نئی دہلی (آئی این اے نیوز 4/جولائی 2018) آرٹ آف لونگ کے ڈائریکٹر اور بابری مسجد رام جنم بھومی قضیہ میں گرودیو شری شری روی شنکر کی طرف سے مقرر کردہ نمائندے گوتم وگ نے ’روزنامہ خبریں‘ سے بات کرتے ہوئے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ شری شری روی شنکر مرکزی حکومت یا کسی بھی ہندو مذہبی جماعت کے آلۂ کار کے طور پر بابری مسجد رام جنم بھومی قضیہ کو عدالت کے باہر حل کرنے کے لئے دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ شری شری روی شنکر پر یہ الزام کئی دہائیوں پر محیط ان کی عالمی امن کی کوششوں سے انحراف ہے، گوتم وگ نے کہا کہ صرف ہندوستان ہی میں نہیں بیرون ملک میں بھی امن کی کوشش کے لئے ان کو متعدد اعزازات سے سرفراز کیا جا چکا ہے،
انہوں نے کہا کہ تاریخی حقائق پر تنقید کے پتھر نہیں مارے جاتے، شری شری روی شنکر کی ابتدا ہی سے کوشش رہی ہے اور ان کا یہی پیغام ہے کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے لوگ اتحاد باہمی کے ساتھ رہیں تاکہ ہندوستان ایک خوشحال ملک بننے کے ساتھ عالمی سطح پر بھی اس کے وقار میں اضافہ ہو، انہوں نے کہا کہ ملک کی سالمیت بقائے باہمی اور فرقہ روانہ ہم آہنگی ہی میں پوشیدہ ہے، لہٰذا شری شری روی شنکر کی بابری مسجد قضیہ کو بات چیت کے حل کی کوششوں کو اسی زاویہ اور نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے، ان کی نیت پر شک کرنا حقائق سے انحراف ہے، گوتم وگ نے کہا کہ گرو دیو نے ہندوستان کو ہمیشہ ایک خوبصورت دلہن سے تعبیر کرتے ہوئے ہندو مسلمانوں کو اس کی دو آنکھیں قرار دیا ہے، لیکن کچھ لوگ شری شری روی شنکر کی امن اور مصالحت کی کوششوں کو غیر ضروری معنیٰ دے رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ سماج کی اصلاح، امن اور فرقہ وارانہ یکجہتی کی بات انسان اپنے ضمیر کی آواز پر کرتا ہے، اس کے لئے کسی کے آلۂ کار بننے کی ضرورت نہیں ہے.
یاد رہے کہ وشو ہندو پریشد کے نائب صدر چمپت رائے بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ گرودیو شری شری روی شنکر بابری مسجد تنازع کے حل کے لئے دونوں فریقوں سے بات چیت اپنی صوابدید پر یا کچھ مسلمانوں کے کہنے پر کر رہے ہیں، اس میں یہ کہنا کہ وہ کسی کے کہنے پر ایسا کر رہے ہیں بے بنیاد الزام ہے.
آرٹ آف لونگ کے ڈائریکٹر گوتم وگ نے کہا کہ باہمی دست و گریباں ہونے کے مقابلہ اگر کسی مسئلہ کا حل بات چیت سے نکل آئے تو اس میں مضائقہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ بات چیت ہر مسئلہ کا حل ہے جب گفتگو بند ہوتی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں، نفرتیں بڑھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہونے والی تباہ کن جنگوں کا حل بھی گفتگو کے ذریعہ ہی نکلا۔ انہوں نے کہا کہ شام کے مسئلہ پر بھی شری شری کے بیان کو غلط انداز سے پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مشن عالمی امن اور بھائی چارہ کا فروغ ہے اور ہماری ہر کوشش اسی سے منسلک ہے۔ ہم چاہتے ہیںکہ ہندو مسلمانوں کے درمیان اگر کبھی کسی غلط فہمی کی بنیاد پر دوریاں ہیں تو انہیں ختم کیا جائے، انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی خوشحالی کے لئے بھی ضروری ہے، گوتم وگ نے کہا کہ کچھ لوگوں کے ذریعہ الزامات لگانے سے امن کی کوششوں کا سفررکے گا نہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ دشوار گزار راستہ ہے لیکن ہم مایوس نہیں ہیں، ماب لنچنگ کے واقعات پر گوتم وگ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شری شری نے ان واقعات پر افسوس کااظہارکرتے ہوئے تمام مذاہب کے لوگوںکو ساتھ بیٹھ کر غلط فہمیاں دور کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن اخبارات میں اس قسم کی مثبت خبریں جگہ کم ہی پاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرمسئلہ کا حل باہمی گفتگو میں ہے اور گفتگو سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ماہ قبل امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی میں بھی گرو دیو نے ہندوستانی نژاد امریکی فرینک اسلام سے ملاقات کی تھی، انہوں نے بھی شری شری روی شنکر کی امن کے تعلق سے کوششوں کو سراہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تاریخی حقائق پر تنقید کے پتھر نہیں مارے جاتے، شری شری روی شنکر کی ابتدا ہی سے کوشش رہی ہے اور ان کا یہی پیغام ہے کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے لوگ اتحاد باہمی کے ساتھ رہیں تاکہ ہندوستان ایک خوشحال ملک بننے کے ساتھ عالمی سطح پر بھی اس کے وقار میں اضافہ ہو، انہوں نے کہا کہ ملک کی سالمیت بقائے باہمی اور فرقہ روانہ ہم آہنگی ہی میں پوشیدہ ہے، لہٰذا شری شری روی شنکر کی بابری مسجد قضیہ کو بات چیت کے حل کی کوششوں کو اسی زاویہ اور نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے، ان کی نیت پر شک کرنا حقائق سے انحراف ہے، گوتم وگ نے کہا کہ گرو دیو نے ہندوستان کو ہمیشہ ایک خوبصورت دلہن سے تعبیر کرتے ہوئے ہندو مسلمانوں کو اس کی دو آنکھیں قرار دیا ہے، لیکن کچھ لوگ شری شری روی شنکر کی امن اور مصالحت کی کوششوں کو غیر ضروری معنیٰ دے رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ سماج کی اصلاح، امن اور فرقہ وارانہ یکجہتی کی بات انسان اپنے ضمیر کی آواز پر کرتا ہے، اس کے لئے کسی کے آلۂ کار بننے کی ضرورت نہیں ہے.
یاد رہے کہ وشو ہندو پریشد کے نائب صدر چمپت رائے بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ گرودیو شری شری روی شنکر بابری مسجد تنازع کے حل کے لئے دونوں فریقوں سے بات چیت اپنی صوابدید پر یا کچھ مسلمانوں کے کہنے پر کر رہے ہیں، اس میں یہ کہنا کہ وہ کسی کے کہنے پر ایسا کر رہے ہیں بے بنیاد الزام ہے.
آرٹ آف لونگ کے ڈائریکٹر گوتم وگ نے کہا کہ باہمی دست و گریباں ہونے کے مقابلہ اگر کسی مسئلہ کا حل بات چیت سے نکل آئے تو اس میں مضائقہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ بات چیت ہر مسئلہ کا حل ہے جب گفتگو بند ہوتی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں، نفرتیں بڑھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہونے والی تباہ کن جنگوں کا حل بھی گفتگو کے ذریعہ ہی نکلا۔ انہوں نے کہا کہ شام کے مسئلہ پر بھی شری شری کے بیان کو غلط انداز سے پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مشن عالمی امن اور بھائی چارہ کا فروغ ہے اور ہماری ہر کوشش اسی سے منسلک ہے۔ ہم چاہتے ہیںکہ ہندو مسلمانوں کے درمیان اگر کبھی کسی غلط فہمی کی بنیاد پر دوریاں ہیں تو انہیں ختم کیا جائے، انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی خوشحالی کے لئے بھی ضروری ہے، گوتم وگ نے کہا کہ کچھ لوگوں کے ذریعہ الزامات لگانے سے امن کی کوششوں کا سفررکے گا نہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ دشوار گزار راستہ ہے لیکن ہم مایوس نہیں ہیں، ماب لنچنگ کے واقعات پر گوتم وگ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شری شری نے ان واقعات پر افسوس کااظہارکرتے ہوئے تمام مذاہب کے لوگوںکو ساتھ بیٹھ کر غلط فہمیاں دور کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن اخبارات میں اس قسم کی مثبت خبریں جگہ کم ہی پاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرمسئلہ کا حل باہمی گفتگو میں ہے اور گفتگو سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ماہ قبل امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی میں بھی گرو دیو نے ہندوستانی نژاد امریکی فرینک اسلام سے ملاقات کی تھی، انہوں نے بھی شری شری روی شنکر کی امن کے تعلق سے کوششوں کو سراہا تھا۔