لِنچِستان میں خون مسلم کی ارزانی کب تک؟
سمیع اللّٰہ خان
ksamikhann@gmail.com
ـــــــــــــــــــــ
ابھی کل کی ہی تو بات ہے، پارلیمنٹ میں نریندرمودی اور راجناتھ سنگھ چیخ چیخ کر اپنے سیکولرزم کا تمغہ دکھا رہےتھے، ملک کو عالمی صف بندی تک میں لے آئے تھے، لیکن زہر جو بویا ہے اس کا کیا کرینگے صاحب! وہ آپکی جھوٹی دہاڑوں میں چھپ نہیں سکتا
ابھی کل کی ہی تو بات ہے
کانگریس کے صدر راہل گاندھی چیخ چیخ کر اپنی کانگریسییت کا یقین دلا رہے تھے، وہ امن و آشتی کے ایسے علمبردار نکلے کہ جاکر نریندرمودی کو گلے لگا لیا، اور خم ٹھونک کر بھاجپائی نفرتوں کو ختم کرنے کا عہد دوہرایا، لیکن پپو بھائی بھول گئے کہ: ان کی عیاری اور مکاری سے اسکرین پر تو ڈرامے ہوسکتے ہیں لیکن Ground Reality بدل نہیں سکتی ۔
ستر سال سے مرکز پر راج کرنے والی کانگریس کی زمینی گرفت آج چوہیا کے بِل برابر بھی نہیں ہے، اور ستر سالوں سے ملک میں چوہوں کی طرح گنگا جمنی زمین کترنے والوں کی ہندوتوا زمین ناقابل تسخیر ہوتی جارہی ہے، آج کے زہر آلود ہندوستان کی ذمہ داری کون لےگا؟ اور یہ کب تک جاری رہےگا؟
ہجومی دہشتگردی کی بڑھتی پیاس پر آخر یہ راہل گاندھی کی انسانیت کہاں مرجاتی ہے؟
کیوں ہمارے لوگ اس خطرناک لعنت کے خلاف متحد نہیں ہوتے؟
کیوں اس ذلّت کا احساس نہیں ہوتا؟
کیا اس لعنت پر نوجوانوں کے تباہ کن ردعمل کا انتظار کررہےہیں؟
احساس نہیں یا معلومات کی ضرورت نہیں سمجھتے؟ کہ یہ لعنت کہاں جاپہنچی ہے؟
ملک کی عدالت عالیہ جس دن " ہجومی دھشتگردی " پر مرکزي حکومت کو لتاڑتی ہے، اس دن ملک کی سب سے ڈراؤنی ماب لنچنگ ہوتی ہے، ایک قدآور مذہبی و سماجی رہنما سوامی اگنی ویش کو ٹارگٹ کیا جاتاہے اور بدترین ذلت آمیز طریقے سے ٹارگٹ کیا جاتاہے ۔
جس دن ملک کی سب سے بڑی نمائندہ سنستھا میں اس لعنت کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے، اس کے چند ہی گھنٹوں بعد ملک کی سب سے بڑی ریاست میں گائے ہی کے نام پر اکبر خان نامی شخص کو مار ڈالا جاتاہے، یہ دہشتگردانہ حادثہ اس شہر میں ہوتاہے، جہاں اس سے قبل ایسا ہی ایک سفاک حادثہ پہلو خان نامی شخص کے ساتھ ہوچکاہے ۔
آج پھر راجستھان کے اسی شہر الور سے گائے کے نام پر ہجومی دہشتگردی میں اکبرخان کی شہادت ہوچکی ہے ۔
راجستھان میں مرکزی حکومت کی ہی سرکار ہے، وسندھرا وزیراعلیٰ ہے، لیکن سسٹم اور قانونیت کے بڑے بڑے بول ہانکنے والی اس سرکار نے وہاں آج تک پہلو خان کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جس کے نتیجے میں آج اکبر خان شھید ہوگیا ۔
یہ بات بالکل صاف ہے کہ راجستھان کی بھاجپائی سرکار نہایت سخت گیر اور طاقت کے نشے میں چور ہے، راجپوتانہ کا ہندوتوا کے لیے استحصال کرنے والی خون کی کیسی پیاسی ہوگی اس کا اندازہ ہر اس شخص کو ہوگا جو قدیم راجپوتانہ اور ان کی واقعی تاریخ سے واقف ہوں گے، لہٰذا ایسے بے رحم لوگوں سے ہم انصاف کی بھلا کیا آس لگائیں؟
سوال اٹھتا ہے اپنوں پر، سوال بنتا ہے اپنوں سے:
راجستھان کے غیور مسلمانوں سے، ملک بھر کے انصاف پسندوں سے، ملی اور سماجی قائدین سے، آخر کون سی چیز نے انہیں " ہجومی دہشتگردی " پر ایکشن لینے سے روک دیا ہے؟
اب تو لکھتے ہوئے احساس ہوتاہے کہ بے حس لوگوں سے بات کیا کریں جو نا نجی خطوط کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں اور نا ہی قومی سطح کی پکار کو خاطر میں لاتے ہیں، بالکل بھی یقین نہیں آتا کہ ایسے غیر اسلامی جراثیم ہماری صفوں میں بھی پنپ سکتے ہیں،شاید وہ یہ سمجھ رہےہیں کہ اگر ایک بار ان کی سن لی تو ہماری بالادستی پر آنچ نا آجائے ۔
ایک طرف خوشی ہوتی ہے کہ سوامی اگنی ویش پر حملے کے خلاف لب بستگی ٹوٹ گئی تھی، لیکن دوسری طرف سینکڑوں مسلمانوں پر ایسے حملوں پر گویا ان کے ہونٹ سل دیے جاتے ہوں، اور آج الور میں ہوئے اکبر خان کے قتل پر بھی یہی دیکھنے کو مل رہاہے، جو ہر حساس شخص کو بری طرح کچوکے لگاتے ہیں ۔
قبل اس کے کہ، تنگ آمد بجنگ آمد کی صورتحال پیدا، ہوجائے جناب میدان سنبھال لیجیے، بعد میں حکمت و مصلحت کی اپیلیں کارگر نہیں ہوں گی، بعد میں آداب و عظمتوں کی صدائیں بے سود ہوں گی، مسلمان اپنی قیادت پر آج بھی فنائیت کے جذبات رکھتاہے، لیکن تنزل مسلسل پر حق فاروقی بھی رکھتا ہے ۔
ہجومی دہشتگردی کے سلسلے میں اتنی فریادیں کرچکے ہیں کہ اب تو لگتا ہے اپنوں سے نہیں، کسی سرکاری دفتر میں یا بینک کی لائن میں کھڑے ہیں، شاید اب ہم کو احتسابی اور عملی صورت میں جس طرح جو بھی سمجھ آئے بجا لاناچاہیے، کیونکہ قومی سطح پر اس بدترین ذلت کو برداشت کرنے کا چلن ہر صورت میں خودکشی کے مترادف ہے، میں اہل قلم سے گذارش کرتاہوں، ڈاکٹروں، وکیلوں، اسکالروں، اسٹوڈنٹس، طلبا، علما، ائمہ، سوشل ورکرز، سب سے اپیل کرتاہوں کہ اب وہ Lynching Terrorism کے خلاف کھڑے ہوجائیں، جب آپ اٹھیں گے اسی وقت نرگسیت کا خاتمہ ہوگا ۔
سمیع اللّٰہ خان
ksamikhann@gmail.com
ـــــــــــــــــــــ
ابھی کل کی ہی تو بات ہے، پارلیمنٹ میں نریندرمودی اور راجناتھ سنگھ چیخ چیخ کر اپنے سیکولرزم کا تمغہ دکھا رہےتھے، ملک کو عالمی صف بندی تک میں لے آئے تھے، لیکن زہر جو بویا ہے اس کا کیا کرینگے صاحب! وہ آپکی جھوٹی دہاڑوں میں چھپ نہیں سکتا
ابھی کل کی ہی تو بات ہے
کانگریس کے صدر راہل گاندھی چیخ چیخ کر اپنی کانگریسییت کا یقین دلا رہے تھے، وہ امن و آشتی کے ایسے علمبردار نکلے کہ جاکر نریندرمودی کو گلے لگا لیا، اور خم ٹھونک کر بھاجپائی نفرتوں کو ختم کرنے کا عہد دوہرایا، لیکن پپو بھائی بھول گئے کہ: ان کی عیاری اور مکاری سے اسکرین پر تو ڈرامے ہوسکتے ہیں لیکن Ground Reality بدل نہیں سکتی ۔
ستر سال سے مرکز پر راج کرنے والی کانگریس کی زمینی گرفت آج چوہیا کے بِل برابر بھی نہیں ہے، اور ستر سالوں سے ملک میں چوہوں کی طرح گنگا جمنی زمین کترنے والوں کی ہندوتوا زمین ناقابل تسخیر ہوتی جارہی ہے، آج کے زہر آلود ہندوستان کی ذمہ داری کون لےگا؟ اور یہ کب تک جاری رہےگا؟
ہجومی دہشتگردی کی بڑھتی پیاس پر آخر یہ راہل گاندھی کی انسانیت کہاں مرجاتی ہے؟
کیوں ہمارے لوگ اس خطرناک لعنت کے خلاف متحد نہیں ہوتے؟
کیوں اس ذلّت کا احساس نہیں ہوتا؟
کیا اس لعنت پر نوجوانوں کے تباہ کن ردعمل کا انتظار کررہےہیں؟
احساس نہیں یا معلومات کی ضرورت نہیں سمجھتے؟ کہ یہ لعنت کہاں جاپہنچی ہے؟
ملک کی عدالت عالیہ جس دن " ہجومی دھشتگردی " پر مرکزي حکومت کو لتاڑتی ہے، اس دن ملک کی سب سے ڈراؤنی ماب لنچنگ ہوتی ہے، ایک قدآور مذہبی و سماجی رہنما سوامی اگنی ویش کو ٹارگٹ کیا جاتاہے اور بدترین ذلت آمیز طریقے سے ٹارگٹ کیا جاتاہے ۔
جس دن ملک کی سب سے بڑی نمائندہ سنستھا میں اس لعنت کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے، اس کے چند ہی گھنٹوں بعد ملک کی سب سے بڑی ریاست میں گائے ہی کے نام پر اکبر خان نامی شخص کو مار ڈالا جاتاہے، یہ دہشتگردانہ حادثہ اس شہر میں ہوتاہے، جہاں اس سے قبل ایسا ہی ایک سفاک حادثہ پہلو خان نامی شخص کے ساتھ ہوچکاہے ۔
آج پھر راجستھان کے اسی شہر الور سے گائے کے نام پر ہجومی دہشتگردی میں اکبرخان کی شہادت ہوچکی ہے ۔
راجستھان میں مرکزی حکومت کی ہی سرکار ہے، وسندھرا وزیراعلیٰ ہے، لیکن سسٹم اور قانونیت کے بڑے بڑے بول ہانکنے والی اس سرکار نے وہاں آج تک پہلو خان کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جس کے نتیجے میں آج اکبر خان شھید ہوگیا ۔
یہ بات بالکل صاف ہے کہ راجستھان کی بھاجپائی سرکار نہایت سخت گیر اور طاقت کے نشے میں چور ہے، راجپوتانہ کا ہندوتوا کے لیے استحصال کرنے والی خون کی کیسی پیاسی ہوگی اس کا اندازہ ہر اس شخص کو ہوگا جو قدیم راجپوتانہ اور ان کی واقعی تاریخ سے واقف ہوں گے، لہٰذا ایسے بے رحم لوگوں سے ہم انصاف کی بھلا کیا آس لگائیں؟
سوال اٹھتا ہے اپنوں پر، سوال بنتا ہے اپنوں سے:
راجستھان کے غیور مسلمانوں سے، ملک بھر کے انصاف پسندوں سے، ملی اور سماجی قائدین سے، آخر کون سی چیز نے انہیں " ہجومی دہشتگردی " پر ایکشن لینے سے روک دیا ہے؟
اب تو لکھتے ہوئے احساس ہوتاہے کہ بے حس لوگوں سے بات کیا کریں جو نا نجی خطوط کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں اور نا ہی قومی سطح کی پکار کو خاطر میں لاتے ہیں، بالکل بھی یقین نہیں آتا کہ ایسے غیر اسلامی جراثیم ہماری صفوں میں بھی پنپ سکتے ہیں،شاید وہ یہ سمجھ رہےہیں کہ اگر ایک بار ان کی سن لی تو ہماری بالادستی پر آنچ نا آجائے ۔
ایک طرف خوشی ہوتی ہے کہ سوامی اگنی ویش پر حملے کے خلاف لب بستگی ٹوٹ گئی تھی، لیکن دوسری طرف سینکڑوں مسلمانوں پر ایسے حملوں پر گویا ان کے ہونٹ سل دیے جاتے ہوں، اور آج الور میں ہوئے اکبر خان کے قتل پر بھی یہی دیکھنے کو مل رہاہے، جو ہر حساس شخص کو بری طرح کچوکے لگاتے ہیں ۔
قبل اس کے کہ، تنگ آمد بجنگ آمد کی صورتحال پیدا، ہوجائے جناب میدان سنبھال لیجیے، بعد میں حکمت و مصلحت کی اپیلیں کارگر نہیں ہوں گی، بعد میں آداب و عظمتوں کی صدائیں بے سود ہوں گی، مسلمان اپنی قیادت پر آج بھی فنائیت کے جذبات رکھتاہے، لیکن تنزل مسلسل پر حق فاروقی بھی رکھتا ہے ۔
ہجومی دہشتگردی کے سلسلے میں اتنی فریادیں کرچکے ہیں کہ اب تو لگتا ہے اپنوں سے نہیں، کسی سرکاری دفتر میں یا بینک کی لائن میں کھڑے ہیں، شاید اب ہم کو احتسابی اور عملی صورت میں جس طرح جو بھی سمجھ آئے بجا لاناچاہیے، کیونکہ قومی سطح پر اس بدترین ذلت کو برداشت کرنے کا چلن ہر صورت میں خودکشی کے مترادف ہے، میں اہل قلم سے گذارش کرتاہوں، ڈاکٹروں، وکیلوں، اسکالروں، اسٹوڈنٹس، طلبا، علما، ائمہ، سوشل ورکرز، سب سے اپیل کرتاہوں کہ اب وہ Lynching Terrorism کے خلاف کھڑے ہوجائیں، جب آپ اٹھیں گے اسی وقت نرگسیت کا خاتمہ ہوگا ۔