سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 8/اپریل 2018) مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ میں کل بتاریخ 19رجب 1439ھ مطابق 7اپریل2018ء بروزشنبہ بوقت صبح 10بجے ختم بخاری شریف کی دعائیہ تقریب زیراہتمام حضرت اقدس مولانا شاہ مفتی محمد احمد اللہ صاحب پھولپوری دامت برکاتہم العالیہ ناظم اعلیٰ وشیخ الحدیث منعقد ہوئی، آغاز مجلس میں کل 21طلبہ نے بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھ کر تکمیل کیا،
بعدہ حضرت ناظم اعلیٰ کی خطاب کرتے وقت والد محترم حضرت اقدس مولانا شاہ مفتی محمد عبداللہ صاحب پھولپوری نوراللہ مرقدہ کی یاد میں آنکھیں نم ہوگئیں، اور زبان پر سکتہ طاری ہوگیا، کچھ وقفہ کے بعد فرمایا کہ بخاری شریف کا آغاز حضرت نوراللہ مرقدہ نے کیا تھا، حضرت ہمارے درمیان 57سال رہے، اچانک سفر عمرہ میں مکہ جیسی بابرکت سرزمین پر مولائے حقیقی سے جاملے، اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے بھر دے،اس مسند پر بیٹھنے کے بعد حضرت کی برابر یاد آتی رہی لیکن صبر اور ضبط سے کام لیتا رہا، لیکن آج تکمیل کے موقع پر حضرت کی تمام یادیں تازیں ہوگئیں، چونکہ حضرت نوراللہ مرقدہ بخاری شریف کی تکمیل کراتے تھے، اللہ کے نظام میں کسی کا کوئی اختیار نہیں، دنیا سے سب کو جانا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام کافی غمزدہ تھے،لیکن قضائے الٰہی اور تقدیر خداوندی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا، ہم نے بھی حضرت نوراللہ مرقدہ کی قربانیاں اور مشن کو دیکھ کر صبر وتحمل کے ساتھ مشن کا حصہ بننا پڑا، حضرت نوراللہ مرقدہ کا اللہ کی معرفت اور رسول صلی االلہ علیہ وسلم سے سچا عشق پیدا کرنا اصلی مشن تھا، طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ زندگی میں شریعت وسنت سے کبھی سودا نہ کرنا، زندگی میں عمل کی راہ طے کرنے کے لئے اپنا ایک ائیڈیل بنانا پڑے گا،بغیر آئیڈیل کے ہمارا قدم پھسل سکتا ہے، کونو مع الصٰدقین رب کے فرمان پر عمل پیرا ہونا پڑے گا، ابھی سے ہم اپنے مستقبل کو طے کرلیں،کہ اپنی زندگی کو کس مقصد پر لگانا ہے،اگر کوئی دل میں دنیاوی میلان رکھتا ہو تو سوچ لےکہ یہ بانئ مدرسہ اور حضرت نوراللہ مرقدہ کے مشن کے خلاف ہے، آپ حضرات کو اللہ نے علم دین کے لئے منتخب کیا ہے، اس نعمت عظمیٰ پر اللہ کا شکر ادا کریں، علوم دینیہ کا صحیح استعمال کریں، اپنے دل میں یہ پیوست کرلیں کہ اللہ کی معرفت کیسےحاصل ہوگی،اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو بازاروں اور چوراہوں کے حوالے نہ کرنا، اللہ کے انعامات پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نافرمانیوں کے باوجود بھی ہم پر بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کی بارش برساتا ہے، ہم کو اپنے اعمال وافعال کے محاسبہ کی ضرورت ہے، مالک سے تعلق مضبوط کرنے کی حاجت ہے، ہم دنیا میں ماں کی محبت پر غور کریں، تو سراپا محبت ہی محبت نظر آتی ہے جبکہ ماں کو محبت کی بھیک دینے والا تورب ہے، بانئی مدرسہ تو اپنی پوری زندگی رب کے حوالے کر دیئے، صرف رب کی نوکری کو پسند کیا، مالک کا نام لینے میں اس کی حلاوت اور چاشنی کا ادراک بھی کرتے تھے، اور رب کی تمام انعامات سامنے نظرآتی رہیں،اس لئے ہم کو بھی کامیابی کے لئے بزرگوں کی روش اختیار کرنی پڑے گی.
نیز بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے،اعمال کو کیسے تولا جائے گا، اللہ تعالی سبب کا محتاج نہیں، دنیا میں بھی اللہ نے نظیر پیش کردی، جس طریقے سے بخار اور ٹمپریچر ناپا وتولاجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اگرچہ ہمارے ذہن کی سوچ سے باہر ہو، ہمارے اعضاء جاسوس ہیں،قیامت کے دن ہمارے خلاف گواہی دیں گے،اس وقت انسان تعجب کرے گا، ترازو کے وزن کو بڑھانے کے لئے دو الفاظ ایسے ہیں جو اداکرنے میں ہلکے اور آسان ہیں لیکن وزن میں بھاری ہیں وہ ہیں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم.
پھر آخری نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف کتابوں کا علم کافی نہیں، بلکہ علم پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اللہ کی مقبولیت کے لیے مقبول بندوں کے پاس رہنا بھی پڑے گا، جب درد دل سے بات نکلتی ہے تو وہ درد دوسروں کے دل میں بھی پیدا کرتی ہے، اس کے بعد دورہ حدیث کے تمام طلبہ کو دستار فضیلت سے سرفراز کیا گیا، جس میں سفیان حیدر، محمد عادل، عبدالرحمن، عبدالماجد، محمد فاتح، آفتاب عالم، عبدالکریم، محمد صہیب، محمدثاقب، سعیدالرحمن، عبدالاول، محمد عمران، نوراللہ، محمد اسعد، محمد یوسف، فریدالدین، عبدالرحمن، ابوبکر، کوثر محمود، افتخار احمد، محمد داؤد، وغیرہ شامل تھے.
دستارفضیلت میں حضرت ناظم اعلیٰ صاحب کے علاوہ حضرت نائب ناظم مفتی محمد اجوداللہ صاحب پھولپوری، ناظم تنظیم وترقی مولانا محمد الیاس صاحب قاسمی،ناظم تعلیمات مولانا نسیم احمد صاحب معروفی، استاذحدیث مولانا محبوب عالم قاسمی، حاجی افتخار احمد صاحب کے علاوہ طلبہ کے سرپرست حضرات کثیر تعداد میں شریک رہے.
بعدہ حضرت ناظم اعلیٰ کی خطاب کرتے وقت والد محترم حضرت اقدس مولانا شاہ مفتی محمد عبداللہ صاحب پھولپوری نوراللہ مرقدہ کی یاد میں آنکھیں نم ہوگئیں، اور زبان پر سکتہ طاری ہوگیا، کچھ وقفہ کے بعد فرمایا کہ بخاری شریف کا آغاز حضرت نوراللہ مرقدہ نے کیا تھا، حضرت ہمارے درمیان 57سال رہے، اچانک سفر عمرہ میں مکہ جیسی بابرکت سرزمین پر مولائے حقیقی سے جاملے، اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے بھر دے،اس مسند پر بیٹھنے کے بعد حضرت کی برابر یاد آتی رہی لیکن صبر اور ضبط سے کام لیتا رہا، لیکن آج تکمیل کے موقع پر حضرت کی تمام یادیں تازیں ہوگئیں، چونکہ حضرت نوراللہ مرقدہ بخاری شریف کی تکمیل کراتے تھے، اللہ کے نظام میں کسی کا کوئی اختیار نہیں، دنیا سے سب کو جانا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام کافی غمزدہ تھے،لیکن قضائے الٰہی اور تقدیر خداوندی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا، ہم نے بھی حضرت نوراللہ مرقدہ کی قربانیاں اور مشن کو دیکھ کر صبر وتحمل کے ساتھ مشن کا حصہ بننا پڑا، حضرت نوراللہ مرقدہ کا اللہ کی معرفت اور رسول صلی االلہ علیہ وسلم سے سچا عشق پیدا کرنا اصلی مشن تھا، طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ زندگی میں شریعت وسنت سے کبھی سودا نہ کرنا، زندگی میں عمل کی راہ طے کرنے کے لئے اپنا ایک ائیڈیل بنانا پڑے گا،بغیر آئیڈیل کے ہمارا قدم پھسل سکتا ہے، کونو مع الصٰدقین رب کے فرمان پر عمل پیرا ہونا پڑے گا، ابھی سے ہم اپنے مستقبل کو طے کرلیں،کہ اپنی زندگی کو کس مقصد پر لگانا ہے،اگر کوئی دل میں دنیاوی میلان رکھتا ہو تو سوچ لےکہ یہ بانئ مدرسہ اور حضرت نوراللہ مرقدہ کے مشن کے خلاف ہے، آپ حضرات کو اللہ نے علم دین کے لئے منتخب کیا ہے، اس نعمت عظمیٰ پر اللہ کا شکر ادا کریں، علوم دینیہ کا صحیح استعمال کریں، اپنے دل میں یہ پیوست کرلیں کہ اللہ کی معرفت کیسےحاصل ہوگی،اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو بازاروں اور چوراہوں کے حوالے نہ کرنا، اللہ کے انعامات پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نافرمانیوں کے باوجود بھی ہم پر بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کی بارش برساتا ہے، ہم کو اپنے اعمال وافعال کے محاسبہ کی ضرورت ہے، مالک سے تعلق مضبوط کرنے کی حاجت ہے، ہم دنیا میں ماں کی محبت پر غور کریں، تو سراپا محبت ہی محبت نظر آتی ہے جبکہ ماں کو محبت کی بھیک دینے والا تورب ہے، بانئی مدرسہ تو اپنی پوری زندگی رب کے حوالے کر دیئے، صرف رب کی نوکری کو پسند کیا، مالک کا نام لینے میں اس کی حلاوت اور چاشنی کا ادراک بھی کرتے تھے، اور رب کی تمام انعامات سامنے نظرآتی رہیں،اس لئے ہم کو بھی کامیابی کے لئے بزرگوں کی روش اختیار کرنی پڑے گی.
نیز بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے،اعمال کو کیسے تولا جائے گا، اللہ تعالی سبب کا محتاج نہیں، دنیا میں بھی اللہ نے نظیر پیش کردی، جس طریقے سے بخار اور ٹمپریچر ناپا وتولاجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اگرچہ ہمارے ذہن کی سوچ سے باہر ہو، ہمارے اعضاء جاسوس ہیں،قیامت کے دن ہمارے خلاف گواہی دیں گے،اس وقت انسان تعجب کرے گا، ترازو کے وزن کو بڑھانے کے لئے دو الفاظ ایسے ہیں جو اداکرنے میں ہلکے اور آسان ہیں لیکن وزن میں بھاری ہیں وہ ہیں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم.
پھر آخری نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف کتابوں کا علم کافی نہیں، بلکہ علم پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اللہ کی مقبولیت کے لیے مقبول بندوں کے پاس رہنا بھی پڑے گا، جب درد دل سے بات نکلتی ہے تو وہ درد دوسروں کے دل میں بھی پیدا کرتی ہے، اس کے بعد دورہ حدیث کے تمام طلبہ کو دستار فضیلت سے سرفراز کیا گیا، جس میں سفیان حیدر، محمد عادل، عبدالرحمن، عبدالماجد، محمد فاتح، آفتاب عالم، عبدالکریم، محمد صہیب، محمدثاقب، سعیدالرحمن، عبدالاول، محمد عمران، نوراللہ، محمد اسعد، محمد یوسف، فریدالدین، عبدالرحمن، ابوبکر، کوثر محمود، افتخار احمد، محمد داؤد، وغیرہ شامل تھے.
دستارفضیلت میں حضرت ناظم اعلیٰ صاحب کے علاوہ حضرت نائب ناظم مفتی محمد اجوداللہ صاحب پھولپوری، ناظم تنظیم وترقی مولانا محمد الیاس صاحب قاسمی،ناظم تعلیمات مولانا نسیم احمد صاحب معروفی، استاذحدیث مولانا محبوب عالم قاسمی، حاجی افتخار احمد صاحب کے علاوہ طلبہ کے سرپرست حضرات کثیر تعداد میں شریک رہے.