اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مولانا عبداللہ کاپودروی کا طویل علالت کے بعد انتقال، جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول کے بانی و مہتمم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کا اظہار تعزیت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 11 July 2018

مولانا عبداللہ کاپودروی کا طویل علالت کے بعد انتقال، جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول کے بانی و مہتمم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کا اظہار تعزیت!

نئی دہلی(آئی این اے نیوز 11/جولائی 2018) مشہور عالم دین ودارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات کے رئیس مولانا عبداللہ کاپودروی کا آج طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا،وہ 85 برس کے تھے۔ پسماندگان میں پانچ بیٹی اور ۷بیٹیاں ہیں۔ان کے سانحہ ارتحال کو علمی ودینی حلقوں کیلئے سانحہ عظیم قراردیتے ہوئے جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول کے بانی و مہتمم مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے کہاکہ مولانا کاپودروی کی  دینی،اصلاحی اور دعوتی خدمات کا دائرہ کئی دہائی پر محیط ہے اور اس وقت پوری دنیا میں انکے شاگر دپھیلے ہوئے ہیں۔
اپنے قدیم و دیرینہ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مولانا اپنے اسلاف کے نقش قدم چلتے ہوئے عظیم کارنامے انجام دیے اورآخری سانس تک دین کی خدمت ان کے مقدر تھی۔دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
انہوں نے کہاکہ مولانا عبداللہ کاپودروی کی علمی لیاقت و صلاحیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ’’دیوان الامام الشافعی‘‘ جیسی معرکۃ الآرا کتاب جو ہندوستان کے متعدد مدارس میں شامل نصاب ہے، کا اردو ترجمہ کیا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ اس سے قبل نہیں ہواتھا جس کی وجہ سے اردو داں طبقہ امام شافعیؒ کے اشعار کو سمجھنے سے قاصر تھا، ان اشعار کی معنویت و افادیت سے پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتے تھے۔ مولانا نے اس کمی کو دور کرکے اردو داں کے لئے یہ احسان عظیم کیا ہے اس ترجمہ کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے کہ شروع میں حضرت مولانا نے الامام الشافعیؒ کے حالات زندگی کو بھی شامل کتاب فرمایا ہے۔
مفتی عثمانی نےکہاکہ مولانا عبداللہ کاپودروی ہم عصر گجراتی علماء میں علمی ذوق، تصنیف و تالیف کے مذاق، تاریخ و سیر کے گہرے مطالعہ اور عربی زبان و ادب سے بے پایاں شغف کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ مولانا نے دارالعلوم فلاح دارین، ترکیسر گجرات کو اپنی علمی، تعلیمی،تربیتی اور انتظامی لیاقت کے سبب گجرات ہی نہیں ہندوستان کے بہترین مدارس کی صف میں لا کھڑا کیا۔۔ دو جلدوں میں صدائے دل، افکار پریشاں قابل ذکر تصانیف ہیں۔یقینا یہ وہ کارنامے اورعلمی خدمات ہیںجنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔مفتی عثمانی نے  مولاناکے صاحبزادےمولانا اسماعیل عبداللہ سے تعزیت  کا اظہار کرتے ہوئے اپنے روابط اور ان کی علمی خدمات کا ذکر کیا۔انہوں نے کہاکہ بلاشبہ مولانا مرحوم کو دیکھ کرعلماء حق کی یاد تازہ ہو جاتی تھی،ایسی شخصیت کا سانحہ ارتحال پوری علمی دنیا  ناقبال تلافی نقصان ہے، دُعا کی کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو جواررحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو یہ صدمہ وصبر و استقامت سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔  حضرت مولاناکے انتقال کی جانکاہ اطلاع ملتے ہی جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ میں ایصال و ثواب کے لئے ’دعائیہ مجلس کا اہتما کیا گیا جس میں اساتذہ اور طلبہ نے قرآن پاک کی تلاوت اورآپ کے بلندیہ درجات کے لئے دعائیں کی گئیں۔   
واضح رہےکہ  مولانا عبداللہ اسماعیل حسین کاپودروی کی ولادت۱۹۳۳ء؁ میں رنگون (برما) میں ہوئی۔۱۹۳۷ء؁ میں اپنے والد کے ہمراہ ہندوستان آگئے اس کے بعد ابتدائی تعلیم کا آغازآبائی گائوں کاپودرا میں ہی حافظ ابراہیم کے پاس ہوا۔ ۱۹۴۴ء؁ میں جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں داخل ہوئے۔ یہاں انہوں نے عربی دوم تک کی کتابیں مولانا عبدالحئی بسم اللہ اور صوفی محمد ابراہیم سے پڑھیں۔ ۱۹۴۹ء؁ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ آپ نے دارالعلوم میں متوسطات کی تعلیم حضرت مولانا نصیر احمد خاں، حضرت مولانا معراج الحق، حضرت مولانا عبدالجبار اعظمی اور حضرت مولانا عبدالرحمن رحھم اللہ سے حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند سے۱۹۵۳ء؁ میں فراغت حاصل کرنے کے بعد دوبارہ ۱۹۵۹ء؁ میں دیوبند گئے اور مولانا فخرالدینؒ احمد مرادآبادی سے حدیث شریف کا درس لیا۔ فراغت کے بعد ۱۹۶۱ء؁ سے ۱۹۶۵ء؁ تک گجرات کے مشہور مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل میں درس و تدریس کا فرریضہ انجام دیا۔ ۱۹۶۵ء؁ میں دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر سورت کے مہتمم بنائے گئے۔ یہاں آپ نے تقریباً ۲۷؍سالوں تک درس و تدریس کے فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دینے کے ساتھ تصنیف و تالیف کے کام میں بھی مشغول رہے۔ اس دوران مدرسہ کے انتظامی امور کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ دعوتی فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ دعوتی فریضہ کو مزید عام کرنے کیلئے آپ نے ہندوستان کو خیرآباد کہہ دیا اور ۱۹۹۴ء؁ میں کنیڈا تشریف لے گئے۔
آپ کا اصلاحی تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے رہا۔ مگر بیعت کی اجازت حضرت مولانا مفتی احمد صاحب خانپوری اور حاجی فاروق سکھڑوی اور حضرت مولانا نعیم اللہ صدیقی نقشبندی سے ملی۔