اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مولانا محمد ایوب اصلاحی کا سانحہ ارتحال...

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 1 July 2018

مولانا محمد ایوب اصلاحی کا سانحہ ارتحال...

1928 تا 2018 

از: مولانا محمد طاهر مدنی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مدرسة الإصلاح سرائے میر کے قدیم استاذ مولانا محمد ایوب اصلاحی کل 2 بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کی خدمات کو قبول کرے. مرحوم اعظم گڑھ کے مشہور گاؤں کونرہ گھنی کے رہنے والے تھے، ادھر ایک عرصے سے صاحب فراش تھے اور دہلی میں اپنے صاحبزادے جناب ابو طلحہ اصلاحی کے پاس رہتے تھے جنہوں نے ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی. مرحوم کی ولادت 1928 میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی، اس کے بعد 1940 کے اواخر میں مدرسہ اصلاح کے مکتب میں داخل ہوگئے اور 1951 میں فارغ ہوئے، ان کے ساتھ فارغ ہونے والے مولانا شہباز اصلاحی مرحوم تھے جنہوں نے مدرسہ اصلاح، جامعة الفلاح اور دار العلوم ندوة العلماء میں تدریسی خدمات انجام دی.
مرحوم نے جس زمانے میں مدرسہ اصلاح سے استفادہ کیا وہ انتہائی فاضل اساتذہ کا دور تھا، مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی، مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا داؤد اکبر اصلاحی، مولانا ابو بکر اصلاحی، مولانا مشتاق احمد اصلاحی، مولانا قمر الزماں اصلاحی اور مولانا مصطفی ندوی علیہم الرحمہ جیسے اساطین مسند تدریس پر جلوہ افروز تھے. اس دور میں اساتذہ و طلبہ کے درمیان بہت گہرا ربط تھا اور ادارے کی فضا خالص علمی و روحانی تھی. مولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ جیسے شیدائے قرآن اور نمونہ سلف کی سرپرستی و سربراہی نے پوری فضا کو نورانی بنا رکھا تھا. ایک اتفاق کی بات یہ ہے کہ والد محترم مولانا صغیر احسن اصلاحی علیہ الرحمہ کی ڈائری میں یہ بات درج ہے کہ 1958 میں مولانا اختر احسن اصلاحی کا انتقال ہوا اور نماز جنازہ والد محترم نے پڑھائی اور مدرسے کے قریب قبرستان میں تدفین ہوئی، میرا سن پیدائش بھی 1958 ہی ہے.
مولانا محمد ایوب اصلاحی مرحوم فراغت کے بعد ہی مدرسے سے وابستہ ہوگئے اور تدریس و تربیت کا کام انجام دینے لگے. یہ وابستگی 2011 تک قائم رہی، بہت طویل عرصہ، 10 سال بحیثیت طالب علم اور 60 سال مربی و استاذ کی حیثیت سے....  پورے 70 برس کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں.
میں 1973 میں عربی سوم میں داخل ہوا، مرحوم اس وقت عربی اول اور دوم میں گھنٹیاں لیتے تھے، اس لیے براہ راست استفادے کا موقع نہیں ملا، تاہم ان کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی ندوی حفظہ اللہ سے عربی پنجم میں دیوان الحماسة پڑھنے کا موقع ملا، دوسرے صاحب زادے برادرم راشد ایوب اصلاحی میرے سینئر تھے.  بعد میں مرحوم نے تفسیر اور ادب کا درس ایک عرصے تک اوپر درجات کے طلبہ کو دیا اور شاگردوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو مستفید کیا. مرحوم کے اندر بڑی سادگی اور قناعت تھی اور انتہائی جانفشانی کے ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا. گفتگو بہت دلکش کرتے تھے، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی فارسی آمیز اردو، مزاج میں خشکی نہیں تھی، اس لیے مجلس پر کشش ہوتی تھی. میرے والد محترم 1949 میں فارغ ہوئے تھے، مولانا سے کچھ سینئر تھے، میرے ساتھ مولانا بڑا مشفقانہ سلوک کرتے تھے، بہترین مدرس، کامیاب مربی، اچھے خطیب کے ساتھ عمدہ صاحب قلم بھی تھے، اچھا ادبی ذوق تھا اس لیے تحریر دلکش و دلپذیر ہوتی تھی، کم لکھا لیکن جو کچھ لکھا وہ بہت خوب ہے، ان کے لائق صاحب زادے جناب ابو طلحہ اصلاحی جو البلاغ پبلیکیشنز دہلی بہت کامیابی سے چلا رہے ہیں، ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں کہ؛ متاع قلم؛ کے نام سے مرحوم کے ادب پاروں، شذرات اور مضامین کو شائع کردیا ہے، اس کا دوسرا ایڈیشن 2017 میں شائع ہوا جو 462 صفحات پر مشتمل ہے، ڈاکٹر عبد الباری شبنم سبحانی مرحوم کا گرانقدر مقدمہ بھی اس کی زینت ہے.
سہ ماہی نظام القرآن کے شذرات میں مرحوم حالات حاضرہ پر بہت جامع تبصرہ کرتے تھے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ ملکی و عالمی حالات پر بہت گہری تھی. ادبی ذوق بہت عالی تھا، مجموعہ میں ادبی نگارشات بھی شامل ہیں، شاعری کا بھی نمونہ ہے. مرحوم تحریک اسلامی کے بہت قدر دان تھے.
ادارے سے 70 سالہ وابستگی کے بعد جب 2011 میں مفارقت کا زخم جھیلا تو دل کے جذبات کی عکاسی بشکل اشعار کی، یہ نظم؛ صبح نو تا شام غم؛ کے نام سے مجموعہ کے آخر میں شامل ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں؛
کھلی جو آنکھ تو صبح حسیں تھی محو خرام
کرن کرن میں تھی ڈوبی ہوئی وہ خوش اندام
گلے سے لگ کے وہ ایسے لپٹ گئی مجھ سے....
حیات پاکے مجھے جوں چمٹ گئی مجھ سے
گماں تھا شمع فروزاں رہے گی تا بہ ابد.....
حیات یوں ہی درخشاں رہے گی تا بہ ابد
ہر ایک صبح کی ہوتی ہے شام، شام غم
خزاں بہار کو چھوتی ہو جیسے آخر دم
مرے حسین تھے لمحات، مسکراتے ہوئے
چلے ادب سے بہت، ہاتھ کو ہلاتے ہوئے
مری حیات اندھیروں کے اب حصار میں ہے
سرور و کیف کی منزل کہیں غبار میں ہے...
طویل وابستگی، قلبی لگاؤ اور بے پناہ محبت کے بعد جدائی کا جو غم ہوتا ہے، وہ اس نظم میں بہت موثر اور محسوس شکل میں جہلک رہا ہے، شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی واردات قلبی کو قارئین کا احساس بنا دیتا ہے، یہ فن پوری کامیابی کے ساتھ اس نظم میں جلوہ گر ہے.
مولانا محمد ایوب اصلاحی صاحب عمر عزیز کے 90 برس گزار کر کل 30 جون 2018 کو اس جہان فانی سے چلے گئے، آج یکم جولائی کو بعد نماز ظہر 2 بجے آبائی گاؤں کونرہ گہنی میں تدفین ہوئی. اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، عظیم خدمات کو قبول کرے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین