سلمان نعمانی بندول اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 4/مئی 2018) دہلی میں دل کی بیماری میں مبتلا اپنی ماں کے علاج کے مہینے کے بعد اپنے گھر اعظم گڑھ جانے کا خیال آیا، دو دن بعد ریلوے سٹیشن ٹکٹ کاؤنٹر پر پہلا نمبر تھا، تو بھی تتکال ٹکٹ دستیاب نہیں ہوسکا، جیب اور بجٹ کے پرميشن نہ دینے کے باوجود اپنی بوڑھی ماں کے آرام سے سفر کرنے کے کیلئے ایجنٹ سے دو، دو ہزار کا AC Three Tier کا ٹکٹ لیا.
یکم مئی 2018 کو ہم دہلی سے کیفیات ایکسپریس پر دہلی سے اعظم گڑھ جانے کے لئے تیار تھے، اے سی ٹکٹ کی وجہ سے ہم پرسکون خوشگوار سفر کی امید سے ٹرین پر سوار ہوئے، اچھے اور خوشگوار سفر کے غلط تصورات چند منٹ میں کافور ہو چکے، جب ٹرین اپنے مقرر کردہ وقت سے نصف گھنٹہ تاخیر سے چلی، اور اس کے بعد ایک اچھا اور خوشگوار سفر دماغ کے ڈکشنری سے غائب ہوتا چلا گیا.
جب ٹوائلیٹ گیا تو ٹوائلیٹ کا شیشہ ٹوٹا ملا، ٹوائلٹ کا دروازہ بند نہیں ہورہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی تاک جھانک کر رہا ہو، اور ہماری شرم اور حیاء ہمیں ہی چِڑھا رہی ہیں.
اور ہمارے ملک میں جہاں پانی کی بہت زیادہ قلت ہے، وہیں پانی کے ٹوٹی سے نان اسٹاب بہے جارہا ہے.
ریلوے کینٹین کے باسی کھانا کھانے کی وجہ سے اس بیماری کے ساتھ ساتھ لے جانا پڑا.
جبکہ کولنگ سسٹم مناسب طریقے سے کام نہیں کر رہا تھا، مچھروں نے پوری رات اپنے ساتھ ہمیں بھی جگایا.
اتفاق سے اسی ٹرین میں سفر کر رہے اعظم گڑھ کی گوپال پور اسمبلی کے ممبر اسمبلی مسٹر نفیس احمد جی سے بھی ملاقات ہوئی، اور ان کے ساتھ کچھ لمحات خرچ کرنے کا ایک موقع ملا، مسٹر نفیس اے سی کے فرسٹ کلاس میں تھے، مسٹر نفیس جی بھی ٹرین کی خستہ حالت سے کافی اداس اور ناراض نظر آئے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم ریلوے کے وزیر اور ریلوے محکمہ کو ضرور خط لکھیں گے، اور اعظم گڑھ اسٹیشن ماسٹر کو بھی ایک تحریری شکایت کریں گے.
اسی AC کے کارٹن میں دیگر رکن اسمبلی، ایم پی، اور منتری بھی آئے دن سفر کرتے ہوں گے ان کا Sense کہاں چلا جاتا ہے، ان کی غیرت ان کا ضمیر کیا انہیں جھكجھورتا نہیں ہوگا، یا تو ان کا اعتماد اس نظام سے اٹھ گیا ہوگا یا ان کا ضمیر یا اخلاقیات ہی مر گئی ہوگی، یہ سوچنے اور پریشان ہونے کا معاملہ ہے کہ جب اے سے ڈبے اس حالت میں ہیں تو سلیپر اور جنرل ڈبوں کے کیا حال ہوں گے؟
ٹرین اعظم گڑھ اسٹیشن پر اپنے مقررہ وقت سے دو گھنٹے لیٹ پہنچی مسافروں نے بتایا کہ لیٹ لطیفہ ہونا یہ فی دن کی عام بات ہو گئی ہے گھر آنے پر پاس میں Cash پیسہ نہیں تھا PNB کے جیراجپور شاخ میں 2 اور 3 مئی کو پیسہ نکالنے کے لئے نقد وہاں نہیں تھا، اکاؤنٹ ہولڈرز پریشان تھے، بینک کے ملازمین، ایگزیکٹوز بہت اچھے تھے، آج کل تمام بینکوں کو نوٹ بندی کے وقت سے کہیں زیادہ خراب حالات ہیں.
دماغ اس حکومت میں کام نہیں کر رہا ہے کہ کس بیوقوف کی سرکار ہے، اور ہم کس یوگ میں جی رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ پاسان سرکار میں اور آدھیواسی سرکار میں ہیں.
ریلوے وزیر جی!
ہمارے ملک میں تقریبا 90 فیصد لوگ ٹرینوں سے طویل سفر کرتے ہیں، ایک سلیپر بوگی کے 72 سیٹوں پر 200 لوگ ویٹنگ ٹکٹ سے سفر کرتے ہیں، جو لوگ ویٹنگ ٹکٹوں پر سفر کرتے ہیں وہ مختلف طریقے سے سامنا کرتے ہیں، جنرل بوگی کا کیا نقطہ نظر ہے جو بندروں کی طرح لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے؟
اب اس سے زیادہ ایڈجسٹمنٹ والا سفر نہیں کر سکتے، اور نہ ہی ریلوے کو اس سے زیادہ ٹکٹوں کے ذریعہ کمائی ہو سکتی ہے.
ریلوے وزیر صاحب! اچھے دن کے نعرہ کا کیا ہوا؟ سُوَچھ ریل، سُوَچھ بھارت کا نعرہ کیا ہوا؟ سُوَچھ بھارت کی منصوبہ بندی کہاں گئی؟ ڈیجیٹل بھارت کہاں گیا؟ تمام منصوبے منصوبوں میں ناکام ہو گیا ہے، براہ کرم ہمارے ملک کی ٹرین کی ساری صورتحال کو درست کریں، ہم اس میں خوش ہیں.
بلیٹ ٹرین کے ڈراؤنے سپنے مت دکھائیے، بہت مہربانی ہوگی، گاغذی گھوڑا دوڑایا جا رہا ہے، جعلی اور فرضی آنکڑے دکھائے جا رہے ہیں، گودی میڈيا پر دیش کی عام جنتا کی کمائی لٹانے کے بجائے عام جنتا کے سنسادھن پر خرچ کیجیے.
ملک کے سنسادھن، ملک کی قدر احترام، دیش کی مان سمّان، ملک کی شناخت کو سرمایہ داروں صنعت کاروں کے یہاں گروی مت رکھئے، ورنہ ملک کے عوام آپ کی حکومت کو کبھی معاف نہیں کرے گی اور تاریخ کے صفحات میں آپ کی حکومت کا دور حکومت "گروی حکومت" کے نام میں ریکارڈ کیا جائے گا.
اب حکومت سے کسی ایک شعبہ کی اصلاح کی مانگ نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ہم ہندوستانیوں کو ہمیں پوری نظام میں تبدیلی، مکمل نظام میں بہتری کیلئے آندولن اور احتجاج کی ضرورت ہے.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 4/مئی 2018) دہلی میں دل کی بیماری میں مبتلا اپنی ماں کے علاج کے مہینے کے بعد اپنے گھر اعظم گڑھ جانے کا خیال آیا، دو دن بعد ریلوے سٹیشن ٹکٹ کاؤنٹر پر پہلا نمبر تھا، تو بھی تتکال ٹکٹ دستیاب نہیں ہوسکا، جیب اور بجٹ کے پرميشن نہ دینے کے باوجود اپنی بوڑھی ماں کے آرام سے سفر کرنے کے کیلئے ایجنٹ سے دو، دو ہزار کا AC Three Tier کا ٹکٹ لیا.
یکم مئی 2018 کو ہم دہلی سے کیفیات ایکسپریس پر دہلی سے اعظم گڑھ جانے کے لئے تیار تھے، اے سی ٹکٹ کی وجہ سے ہم پرسکون خوشگوار سفر کی امید سے ٹرین پر سوار ہوئے، اچھے اور خوشگوار سفر کے غلط تصورات چند منٹ میں کافور ہو چکے، جب ٹرین اپنے مقرر کردہ وقت سے نصف گھنٹہ تاخیر سے چلی، اور اس کے بعد ایک اچھا اور خوشگوار سفر دماغ کے ڈکشنری سے غائب ہوتا چلا گیا.
جب ٹوائلیٹ گیا تو ٹوائلیٹ کا شیشہ ٹوٹا ملا، ٹوائلٹ کا دروازہ بند نہیں ہورہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی تاک جھانک کر رہا ہو، اور ہماری شرم اور حیاء ہمیں ہی چِڑھا رہی ہیں.
اور ہمارے ملک میں جہاں پانی کی بہت زیادہ قلت ہے، وہیں پانی کے ٹوٹی سے نان اسٹاب بہے جارہا ہے.
ریلوے کینٹین کے باسی کھانا کھانے کی وجہ سے اس بیماری کے ساتھ ساتھ لے جانا پڑا.
جبکہ کولنگ سسٹم مناسب طریقے سے کام نہیں کر رہا تھا، مچھروں نے پوری رات اپنے ساتھ ہمیں بھی جگایا.
اتفاق سے اسی ٹرین میں سفر کر رہے اعظم گڑھ کی گوپال پور اسمبلی کے ممبر اسمبلی مسٹر نفیس احمد جی سے بھی ملاقات ہوئی، اور ان کے ساتھ کچھ لمحات خرچ کرنے کا ایک موقع ملا، مسٹر نفیس اے سی کے فرسٹ کلاس میں تھے، مسٹر نفیس جی بھی ٹرین کی خستہ حالت سے کافی اداس اور ناراض نظر آئے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم ریلوے کے وزیر اور ریلوے محکمہ کو ضرور خط لکھیں گے، اور اعظم گڑھ اسٹیشن ماسٹر کو بھی ایک تحریری شکایت کریں گے.
اسی AC کے کارٹن میں دیگر رکن اسمبلی، ایم پی، اور منتری بھی آئے دن سفر کرتے ہوں گے ان کا Sense کہاں چلا جاتا ہے، ان کی غیرت ان کا ضمیر کیا انہیں جھكجھورتا نہیں ہوگا، یا تو ان کا اعتماد اس نظام سے اٹھ گیا ہوگا یا ان کا ضمیر یا اخلاقیات ہی مر گئی ہوگی، یہ سوچنے اور پریشان ہونے کا معاملہ ہے کہ جب اے سے ڈبے اس حالت میں ہیں تو سلیپر اور جنرل ڈبوں کے کیا حال ہوں گے؟
ٹرین اعظم گڑھ اسٹیشن پر اپنے مقررہ وقت سے دو گھنٹے لیٹ پہنچی مسافروں نے بتایا کہ لیٹ لطیفہ ہونا یہ فی دن کی عام بات ہو گئی ہے گھر آنے پر پاس میں Cash پیسہ نہیں تھا PNB کے جیراجپور شاخ میں 2 اور 3 مئی کو پیسہ نکالنے کے لئے نقد وہاں نہیں تھا، اکاؤنٹ ہولڈرز پریشان تھے، بینک کے ملازمین، ایگزیکٹوز بہت اچھے تھے، آج کل تمام بینکوں کو نوٹ بندی کے وقت سے کہیں زیادہ خراب حالات ہیں.
دماغ اس حکومت میں کام نہیں کر رہا ہے کہ کس بیوقوف کی سرکار ہے، اور ہم کس یوگ میں جی رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ پاسان سرکار میں اور آدھیواسی سرکار میں ہیں.
ریلوے وزیر جی!
ہمارے ملک میں تقریبا 90 فیصد لوگ ٹرینوں سے طویل سفر کرتے ہیں، ایک سلیپر بوگی کے 72 سیٹوں پر 200 لوگ ویٹنگ ٹکٹ سے سفر کرتے ہیں، جو لوگ ویٹنگ ٹکٹوں پر سفر کرتے ہیں وہ مختلف طریقے سے سامنا کرتے ہیں، جنرل بوگی کا کیا نقطہ نظر ہے جو بندروں کی طرح لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے؟
اب اس سے زیادہ ایڈجسٹمنٹ والا سفر نہیں کر سکتے، اور نہ ہی ریلوے کو اس سے زیادہ ٹکٹوں کے ذریعہ کمائی ہو سکتی ہے.
ریلوے وزیر صاحب! اچھے دن کے نعرہ کا کیا ہوا؟ سُوَچھ ریل، سُوَچھ بھارت کا نعرہ کیا ہوا؟ سُوَچھ بھارت کی منصوبہ بندی کہاں گئی؟ ڈیجیٹل بھارت کہاں گیا؟ تمام منصوبے منصوبوں میں ناکام ہو گیا ہے، براہ کرم ہمارے ملک کی ٹرین کی ساری صورتحال کو درست کریں، ہم اس میں خوش ہیں.
بلیٹ ٹرین کے ڈراؤنے سپنے مت دکھائیے، بہت مہربانی ہوگی، گاغذی گھوڑا دوڑایا جا رہا ہے، جعلی اور فرضی آنکڑے دکھائے جا رہے ہیں، گودی میڈيا پر دیش کی عام جنتا کی کمائی لٹانے کے بجائے عام جنتا کے سنسادھن پر خرچ کیجیے.
ملک کے سنسادھن، ملک کی قدر احترام، دیش کی مان سمّان، ملک کی شناخت کو سرمایہ داروں صنعت کاروں کے یہاں گروی مت رکھئے، ورنہ ملک کے عوام آپ کی حکومت کو کبھی معاف نہیں کرے گی اور تاریخ کے صفحات میں آپ کی حکومت کا دور حکومت "گروی حکومت" کے نام میں ریکارڈ کیا جائے گا.
اب حکومت سے کسی ایک شعبہ کی اصلاح کی مانگ نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ہم ہندوستانیوں کو ہمیں پوری نظام میں تبدیلی، مکمل نظام میں بہتری کیلئے آندولن اور احتجاج کی ضرورت ہے.