ازقلم: ڈاکٹر محمد عمار خان قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مادر وطن جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا گنگا جمنی تھذیب جسکی شناخت ہو ا کرتی تھی جہاں انیک میں ایکتا کی قسمیں کھائی جاتی تھی گزشتہ چند برسوں سے نہ جانے کس بد بخت کی نظر مادر وطن پر پڑی ہر ہر چوراہے پر گنگا جمنی تھذیب کی چتائیں جلنے لگییں، گلیوں میں امن کا جنازہ کاندھوں پر چلنے لگا ہندو مسلم بھائی چارگی پرشرکش تیر چلانے لگے، مذھبی منافرت پھیلانا قابل فخر سمجھا جانے لگا کبھی وادی کرناٹک سے ایک سرپھرھ اٹھتا ہے
اور اسلام کو دھشت گردی سے تعبیر کرتا ہے کبھی یوپی کےفتح پور سیکری سے ایک سیاسی لیڈر خون کا بدلہ خون کی قسمیں کھاتا ہے کبھی ملک عزیز کے گئو رکشک اٹھتے ہیں نہتے ،مجبور اخلاق، پہلو خان کی زندگیوں کا خاتمہ کردیتے ہیں کبھی انسانیت کے ترجمان حافظ جنید کو ٹرین میں سیکڑوں لوگوں کے سامنے شہید کردیا جاتا ہے کبھی مسجد کو مندر میں تبدیل کردیا جاتا ہے کبھی معتکف کو مسجد میں شہید کردیا جاتا ہے کبھی ترنگا یاترا کے نام پر اشتعال انگیز نعرہ لگاکر مسلمان بستیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کبھی رام نومی کے بہانے بہار میں تشدد کا نگا ناچ رچا جاتا ہے کبھی مغربی بنگال کے کانکی ناڑہ اور رانی گنج میں درنوں دکانوں کو نذر آتش کردیا جاتا ہے مانا کہ مفسدوں کے لئے ہم ہمیشہ سافٹ ٹارگیٹ رہے ہیں ہاشم پورہ میرٹھ ملیانہ بھاگلپور کی داستان ہم نے اپنے بزرگوں سے سنی تھی لیکن ہماری نظروں کے سامنے گجرات 2002 کے فساد ہوئے جہاں پر مسلمانوں کی بستیاں در بستیاں اجاڑ دئی گئی حاملہ عورتوں کے شکم کو چاک کر کے انکے بچوں کو نیزوں پر لہرا گیا مسلم سیاسی قائد کو انکے ہی ہر گھر میں درجنوں افراد کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا ہے اور خاموش تباہی کا خوردبینی مطالعہ کرتے رہے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا ہماری بے بسی اور سیاسی لاچاری کو دیکھتے ہوئے دشمن عنا صر نے پہر ایک با ر ہمیں مظفر نگر کا تحفہ دیا اس تحفہ کو ابھی ہم پوری طور سے قبول کرتے کہ فساد کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑا آسنول کے اما م کے معصوم بچے کو ہمیشگی کی نید سلا دئی گئی یہ جابرانہ و ظالمانہ اس مھذب دور میں میں تسلیم کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر حقیقت سے روگردانی نہیں کی جاسکتی دنگوں اور فسادوں میں جو ایک عام مماثلت ہوتی ہے وہ ہے نقصان چاہے جانی ہو یا مالی اس میں مسلمانوں کا تناسب اول ہی رہتا ہے چاہے ملک کے جس حصے میں بھی فساد ہو پستا بیچارہ مسلمان ہی - ان واقعات کے تناظر میں ذہن میی یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ جہا ں بھی فساد ہوتا ہے آخر مسلمان ہی کیو ں زد میں آتے ہیں صرف مسلمانوں کی بستیاں ہی کیو اجاڑ جاتی ہیں ؟
ملک عزیز کی تھذیبی روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ نہ عام ہندو لڑنا چاہتا اور نہ عام مسلمان لڑنا چاہتا ہے یہ تو سیاست دانوں کا کھیل جب چاہا جسے چاہا ہندو مسلمان میں بانٹ دیا جب چاہا دلت اور برہمن میں تقسیم کرڈالا سیاست داں وقتاً فوقتاً اپنی بازیگری کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ہم اور آپ اس بازیگری کا شکار ہوتے رہتے ہیں سیاست داں لاشوں کی تجارت کر کے اپنی کرسیوں کو مزید مستحکم کرلیتے ہیں ان واقعات سے ابھی ہم کچھ سبق حاصل کرتے کس راسٹیہ سمیلن کی تیاری کرتے یا کسی دفاعی حربہ کو استعمال کرتے اتنے میں جموں کی معصومہ کی چینکھ سنائی پڑتی جسکی عزت کو مسلسل تار تار کرنے کے بعد اسے شہید کردیا جا تا ہے ابہی ہمارے آنکھوں سے آنسو خشک بہی نہیں ہوئے تھے کی اچانک سر زمین اتر پردیش پر طوفان جناح برپا ہو گیا برسوں سے خاموشی کے ساتھ مسلمانوں کی تعلیمی سماجی حالات سدھارنے والی ملک کی مایہ ناز تعلیمی ادارہ جسکی تعلمی روشنی سے سارا عالم مستفید ہورہا ہے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی پر ہندو مہا سبہا اور بی جے پی کے گوتم جی کی نظر پڑتی کچہ دنوں قبل ایم پی صاحب علیگڑھ تشریف لے جاتے ہیں اور انہیں وہاں پر سکون تعلیمی ماحول راس نہیں آیا اچانک انکے ذہن میں تصویر جناح گردش کر نے لگا بس گھر پہونچتے ہی وی سی اے ایم یو سے بذریعہ خط تصویر جناح سے متعلق استفسار کیا جو ایک منظم سازش کے تحت ہوا ورنہ ایم صاحب تو اپنی حکومت یہ سوال کرسکتے تھے اور تصویر ہٹانا تو حکومت کے بائیں ہاتھ کا کھیل بس ایک آرڈر جاری کرنا تھا در اصل انھیں تصویر رہے یا نہ رہے اس سے انھیں کو ئی فرق نہیں پڑتا کیو نکہ تصویر تو ہندوستان کئی دفاتر میں حناح کی تصویر آویزاں ہے کیا انھیں اس بات کا علم نہیں تھا خوب علم تھا بس وہ مسلمانوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں ہم جس کو سچ کہیں وہی سچ ہم جسے دیش بھگتی کا سارٹیفکٹ دینگے وہی اصلی دیش بھگت ہو گا ہم جس تاریخ کو پڑہاینگے وہی اصلی تاریخ ہے افسوس ہمارے چند احباب انکی ہاں میں ہاں بہی ملانے لگے اور تصویر ہٹانے کی اپیل بھی جاری کردی آر ایس ایس اور اسکی جملہ تنظیم کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ بلکہ مسلمانوں کی شہ رگ ہے اور اس شہ رگ پر اگر حملہ۔کیا جائے تو مسلمانوں کو مزید تنزلی میں ڈکھیلا جا سکتا ہے کیو نکہ آج اگر مسلما ن سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان سبقت حاصل کرنے کی جستجو کر رہا ہے تو بلا شبہ اسمیں amu کا نمایا ں کردار ہے صوبہ یو پی ہمیشہ فرقہ پرست عناصر کے نشانے پر رہا ہے اور رہی سہی کسر بی جے پی نے پوری کردی یوپی ہندوستان کی سب سے کثیر آبادی والا صوبہ ہے جہاں کی نگہبانی کا ذمہ ایک ایسے شخص پر ہے حسکو دنیا کا کوئی بھی غیر جانبدار شخص ذھنی اعتبار سے ایک متوازن شخص قرار نہیں دے سکتا گزشتہ ہفتہ یو پی کا سب سے حساس علاقہ جسکی قربانیاں سارے عالم پر عیاں ہے جہا ں پر ایک نہیں سیکڑوں انسانیت ساز فیکٹریاں ہیں جہاں انسان کو انسانیت کادرس دیا جا تا جسکے بطن سے ہزاروں لعل و گہر پیدا ہوئے جنھوں نے نہ صرف اعظم گڑہ بلکہ سارے عالم میں ہندوستان کی نمائندگی کی مگر افسوس اس پر امن مہذب سر زمیں سر زمین سرائمیر کو بھی فساد میں ڈھکیلنے کی منظم سازش رچی گئی فساد پرپا کرنے کے لئے ہمارے نبی ؑ کی شان اقدس میں گستاخانہ پوسٹ شوسل میڈیا پر ڈالی گئی اور آناً فاناً میں اسکی اشاعت بھی ہونے لگی جسکی شکایت لیکر مقامی حضرات پر امن طریقہ سے متعلقہ تھانہ میں پہونچتے جہاں متعصب ذہنیت کا آفیسر انکے ساتھ بد کلامی کرتے ہو ئے fir تحریر کرنے میں تاخیر کرتا ہے جسکے نتیجہ میں عاشقان رسول تھانے پر جمع ہوتے ہیں fir تو درج ہو جاتی مگر پوری قیمت اصول کر درجنوں نوجوانوں پر لا ٹھیاں چلاکر درجنوں لوگوں پر جھوٹے فرضی مقدمات کے تحت جیل کی سلاخوں میں ڈالکر ایک عدد fir نصیب ہوئی جیل میں بند نوجوانوں کے اقرباء انصاف کے لئے در در کی ٹھوکر کھارہے ہیں مگر کہیں دور تک انصاف کی روشنی فی الحال نظر نہیں آرہی ہے ان مظلموں کے سروں پر کوئی شفقتانہ ہاتھ بہی نظر نہیں آرہا
مگر ہائے رے ہماری سیاسی لاچاری کہ ہم پر کوئی گھاس بھی ڈالنے کو تیار نہیں
وہ لوگ جو انسانی حقوق جمھوریت اور تکریم انسانیت بڑے دعوے دار تھے وہ لوگ کہا کھو گئے؟
کیا ملک کی سیکولر پارٹیاں مسلم۔پرست ہونے کے الزام۔کے خوف سے انصاف پسند اور حقیقت پسند لو گ لکھا پڑھنا بولنا بند کردینگے ؟سیکولرزم کا معنی سمجھنے میں شاید ابھی ہمیں اور 70سال لگے جب مسلمانو ں کا کوئی مسئلہ آتا۔ہے تو سیکولرزم پر خطرہ کے بادل منڈرانےلگتے ہیں چنانچہ سیکولر پارٹی کے کانگریسی لیڈر کپل سبل بابری مسجد کیس سے علیحدہ ہوجاتے ہیں تاکہ انکی پارٹی پر کسی طرح آنچ نہ آسکے رہا مسئلہ یو پی کی 2پارٹی سپا اور بسپا جنہیں ہماری سیاسی اوقات کا بخوبی علم ہے انہیں یہ معلوم ہے کہ "اگر دلت اور یادو مل جائگا تو مسلمان کہا جائگا" اسلئے کہ دونوں پارٹیوں کی نظر میں ہماری حیثیت ایک بندھوا مزدور کے سوا اور کچھ نہیں الیکشن کے وقت ایک لالی پاپ دینگے اور پانچ سال بے خوف خطر اپنی حکومتیں چلائیں گے.
مگر جب ہم اپنے مسلم سیاسی قائدین کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو سوائے مایوسی اور کچھ ھا تھ نہیں آتا تا حد نظر مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے ذھن میں سوال آتا ہے کیا ہمارے مسلم قائدین اس وقت بھی خاموش رہتے جب کوئی انکے سیاسی آقاوں پر مثلاً عزت ماب راہل گاندھی ،اکھلیش مایاوتی کیجریوال ممتا بنرجی نتیش کمار تیجسوی یا ان جیسے درجنوں سیاسی آقاء پر کوئی نازیبا کلمات یا انکی شان اقدس میں گستاخی کرتا یا انکے اداروں پر حملہ ہو تا تو کیا یہ خاموش رہتے ؟یقیناً اسکا جوان نفی میں ہی آتا.
کیا ہمارے سیاسی قائدین کی جواب دہی صرف انکے سیاسی آقاو تک ہی محدود ہے ؟ کیا انکی وفاداری صرف پارٹی تک ہی ہے ؟کیا مذھبی /قومی حفاظت کی ذمہ داری انکے اوپر نہیں ؟ کیا یہ اپنی زبانیں صرف اس وقت کھولینگے جب انھیں پارٹی مکھیالیہ سے ہری جھنڈی ملگی تب ؟
معزز قائرین حیسی روح ویسے فرشتہ جیسی کرنی ویسی بھرنی یہ وہ حقیقت ہے جسکا انکار نہیں کیا جاسکتا ہمارے اعمال ہمارے لیڈران ہیں
سیاسی قائدین ڈریں اس وقت سے کہیں انکی خاموشی کے طفیل میں کوئی حقیقی عوامی لیڈر نہ پیدا ہوجائے.
میر ے مالک میرے خالق میری قوم میں حس پیدا کردے اور غیرت مند لیڈر پیدا فرما آمین ثم آمیـــن
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مادر وطن جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا گنگا جمنی تھذیب جسکی شناخت ہو ا کرتی تھی جہاں انیک میں ایکتا کی قسمیں کھائی جاتی تھی گزشتہ چند برسوں سے نہ جانے کس بد بخت کی نظر مادر وطن پر پڑی ہر ہر چوراہے پر گنگا جمنی تھذیب کی چتائیں جلنے لگییں، گلیوں میں امن کا جنازہ کاندھوں پر چلنے لگا ہندو مسلم بھائی چارگی پرشرکش تیر چلانے لگے، مذھبی منافرت پھیلانا قابل فخر سمجھا جانے لگا کبھی وادی کرناٹک سے ایک سرپھرھ اٹھتا ہے
اور اسلام کو دھشت گردی سے تعبیر کرتا ہے کبھی یوپی کےفتح پور سیکری سے ایک سیاسی لیڈر خون کا بدلہ خون کی قسمیں کھاتا ہے کبھی ملک عزیز کے گئو رکشک اٹھتے ہیں نہتے ،مجبور اخلاق، پہلو خان کی زندگیوں کا خاتمہ کردیتے ہیں کبھی انسانیت کے ترجمان حافظ جنید کو ٹرین میں سیکڑوں لوگوں کے سامنے شہید کردیا جاتا ہے کبھی مسجد کو مندر میں تبدیل کردیا جاتا ہے کبھی معتکف کو مسجد میں شہید کردیا جاتا ہے کبھی ترنگا یاترا کے نام پر اشتعال انگیز نعرہ لگاکر مسلمان بستیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کبھی رام نومی کے بہانے بہار میں تشدد کا نگا ناچ رچا جاتا ہے کبھی مغربی بنگال کے کانکی ناڑہ اور رانی گنج میں درنوں دکانوں کو نذر آتش کردیا جاتا ہے مانا کہ مفسدوں کے لئے ہم ہمیشہ سافٹ ٹارگیٹ رہے ہیں ہاشم پورہ میرٹھ ملیانہ بھاگلپور کی داستان ہم نے اپنے بزرگوں سے سنی تھی لیکن ہماری نظروں کے سامنے گجرات 2002 کے فساد ہوئے جہاں پر مسلمانوں کی بستیاں در بستیاں اجاڑ دئی گئی حاملہ عورتوں کے شکم کو چاک کر کے انکے بچوں کو نیزوں پر لہرا گیا مسلم سیاسی قائد کو انکے ہی ہر گھر میں درجنوں افراد کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا ہے اور خاموش تباہی کا خوردبینی مطالعہ کرتے رہے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا ہماری بے بسی اور سیاسی لاچاری کو دیکھتے ہوئے دشمن عنا صر نے پہر ایک با ر ہمیں مظفر نگر کا تحفہ دیا اس تحفہ کو ابھی ہم پوری طور سے قبول کرتے کہ فساد کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑا آسنول کے اما م کے معصوم بچے کو ہمیشگی کی نید سلا دئی گئی یہ جابرانہ و ظالمانہ اس مھذب دور میں میں تسلیم کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر حقیقت سے روگردانی نہیں کی جاسکتی دنگوں اور فسادوں میں جو ایک عام مماثلت ہوتی ہے وہ ہے نقصان چاہے جانی ہو یا مالی اس میں مسلمانوں کا تناسب اول ہی رہتا ہے چاہے ملک کے جس حصے میں بھی فساد ہو پستا بیچارہ مسلمان ہی - ان واقعات کے تناظر میں ذہن میی یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ جہا ں بھی فساد ہوتا ہے آخر مسلمان ہی کیو ں زد میں آتے ہیں صرف مسلمانوں کی بستیاں ہی کیو اجاڑ جاتی ہیں ؟
ملک عزیز کی تھذیبی روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ نہ عام ہندو لڑنا چاہتا اور نہ عام مسلمان لڑنا چاہتا ہے یہ تو سیاست دانوں کا کھیل جب چاہا جسے چاہا ہندو مسلمان میں بانٹ دیا جب چاہا دلت اور برہمن میں تقسیم کرڈالا سیاست داں وقتاً فوقتاً اپنی بازیگری کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ہم اور آپ اس بازیگری کا شکار ہوتے رہتے ہیں سیاست داں لاشوں کی تجارت کر کے اپنی کرسیوں کو مزید مستحکم کرلیتے ہیں ان واقعات سے ابھی ہم کچھ سبق حاصل کرتے کس راسٹیہ سمیلن کی تیاری کرتے یا کسی دفاعی حربہ کو استعمال کرتے اتنے میں جموں کی معصومہ کی چینکھ سنائی پڑتی جسکی عزت کو مسلسل تار تار کرنے کے بعد اسے شہید کردیا جا تا ہے ابہی ہمارے آنکھوں سے آنسو خشک بہی نہیں ہوئے تھے کی اچانک سر زمین اتر پردیش پر طوفان جناح برپا ہو گیا برسوں سے خاموشی کے ساتھ مسلمانوں کی تعلیمی سماجی حالات سدھارنے والی ملک کی مایہ ناز تعلیمی ادارہ جسکی تعلمی روشنی سے سارا عالم مستفید ہورہا ہے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی پر ہندو مہا سبہا اور بی جے پی کے گوتم جی کی نظر پڑتی کچہ دنوں قبل ایم پی صاحب علیگڑھ تشریف لے جاتے ہیں اور انہیں وہاں پر سکون تعلیمی ماحول راس نہیں آیا اچانک انکے ذہن میں تصویر جناح گردش کر نے لگا بس گھر پہونچتے ہی وی سی اے ایم یو سے بذریعہ خط تصویر جناح سے متعلق استفسار کیا جو ایک منظم سازش کے تحت ہوا ورنہ ایم صاحب تو اپنی حکومت یہ سوال کرسکتے تھے اور تصویر ہٹانا تو حکومت کے بائیں ہاتھ کا کھیل بس ایک آرڈر جاری کرنا تھا در اصل انھیں تصویر رہے یا نہ رہے اس سے انھیں کو ئی فرق نہیں پڑتا کیو نکہ تصویر تو ہندوستان کئی دفاتر میں حناح کی تصویر آویزاں ہے کیا انھیں اس بات کا علم نہیں تھا خوب علم تھا بس وہ مسلمانوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں ہم جس کو سچ کہیں وہی سچ ہم جسے دیش بھگتی کا سارٹیفکٹ دینگے وہی اصلی دیش بھگت ہو گا ہم جس تاریخ کو پڑہاینگے وہی اصلی تاریخ ہے افسوس ہمارے چند احباب انکی ہاں میں ہاں بہی ملانے لگے اور تصویر ہٹانے کی اپیل بھی جاری کردی آر ایس ایس اور اسکی جملہ تنظیم کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ بلکہ مسلمانوں کی شہ رگ ہے اور اس شہ رگ پر اگر حملہ۔کیا جائے تو مسلمانوں کو مزید تنزلی میں ڈکھیلا جا سکتا ہے کیو نکہ آج اگر مسلما ن سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان سبقت حاصل کرنے کی جستجو کر رہا ہے تو بلا شبہ اسمیں amu کا نمایا ں کردار ہے صوبہ یو پی ہمیشہ فرقہ پرست عناصر کے نشانے پر رہا ہے اور رہی سہی کسر بی جے پی نے پوری کردی یوپی ہندوستان کی سب سے کثیر آبادی والا صوبہ ہے جہاں کی نگہبانی کا ذمہ ایک ایسے شخص پر ہے حسکو دنیا کا کوئی بھی غیر جانبدار شخص ذھنی اعتبار سے ایک متوازن شخص قرار نہیں دے سکتا گزشتہ ہفتہ یو پی کا سب سے حساس علاقہ جسکی قربانیاں سارے عالم پر عیاں ہے جہا ں پر ایک نہیں سیکڑوں انسانیت ساز فیکٹریاں ہیں جہاں انسان کو انسانیت کادرس دیا جا تا جسکے بطن سے ہزاروں لعل و گہر پیدا ہوئے جنھوں نے نہ صرف اعظم گڑہ بلکہ سارے عالم میں ہندوستان کی نمائندگی کی مگر افسوس اس پر امن مہذب سر زمیں سر زمین سرائمیر کو بھی فساد میں ڈھکیلنے کی منظم سازش رچی گئی فساد پرپا کرنے کے لئے ہمارے نبی ؑ کی شان اقدس میں گستاخانہ پوسٹ شوسل میڈیا پر ڈالی گئی اور آناً فاناً میں اسکی اشاعت بھی ہونے لگی جسکی شکایت لیکر مقامی حضرات پر امن طریقہ سے متعلقہ تھانہ میں پہونچتے جہاں متعصب ذہنیت کا آفیسر انکے ساتھ بد کلامی کرتے ہو ئے fir تحریر کرنے میں تاخیر کرتا ہے جسکے نتیجہ میں عاشقان رسول تھانے پر جمع ہوتے ہیں fir تو درج ہو جاتی مگر پوری قیمت اصول کر درجنوں نوجوانوں پر لا ٹھیاں چلاکر درجنوں لوگوں پر جھوٹے فرضی مقدمات کے تحت جیل کی سلاخوں میں ڈالکر ایک عدد fir نصیب ہوئی جیل میں بند نوجوانوں کے اقرباء انصاف کے لئے در در کی ٹھوکر کھارہے ہیں مگر کہیں دور تک انصاف کی روشنی فی الحال نظر نہیں آرہی ہے ان مظلموں کے سروں پر کوئی شفقتانہ ہاتھ بہی نظر نہیں آرہا
مگر ہائے رے ہماری سیاسی لاچاری کہ ہم پر کوئی گھاس بھی ڈالنے کو تیار نہیں
وہ لوگ جو انسانی حقوق جمھوریت اور تکریم انسانیت بڑے دعوے دار تھے وہ لوگ کہا کھو گئے؟
کیا ملک کی سیکولر پارٹیاں مسلم۔پرست ہونے کے الزام۔کے خوف سے انصاف پسند اور حقیقت پسند لو گ لکھا پڑھنا بولنا بند کردینگے ؟سیکولرزم کا معنی سمجھنے میں شاید ابھی ہمیں اور 70سال لگے جب مسلمانو ں کا کوئی مسئلہ آتا۔ہے تو سیکولرزم پر خطرہ کے بادل منڈرانےلگتے ہیں چنانچہ سیکولر پارٹی کے کانگریسی لیڈر کپل سبل بابری مسجد کیس سے علیحدہ ہوجاتے ہیں تاکہ انکی پارٹی پر کسی طرح آنچ نہ آسکے رہا مسئلہ یو پی کی 2پارٹی سپا اور بسپا جنہیں ہماری سیاسی اوقات کا بخوبی علم ہے انہیں یہ معلوم ہے کہ "اگر دلت اور یادو مل جائگا تو مسلمان کہا جائگا" اسلئے کہ دونوں پارٹیوں کی نظر میں ہماری حیثیت ایک بندھوا مزدور کے سوا اور کچھ نہیں الیکشن کے وقت ایک لالی پاپ دینگے اور پانچ سال بے خوف خطر اپنی حکومتیں چلائیں گے.
مگر جب ہم اپنے مسلم سیاسی قائدین کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو سوائے مایوسی اور کچھ ھا تھ نہیں آتا تا حد نظر مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے ذھن میں سوال آتا ہے کیا ہمارے مسلم قائدین اس وقت بھی خاموش رہتے جب کوئی انکے سیاسی آقاوں پر مثلاً عزت ماب راہل گاندھی ،اکھلیش مایاوتی کیجریوال ممتا بنرجی نتیش کمار تیجسوی یا ان جیسے درجنوں سیاسی آقاء پر کوئی نازیبا کلمات یا انکی شان اقدس میں گستاخی کرتا یا انکے اداروں پر حملہ ہو تا تو کیا یہ خاموش رہتے ؟یقیناً اسکا جوان نفی میں ہی آتا.
کیا ہمارے سیاسی قائدین کی جواب دہی صرف انکے سیاسی آقاو تک ہی محدود ہے ؟ کیا انکی وفاداری صرف پارٹی تک ہی ہے ؟کیا مذھبی /قومی حفاظت کی ذمہ داری انکے اوپر نہیں ؟ کیا یہ اپنی زبانیں صرف اس وقت کھولینگے جب انھیں پارٹی مکھیالیہ سے ہری جھنڈی ملگی تب ؟
معزز قائرین حیسی روح ویسے فرشتہ جیسی کرنی ویسی بھرنی یہ وہ حقیقت ہے جسکا انکار نہیں کیا جاسکتا ہمارے اعمال ہمارے لیڈران ہیں
سیاسی قائدین ڈریں اس وقت سے کہیں انکی خاموشی کے طفیل میں کوئی حقیقی عوامی لیڈر نہ پیدا ہوجائے.
میر ے مالک میرے خالق میری قوم میں حس پیدا کردے اور غیرت مند لیڈر پیدا فرما آمین ثم آمیـــن