ہمیشہ یاد آتے ہیں انہیں شخصیات میں ایک فکر نانوتوی کے سچے امین خانوادہ قاسمی کے چراغ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کے آخری شاگرد
جگر گوشہ حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ استاذ الاساتذہ استاذ گرامی قدر خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ صدر مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند و نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی تھے
خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کی ولادت 8/ جنوری 1926 کو دیوبند کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی اور وفات 14/اپریل بروز اتوار 2018 کو دیوبند ہی میں ہوئی،
تعلیم اساتذہ اور تدریسی خدمات
خطیب الاسلام مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ نے اپنی پوری پڑھائی دارالعلوم دیوبند ہی سے حاصل کی اور اپنے وقت کے ممتاز و مایہ ناز علماء و مشائخ سے استفادہ کیا جن میں سے کچھ کے نام قابلِ ذکر ہیں
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اپنے والد ماجد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ شیخ الأدب مولانا اعزاز علی امروہوی شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ،
ذاتی صلاحیت اور صالحیت کا نتیجہ تھا کہ فراغت کے بعد وہ دارالعلوم کے استاذ مقرر ہوئے آپ جملہ علوم و فنون میں بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے آپ نے علوم قاسمی کی تشریح میں اچھا کردار ادا کیا، قضیہ دارالعلوم کے بعد آپ نے دارالعلوم سے علیحدگی اختیار کرکے دارالعلوم دیوبند وقف کی سے منسلک ہوئے اور مرتے دم تک وہیں پر بخاری شریف کا درس دیتے رہے،
توکل علی اللہ اور پابندی وقت
حضرت خطیب الاسلام مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ نہایت ہی مخلص اور اللہ جل مجدہ پر انتہا سے زیادہ توکل کرنے والے انسان تھے،
قضیہ دارالعلوم کے بعد جب کہ ہر طرف مخالفتوں کا دور دورہ تھا بے سروسامانی کے عالم میں اللہ جل مجدہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے دارالعلوم وقف کی داغ بیل ڈالی جو بظاہر آسان نہ تھی اور چند ہی سالوں میں اس خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا اوراتنے کم وقت میں جو شہرت جو مقبولیت دارالعلوم وقف دیوبند کو ملی ہے وہ عوام الناس کے سامنے اظہر من الشمش ہے یہ صرف اور صرف حضرت کے اخلاص کا ثمرہ تھا،
اسی طرح آپ کی وقت کی پابندی طلبہ کے درمیان بہت مشہور تھی وقت ہونے سے پہلے ہی درسگاہ کے سامنے کھڑے رہتے گھنٹہ بجتے ہی درسگاہ میں داخل ہوتے، اپنی زندگی کا خواہ کوئی بھی کام ہو ہر کام میں وقت کے بہت پابند تھے یہ پابندی ہر کسی کے بس میں نہیں،
خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ دارالعلوم وقف دیوبند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر کے ساتھ ساتھ بہت سے ادارے کے بھی سرپرست اور رکن تھے
کچھ کے نام قابل ذکر ہیں
(1) رکن مجلس انتظامیہ و شوریٰ ندوۃ العلماء،
(2) رکن مجلسِ شوریٰ مظاہر العلوم وقف،
(3) مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے رکن،
(4) سرپرست کل ہند رابطۂ مساجد،
(5) سرپرست اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا،
اپنی حیات مستعار میں بہت سے انعامات و اعزازات سے بھی نوازے گئے، جن میں کچھ قابل ذکر ہیں
(1) مصری حکومت کی طرف سے برِّصغیر کے ممتاز عالم کا نشانِ امتیاز
(2) مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ
(3) حضرت شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی ایوارڈ،
آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول سیّدنا ابو بکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے، اس خانوادہ کی ہندوستان آمد کے متعلق الامام الأکبر کے مصنف ڈاکٹر محمد اویس صدیقی نانوتوی فرماتے ہیں :
’’سب سے پہلے اس خاندان کے جس فرد نے ہندوستان کا رُخ کیا وہ قاضی مظہر الدین ہیں، جو نویں صدی ہجری کے اواخر میں سکندر لودھی کے زمانے میں اس کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے، اسی زمانہ میں نانوتہ و اطراف میں جاٹوں نے سر اٹھایا، جن کی سر کوبی کے لئے سکندر لودھی نے قاضی مظہر الدین کے فرزند قاضی میراں کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، لشکر کی کامیابی پر خوش ہو کر سکندر لودھی نے یہ علاقہ اس خاندان کے نام کر دیا، اس کے بعد سے اس خاندان نے نانوتہ میں بود و باش اختیار کی، پھر دار العلوم دیوبند کے قیام کے بعد مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے اہل خانہ دیوبند کے ہو کے رہ گئے۔ (الإمام الاکبر ص:۷۴-۷۵)
خانوادہ قاسمی اور راقم کی مناسبت
ملک عظیم کا یہ واحد خانوادہ ہے جس سے راقم کو تین نسلوں سے علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے وہ دن دور نہیں کہ آنے والی نسلوں سے کہتے ہوئے اپنےآپ پر خوشی ہوگی کہ راقم نے حضرت خطیب الاسلام کا دیدار کیا ہے اور دیدار ہی نہیں بلکہ پڑھنے کا بھی شرف حاصل ہے پڑھنے ہی کا نہیں خدمت کرنے کابھی موقع ملا ہے
بخاری شریف درس مسلسلات اور میزان الصرف خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ سے، مؤطا امام مالک جانشین خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی مہتم دارالعلوم وقف دیوبند سے،
اور سال گزشتہ محاضرہ بعنوان
اسلام اور مستشرقین حضرت مولانا ڈاکٹر محمد شکیب صاحب قاسمی ڈائریکٹر حجتہ الإسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے،
میرے ان تینوں مشفق و مربی کے درمیان سگے دادا بیٹا اور پوتا کا رشتہ ہے
حضرت خطیب الاسلام نوّراللہ مرقدہ کا وجود امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا سہارا تھا، قحط الرجال کےنامسعود دور میں وہ بھی رخصت ہوگئے،
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
شاید جنت الفردوس مزید انتظار نہیں کرسکتی تھی حضرت حجتہ الإسلام الإمام الأكبر مولانا قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کی خوشی بھی اس میں ہوگی کہ اپنے خلف رشید کو دنیا کی کلفتوں سے دور اپنے پاس جوارِ رحمت میں بلالیے،
ـــــــــعــــــــ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ جل مجدہ حضرت خطیب الاسلام نوّراللہ مرقدہ کو اعلٰی علیین میں مقام خاص عطا فرمائے پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
موت اس دھرتی پر تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے اس دنیا میں ہر ذی روح چیز کی انتہا موت ہے اللہ جل مجدہ نے موت فرشتوں پر بھی لکھ دی ہے چاہے وہ جبرئیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام ہی کیوں نہ ہوں حتی کہ ملک الموت بھی موت کے منھ میں چلے جائیں گے-
ارشاد خداوندی ہے
كل من عليها فان، ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام
اس دھرتی پر موجود ہر چیز فنا ہوجائے گی صرف تیرے پروردگار کی ذات ذوالجلال باقی رہے گی،
الرحمن26-27
موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتداء ہے موت کے ساتھ ہی دنیاوی آسائشیں ختم ہوجاتی ہیں اور میت مرنے کے بعد یا تو عظیم نعمتیں دیکھتی ہے یا پھر دردناک عذاب وہ تو اس کے اعمال پر منحصر ہے ،
مگر اس دار فانی میں کچھ انسان ایسے بھی وجود پذیر ہوتے ہیں جو متعینہ وقت گزار کر تو رخصت ہوجاتے ہیں مگر افراد زمانہ ان کو یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ اپنے افکار و نظریات، اوصاف و کمالات تواضع و انکساری علم و عمل زہد و تقویٰ اور خلوص و للہیت کی بناء پر ہمیشہ یاد آتے ہیں انہیں شخصیات میں ایک فکر نانوتوی کے سچے امین خانوادہ قاسمی کے چراغ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کے آخری شاگرد
جگر گوشہ حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ استاذ الاساتذہ استاذ گرامی قدر خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ صدر مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند و نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی تھے
خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کی ولادت 8/ جنوری 1926 کو دیوبند کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی اور وفات 14/اپریل بروز اتوار 2018 کو دیوبند ہی میں ہوئی،
تعلیم اساتذہ اور تدریسی خدمات
خطیب الاسلام مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ نے اپنی پوری پڑھائی دارالعلوم دیوبند ہی سے حاصل کی اور اپنے وقت کے ممتاز و مایہ ناز علماء و مشائخ سے استفادہ کیا جن میں سے کچھ کے نام قابلِ ذکر ہیں
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اپنے والد ماجد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ شیخ الأدب مولانا اعزاز علی امروہوی شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ،
ذاتی صلاحیت اور صالحیت کا نتیجہ تھا کہ فراغت کے بعد وہ دارالعلوم کے استاذ مقرر ہوئے آپ جملہ علوم و فنون میں بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے آپ نے علوم قاسمی کی تشریح میں اچھا کردار ادا کیا، قضیہ دارالعلوم کے بعد آپ نے دارالعلوم سے علیحدگی اختیار کرکے دارالعلوم دیوبند وقف کی سے منسلک ہوئے اور مرتے دم تک وہیں پر بخاری شریف کا درس دیتے رہے،
توکل علی اللہ اور پابندی وقت
حضرت خطیب الاسلام مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ نہایت ہی مخلص اور اللہ جل مجدہ پر انتہا سے زیادہ توکل کرنے والے انسان تھے،
قضیہ دارالعلوم کے بعد جب کہ ہر طرف مخالفتوں کا دور دورہ تھا بے سروسامانی کے عالم میں اللہ جل مجدہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے دارالعلوم وقف کی داغ بیل ڈالی جو بظاہر آسان نہ تھی اور چند ہی سالوں میں اس خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا اوراتنے کم وقت میں جو شہرت جو مقبولیت دارالعلوم وقف دیوبند کو ملی ہے وہ عوام الناس کے سامنے اظہر من الشمش ہے یہ صرف اور صرف حضرت کے اخلاص کا ثمرہ تھا،
اسی طرح آپ کی وقت کی پابندی طلبہ کے درمیان بہت مشہور تھی وقت ہونے سے پہلے ہی درسگاہ کے سامنے کھڑے رہتے گھنٹہ بجتے ہی درسگاہ میں داخل ہوتے، اپنی زندگی کا خواہ کوئی بھی کام ہو ہر کام میں وقت کے بہت پابند تھے یہ پابندی ہر کسی کے بس میں نہیں،
خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ دارالعلوم وقف دیوبند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر کے ساتھ ساتھ بہت سے ادارے کے بھی سرپرست اور رکن تھے
کچھ کے نام قابل ذکر ہیں
(1) رکن مجلس انتظامیہ و شوریٰ ندوۃ العلماء،
(2) رکن مجلسِ شوریٰ مظاہر العلوم وقف،
(3) مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے رکن،
(4) سرپرست کل ہند رابطۂ مساجد،
(5) سرپرست اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا،
اپنی حیات مستعار میں بہت سے انعامات و اعزازات سے بھی نوازے گئے، جن میں کچھ قابل ذکر ہیں
(1) مصری حکومت کی طرف سے برِّصغیر کے ممتاز عالم کا نشانِ امتیاز
(2) مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ
(3) حضرت شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی ایوارڈ،
آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول سیّدنا ابو بکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے، اس خانوادہ کی ہندوستان آمد کے متعلق الامام الأکبر کے مصنف ڈاکٹر محمد اویس صدیقی نانوتوی فرماتے ہیں :
’’سب سے پہلے اس خاندان کے جس فرد نے ہندوستان کا رُخ کیا وہ قاضی مظہر الدین ہیں، جو نویں صدی ہجری کے اواخر میں سکندر لودھی کے زمانے میں اس کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے، اسی زمانہ میں نانوتہ و اطراف میں جاٹوں نے سر اٹھایا، جن کی سر کوبی کے لئے سکندر لودھی نے قاضی مظہر الدین کے فرزند قاضی میراں کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، لشکر کی کامیابی پر خوش ہو کر سکندر لودھی نے یہ علاقہ اس خاندان کے نام کر دیا، اس کے بعد سے اس خاندان نے نانوتہ میں بود و باش اختیار کی، پھر دار العلوم دیوبند کے قیام کے بعد مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے اہل خانہ دیوبند کے ہو کے رہ گئے۔ (الإمام الاکبر ص:۷۴-۷۵)
خانوادہ قاسمی اور راقم کی مناسبت
ملک عظیم کا یہ واحد خانوادہ ہے جس سے راقم کو تین نسلوں سے علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے وہ دن دور نہیں کہ آنے والی نسلوں سے کہتے ہوئے اپنےآپ پر خوشی ہوگی کہ راقم نے حضرت خطیب الاسلام کا دیدار کیا ہے اور دیدار ہی نہیں بلکہ پڑھنے کا بھی شرف حاصل ہے پڑھنے ہی کا نہیں خدمت کرنے کابھی موقع ملا ہے
بخاری شریف درس مسلسلات اور میزان الصرف خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ سے، مؤطا امام مالک جانشین خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی مہتم دارالعلوم وقف دیوبند سے،
اور سال گزشتہ محاضرہ بعنوان
اسلام اور مستشرقین حضرت مولانا ڈاکٹر محمد شکیب صاحب قاسمی ڈائریکٹر حجتہ الإسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے،
میرے ان تینوں مشفق و مربی کے درمیان سگے دادا بیٹا اور پوتا کا رشتہ ہے
حضرت خطیب الاسلام نوّراللہ مرقدہ کا وجود امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا سہارا تھا، قحط الرجال کےنامسعود دور میں وہ بھی رخصت ہوگئے،
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
شاید جنت الفردوس مزید انتظار نہیں کرسکتی تھی حضرت حجتہ الإسلام الإمام الأكبر مولانا قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کی خوشی بھی اس میں ہوگی کہ اپنے خلف رشید کو دنیا کی کلفتوں سے دور اپنے پاس جوارِ رحمت میں بلالیے،
ـــــــــعــــــــ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ جل مجدہ حضرت خطیب الاسلام نوّراللہ مرقدہ کو اعلٰی علیین میں مقام خاص عطا فرمائے پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین