محمد انور داؤدی، قاسمی ایڈیٹر روشنی أعظم گڑھ
Mdanwardaudi@gmail.Com
Mob: 8853777798
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کے اس دور میں آپ سے کچھ خاص باتیں عرض کرنی ہیں، اللہ سےدعا کریں کہ حق بات زبان پر جاری فرمائے اور ہم سب کے لئے نفع بخش بنائے. آمین
بهائیو!
دنیا میں جتنی قومیں یا مذاهب آباد ہیں ان میں سے ہر ایک کے کچھ خاص تہوار ہوتے ہیں جس میں ان مذاهب کے ماننے والے اپنی اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق اچھا پہنتے، کھاتے اور اپنے طور پر خوشیاں مناتے ہیں، اسلام نے بهی انسانی فطرت کا خیال کرتے ہوئے مسلمانوں کو دو تہوار دیا ایک عیدالفطر، دوسرا عیدالاضحی
پورے سال کے اندر صرف یہی دو تہوار مذہبی، ملی اور قومی ہیں، لیکن اسلامی تہوار دیگر اقوام عالم کے تہواروں سے بالکل منفرد اور نمایاں پہچان رکھتا ہے.
قوموں کے تہوار یا عید دراصل انکے عقائد وتصوارت اور انکی تاریخ و روایات کے ترجمان ہوتے ہیں آپ جب غور کریں گے تو بات واضح ہوجائے گی کہ اقوام عالم میں عید اور تہوار کے معنی رنگ رلیاں یا اپنی قومیت کو مستحکم کرنا یا کسی مقتدا کی یاد تازه کرنا ہے اور یہ کہ جشن کا اظہار لہو و لعب، یا ناچ گانے سے خوب کیا جاتا ہے، لیکن اسلام ایک پاکیزہ اور مبارک دین ہے جسکی مذہبی اقدار وتعلیمات لہو و لعب سے کوسوں دور ہیں، اسلام میں عید کے تہوار کے معنی اجتماعی طور پر خدا کی یاد کرنے، اس کی طرف رجوع کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے اور اسکے نام پر غریبوں کی مدد کرنے کے ہیں ،جشن اور خوشی کے مواقع میں عموما انسان اپنے مولیٰ کو بهول بیٹهتا ہے لیکن اسلام کی شان دیکھئے خوشی کے یہ دن بهی عبادت بن جاتے ہیں مسلم قوم دوگانہ ادا کرکے اللہ کی جناب میں قربانی کرکے اور حاجت مندوں پر رقم خرچ کر کے یہ بتلانا چاہتی ہے کہ ایک طرف وه خدا کے نام لیوا ہیں
تو دوسری طرف دنیا کےمفلوک الحال انسانوں کی ضروریات کا خیال کرکے وہ ایک زندہ، عوامی اور عالمی قوم ہے جسے نہ قبیلے تقسیم کر سکتے ہیں اور نہ ملکوں کی سرحدیں.
{ پیغام عیدالفطر }
➖برادران ملت ➖
آج عید کا دن ہے، خوشی و مسرت کا دن ہے آج کا یہ دن اسلامی تہوار کا پہلا دن ہے اسکی رات کو لیلة الجائزة (انعام کی رات) اور دن کو یوم الجائزة (انعام کادن) کہا جاتا ہے، آج کا دن مسلمانوں کے لئے انتہائی اہم ہے آج رحمت خداوندی سب کو ڈهانپے ہوئے ہے آج لوگ مغفور ہوکر گهر لوٹیں گے لیکن آج کا دن ہمیں ایک پیغام دیتا ہے کہ دیکھو آج بخشے بخشائے گهر لوٹ رہے ہو پهر گناہوں کی دلدل میں نہ دهنس جانا، آج جیسے تمهارے کپڑے اجلے ہیں، داغ دهبے سے صاف ہیں، نہ صرف تمهارا جسم بلکہ گلی گلی اور فضائیں تک خوشبوؤں سے معطر ہیں ایسے ہی تمهارا دل بهی شیشے کی طرح گناہوں سے پاک رہنا چاہیے، تمهاری تلاوت و دیگر اعمال خیر سے تمهاری روح، بلکہ پورا معاشرہ وفضا بهی پاکیزہ رہنی چاہیے.
جی ہاں رمضان کا مہینہ تربیتی کیمپ تها،ٹریننگ کورس تها جس میں دن بهر روزه کے ذریعہ نفس کو مانجها اور صاف کیا گیا اور رات کو اس صاف شده ظرف پر تلاوت وتراویح سے قلعی کی گئی جس سے وه چمک اٹها ہے، گویا رمضان میں نفس کو پاکیزہ بنانے اور تقوی کی صفات پیدا کرنے کا کام کیا گیا اسی لئے جب قرآن نے روزے کا ذکر کیا تو اس کا سب سے بڑا ثمره تقوی بتلایا.
ارشاد ہے: یا ایهاالذین آمنوا کتب علیکم الصيام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون(البقره)
حضرات گرامی ➖
نفسانی خواہشات و لذات کو جب تک توڑا نہیں جائے گا،قربان نہیں کیا جائیگا تب تک تقوی کی صفات پیدا نہیں ہونگی، آسان زبان میں سمجھئے اوامر پر عمل ہو اور نواھی سے پرہیز، خیر اور شریہ دو مادے ہیں اگر صرف خیر ہی خیر ہو تو وه انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے، اور اگر صرف شر ہی شر ہو تو وہ شیطان ہے اور جہاں خیر و شر دونوں مادے مل جائیں وہاں انسان ہے، جیسے ہر انسان کے اندر اللہ نے دو ماده رکها ہے ایک خیر کا دوسرا شر کا، اسی طرح شریعت اسلام کے دوحصے ہیں ایک اوامر جیسے کہا گیا کہ نماز پڑھو، روزه رکهو، حج کرو
دوسرا حصہ نواھی کا ہے جیسے کہا گیا چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، قتل نہ کرو وغیره
اور رمضان میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں، اور اس کے ایام اسی شان سے پورے ہوتے ہیں کہ اسکے دن تروک میں مصروف اور اسکی راتیں افعال میں مشغول -
پهر عید کا چاند تکمیل عبادت کا مسرت بهرا پیغام لیکر فضاء آسمانی میں نمودار ہوتا ہے گویا وه یہ اعلان کرتا ہے کہ اے بندگان خدا تم نے دنوں کو نفسانی لذتوں پر قرب خداوندی کی لذتوں کو ترجیح دی اور راتوں کو لہوالحدیث میں نہ گنوا کر خیرالحدیث کے کہنے اور سننے میں مشغول رکها، اس لئے ھلال عید کے ذریعہ تمهیں کامیابی کی مبارکباد دی جاتی ہے.
بزرگو اور دوستو ➖
حکم آجائے"کرو" تو کرنا عبادت، اور جب منع کر دیا جائے تو رک جانا عبادت، اسی کا نام دین ہے اور اسی کا نام تقویٰ ہے، تقویٰ کا ماحصل یہی ہے کہ دلوں میں اللہ کا خوف جم جائے، قرآن نے مختلف جگہوں پر ذکر کیا ہے "اتقوا الله، اتقوا الله" یہ تصور پیدا ہوجائے کہ میرا اللہ مجهے دیکھ رہا ہے، دن کا اجالا ہو یا رات کی تاریکی، جلوت میں ہو یا خلوت میں، جب بهی گناه کی طرف قدم بڑهے اللہ کا دهیان آجائے، یہی وه تصور ہے جو اسلام دیتا ہے رمضان دیتا ہے اور آج عید کا یہی پیغام ہے کہ جس خوف جذبے اور خلوص کے ساتھ ماه رمضان گزارے گئے آنیوالے گیاره ماه بهی اسی تصور کیساتھ گزارے جائیں.
گرامی قدر➖
اسلام نے دو عقیدہ ایسا دیا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہے، ایک اللہ کا ڈر، دوسرا آخرت میں جواب دہی.
دوستو!
اگر غور کیا جائے تو جرائم کا خاتمہ بغیر تقویٰ کے ممکن نہیں، جرائم و کرائم کو نہ پولیس روک سکتی ہے، نہ فوج نہ ہتهیار، اگرمحض پولیس سے جرائم کو روکا جا سکتا تھا تو آج کی دنیا کو سب سے زیاده پر امن اور متقی ہونا چاہیے تھا کیونکہ آج نہ پولیس کی کمی ہے نہ فوج کی اور نہ ہی ہتهیار کی، پولیس سامنے ہے تو خوف ہے قانونی اداروں کی موجودگی میں قانون کا ڈر ہے لیکن جہاں نگاه سے اوجهل ہوئے ڈر ختم ہوجاتا ہے مگر اسلام جو تصور دے رہا ہے وہاں کوئی ہو یا نہ ہو ہر دو حالت میں احکم الحاکمین کا خوف ہے، بات سمجھنے کے لئے میں صرف دومثال پیش کرتا ہوں
⬅ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک عورت آئی اور عرض کی یارسول اللہ مجھ سے غلط کام ہوگیا اور حمل ٹھہر گیا مجهے سزا دیجئے.
غور کیجئے!
عورت کی غلطی چھپی تهی مگر وه کیا چیز تهی جو اسے دربار رسالت میں کهینچ لائی جی وه خوف خدا تها اور آخرت میں جوابدہی کا تصور،
آپ نے فرمایا ابهی واپس جاؤ پیدائش کے بعد آنا، وه عورت وضع حمل کے بعد پهر آئی.
غورکیجئے!
کئی ماه گزرنے کے باوجود اسکا خوف سرد نہیں ہوا، اس پر کوئی دباؤ نہیں تها کوئی ایف آئی آر نہیں، کوئی وارنٹ نہیں مگر وه آئی.
آپ نےفرمایا ابهی واپس جاؤ ابهی بچہ چهوٹا ہے ابهی اسے تیری ضرورت ہے وه گئی پهر دو سال بعد آئی اور بچے کے منھ میں روٹی کا ٹکڑا تها یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اب بچہ غذا کهانے لگا اس لئے مجهے اسلامی قاعدے کے مطابق سزا دیجئے.
یہ ہےخوف خدا
⬅دوسری مثال
امریکہ نے ایک مرتبہ شراب پر پابندی لگانے کے لئے پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون بنایا، پهر کمیٹی قائم کی گئی، لاکھوں کے بجٹ تیار کئے گئے، اشتہارات شائع کئے گئے غرض بے پناه محنت اور بےپناه خرچ کے بعد قانون نافذ کردیا گیا کچھ عرصہ بعد رپورٹ سونپی گئی کہ پابندی سے قبل اگر پچاس ہزار لوگ شراب پیتے تهے تو اب وه ایک لاکھ ہوگئے، کیوں؟؟؟؟
کهلے عام وضعدار لوگ اپنی ساکھ بچانے کے لئے نہیں پیتے تهے مگر جب بینڈ لگ گیا تو سب کو موقع مل گیا بلیک میلنگ بڑھ گئی اور نتیجہ الٹا ہو گیا.
اسلام نے شراب پر کیسے بینڈ لگایا جانتے ہیں؟
جب اللہ نے چاہا کہ شراب بند کیا جائے تو سب سے پہلے بتایا "يسألونك عن الخمر و الميسر قل فيهما اثم كبير و منافع للناس واثمهما أكبر من نفعهما" (البقره 219/)
یعنی لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو بتا دیجیے کہ ان میں بڑا گناه ہے لوگوں کے فائدے بهی ہیں لیکن گناه فائده سے بڑا ہے، اب کچھ لوگوں نے اسی وقت شراب چهوڑ دی، پهر دوسرا حکم آگیا "یا ایهاالذین آمنوا لاتقربوا الصلوة وأنتم سکٰری"ٰ (النساء43/)
یعنی اب شراب پی کر نشے کی حالت میں نماز مت پڑهو.
کچھ لوگوں نے اس وقت چهوڑ دی مگر کچھ نماز کے علاوه اوقات میں پیتے رہے پھر عرصہ بعد شراب مکمل حرام کردی گئی ارشاد ہے "یا ایها الذین انما الخمر والمیسر و الانصاب والازلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه" (النساء90/)
اب مکمل اجتناب کا حکم آیا تو جنهوں نے جام لب سے لگایا تها وه ایک گهونٹ اتارنے تک کو تیار نہ ہوئے بلکہ گلیوں میں بہا دیا، یہ ہے اسلامی طریقہ اور حکمت.
➖حالات حاضرہ ➖
برادران ملت اور رشتہ اسلام کی ماں بہنو!
تقوی اختیار کرو اپنے دین پر مضبوطی کیساتھ جم جاؤ لاکھ مخالفتیں ہوں، ہزارہا باد مخالف چلے، گرچہ ظاہرا رسوائی ہو، ملامتیں کی جائیں مگر دین کو اپنی ذات سے بدنام نہ ہونے دینا، آج باطل طاقتوں نے، مخالفین نے انداز بدل دیا ہے، اسلام سے بدظن کرنے کے لئے ملت اسلامیہ کو تشویش میں مبتلا کرنے کیلئے عورتوں کا سہار لیا ہے اور حقوق کی بات کر کے پرسنل لاء کو چیلنج کر رہی ہیں، حالانکہ جو عزت وحفاظت، عظمت وتقدس اور حقوق و اختیارات اسلام نے عورتوں کو دیا ہے وه کسی اور نےنہ دیا ہے اور نہ دینے کی ہمت کر پارہے ہیں بیٹیوں کی تعلیم وتربیت اور نکاح پر اللہ کے رسول نے جنت میں اپنے ساتھ جگہ ملنے کو کہا ہے.
عورت پیر کی جوتی سمجھی جاتی تهی اسلام نے اسے گهر کی ملکہ بنا دیا وراثت سے محروم کردی جاتی تهی آج بھی دیگر اقوام میں اسے محروم رکھا جاتا ہے مگر اسلام نے اسے وارث بنایا، لاتعداد طلاق اور پهر رجوع کے ذریعہ اسے ٹارچر کیا جاتا تها اسلام نے تین طلاق کی حدبندی کردی اور ظالم شوہر سے نجات دلائی، طلاق مسئلہ نہیں ہے مسئلے کا حل ہے.
اسلام نے ہمیشہ عورتوں کیساتھ عمدہ سلوک کی تلقین کیا ہے، انکی فریاد کو اولیت دی ہے اسلامی تواریخ اس قسم کے واقعات سے بهری پڑی ہیں.
🔵 ایک عورت کی خاطر سرکاری فرمان جاری کیا گیا🔵
حضرت عمر رضی اللہ عنه کازمانہ خلافت ہے رات کو گشت کر کے رعایا کا حال جاننے اور خبر رکهنے کی کوشش کرتے ہیں ایک رات ایک گهر سے گنگنانے (گانے) کی آواز آئی، فاروق اعظم ٹهٹهک گئے دروازے پر دستک دی کون؟
لڑکی آواز پہچان کر ڈر گئی، امیرا لمومنین نے دوباره سخت آواز دی وه اور سہم گئی، فاروق اعظم کا شک اور بڑھ گیا دیوار پهلانگ کر گهر کے اندر گئے تو دیکها لڑکی اکیلی ہے، نوجوان ہے آپ نے پوچها کون ہےتو؟اورکیوں گارہی ہے؟ کیا تجهے معلوم نہیں کہ اسلام نے عورت کی آواز بهی عورت بنایا ہے تو گناہ گار ہوئی؟
اب عورت کو جرات ہوئی اور بولی آپ مجهےطعنہ دے رہے ہیں حالانکہ آپ یہاں کهڑےکهڑے تین گناه کئے ہیں، اتنا سنتے ہی حضرت عمر کا غصہ ٹهنڈا ہوگیا، رعایا کی ایک لڑکی امیرالمومنین سے ایسی بات کہہ دے اور پهر امیرالمومنین پوچهیں وه گناه کیا ہیں آج کے دور میں تصور ہے؟؟؟؟
لڑکی نےکہا
(۱) میں اجنبی لڑکی ہوں اور اس طرح میرے ساتھ کسی مرد کو خلوت جائز نہیں.
(۲) قرآن کہتا ہے کسی کے گهر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت لے لو مگر آپ بلا اجازت اندر آئے .
(۳) قرآن کہتا ہے "واتوا البیوت من أبوابها" گهروں میں دروازے کے ذریعہ داخل ہو اورآپ دیوار پهلانگ کر آئے.
اب فاروق اعظم بہت شرمندہ ہوئے یہ آپکی تواضع اور انکساری تهی ورنہ ایک ذمہ دار کو سچ جاننے کے لئے چهاپہ مار کاروائی کا حق ہے، بہرحال فاروق اعظم واپس لوٹ آئے رات بهر عبادت میں صرف کیا پهر صبح ضابطے کے مطابق اس لڑکی کے پاس آدمی بهیجا اور طلب کیا اور کہا اللہ تجهے جزائے خیر عطا فرمائے تو نے مجهے متنبہ کیا، لیکن بحیثیت امیرالمومنین پوچهتا ہوں وه گانا بجانا کیسا تها؟
لڑکی نے جواب دیا میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور بهرپور جوانی ہے، پندرہ روز پہلے شادی ہوئی میرا خاوند بهی جوان تها آپ نے اسے ایک محاذ محاذ پر بهیج دیا، میں اسکے فراق میں عاشقانہ اشعار پڑھ رہی تهی، میں نہ بدکارہوں نہ زانیہ.
فاروق اعظم نےاطمینان کی سانس لیا اور اسے عزت کیساتھ رخصت کیا، واپس اپنی بیوی کے پاس آئے اور بولے اگر نوجوان لڑکی کی شادی ہو اور خاوند بهی نوجوان ہو اور دونوں میں جدائی ہو جائے وه کتنے دن تک صبر کرسکتے ہیں کہ اسکے بعد بدکاری کا اندیشہ نہ ہو؟
بیوی نے کہا 3 ماه، یہ الگ بات ہے کہ اسکا دین مضبوط ہو، اس میں حیا ہو اپنے اخلاق کیوجہ سے برسہا برس بلکہ عمر گزار دے.
یہ سن کر عمر فاروق نے سرکاری فرمان جاری کیا کہ جن شادی شده جوانوں کو جنگ پر بهیجا گیا انهیں تین ماه کے اندر واپس کیا جائے انکی جگہ دوسرے سپاہی بهیجے جائیں.
یہ ہےاسلام میں خواتین کی عزت کہ ایک عورت کی وجہ سے ایک نظام مرتب ہوگیا.
بهائیو!
دین کی حفاظت کرو تم محفوظ رہو گے، اسلام مخالف لاکھ قوانین بنائے جائیں اگر ہم خود اپنے دین پر کاربند رہے اور اپنے مذہبی معاملات کو شریعت کی روشنی میں حل کراتے رہے توہم کسی سازش کا شکار نہیں ہوسکتے .
آئیے!
ہم سب ایک اچھی پاکیزہ اور پروقار زندگی گزارنے کا عہد کریں اور برادران وطن میں پهیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش بهی کریں، ملک میں امن وأمان کے قیام اور خوب ترقی کی دعا بهی مانگیں.
Mdanwardaudi@gmail.Com
Mob: 8853777798
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کے اس دور میں آپ سے کچھ خاص باتیں عرض کرنی ہیں، اللہ سےدعا کریں کہ حق بات زبان پر جاری فرمائے اور ہم سب کے لئے نفع بخش بنائے. آمین
بهائیو!
دنیا میں جتنی قومیں یا مذاهب آباد ہیں ان میں سے ہر ایک کے کچھ خاص تہوار ہوتے ہیں جس میں ان مذاهب کے ماننے والے اپنی اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق اچھا پہنتے، کھاتے اور اپنے طور پر خوشیاں مناتے ہیں، اسلام نے بهی انسانی فطرت کا خیال کرتے ہوئے مسلمانوں کو دو تہوار دیا ایک عیدالفطر، دوسرا عیدالاضحی
پورے سال کے اندر صرف یہی دو تہوار مذہبی، ملی اور قومی ہیں، لیکن اسلامی تہوار دیگر اقوام عالم کے تہواروں سے بالکل منفرد اور نمایاں پہچان رکھتا ہے.
قوموں کے تہوار یا عید دراصل انکے عقائد وتصوارت اور انکی تاریخ و روایات کے ترجمان ہوتے ہیں آپ جب غور کریں گے تو بات واضح ہوجائے گی کہ اقوام عالم میں عید اور تہوار کے معنی رنگ رلیاں یا اپنی قومیت کو مستحکم کرنا یا کسی مقتدا کی یاد تازه کرنا ہے اور یہ کہ جشن کا اظہار لہو و لعب، یا ناچ گانے سے خوب کیا جاتا ہے، لیکن اسلام ایک پاکیزہ اور مبارک دین ہے جسکی مذہبی اقدار وتعلیمات لہو و لعب سے کوسوں دور ہیں، اسلام میں عید کے تہوار کے معنی اجتماعی طور پر خدا کی یاد کرنے، اس کی طرف رجوع کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے اور اسکے نام پر غریبوں کی مدد کرنے کے ہیں ،جشن اور خوشی کے مواقع میں عموما انسان اپنے مولیٰ کو بهول بیٹهتا ہے لیکن اسلام کی شان دیکھئے خوشی کے یہ دن بهی عبادت بن جاتے ہیں مسلم قوم دوگانہ ادا کرکے اللہ کی جناب میں قربانی کرکے اور حاجت مندوں پر رقم خرچ کر کے یہ بتلانا چاہتی ہے کہ ایک طرف وه خدا کے نام لیوا ہیں
تو دوسری طرف دنیا کےمفلوک الحال انسانوں کی ضروریات کا خیال کرکے وہ ایک زندہ، عوامی اور عالمی قوم ہے جسے نہ قبیلے تقسیم کر سکتے ہیں اور نہ ملکوں کی سرحدیں.
{ پیغام عیدالفطر }
➖برادران ملت ➖
آج عید کا دن ہے، خوشی و مسرت کا دن ہے آج کا یہ دن اسلامی تہوار کا پہلا دن ہے اسکی رات کو لیلة الجائزة (انعام کی رات) اور دن کو یوم الجائزة (انعام کادن) کہا جاتا ہے، آج کا دن مسلمانوں کے لئے انتہائی اہم ہے آج رحمت خداوندی سب کو ڈهانپے ہوئے ہے آج لوگ مغفور ہوکر گهر لوٹیں گے لیکن آج کا دن ہمیں ایک پیغام دیتا ہے کہ دیکھو آج بخشے بخشائے گهر لوٹ رہے ہو پهر گناہوں کی دلدل میں نہ دهنس جانا، آج جیسے تمهارے کپڑے اجلے ہیں، داغ دهبے سے صاف ہیں، نہ صرف تمهارا جسم بلکہ گلی گلی اور فضائیں تک خوشبوؤں سے معطر ہیں ایسے ہی تمهارا دل بهی شیشے کی طرح گناہوں سے پاک رہنا چاہیے، تمهاری تلاوت و دیگر اعمال خیر سے تمهاری روح، بلکہ پورا معاشرہ وفضا بهی پاکیزہ رہنی چاہیے.
جی ہاں رمضان کا مہینہ تربیتی کیمپ تها،ٹریننگ کورس تها جس میں دن بهر روزه کے ذریعہ نفس کو مانجها اور صاف کیا گیا اور رات کو اس صاف شده ظرف پر تلاوت وتراویح سے قلعی کی گئی جس سے وه چمک اٹها ہے، گویا رمضان میں نفس کو پاکیزہ بنانے اور تقوی کی صفات پیدا کرنے کا کام کیا گیا اسی لئے جب قرآن نے روزے کا ذکر کیا تو اس کا سب سے بڑا ثمره تقوی بتلایا.
ارشاد ہے: یا ایهاالذین آمنوا کتب علیکم الصيام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون(البقره)
حضرات گرامی ➖
نفسانی خواہشات و لذات کو جب تک توڑا نہیں جائے گا،قربان نہیں کیا جائیگا تب تک تقوی کی صفات پیدا نہیں ہونگی، آسان زبان میں سمجھئے اوامر پر عمل ہو اور نواھی سے پرہیز، خیر اور شریہ دو مادے ہیں اگر صرف خیر ہی خیر ہو تو وه انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے، اور اگر صرف شر ہی شر ہو تو وہ شیطان ہے اور جہاں خیر و شر دونوں مادے مل جائیں وہاں انسان ہے، جیسے ہر انسان کے اندر اللہ نے دو ماده رکها ہے ایک خیر کا دوسرا شر کا، اسی طرح شریعت اسلام کے دوحصے ہیں ایک اوامر جیسے کہا گیا کہ نماز پڑھو، روزه رکهو، حج کرو
دوسرا حصہ نواھی کا ہے جیسے کہا گیا چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، قتل نہ کرو وغیره
اور رمضان میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں، اور اس کے ایام اسی شان سے پورے ہوتے ہیں کہ اسکے دن تروک میں مصروف اور اسکی راتیں افعال میں مشغول -
پهر عید کا چاند تکمیل عبادت کا مسرت بهرا پیغام لیکر فضاء آسمانی میں نمودار ہوتا ہے گویا وه یہ اعلان کرتا ہے کہ اے بندگان خدا تم نے دنوں کو نفسانی لذتوں پر قرب خداوندی کی لذتوں کو ترجیح دی اور راتوں کو لہوالحدیث میں نہ گنوا کر خیرالحدیث کے کہنے اور سننے میں مشغول رکها، اس لئے ھلال عید کے ذریعہ تمهیں کامیابی کی مبارکباد دی جاتی ہے.
بزرگو اور دوستو ➖
حکم آجائے"کرو" تو کرنا عبادت، اور جب منع کر دیا جائے تو رک جانا عبادت، اسی کا نام دین ہے اور اسی کا نام تقویٰ ہے، تقویٰ کا ماحصل یہی ہے کہ دلوں میں اللہ کا خوف جم جائے، قرآن نے مختلف جگہوں پر ذکر کیا ہے "اتقوا الله، اتقوا الله" یہ تصور پیدا ہوجائے کہ میرا اللہ مجهے دیکھ رہا ہے، دن کا اجالا ہو یا رات کی تاریکی، جلوت میں ہو یا خلوت میں، جب بهی گناه کی طرف قدم بڑهے اللہ کا دهیان آجائے، یہی وه تصور ہے جو اسلام دیتا ہے رمضان دیتا ہے اور آج عید کا یہی پیغام ہے کہ جس خوف جذبے اور خلوص کے ساتھ ماه رمضان گزارے گئے آنیوالے گیاره ماه بهی اسی تصور کیساتھ گزارے جائیں.
گرامی قدر➖
اسلام نے دو عقیدہ ایسا دیا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہے، ایک اللہ کا ڈر، دوسرا آخرت میں جواب دہی.
دوستو!
اگر غور کیا جائے تو جرائم کا خاتمہ بغیر تقویٰ کے ممکن نہیں، جرائم و کرائم کو نہ پولیس روک سکتی ہے، نہ فوج نہ ہتهیار، اگرمحض پولیس سے جرائم کو روکا جا سکتا تھا تو آج کی دنیا کو سب سے زیاده پر امن اور متقی ہونا چاہیے تھا کیونکہ آج نہ پولیس کی کمی ہے نہ فوج کی اور نہ ہی ہتهیار کی، پولیس سامنے ہے تو خوف ہے قانونی اداروں کی موجودگی میں قانون کا ڈر ہے لیکن جہاں نگاه سے اوجهل ہوئے ڈر ختم ہوجاتا ہے مگر اسلام جو تصور دے رہا ہے وہاں کوئی ہو یا نہ ہو ہر دو حالت میں احکم الحاکمین کا خوف ہے، بات سمجھنے کے لئے میں صرف دومثال پیش کرتا ہوں
⬅ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک عورت آئی اور عرض کی یارسول اللہ مجھ سے غلط کام ہوگیا اور حمل ٹھہر گیا مجهے سزا دیجئے.
غور کیجئے!
عورت کی غلطی چھپی تهی مگر وه کیا چیز تهی جو اسے دربار رسالت میں کهینچ لائی جی وه خوف خدا تها اور آخرت میں جوابدہی کا تصور،
آپ نے فرمایا ابهی واپس جاؤ پیدائش کے بعد آنا، وه عورت وضع حمل کے بعد پهر آئی.
غورکیجئے!
کئی ماه گزرنے کے باوجود اسکا خوف سرد نہیں ہوا، اس پر کوئی دباؤ نہیں تها کوئی ایف آئی آر نہیں، کوئی وارنٹ نہیں مگر وه آئی.
آپ نےفرمایا ابهی واپس جاؤ ابهی بچہ چهوٹا ہے ابهی اسے تیری ضرورت ہے وه گئی پهر دو سال بعد آئی اور بچے کے منھ میں روٹی کا ٹکڑا تها یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اب بچہ غذا کهانے لگا اس لئے مجهے اسلامی قاعدے کے مطابق سزا دیجئے.
یہ ہےخوف خدا
⬅دوسری مثال
امریکہ نے ایک مرتبہ شراب پر پابندی لگانے کے لئے پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون بنایا، پهر کمیٹی قائم کی گئی، لاکھوں کے بجٹ تیار کئے گئے، اشتہارات شائع کئے گئے غرض بے پناه محنت اور بےپناه خرچ کے بعد قانون نافذ کردیا گیا کچھ عرصہ بعد رپورٹ سونپی گئی کہ پابندی سے قبل اگر پچاس ہزار لوگ شراب پیتے تهے تو اب وه ایک لاکھ ہوگئے، کیوں؟؟؟؟
کهلے عام وضعدار لوگ اپنی ساکھ بچانے کے لئے نہیں پیتے تهے مگر جب بینڈ لگ گیا تو سب کو موقع مل گیا بلیک میلنگ بڑھ گئی اور نتیجہ الٹا ہو گیا.
اسلام نے شراب پر کیسے بینڈ لگایا جانتے ہیں؟
جب اللہ نے چاہا کہ شراب بند کیا جائے تو سب سے پہلے بتایا "يسألونك عن الخمر و الميسر قل فيهما اثم كبير و منافع للناس واثمهما أكبر من نفعهما" (البقره 219/)
یعنی لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو بتا دیجیے کہ ان میں بڑا گناه ہے لوگوں کے فائدے بهی ہیں لیکن گناه فائده سے بڑا ہے، اب کچھ لوگوں نے اسی وقت شراب چهوڑ دی، پهر دوسرا حکم آگیا "یا ایهاالذین آمنوا لاتقربوا الصلوة وأنتم سکٰری"ٰ (النساء43/)
یعنی اب شراب پی کر نشے کی حالت میں نماز مت پڑهو.
کچھ لوگوں نے اس وقت چهوڑ دی مگر کچھ نماز کے علاوه اوقات میں پیتے رہے پھر عرصہ بعد شراب مکمل حرام کردی گئی ارشاد ہے "یا ایها الذین انما الخمر والمیسر و الانصاب والازلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه" (النساء90/)
اب مکمل اجتناب کا حکم آیا تو جنهوں نے جام لب سے لگایا تها وه ایک گهونٹ اتارنے تک کو تیار نہ ہوئے بلکہ گلیوں میں بہا دیا، یہ ہے اسلامی طریقہ اور حکمت.
➖حالات حاضرہ ➖
برادران ملت اور رشتہ اسلام کی ماں بہنو!
تقوی اختیار کرو اپنے دین پر مضبوطی کیساتھ جم جاؤ لاکھ مخالفتیں ہوں، ہزارہا باد مخالف چلے، گرچہ ظاہرا رسوائی ہو، ملامتیں کی جائیں مگر دین کو اپنی ذات سے بدنام نہ ہونے دینا، آج باطل طاقتوں نے، مخالفین نے انداز بدل دیا ہے، اسلام سے بدظن کرنے کے لئے ملت اسلامیہ کو تشویش میں مبتلا کرنے کیلئے عورتوں کا سہار لیا ہے اور حقوق کی بات کر کے پرسنل لاء کو چیلنج کر رہی ہیں، حالانکہ جو عزت وحفاظت، عظمت وتقدس اور حقوق و اختیارات اسلام نے عورتوں کو دیا ہے وه کسی اور نےنہ دیا ہے اور نہ دینے کی ہمت کر پارہے ہیں بیٹیوں کی تعلیم وتربیت اور نکاح پر اللہ کے رسول نے جنت میں اپنے ساتھ جگہ ملنے کو کہا ہے.
عورت پیر کی جوتی سمجھی جاتی تهی اسلام نے اسے گهر کی ملکہ بنا دیا وراثت سے محروم کردی جاتی تهی آج بھی دیگر اقوام میں اسے محروم رکھا جاتا ہے مگر اسلام نے اسے وارث بنایا، لاتعداد طلاق اور پهر رجوع کے ذریعہ اسے ٹارچر کیا جاتا تها اسلام نے تین طلاق کی حدبندی کردی اور ظالم شوہر سے نجات دلائی، طلاق مسئلہ نہیں ہے مسئلے کا حل ہے.
اسلام نے ہمیشہ عورتوں کیساتھ عمدہ سلوک کی تلقین کیا ہے، انکی فریاد کو اولیت دی ہے اسلامی تواریخ اس قسم کے واقعات سے بهری پڑی ہیں.
🔵 ایک عورت کی خاطر سرکاری فرمان جاری کیا گیا🔵
حضرت عمر رضی اللہ عنه کازمانہ خلافت ہے رات کو گشت کر کے رعایا کا حال جاننے اور خبر رکهنے کی کوشش کرتے ہیں ایک رات ایک گهر سے گنگنانے (گانے) کی آواز آئی، فاروق اعظم ٹهٹهک گئے دروازے پر دستک دی کون؟
لڑکی آواز پہچان کر ڈر گئی، امیرا لمومنین نے دوباره سخت آواز دی وه اور سہم گئی، فاروق اعظم کا شک اور بڑھ گیا دیوار پهلانگ کر گهر کے اندر گئے تو دیکها لڑکی اکیلی ہے، نوجوان ہے آپ نے پوچها کون ہےتو؟اورکیوں گارہی ہے؟ کیا تجهے معلوم نہیں کہ اسلام نے عورت کی آواز بهی عورت بنایا ہے تو گناہ گار ہوئی؟
اب عورت کو جرات ہوئی اور بولی آپ مجهےطعنہ دے رہے ہیں حالانکہ آپ یہاں کهڑےکهڑے تین گناه کئے ہیں، اتنا سنتے ہی حضرت عمر کا غصہ ٹهنڈا ہوگیا، رعایا کی ایک لڑکی امیرالمومنین سے ایسی بات کہہ دے اور پهر امیرالمومنین پوچهیں وه گناه کیا ہیں آج کے دور میں تصور ہے؟؟؟؟
لڑکی نےکہا
(۱) میں اجنبی لڑکی ہوں اور اس طرح میرے ساتھ کسی مرد کو خلوت جائز نہیں.
(۲) قرآن کہتا ہے کسی کے گهر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت لے لو مگر آپ بلا اجازت اندر آئے .
(۳) قرآن کہتا ہے "واتوا البیوت من أبوابها" گهروں میں دروازے کے ذریعہ داخل ہو اورآپ دیوار پهلانگ کر آئے.
اب فاروق اعظم بہت شرمندہ ہوئے یہ آپکی تواضع اور انکساری تهی ورنہ ایک ذمہ دار کو سچ جاننے کے لئے چهاپہ مار کاروائی کا حق ہے، بہرحال فاروق اعظم واپس لوٹ آئے رات بهر عبادت میں صرف کیا پهر صبح ضابطے کے مطابق اس لڑکی کے پاس آدمی بهیجا اور طلب کیا اور کہا اللہ تجهے جزائے خیر عطا فرمائے تو نے مجهے متنبہ کیا، لیکن بحیثیت امیرالمومنین پوچهتا ہوں وه گانا بجانا کیسا تها؟
لڑکی نے جواب دیا میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور بهرپور جوانی ہے، پندرہ روز پہلے شادی ہوئی میرا خاوند بهی جوان تها آپ نے اسے ایک محاذ محاذ پر بهیج دیا، میں اسکے فراق میں عاشقانہ اشعار پڑھ رہی تهی، میں نہ بدکارہوں نہ زانیہ.
فاروق اعظم نےاطمینان کی سانس لیا اور اسے عزت کیساتھ رخصت کیا، واپس اپنی بیوی کے پاس آئے اور بولے اگر نوجوان لڑکی کی شادی ہو اور خاوند بهی نوجوان ہو اور دونوں میں جدائی ہو جائے وه کتنے دن تک صبر کرسکتے ہیں کہ اسکے بعد بدکاری کا اندیشہ نہ ہو؟
بیوی نے کہا 3 ماه، یہ الگ بات ہے کہ اسکا دین مضبوط ہو، اس میں حیا ہو اپنے اخلاق کیوجہ سے برسہا برس بلکہ عمر گزار دے.
یہ سن کر عمر فاروق نے سرکاری فرمان جاری کیا کہ جن شادی شده جوانوں کو جنگ پر بهیجا گیا انهیں تین ماه کے اندر واپس کیا جائے انکی جگہ دوسرے سپاہی بهیجے جائیں.
یہ ہےاسلام میں خواتین کی عزت کہ ایک عورت کی وجہ سے ایک نظام مرتب ہوگیا.
بهائیو!
دین کی حفاظت کرو تم محفوظ رہو گے، اسلام مخالف لاکھ قوانین بنائے جائیں اگر ہم خود اپنے دین پر کاربند رہے اور اپنے مذہبی معاملات کو شریعت کی روشنی میں حل کراتے رہے توہم کسی سازش کا شکار نہیں ہوسکتے .
آئیے!
ہم سب ایک اچھی پاکیزہ اور پروقار زندگی گزارنے کا عہد کریں اور برادران وطن میں پهیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش بهی کریں، ملک میں امن وأمان کے قیام اور خوب ترقی کی دعا بهی مانگیں.