اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: 15/اگست اور ہندوستان آزاد ہوگیا.

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 2 August 2018

15/اگست اور ہندوستان آزاد ہوگیا.

 محمدانور داؤدی، قاسمی ایڈیٹر "روشنی" اعظم گڑھ
Mdanwardaudi@gmail.com
Mob:  8853777798

قارئین کرام!
ــــــــــــــــــــ
اسی مہینہ کی 15/تاریخ کو پورا ملک 71/ویں یوم آزادی کے جشن میں ڈوبنے والا ہے، اس حوالے سے میں نے اپنی گفتگو کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے
(1)ملک ہندوستان کا تعارف
(2)انگریزوں کی آمد اور تسلط سےلیکر آزادی تک اور اس میں مسلمانوں کی جدوجہد
(3)آزادئ وطن کےبعد ملک کے حالات اور مسلمانوں کی حکمت عملی
(4)ملک کی موجودہ صورت حال حکومت، حالات اور اندیشے

میرے خوبصورت ملک ہندوستان کا تعارف:
جس ملک میں ہم رہتے ہیں اسے کئی ناموں سےجانا جاتا ہے جیسے
بھارت، ہندوستان، انڈیا، آریہ ورت
ہندوستان کی شکل ایک جزیرہ نما کی ہے، اتر میں ہمالیہ اور قراقرم پہاڑ ہے، دکھن میں بحر ہند، مغرب میں بحر عرب اور مشرق میں خلیج بنگالہ ہے، نیپال، بھوٹان ،چین ، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار اور پاکستان وہ ممالک ہیں جو ہندوستان کی سرحدوں سے ملحق ہیں،ہندوستان رقبہ کے حساب سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے اسکا کل رقبہ 3287263 کلومیٹر ہے، ملک کی کل  آبادی 2011/کی رائے شماری کے مطابق ایک عرب اکیس کروڑ ایک لاکھ ترانوے ہزار چار سو بائیس ہے (1210193422) ہمارے ملک ہندوستان کا قومی پرچم ترنگا یعنی تین رنگ کا ہے.
زعفرانی رنگ
ہمت و قربانی پر دلالت کرتا ہے
سفیدرنگ
زندگی کے پاک، بےلوث اور پر امن ہونے کا اشارہ کرتا ہے
ہرا رنگ
ملک کی زرخیزی پر دلالت کرتا ہے اور بیچ میں گول چکر
زندگی کے رواں دواں ہونے اور ترقی کا پتہ دینے پر دال ہے.
قومی کرنسی کا نام روپیہ ہے
نوٹوں اور سکوں پر تین شیر نظرآتے ہیں وہ اشوک اَستمبھ ہے
جوالہ آباد میں سنگم کے قریب منٹو پارک میں موجود اشوک کی لاٹ سے لیا گیا ہے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ خونخوار جانور آپس میں کس طرح ملکر رہتےہیں اسی طرح ہمارے ملک میں مختلف نسل و مذاہب کے لوگ مل جل کر باہم زندگی گزارتے ہیں، اس ملک میں مختلف افکا و خیالات کے لوگ بستے ہیں اور سب کو آئینی اعتبار سے آزادی حاصل ہے، یہی تنوع اور رنگارنگی اس ملک کی خوبصورتی اور پہچان ہے، یہ الگ موضوع ہےکہ عمل میں تعصب کا شکار ہوگیا، محمدبن قاسم کے آنے سے بہت پہلے یہاں مسلمان آباد ہوچکے تھے، عرب و ہند کے تعلقات انتہائی قدیم ہیں.
⚫(ہند میں مسلمانوں کا وجود کب اور کیسے؟ کے عنوان سے میرا تفصیلی مضمون ملاحظہ فرمائیں جو روشنی میگزین میں قسط وار شائع ہو چکا ہے. محمد انور داؤدی ⚫
 قومی زبان ہندی اور قومی گیت جن گن من ہے

انگریزوں کی آمداورآزادی کی جدوجہد:
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ایک 15/اگست جس میں ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا
دوسرا 26/جنوری جس میں ملک جمہوری ہوا یعنی اپنے دیس میں اپنا قانون نافذ اور لاگو ہوا.
 ملک پر قابض و جابر انگریزی سلطنت بہت بڑی طاقت تھی اسکے خلاف مورچہ کھولنا، عَلم بغاوت بلند کرنا اور ملک چھوڑو کی تحریک چلانا موت کو دعوت دینا تھا، اور سچائی بھی یہی ہے کہ آج بہار اور جشن کے یہ دو دن ایک دو انگلی کٹا کر نہیں ملے، ایک دو سال احتجاج کرکے نہیں ملے، اگر آپ 1857/کی بغاوت سے تاریخ کا حساب کریں گے تب بهی 1947/تک 90/سال بنتے ہیں ، یہ سچ ہے کہ 18/ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال سے انگریزوں کو عروج ملا، مگر انگریزوں کا پہلاجہاز 1601/میں دور جہانگیری میں ہی آچکا تها اس حساب سے ہندوستان جنت نشان سے انگریزوں کا انخلاء 47/میں 346/سال بعد ہوا، اس دوران ظلم و بربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی، جسکا ہر صفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لت پت ہے، جذبہ آزادی سے سرشار اور سر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب کی بقاء کیلئے بے خطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان صف اول میں تهے، جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانی الگ کردیں گےتو ہندوستان کبھی آزاد نہ ہوگا.
1498/میں پرتگال  (یورپ) والے ایک عربی ملاح "واسکوڈی گاما" کی مدد سے پہلی مرتبہ بحری راستے سے ہندوستان پہنچے اور کلکتہ سے اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ایک عرصے تک خوب منافع کمایا، انکی دیکها دیکهی یورپ کے دوسرے ممالک مثلا ہالینڈ، اور انگلستان والوں نے بهی ہندوستانی دولت لوٹنے کا پلان تیار کیا، چنانچہ انگلستان کے101/تاجروں نے 30/ہزارپونڈ(انگریزی روپیہ)جمع کرکے "ایسٹ انڈیا کمپنی" کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور 1601/میں انکا پہلا جہاز ہندوستان آیا.
    اس وقت ہندوستان میں جہانگیر بادشاه کی حکومت تهی  (یہ اکبر بادشاہ کا لڑکا تها اس کا صل نام سلیم نورالدین اور لق جہانگیر تها
اس نے انگریزوں کا خیر مقدم کیا، لیکن انگریزوں کو باقاعده تجارت کی اجازت جہانگیر کے دوسرے لڑکے شاه خرم  (شاہجہاں) نے دی، رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا (یعنی مال کی جگہ ہتھیار اور ملازم کی آڑ میں فوجیوں کی آمد) لیکن مرکز میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تهی کہ انگریزوں کو خاطر خواه کامیابی نہیں ملی، شاہجہاں کے دوسرے لڑکے اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی، اٹهارہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا سکہ کمزور ہوتے ہی طوائف الملوکی کا دور شروع ہوگیا، عَیار اور شاطر انگریزوں نے پورے ملک پر قبضے کا پلان بنالیا، ہندوستانیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا منصوبہ طے کر لیا انکے خطرناک عزائم اور منصوبے کو بهانپ کر سب سے پہلےمیدان پلاسی میں جس مرد مجاهد نے انگریزوں سے مقابلہ کیا اور 1757 میں جام شہادت نوش کیا وه شیر بنگال نواب سراج الدولہ تها.
پھر 1799/میں سرنگاپٹنم میں انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور سلطان ٹیپو نے ملک پر جان قربان کردی، جسکی شہادت پر انگریز فاتح لارڈ ہارس نے فخر و مسرت کیساتھ اعلان کیا تها کہ " آج ہندوستان ہمارا ہے" واقعة انکے مقابل اب کوئی اور نہیں تها دہلی تک راستہ صاف تها.
1803/میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئی اور بادشاہ وقت "شاه عالم ثانی "سے جبرا ایک معاہده لکھوایا کہ
"خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا اورحکم کمپنی بہادر کا"
یہ بات اس قدر عام ہوگئی کہ لوگ کہنے لگے "حکومت شاہ عالم از دہلی تاپالم" یہ معاہده گویا اس بات کا اعلان تها کہ ہندوستان سےاب اسلامی اقتدار ختم ہو چکا ہے، وحشت وبربریت ،ظلم وستم کی گهنگهور گهٹائیں پوری فضا کو گهیر چکی ہیں، اب وطنی آزادی اور مذهبی شناخت ان کے رحم و کرم پر ہوگی احساس سب کو تھا مگرامراء اپنی بچی کھچی نوابی بچانےکےلئے اورعوام اپنی جان بخشی کےلئےخاموشی میں عافیت سمجھےتھے ایسےبهیانک ماحول اورپرفتن حالات میں ایک بوریہ نشیں فقیرشاہ ولی اللہ محدث دہلوی کےبیٹےشاه عبدالعزیزدہلوی نےپوری
جرأت وبیباکی کے ساتھ فتوی جاری کیاکہ

*➖"ہندوستان دارالحرب ہے"➖*

یعنی اب ملک غلام ہوچکا لهذابلاتفریق مذہب وملت ہرہندوستانی پرانگریزی تسلط کےخلاف جہاد فرض ہے
اس فتوی کےبعد شاہ صاحب نےاپنےمعتقدخاص حضرت سیداحمدبریلوی کونواب امیرخان (جوانگریزوں کےخلاف متحدہ محاذقائم کئےتھے) کی فوج میں شامل ہونےکاحکم دیاجہاں سیدصاحب 7/سال رہے پھردہلی واپسی ہوئ
شاہ صاحب کےفتوی کی روشنی بڑے بڑےعلماء کی مشاورت میں ایک جماعت بنائ گئ جسکامقصد عوام میں دینی بیداری پیدا کرکےانقلاب کاماحول بناناتھا
*چنانچہ 1818*/میں سیداحمدکی قیادت اور شاہ اسماعیل کی موجودگی میں پہلاقافلہ دہلی سےروانہ ہوا
شاہ عبدالعزیز دہلوی نےروانگی کےوقت اپنےہاتھ سےاپنی سیاہ دستاراوراپناسفیدکرتا
حضرت سیداحمدکوپہناکرسفر
کی اجازت دی
ان لوگوں نے پورے ملک کادوره کرکے قوم کوجگایا اورہرطرف آزادی کی آگ لگادی اور
*1831/کو*
بالاکوٹ کی پہاڑی پرلڑکرجام شہادت نوش کیا
دهیرے دهیرے پورے ملک میں انگریزوں کےخلاف ماحول بننےلگا، انگریزوں کےمظالم کوئی ڈهکےچهپے نہ تهے
چنانچہ

*میلکم لوئین*
جج عدالت عالیہ مدراس وممبرکونسل نےلندن سےاپنےایک رسالہ میں ظلم وبربریت پرلکهاتها
*➖"ہم نےہندوستانیوں کی ذاتوں کوذلیل کیا انکےقانون وراثت کومنسوخ کیا،بیاه شادی کےقاعدوں کوبدل دیا،مذہبی رسم ورواج کی توہین کی،عبادت خانوں کی جاگیریں ضبط کرلیں، سرکاری کاغذات میں انهیں کافرلکها،امراء کی ریاستیں ضبط کرلیں، لوٹ کهسوٹ سے ملک کوتباه کیا،انهیں تکلیف دیکر مالگزاری وصول کی، سب سے اونچےخاندانوں کوبربادکرکے انهیں آوارہ گردبنادینےوالے بندوبست قائم کئے "➖*
     (مسلمانوں کاروشن مستقبل ص،110)

1857/میں پهردہلی کےچونتیس علماء نے جہاد کافتوی دیا جسکی وجہ سےمعرکہ کارزارپهرگرم ہوگیا
دوسری طرف انگریزی فوجیں پورےملک میں پھیل چکی تهیں اورہندوستان سےمذہبی بیداری وسرگرمی ختم کرنےکےلئے انگریزوں نےبےشمار عیسائ مبلغین  (پادری )کومیدان میں اتاردیاتهاجسےانگریزی فوج کی پشت پناہی حاصل تهی جوجگہ جگہ تقریریں کرتےاورعیسائیت کاپرچارکرتے، اسی دوران یہ خبرگشت کرنےلگی کہ انگریزی حکومت نے ہندومسلم کامذہب خراب کرنے کےلئے اور دونوں کےدرمیان اختلاف پیداکرنے کیلئےآٹےمیں گائےاورسور کی ہڈی کابراده ملادیاہے، کنویں میں گائے اور سورکاگوشت ڈلوادیا ہےتاکہ پانی ناپاک ہوجائےاورہندومسلم آپس میں لڑجائیں اسکےعلاوہ یہ بات چرچےمیں آگئ کہ انگریزی فوج میں استعمال ہونےوالےکارتوسوں میں گائےاورسورکی چربی ملادیگئ ہےاورہرفوجی کووہ کارتوس منھ سےکھولنالازم ہے
ان واقعات نےہندوستانیوں کےدلوں میں انگریزوں کےخلاف نفرت کی ایک آگ لگادی ،انگریزوں کی ان مذہب مخالف پالیسیوں کی وجہ سےانگریزی فوج میں  ملازم ہندومسلم سب نےزبردست احتجاج کیا،
کلکتہ سےیہ چنگاری اٹهی اوردهیرےدهیرے بارک پور،انبالہ لکهنو ،میرٹھ،مرادآباد
اورسنبهل وغیره تک پہنچتے پہنچتے شعلہ بن گئ
احتجاج کرنیوالے سپاہی
*أورانقلابی منگل پانڈے* اورانکےساتهیوں کوپهانسی دےدی گئ، اورجہاں جہاں احتجاج ہوااس پرسنجیدگی سےغورکرنےکےبجائے سخت قوانین بنادئےگئے،احتجاجیوں کی بندوقیں چهین لی گئیں، وردیاں پهاڑ دی گئیں،قیدبامشقت کی سزائیں سنائ گئیں ،جسکی وجہ سے عوام وخواص میں سخت اشتعال پیدا ہوگیا
ہندومذہب مخالف پالیسی کی وجہ سے ہندوؤں کی رہنمائ پنڈٹ کررہےتھے اورمسلم مذہب مخالف پالیسی کیوجہ سے مسلمانوں کی رہنمائ علماء کررہےتھے،ہندومسلم مشترکہ جلسہ کرتے اسی دوران
شاہ جہاں پورمیں مفتی مظہرکریم کےگھرپریکم مئ 57/کوجلسہ ہواجس میں ہندومسلم دونوں شریک ہوئے،انقلابی تقریریں ہوئیں
نعرےلگے اورپورےملک میں ایکساتھ بغاوت کامنصوبہ بنا

دوسری طرف 1857/میں ہی جبکہ ہرطرف بغاوت کی لہرپهوٹ چکی تهی،تھانہ بھون کے مشہور رئیس قاضی عنایت علی کےبھائ قاضی عبدالرحیم اپنی ضرورت سےہاتھی خریدنےکےلئے سہارنپورگئےتھے کسی نےانگریزوں کومخبری کردی کہ یہ بغاوت کےلئے ہاتھی خریدرہےہیں چنانچہ انھیں گرفتارکرکےپھانسی پرلٹکادیاگیاجس سےپورےتھانہ بھون میں بھی کھلبلی مچ گئ اور نفرت کی چنگاری شعلہ بن کربھڑک اٹھی 
 لوگ جہادکےلئے ادهرادهرسے آکر حاجی امداداللہ مہاجرمکی کےہاتھ پربیعت ہونےلگےاورانکی  قیادت میں انگریزوں سےمقابلہ کےلئے بےتاب ہوگئے بانی دارالعلوم دیوبند مولاناقاسم نانوتوی سپہ سالارمتعین ہوئے، مولانا رشیداحمد گنگوہی دائیں، مولانامنیراحمدصاحب بائیں بازوکےافسرمقررہوئے
سہارنپورسےشاملی توپ خانہ جارہاتھا مولانارشیداحمدگنگوہی نےساتھیوں کیساتھ رات میں حملہ کیااور انگریزوں سےچھین لیا
 صبح میں شاملی میں انگریزوں کی ایک فوجی چھاؤنی پرحملہ کیاگیالیکن
حافظ ضامن صاحب کی شہادت نےکایاپلٹ دی اورناکامی ہاتھ لگی

*دوسری طرف*
*جگہ جگہ بغاوت* *پهوٹنےکےبعدزیاده ترانقلابی فوجیوں* *نےدہلی کارخ کیااورجنرل بخت خان*
کےساته ملکر پورےعزم وحوصلہ کےساته دہلی شہراورمغلیہ حکومت کادفاع کرتےرہے، *ناناصاحب،تاتیاٹوپے،*
*رانی لکشمی بائ،رانابینی مادهو سنگھ*
وغیره بهی پیش پیش تھے  ،مگرانگریزوں کی منظم فوج کےسامنے بغاوت ناکام ہوگئ اور انگریزوں نے
 *20/ستمبر 1857*
/کولال قلعہ پرباقاعده قبضہ کرلیااورسلطنت مغلیہ کےآخری چراغ بہادرشاه کوگرفتارکرکے رنگون  (برما)جلاوطن کردیاگیا

 *قارئین کرام:*

ستاون کی  بغاوت جسےانگریزوں نےغدرکانام دیاتهااوراپنےظلم وبربریت پرپردہ ڈالنےکےلئےبغاوت کاالزام انھیں ہندوستانیوں پرلگادیااوربغاوت ناکام ہونےکےبعدانگریزوں نےہندوستانیوں پرظلم وستم کی جوبجلیاں گرائ ہیں( الامان والحفیظ )
سرسیداحمدخان نےایک رسالہ"اسباب بغاوت ہند"لکھکرحکام گورنمنٹ کوآئینہ دکھایا
بہرحال چونکہ اب تک انگریزوں سےلوہالینےمیں مسلم علماءاور عوام  صف اول میں تهے اس لئے بدلہ بهی ان سےخوب لیاگیا، مولویت بغاوت کےہم معنی قراردےدی گئ
ایسٹ انڈیاکمپنی کی طرف سے یہ حکم جاری کیاگیاتهاکہ لمبی داڑھی اورلمبےکرتے والےجہاں ملیں تختہ دارپرچڑهادیاجائے، قتل وپهانسی کایہ سلسلہ تقریبادوہفتہ چلتارہا
ہزاروں جانبازوں کوبےدردی کیساتھ قتل کیاگیا
مفتی سلمان منصورپوری صاحب نے
*"تحریک آزادی میں مسلم علماء اورعوام کاکردار"*
نامی کتاب میں
قیصرالتواریخ کےحوالےسےلکھاہے کہ دہلی پرقبضہ کےبعد27/ہزارافرادکوپھانسی پرلٹکایاگیا
اورمولانااسیرادروی صاحب نےایک انگریزمصنف کے حوالےسےلکھاہےکہ
چاندنی چوک ہی نہیں بلکہ شہرکےہرچوراہےپر
سولیاں نصب کردی گئیں،جوبھی معززمسلمان ملےپھانسی پرلٹکادیاگیا
زمین پرلٹاکرآرےسے چیراگیا،سورکی چربی لگاکر جلتےہوئے تندوروں میں پھینکاگیا،ہاتھیوں کےپیروں سےباندھ کرمخالف سمت ہانک دیاگیا،توپ کےمنھ پر باندھ کر توپ چلادی گئ جس سے جسم کےپرخچے اڑ جاتے
 
 *ایک ہندومؤرخ میوارام گپت کےبقول* "➖ایک اندازےکےمطابق 1857/میں پانچ لاکه مسلمانوں کوپهانسیاں دی گئیں "➖

*ایڈورڈٹائمس* کی شہادت ہےکہ صرف دہلی میں 500/علماء کوتختہ دارپرلٹکایاگیا
(ابهی تک گاندھی جی یاکانگریس کاوجودنہیں ہےکیونکہ گاندھی جی 1869میں پیداہوئے تهے)

*30/مئ 1866/کواکابرین امت اوریہی بچےکهچے مجاہدین نےدیوبندمیں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جوآگےچل کر *"دارالعلوم* *دیوبند"*
کےنام سےمشہورہوا

*1878/میں*
 اسی درسگاہ کےایک فرزندمولانامحمود حسن دیوبندی نے (جوآگےچلکر"شیخ الهند"کےنام سےمشہورہوئے انگریزوں کےلئےمسلسل دردسربنےرہے

*"تحریک ریشمی رومال*
 یاتحریک شیخ الهند"بزبان حکومت برٹش "ریشمی خطوط سازش کیس "انهیں کی پالیسی کاحصہ تهی )
" ثمرة التربیت "کےنام سےایک انجمن قائم کی جسکامقصد انقلابی مجاهدين تیارکرناتها

*1885/میں*

 انڈین نیشنل کانگریس کی بنیادڈالی گئ ،کچھ عرصہ کے بعد
 *لوک مانیہ بال* *گنگادهر تلک نے*➖"سوراج ہماراپیدائشی حق ہے"➖کانعره بلندکیا

*اور1909/میں*

 "جمعیةالانصار" کےنام سے ایک تنظیم قائم ہوئ جسکےپہلےناظم مولاناعبیداللہ سندهی منتخب ہوئے

*اور1911/یا12/میں*
 مولاناابوالکلام آزاد نےکلکتہ سےالهلال اخبارکےذریعہ آزادی کا صورپهونکا

*1915/میں*
 ریشمی رومال کی تحریک چلی

*1916/میں*
  ہندومسلم اتحادکی تحریک چلی

*اور1919/میں*
 دہلی میں خلافت کانفرنس کااجلاس ہوا اوراسی جلسےمیں باضابطہ "جمعیةعلماء هند"کی تشکیل ہوئی  جسکےپہلےصدر
مفتی کفایت اللہ صاحب منتخب ہوئے

*1919/میں*
 ہی امرتسر کےجلیاں والاباغ کےایک جلسےمیں انگریزوں کی فائرنگ سے ان گنت ہندومسلم کاخون بہا

*1920/میں*
 حضرت شیخ الهندنےترک موالات کافتوی دیاجسےمولاناابوالمحاسن سیدمحمدسجاد بہاری نےمرتب کرکےجمعیت کی طرف سے شائع کیا

*1921/میں*
 مولاناحسین احمدمدنی نےکراچی میں پوری جرأت کیساته اعلان کیاکہ "
*➖"گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اورملازمت حرام ہے"➖*

*1922/میں*
 ہندومسلم اتحادختم کرنےکےلئےانگریزوں نےشدهی اورسنگهٹن تحریکیں شروع کیں جسکی وجہ سےفرقہ وارانہ فسادات پهوٹے

*1926/میں*
 کلکتہ میں جمعیت کےاجلاس میں جسکی صدارت مولانا سیدسلیمان ندوی نےکی مکمل آزادی کی قراردادمنظورہوئ

*1929/اور30/میں*

 گاندهی جی نے"ڈانڈی مارچ اورنمک ستیہ گره (نمک سازی تحریک)"چلائ 

*1935/میں*

 حکومت ہندکاایک دستوربنایاگیا تھاجس میں کچھ اختیارات ہندوستانیوں کوسونپےگئےتھےاسی میں مدنی فارمولاپیش کیاگیاتھا
اورالیکشن کاپاورملاتھالیکن   مذہب کوبنیادبنایاگیایعنی ہندوصرف ہندوامیدوارکواورمسلم صرف مسلم امیدوارکوووٹ دےگا
یہیں سےانگریزوں نےہندومسلم اتحادکی مضبوط دیوارمیں سیندھ لگائ اوریہیں سےمسلم لیگ نےجمعیت سےاتحادکیااوراسے
عروج ملنےلگا

*1939/میں*
 دوسری جنگ عظیم چهڑگئ

*1942/میں*

*"➖انگریزو! ہندوستان چهوڑو "تحریک چلی*
سب سےپہلے 5/اگست کوجمعیت علماء کے4/اہم ارکان نےاپنےدستخط کیساتھ
"انگریزہندوستان چھوڑدے"
کااخباری بیان جاری کرایا
اسکےبعد8/اگست کوکانگریس نےاپنےاجلاس بمبئ میں "کوئٹ انڈیا"کی تحریک چلائ،جمعیت علماء نےاسکی حمایت کیاجلدی پاداش میں حکومت نےکانگریس کےکارکنان اورتحریک آزادی کےرہنماؤں
(((بطورخاص،مولاناابوالکلام آزاد،مولاناحفظ الرحمن،مولانامحمد
میاں دیوبندی،مولانانورالدین بہاری قابل ذکرہیں
مولاناحسین احمدمدنی کوپہلےہی گرفتارکرلیاگیاتھا)
 کوگرفتارکرناشروع کردیاجس سے عوامی غیض وغضب اورپھوٹ پڑا،ریل کی پٹریاں اکھاڑ دی گئیں،بجلی کانظام معطل ہوگیا،سرکاری دفاتر،تھانوں اورکچہریوں کوآگ لگادی گئ
حکومت نےبھی مزید سختی سےکام لیااوربےدریغ باغیوں کی بھیڑ پرگولیاں چلانےلگی
لیکن آزادی کےمتوالےسرسےکفن باندھ کرنکلتےتھے
بالآخرانگریزوں نےمحسوس کرلیا کہ اب ہندوستان کوغلام بناکررکھ پانابہت مشکل ہے   *اور-------------15/اگست 1947/کوآدھی رات میں ملک کی آزادی کااعلان کردیا*

 المختصر!وطن عزیز کوآزادکرا نےمیں زبردست قربانیاں پیش کی گئی  اورظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئ جسکاہرصفحہ ہندوستانیوں خصوصامسلمانوں کےخون سے لت پت ہے،جذبہ آزادی سےسرشار اورسرپرکفن باندھ کروطن عزیز اوراپنی تہذیب کی بقاء کیلئے بےخطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان صف اول میں تهے ،جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانی الگ کردیں توہندوستان کبھی آزادنہ ہوگا

*(3)*
*آزادی کےبعد ملک کےحالات اورمسلمانوں کی حکمت عملی*

قارئین کرام:
مجاہدین ملت کی بےپناہ قربانیوں کےبعد آزادی تومل گئ لیکن شاطرانگریزہندومسلم لڑانےمیں کامیاب ہوگئے
ملک کی آزادی کیساتھ وطن کی تقسیم کاناخوشگوارسانحہ بھی پیش آیا
ویسے تومسلم لیگ 1940/سےہی پاکستان کےنام سےالگ ملک کامطالبہ کررہی تھی اور1945/کےالیکشن میں اس نےمسلمانوں کی نمائندہ جماعت باورکرانےمیں جی توڑ کوشش کیا  اورہندومسلم منافرت کی ہوابنائ اوریہ نشہ اتناچڑھاکہ اسکےحامی پاکستان کے مخالفین کےموقف کوسننےتک تیار
نہیں تھے
خصوصامولانامدنی کےساتھ بدترین گستاخیاں کی گئیں
 شروع میں کانگریس بھی تقسیم کےلئے تیار نہیں تھی
 مگریہ ہونا تھااوردونظریہ قائم ہوگیا
مسلم لیگ چاہتی تھی کہ انھیں بلاشرکت غیراقتدارمل جائے
دوسری طرف متعصب ہندولیڈرراج گوپال آچاریہ سردارپٹیل،اورپنڈٹ گووندولبھ پنت جیسےلوگ تھےجوجلدازجلدایک وسیع ہندومملکت کاخواب دیکھ رہےتھے
انگریز پہلےسےہی موقع کی تلاش میں تھے
یہاں تک کہ *گورنرجنرل لارڈمائنٹ بیٹن*
نے3/جون 1947/کوتقسیم ہند کی منظوری دیدی
واضح رہےکہ ہم شروع سے تقسیم کےمخالف تھے اس تقسیم کےذمدارہم نہیں ہیں تم نےدستخط کیا،تم راضی ہوئے
 اگست  میں ہندوستان کو آزادی دیدی لوگ تقسیم وطن کےدردکوتھوڑی دیرکےلئےبھول گئےاورجشن آزادی میں مشغول ہوگئے
 وطن کی مکمل آزادی کی خوشیاں اورشہنائیاں ابھی تھمی بھی نہیں تھیں کہ
پنجاب اور بنگال سے
    تبالہ آبادی کی بناپرفرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے
مغربی پنجاب میں مسلمان اپنےپڑوسی ہندوؤں اورسکھوں کاقتل عام کررہےتھےاورمشرقی پنجاب میں مسلمانوں کاقتل عام ہورہاتھا
ٹرینیں ہندومسلم کی لاشوں سےبھری ہوتی تھیں
 سیکڑوں گھرانےراستےمیں موت کےگھاٹ اتاردئیے گئے
*پنڈٹ سندلال*
 کےبیان کےمطابق اس ہنگامےمیں فریقین کےکم ازکم 5/لاکھ افرادقتل کئےگئے،اربوں کامالی نقصان ہوا،
 مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئ ،
افراتفری کاماحول تھا
مسلمانوں کےقدم اکھڑچکےتھے
پاکستان کےنام پرتحریک چلانےوالے
انھیں بےسہارا چھوڑ کرجاچکےتھے
یہی وہ اندیشےاوربرےدن تھے جسکےلئے قائدین خصوصاجمعیت کےاکابرین تیارنہیں تھےنیزیہ کہ کروڑوں مسلمان ہندواکثریت کےعلاقوں میں اقلیت بن کررہ جائیں گے
پاکستان ہجرت کےکےجانیوالےسالوں وطنی اورنسلی طعنوں سےنکل نہ پائیں گے
اوراسلامی کےنام پرالگ ملک کامطالبہ وہ لوگ کررہےتھے جنکی عملی زندگی میں دوردورتک اسلام کی کوئ نشانی نہیں تھی
پاکستان کےلئے  دیگراکابرین کےخیالات انتہائ پاکیزہ تھے انکےخیال میں ہندوستان سےبغاوت یاہندوستان کوکمزورکرنابالکل نہیں تھا
انکےذہن میں صرف یہ بات تھی کہ  اس طرح اسلام کے احکامات وحدود کی پاسداری ہوگی
محدث عظیم مولانازکریاصاحب نے آب بیتی میں لکھاہے کہ
مولانارائےپوری اورمولانامدنی انکےمکان پرآئےتھے مشورہ ہوا
اورپاکستان ہجرت کرنیوالوں کی تعدادسہارنپورکیمپوں میں بڑھ رہی تھی
حضرت مدنی نےزوردیکرکہا
یہاں کےمسلمانوں کوبےسروسامانی کے عالم میں اور خوف ودہشت کے ماحول میں میں چھوڑکرنہیں جاسکتا
اورمذکورہ دونوں اکابرنےہندوستان رہنےکافیصلہ کیا
الغرض
آزادی ھندکےبعدحالات انتہائ خراب ہوگئےتھے
آزادی سےقبل علماء خاص کرجمعیت علماء سیاست میں مکمل دخیل تھی
مگرآزادی کےبعد سیاست سےکنارہ کشی میں عافیت سمجھی اورساری توانائ مسلمانوں کوبسانے میں صرف کرنےکی منصوبہ بندی کی
ملت اسلامیہ ہندمولاناحسین احمدمدنی اورمولاناابوالکلام آزاد اورمولاناحفظ الرحمن سیوہاروی اورمولانااحمدسعید
رحمھم اللہ کےاحسانات کاکبھی حق ادانہیں کرسکتی جنھوں  نے اپنی تقریروں تحریروں اور بھاگ دوڑ کےذریعہ مسلمانوں کی ڈھارس بدھائ،صبرواستقلال کادرس دیا اپنی جان کی بازی لگاکرمسلمانوں کےاکھڑےقدم جمایا

*سوچوتوسہی*
*اگرسب لوگ پاکستان* چلےجاتے تو
مساجد وخانقاہیں،اسلامی شعائر
مقابر،اوقاف اورلاکھوں کروڑوں کی جائداد کاکیاہوتا؟
اسکےعلاوہ بھی مصلحتیں تھیں جیساکہ گزرا
اسی لئے دسمبر1947لکھنؤکی کانفرنس میں پارلیمانی سیاست سےدست برداری کااعلان ہوا
البتہ انفرادی طورسے حصہ لینے کاراستہ کھلا رہا
آزادی کےبعد سب سےبڑامسئلہ تھا ملک کادستورکیساہو؟ ؟اقلیت واکثریت کےدرمیان حقوق کس طرح طےکئےجایئں؟آزادی کےبعدملک میں سیکولرجمہوری نظام نافذ کرانےمیں جمعیت علماء هندکارول نظرانداز نہیں کیاجاسکتا،جمعیت کےناظم عمومی مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی نےبحیثیت رکن دستورسازاسمبلی  اقلیتوں کومراعات دلانےمیں نمایاں حصہ لیا--------چنانچہ آیئن هندکےابتدائ حصےمیں صاف صاف  یہ لکهاگیا ہےکہ
*"ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتےہیں کہ انڈیاایک آزاد،سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سےوجودمیں لایاجاے جس میں تمام شہریوں کیلئے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادئ خیال، اظہارراے،آزادئ عقیدہ ومذهب وعبادات، انفرادی تشخص اوراحترام کویقینی بنایاجاے گااورملک کی سالمیت ویکجہتی کوقائم ودائم رکهاجائیگا"*

1971/میں اندراگاندهی نےدستور کےاسی ابتدائیہ میں لفظ "سیکولر"کااضافہ کیا
*(4)*

*ملک کی موجودہ صورتحال،حالات اوراندیشے*

قارئین------------کرام ایک طویل جدوجہداوربےشمارسر
دھڑکی بازی لگاکردیش آزادکرایاگیا
تاکہ ملک میں خوشحالی آئے،مذہبی آزادی پھرسےمیسرہو
چنانچہ ہندومسلم اتحاد نے اسےثابت کردکھایالیکن لیکن کیاواقعی آج ہم آزادہیں؟
آزادی کی حقیقی ومعنوی تعبیرمل چکی؟
کیاشہیدان وطن اسی موجودہ ہندوستان کوچاہتےتھے
خداجانے میرےخوبصورت وطن کوکسکی نظرلگ گئ ہےکہ پورےملک میں بدامنی اوربےچینی بڑهتی جارہی ہے،کچه لوگوں کویہاں کامیل جول ہندومسلم اتحادبالکل پسندنہیں ہےحالانکہ یہاں مختلف افکاروخیالات اورتہذیب وتمدن کےلوگ بستےہیں اوریہی تنوع اوررنگارنگی یہاں کی پہچان ہے
      چندفرقہ فرست عناصرہیں جنهیں ملک کی یکتائی اوراسکاسیکولرنظام بالکل پسندنہیں وه ساری اقلیتوں کو اپنےاندرجذب کرنےیابالکلیہ انکاصفایاکرنے یاملک کےجمہوری ڈهانچےکوتبدیل کرنے کیلئے بےتاب ہیں

 بڑےتعجب کی بات ہے جنکاجنگ آزادی میں کوئی رول نہیں، وطن کی تعمیرمیں کوئی کردارنہیں بلکہ انکے سروں پرباباےقوم گاندھی جی کاخون ہو،جسکی پیشانی پرمذہبی تقدس کوپامال کرنےکاکلنک ہواورجسکےسروں پرہزاروں فسادات، لاکهوں بےقصورانسانوں کےقتل اوراربوں کھربوں کی تباہی کاقومی گناه ہو وہ ملک کواپناغلام بناناچاہتاہےلوگ کیسے اپنی گردنیں انکےحوالےکرسکتےہیں ؟ملک کی بےمثال جمہوریت اورخوبصورت نظام کاکیاحشرہورہاہےیہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے
حکومت !دنگائیوں، بلوائیوں کےآگےبےبس ہے
روزافزوں مہنگائ،بےروزگاری کی برھتی شرحیں
آسمان چھوتی اشیاءکی قیمتیں،
غیرمحفوظ ماں اوربہنین
پاکستان کی گھس پیٹیان اورہمارےجوانوں کوہراساں کرنا
پڑھےلکھےجوانوں کی بےروزگاریاں
بنیادی تعلیم،علاج اورروٹی مکان جیسےسیکڑوں مدعے اوراہم ایشوزہیں جن پرحکومت کوترجیحی بنیاد پر فاسٹ کام کرنےکی ضرورت تھی لیکن اس طرف توجہ نہ کرکے
لوگوں کےپرسنل مسائل
پرتوانائ صرف کررہی ہے
لوجہاد،موب لنچنگ،
گئورکھشک
جیسے گھنونے میٹرپرخاموش تماشائ سرکار گویاانھیں مواقع فراہم کررہی ہے
ملک میں ایکدوسرے سےنفرت کی آگ تیزی سےپھیل رہی ہے
ہندومسلم اتحادکی صدیوں پرانی اورمضبوط دیوار میں سیندھ نہیں دراڑیں پڑرہی ہیں
مذہبی منافرت اورپولرائزیشن کی سیاست عام ہوتی جارہی ہے
کھلےعام مارنےکاٹنےکی بات ہورہی ہے
کیااس طرح الجھ کرہم ایک مثبت وطن کی تعمیر کی توقع رکھ سکتےہیں
کیاملک کی ترقی ممکن ہے
کیاہم خوداپنےہاتھوں ملک کوکمزورنہیں کررہےہیں
شہیدان وطن کوہم کیاجواب دین گے ؟
منتخب حکومتین بلاتفریق سب کےلئےہوتی ہیں انھیں اصولی اورآئینی حکومت چلانےمیں کسی کاآلہ کارنہیں بنناچاہئے
ترقی، اتحاد، محبت اورامن کی باتیں کرکے ملک کوبحران سےبچانےکی فکرکرنی چاہئےہم ایک خوبصورت، بلند، پھولوں سےلدے،خوشبوؤں سےمہکتے بھارت کی تعمیر چاہتے ہیں ایسی سوچ پرہم آپکے ساتھ ہیں کیا آپ بھی متفق ہیں.

   سارےجہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
   ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا