اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: شاعر بسمل اعظمی ایک تعارف!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 22 July 2018

شاعر بسمل اعظمی ایک تعارف!

ترتیب و پیشکش: عاصم طاہر اعظمی

               نذرِ بسمل

بھرم فلک کی بلندیوں کا زمیں پہ تیری نثار ہوگا
کہ تیرا ذرّہ بھی کائناتِ نظر میں صد افتخار ہوگا
ادب کی یہ محفلیں کہ جن کو ہے تیرے فیضِ نظر سے نسبت
یہاں کی مٹی کا ذرہ ذرہ ترا ہی فیضان کار ہوگا
یہ شہر ترا، تِری محبت کی روشنی سے رہے گا روشن
تِری عقیدت کا نور ہر ہر قدم یہاں آشکار ہوگا

                         نعمان امام
خالقِ کائنات نے، کائنات کی تکمیل میں اپنی خلاقی کے بہت سے نمونے چھوڑے ہیں 18 ہزار مخلوقات میں کم و بیش چرند، پرند حیوانات، انسان اور جن، سب کے مشاہدے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خالقِ کائنات نے ہر کسی کو فطرت اور ہیئت کے اعتبار سے مختلف پیدا کیا ہے انسان اپنے اعضا و جوارح کے اعتبار سے بھی کہیں کہیں مختلف دکھائی دیتا ہے، اور یہ ساری خوبیاں اس کی خلاقی کا مظہر ہے مختلف علاقوں میں جس طرح مختلف رنگت کے انسان ہیں اسی طرح ان سوچ و فکر طبیعت اور خواہش ایک دوسرے سے یکساں نہیں رہتی ہیں بسمل اعظمی بھی اسی اعتبار سے اپنی فکر و سوچ پسند اور ناپسند میں بہت سارے انسانوں سے مختلف ہیں.
شاعر محمد ایوب اعظمی بسمل کی پیدائش یکم جولائی 1946ء کو موضع اساڑھا ڈاک خانہ ننداؤں، سرائے میر اعظم گڑھ میں ہوئی، اسکولی تعلیم اساڑھا ضلع اعظم گڑھ میں مکمل کرنے کے بعد 1972ء میں شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے  *بی_اے* *بی_ایڈ* کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد تلاشِ معاش کے لیے عروس البلاد ممبئی کا رخ کیا، حسنِ اتفاق 6/جولائی 1972ء کو انجمن خیرالاسلام ہائی اسکول کی کرلا شاخ میں بحیثیت معلم تقرر ہوا، اسی دوران ممبئی یونیورسٹی سے *ایم_اے*(اردو فارسی) کی سند حاصل کی، انجمن خیرالاسلام ہائی اسکول کی مختلف شاخوں میں معلم کے فرائض انجام دیتے ہوئے 1996ء میں صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے اور 2004 میں کرلا شاخ سے ہی وظیفہ یاب ہوئے، پہلے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے اسٹڈی سینٹر انجمن خیرالاسلام کرلا (ممبئی) میں کوآرڈی نیٹر اور 2006 سے گوونڈی (ممبئی)
اسٹڈی سینٹر میں کوآرڈی نیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں،
جہاں *بی_اے* اور *ایم _اے*
کے طلبا کے لیے خصوصی کلاسیز لیے جاتے ہیں

تخلیقات بسمل اعظمی

(1) رقصِ بسمل 
شعری مجموعہ
مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی سے انعام یافتہ
پہلا ایڈیشن 2002
دوسرا ایڈیشن 2013

(2) گُزر گاہِ خیال 2005
شعری مجموعہ، اتر پردیش اردو اکیڈمی سے انعام یافتہ

(3) کِشتِ دل  2010
شعری مجموعہ

(4) مضامین بسمل 2013
مضامین کا مجموعہ
N.C.P.U.L
نیشنل کونسل آف پرمیشن اردو لینگویج نے اس کتاب کی 100 کاپیاں خریدیں
*بسمل اعظمی*
کی شخصیت اور شاعری کو ڈاکٹر رشید اشرف خان نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا جس پر انہیں وکرم یونیورسٹی اجین (مدھیہ پردیش) نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی،
فخر کی بات ہے کہ سال 2017 میں ان کو پورے ہندوستان میں اردو یوا کا ایوارڈ ملا
اسی طرح
گزر گاہ خیال اور رقص بسمل پر اظفر خان اعظمی نے ممبئی یونیورسٹی سے ایم فِل کیا ہے
جوکہ اس وقت مہاراشٹر کالج میں شعبہ اردو ادب سے منسلک ہیں

*شاعر بسمل اعظمی کے اشعار پر اردو ادب کے نباضوں کے تاثرات*
*(پروفیسر) غلام حسین حملانی* صاحب لکھتے ہیں
محمد ایوب بسمل کے اشعار میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو اچھی شاعری میں ہونی چاہئیں اور خود ان کی طبعی کیفیت اور مزاج میں بھی وہ باتیں موجود ہیں جو ایک اچھے شاعر میں ہونی چاہئیں، وہ اپنے سینے میں ایک حسّاس اور درد مند دل رکھتے ہیں، ان میں ایک پختہ شعور ہے جو انھیں اپنی داخلی کیفیات کے اظہار کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل کے اشعار نہایت ہی مؤثر اور دل کو چھو جانے والے ہوتے ہیں جن میں زبان و بیان کے وہ محاسن  ہیں جو ان کی غزلوں کو تغّزل و ترنّم اور وسعت و بلندی، گہرائی و گیرائی بخشتے ہیں، ان کی شاعری میں زمانے کی تمازت ہے ان کے بدلتے ہوئے رنگ ہیں غمِ دوراں اور غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ دنیا اور اس کے سلوک کا مشاہدہ اور اس کی کڑوی کسیلی سچائیوں کی ترجمانی ہے،
زندگی کی وارداتیں، چھوٹی چھوٹی باتیں ان کی طبعِ نازک کو آسانی سے متاثر کرتی ہیں جو ردّ عمل کے طور پر ان کے اچھے اشعار میں ڈھل جاتی ہیں حالانکہ ان کی شاعری روایتی شاعری کی پابند ہے اور کلاسیکیت سے زیادہ متاثر ہے لیکن ان غزلوں میں عشق اور وارداتِ عشق کے موضوعات کے علاوہ دوسرے موضوعات میں بھی ان کی تنوّع کاری ملتی ہے جن میں مشاہدے کی گہرائی اور تجربے کی تپش بھی دیکھی جا سکتی ہے
*پروفیسر خورشید نعمانی صاحب ممبئی*
 نے اپنے تأثر کو کچھ یوں بیان کیا ہے
اچھی شاعری کی ایک پہچان یہ بھی بتائی گئی ہے کہ اس میں روحِ عصر جلوہ گر ہوتی ہے شاعر اپنے ماحول سے ضرور متاثر ہوتا ہے وہ شامِ غم کا ترجمان بھی ہوتا ہے صبح نو کا نقیب بھی، حیات و موت، زندگی کے مسائل اور انسانی قدر و منازلات اس کے شعری منظر نامے کا جزو لاینفک ہوتے ہیں، اس طرح بسمل کی شاعری میں بھی روحِ عنصر بدرجہء اتم جلوہ گر ہے،
بسمل اپنی شاعری میں اول تا آخر کلاسیکیت کے علمبردار ہیں، مجھے ان کی شاعری میں قوسِ قزع کے ہفت رنگ نظر آتے ہیں،
*ڈاکٹر مظفر احسن اصلاحی صاحب*
کلامِ بسمل پر اپنے تأثر کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کلام بسمل میں جلال اور جمال دونوں کی آمیزش ہے موقع اور موضوع نیز احوال کے تقاضے نے شاعر اور خطیب اپنے اس آہنگ اور لہجے میں فرق کرتے رہے ہیں اور اس طرح کی تبدیلیاں شاعر اور خطیب کی زبان پر قدرت اور لہجہ کی صنعت پر اس کی دسترس کی غماز ہوا کرتی ہیں، اس کے علاوہ ان کے کلام کی گھلاوٹ اور حلاوت ان کے سوزدروں اور شعور پختہ کی دلیل ہوا کرتی ہے اسی طرح جب وہ داخلیت کا اظہار کرتے ہیں تو نہایت مؤثر غزل کے اشعار وارد ہوتے ہیں اور جب وہ غمِ دوراں کو موضوع بناتے ہیں تو کلام سے پختگی اور حکمت کے موتی رولتے ہوئے پائے جاتے ہیں،
*ڈاکٹر ناطق اعظمی صاحب*
بسمل اعظمی کی شاعری پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بسمل اعظمی کی شاعری ایک حد تک روایتی شاعری ہے مگر مگر عصری تقاضوں سے چشم پوشی نہیں کی ہے، ان کی غزلوں میں ایک طرف سوزوگداز کا احساس ہوتا ہے تو دوسری طرف حسن تغزل اور جمالیات کا بھر پور عکس نظر آتا ہے، ان کی شاعری میں غمِ دوراں اور غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ حدیث دلبراں کا بھی پہلو جلوہ گر ہوتا ہے، زندگی کے بارے میں ان کا عقیدہ تصوراتی نہیں بلکہ عاملانہ ہے

*دعا میری یہ ہے تجھ کو کبھی منزل نہ راس آئے*
*کہ ہنگامِ سفر تک ہے وجودِ کارواں ساقی*

*ڈاکٹر شوکت علی صاحب علیگ*
*ایڈیٹر ماہنامہ زادِ سفر ممبئی*
نے بسمل اعظمی کی شاعری پر اپنے تأثر کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بسمل صاحب کا پیشہ درس و تدریس ہے شاعری کا ذوق فطری و موروثی ہے، لطافت، شعریت اور ذوقِ جمال ان کے خمیر میں شامل ہیں شاعری میں وہ کسی رجحان، تحریک یا بندھے ٹکے نظریے کے قائل نہیں ہیں، دنیا اور اس کے سلوک کا مشاہدہ انھوں نے بڑی باریک بینی سے کیا ہے اسی لیے اس کی کڑوی اور کسیلی سچائیوں کی ترجمانی کرتے ہیں انھیں کوئی بھی واردات یا چھوٹی سے چھوٹی بات متاثر کرتی ہے جو ان شعروں میں ڈھل جاتی ہے .
پروفیسر مجاہد حسین صاحب نے لکھا ہے کہ بسمل صاحب کی کہی ہوئی غزلیں محض معنوی اعتبار سے سے ہی دلکش و دلرُبا نہیں بلکہ ان کا لباس ظاہری بھی نظر افروز ہے یعنی ان میں زبان و بیان کے محاسن بھی ہیں اور صنائع و بدائع لفظی کا وافر استعمال بھی نظر آتا ہے،
رقص بسمل کا مطالعہ سیکڑوں اور ہزاروں زاویوں سے کیا جا سکتا ہے اور کمال یہ ہے کہ ان میں سے ہر زاویہ ایک عجیب و غریب ندرت، اچھوتے کیف و سرور اور ناقابلِ بیان لزت کی نشان دہی کرتا ہے اس بات کا اعتراف پورے وثوق سے کیا جاسکتا ہے کہ جناب بسمل اعظمی کی غزلیں اردو غزل گو یوں کی صفِ اول میں اپنا ایک ممتاز و منفرد مقام رکھتی ہیں.
اللہ جل مجدہ شاعر بسمل اعظمی صاحب کی اردو ادب کی خدمات کو قبول فرمائے آمین ثم آمین