محمد فرقان
ـــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 24/جولائی 2018) آزادی کے بعد سے ہندوستان میں دن بہ دن مسلمانوں پر زیادتی کی جارہی ہے۔کبھی انکے عائلی مسائل کو اچھالا جاتا ہے تو کبھی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی جاتی ہے۔اغیار دن رات مسلمانوں کو پریشان اور اسلام کو بدنام کرنے کا موقعہ دیکھتے رہتے ہیں، مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی ایک عظیم مذہبی تحریک کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے،
اس پر تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مسجد طٰہٰ، ڈی جے ہلی بنگلور میں ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے معروف عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظرشاہ قاسمی مدظلہ نے کیا، شاہ ملت نے فرمایاکہ جہاں پر مسلمانوں کی آبادی ہووہاں دارالقضاء کا ہونا شرعاً واجب ہے، دارالقضاء کا قیام کوئی نئی بات نہیں ہے، صدیوں سے دارالقضاءکا نظام چلا آ رہا ہے، لیکن جب ہمارے اکابرین نے دیکھا کہ طلاق کے مسائل، حلالہ کے مسائل، گھریلو مسائل کو لیکر جب مسلمان عدالت جاتے ہیں تو اغیار اور میڈیا اسکا مزاق بناتے ہیں ، دنیا کے سامنے اسے ایک خطرناک اہم مسئلہ بنا کر اسلام کو بدنام کررہے ہیں، تو انہوں نے ہر شہر میں مزید دارالقضاءکے قیام کا اعلان کیا۔ دارالقضاءکا قیام کسی عدالت کے مقابلے میں نہیں کیا جاتا بلکہ وہ خود عدالت کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں، عدالت کا تعاون کرتے ہیں، شاہ ملت نے فرمایا کہ آج ہندوستانی عدالتوں میں اتنے مقدمات موجود ہیں کہ اسے حل کرنے کیلئے دسیوں سال لگ جائیں گے، دارالقضاء اگر قائم ہورہے ہیں تو وہ عدالت پر احسان ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہر مسئلے کو اگر ہم عدالت لیکر جاتے ہیں تو عدالت پر بوجھ اور زیادہ ہو جاتا ہے۔اسلئے گھریلو اور دیگر مسائل کو حل کرنے کیلئے دارالقضاءکا قیام کیا جارہا ہے، لیکن اغیار کو یہ قبول نہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہر مسئلے پر عدالت جائے اور دجالی میڈیا اسکو مجرم کے طور پر پیش کرے اور اسلام اور مسلمانوں کا ٹھٹھا کیا جائے۔ مولانا شاہ قاسمی نے سوال کھڑا کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا گاؤں اور دیہاتوں میں جو پنچایت ہوتی ہے وہ عدالت کا مقابلے میں ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اسی طرح دارالقضاء بھی عدالت کے مقابلے میں قائم نہیں ہورہی۔
نیز فرمایا کہ دارالقضاءمیں وہاں کے قاضی اپنی ذاتی رائے پر فیصلہ نہیں سناتے بلکہ وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں، مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے نجی مسائل کو عدالتوں میں لے جانے کے بجائے دارالقضاء میں حل کروائیں۔
ـــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 24/جولائی 2018) آزادی کے بعد سے ہندوستان میں دن بہ دن مسلمانوں پر زیادتی کی جارہی ہے۔کبھی انکے عائلی مسائل کو اچھالا جاتا ہے تو کبھی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی جاتی ہے۔اغیار دن رات مسلمانوں کو پریشان اور اسلام کو بدنام کرنے کا موقعہ دیکھتے رہتے ہیں، مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی ایک عظیم مذہبی تحریک کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے،
اس پر تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مسجد طٰہٰ، ڈی جے ہلی بنگلور میں ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے معروف عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظرشاہ قاسمی مدظلہ نے کیا، شاہ ملت نے فرمایاکہ جہاں پر مسلمانوں کی آبادی ہووہاں دارالقضاء کا ہونا شرعاً واجب ہے، دارالقضاء کا قیام کوئی نئی بات نہیں ہے، صدیوں سے دارالقضاءکا نظام چلا آ رہا ہے، لیکن جب ہمارے اکابرین نے دیکھا کہ طلاق کے مسائل، حلالہ کے مسائل، گھریلو مسائل کو لیکر جب مسلمان عدالت جاتے ہیں تو اغیار اور میڈیا اسکا مزاق بناتے ہیں ، دنیا کے سامنے اسے ایک خطرناک اہم مسئلہ بنا کر اسلام کو بدنام کررہے ہیں، تو انہوں نے ہر شہر میں مزید دارالقضاءکے قیام کا اعلان کیا۔ دارالقضاءکا قیام کسی عدالت کے مقابلے میں نہیں کیا جاتا بلکہ وہ خود عدالت کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں، عدالت کا تعاون کرتے ہیں، شاہ ملت نے فرمایا کہ آج ہندوستانی عدالتوں میں اتنے مقدمات موجود ہیں کہ اسے حل کرنے کیلئے دسیوں سال لگ جائیں گے، دارالقضاء اگر قائم ہورہے ہیں تو وہ عدالت پر احسان ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہر مسئلے کو اگر ہم عدالت لیکر جاتے ہیں تو عدالت پر بوجھ اور زیادہ ہو جاتا ہے۔اسلئے گھریلو اور دیگر مسائل کو حل کرنے کیلئے دارالقضاءکا قیام کیا جارہا ہے، لیکن اغیار کو یہ قبول نہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہر مسئلے پر عدالت جائے اور دجالی میڈیا اسکو مجرم کے طور پر پیش کرے اور اسلام اور مسلمانوں کا ٹھٹھا کیا جائے۔ مولانا شاہ قاسمی نے سوال کھڑا کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا گاؤں اور دیہاتوں میں جو پنچایت ہوتی ہے وہ عدالت کا مقابلے میں ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اسی طرح دارالقضاء بھی عدالت کے مقابلے میں قائم نہیں ہورہی۔
نیز فرمایا کہ دارالقضاءمیں وہاں کے قاضی اپنی ذاتی رائے پر فیصلہ نہیں سناتے بلکہ وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں، مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے نجی مسائل کو عدالتوں میں لے جانے کے بجائے دارالقضاء میں حل کروائیں۔