پٹنہ(آئی این اے نیوز 11/جولائی 2018) عالمی شہرت یافتہ عالم اور مشہور تعلیمی و تربیتی ادارہ دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات کے شیخ الجامعہ حضرت مولانا عبداللہ کاپودروی کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا،
اس حادثے کی خبر سنتے ہی ملک بھر کے اہل علم و فکرکے حلقے میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے، ان کی وفات کی خبر ملتے ہی راقم الحروف نے اپنے قلبی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مولاناکے پسماندگان سے رابطہ کرکے اظہار تعزیت کیا اور صبر و استقامت کی تلقین کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کاپودروی موجودہ وقت میں اس ملک کے مقبول و معتبراور بالغ نظر عالم دین تھے،ایک طویل عرصے تک وہ گجرات کے مرکزی ادارہ دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر کے سربراہ رہے اور ملک و بیرون ملک میں ان کے ہزاروں شاگرد پھیلے ہوئے ہیں جومختلف شعبوں میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، مولانا کاپودروی علماء ودانشوران کے حلقے میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اورانہوں نے ملک کے مختلف نمائندہ تعلیمی اداروں اور رفاہی و فلاحی تنظیموں کے باہمی اختلافات کو دورکرنے میں بھی نمایاں اور اہم رول اداکیا۔ ان کی شخصیت مسلمانوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں تھی ، ان کا انتقال یقیناًتمام مسلمانوں کا عظیم خسارہ ہے، مولانا مرحوم ومغفورکے مجھ سے ذاتی تعلقات تھے اور مختلف ملی وملکی مسائل ومعاملات پر ان سے مشورہ اور تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہتا تھا،جس سے مجھے تقویت ملتی تھی ،میں جب بھی گجرات جاتا تو ان سے ملاقات و زیارت کی سعادت حاصل کرتا تھا، بارہاان کے ساتھ سفر بھی ہوا،ان کی گفتگومیں علمیت اور مسلمانوں کے تئیں فکرمندی کے جذبات پائے جاتے تھے ،مولانامرحوم قومی و عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے اور مسلمانوں کے تعلق سے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔اخلاقی اعتبار سے بھی وہ ایک عظیم انسان تھے اور ہمیشہ خلوص و ہمدردی کے ساتھ پیش آتے تھے۔انہوں نے مجھے قومی سیاست میں حصہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے کئی بار کہاکہ موجودہ حالات میں آپ کا سیاست میں حصہ لینا ضروری ہے اور یہ بھی عبادت کی طرح ہے۔ ہندوستان کے بیشتر بڑے تعلیمی،ملی و رفاہی اداروں کو ان کی توجہات حاصل تھیں اور وہ ہر ادارے کی رہنمائی فرمایاکرتے تھے۔حضرت مرحوم کی ایک خاص عادت یہ بھی تھی کہ وہ نوجوان اور نئے فضلا کی حوصلہ افزائی کرتے اور مفید علمی و دینی خدمات کی طرف ان کی رہنمائی کرنے میں غیر معمولی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے تھے،خاص طورپردیہاتوں میں تعلیمی ادارہ چلانے والے علماء کا ہرممکن تعاون فرماتے تھے۔گجرات اور ہندوستان وبیرون ہند مدارس و مکاتب کا جال پھیلانے اور دینی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنے میں انہوں نے غیر معمولی کردار اداکیا،جس کا یقیناًانھیں بے پنایہ اجرملے گا۔(ان شاء اللہ) موجودہ قحط الرجال کے زمانے میں ان کی شخصیت مسلمانوں کے لیے نہایت قیمتی تھی اوران کی وفات ایک عظیم سانحہ سے کم نہیں ہے، ان کی وفات سے امت مسلمہ ایک قدآورو نمونۂ اسلاف علمی شخصیت اور مختلف محاذپر مسلمانوں کی بروقت رہنمائی کرنے والے مخلص قائد سے محروم ہوگئی ہے۔ مولانا کاپودروی بلاشبہ عارف باللہ،ولیِ کامل اوراپنی ذات میں انجمن تھے اور تمام عوام و خواص میں محبوبیت اور عزت و عظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے،اللہ تعالیٰ انھیں آخرت میں ہر طرح کی عزت و عظمت سے سرفراز فرمائے (آمین)۔ سرزمین ہند علم و عمل اور اعلی اخلاق کی حامل شخصیات سے دن بدن خالی ہوتی جارہی ہے ،جو ہمارے لیے یقیناً افسوس اوردلی تکلیف کا سبب ہے۔ بلا شبہ مولانا مرحوم ایک جلیل القدر عالم ،عالی دماغ مفکر،خداکا خوف رکھنے والے بزرگ اور رجال ساز صلاحیتوں کے مالک معلم ومربی تھے،ان کی تواضع ، سادگی، علم دوستی ، معاملہ فہمی،خوردنوازی اور بے جاتکلفات و تصنعات سے گریزکی وجہ سے ان سے جوملتا ،پہلی بار میں ہی ان کا گرویدہ ہوجاتا تھااور ان کے حسن اخلاق ومشفقانہ برتاؤ کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ان سے ملنے والا امیر ہویاغریب سب کے ساتھ ملنساری اور محبت سے پیش آتے تھے۔ انتقال کے وقت مولانا کاپودروی کی عمر پچاسی سال تھی، انہوں نے 1955میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت مکمل کیا، مختلف موضوعات پر ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں ہیں، دنیاکے مختلف ملکوں کے سیکڑوں علمی و دعوتی اسفار کیے اوران کے ہزاروں شاگرد مختلف ملکوں میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، حضرت کے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں۔
اس حادثے کی خبر سنتے ہی ملک بھر کے اہل علم و فکرکے حلقے میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے، ان کی وفات کی خبر ملتے ہی راقم الحروف نے اپنے قلبی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مولاناکے پسماندگان سے رابطہ کرکے اظہار تعزیت کیا اور صبر و استقامت کی تلقین کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کاپودروی موجودہ وقت میں اس ملک کے مقبول و معتبراور بالغ نظر عالم دین تھے،ایک طویل عرصے تک وہ گجرات کے مرکزی ادارہ دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر کے سربراہ رہے اور ملک و بیرون ملک میں ان کے ہزاروں شاگرد پھیلے ہوئے ہیں جومختلف شعبوں میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، مولانا کاپودروی علماء ودانشوران کے حلقے میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اورانہوں نے ملک کے مختلف نمائندہ تعلیمی اداروں اور رفاہی و فلاحی تنظیموں کے باہمی اختلافات کو دورکرنے میں بھی نمایاں اور اہم رول اداکیا۔ ان کی شخصیت مسلمانوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں تھی ، ان کا انتقال یقیناًتمام مسلمانوں کا عظیم خسارہ ہے، مولانا مرحوم ومغفورکے مجھ سے ذاتی تعلقات تھے اور مختلف ملی وملکی مسائل ومعاملات پر ان سے مشورہ اور تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہتا تھا،جس سے مجھے تقویت ملتی تھی ،میں جب بھی گجرات جاتا تو ان سے ملاقات و زیارت کی سعادت حاصل کرتا تھا، بارہاان کے ساتھ سفر بھی ہوا،ان کی گفتگومیں علمیت اور مسلمانوں کے تئیں فکرمندی کے جذبات پائے جاتے تھے ،مولانامرحوم قومی و عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے اور مسلمانوں کے تعلق سے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔اخلاقی اعتبار سے بھی وہ ایک عظیم انسان تھے اور ہمیشہ خلوص و ہمدردی کے ساتھ پیش آتے تھے۔انہوں نے مجھے قومی سیاست میں حصہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے کئی بار کہاکہ موجودہ حالات میں آپ کا سیاست میں حصہ لینا ضروری ہے اور یہ بھی عبادت کی طرح ہے۔ ہندوستان کے بیشتر بڑے تعلیمی،ملی و رفاہی اداروں کو ان کی توجہات حاصل تھیں اور وہ ہر ادارے کی رہنمائی فرمایاکرتے تھے۔حضرت مرحوم کی ایک خاص عادت یہ بھی تھی کہ وہ نوجوان اور نئے فضلا کی حوصلہ افزائی کرتے اور مفید علمی و دینی خدمات کی طرف ان کی رہنمائی کرنے میں غیر معمولی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے تھے،خاص طورپردیہاتوں میں تعلیمی ادارہ چلانے والے علماء کا ہرممکن تعاون فرماتے تھے۔گجرات اور ہندوستان وبیرون ہند مدارس و مکاتب کا جال پھیلانے اور دینی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنے میں انہوں نے غیر معمولی کردار اداکیا،جس کا یقیناًانھیں بے پنایہ اجرملے گا۔(ان شاء اللہ) موجودہ قحط الرجال کے زمانے میں ان کی شخصیت مسلمانوں کے لیے نہایت قیمتی تھی اوران کی وفات ایک عظیم سانحہ سے کم نہیں ہے، ان کی وفات سے امت مسلمہ ایک قدآورو نمونۂ اسلاف علمی شخصیت اور مختلف محاذپر مسلمانوں کی بروقت رہنمائی کرنے والے مخلص قائد سے محروم ہوگئی ہے۔ مولانا کاپودروی بلاشبہ عارف باللہ،ولیِ کامل اوراپنی ذات میں انجمن تھے اور تمام عوام و خواص میں محبوبیت اور عزت و عظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے،اللہ تعالیٰ انھیں آخرت میں ہر طرح کی عزت و عظمت سے سرفراز فرمائے (آمین)۔ سرزمین ہند علم و عمل اور اعلی اخلاق کی حامل شخصیات سے دن بدن خالی ہوتی جارہی ہے ،جو ہمارے لیے یقیناً افسوس اوردلی تکلیف کا سبب ہے۔ بلا شبہ مولانا مرحوم ایک جلیل القدر عالم ،عالی دماغ مفکر،خداکا خوف رکھنے والے بزرگ اور رجال ساز صلاحیتوں کے مالک معلم ومربی تھے،ان کی تواضع ، سادگی، علم دوستی ، معاملہ فہمی،خوردنوازی اور بے جاتکلفات و تصنعات سے گریزکی وجہ سے ان سے جوملتا ،پہلی بار میں ہی ان کا گرویدہ ہوجاتا تھااور ان کے حسن اخلاق ومشفقانہ برتاؤ کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ان سے ملنے والا امیر ہویاغریب سب کے ساتھ ملنساری اور محبت سے پیش آتے تھے۔ انتقال کے وقت مولانا کاپودروی کی عمر پچاسی سال تھی، انہوں نے 1955میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت مکمل کیا، مختلف موضوعات پر ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں ہیں، دنیاکے مختلف ملکوں کے سیکڑوں علمی و دعوتی اسفار کیے اوران کے ہزاروں شاگرد مختلف ملکوں میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، حضرت کے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں۔