از قلم: اجوداللہ پھولپوری
ajwadullahph@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــ
فرشتۂ اجل زندگی کی پہلی سانس سے ہمارے تعاقب میں لگا رہتا ہے ہم سے زیادہ اسکے نزدیک کوئی محبوب نہیں اسکا مقصد حیات صرف اور صرف ہمیں پانے کی فکر ہے....وہ صبح و شام ہمارے دروازے کی کنڈی بجاتا ہے اور جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کون ہمارا منتظر ہے اور آج ھم کسکو اپنا ہمراہی بناکر فانی دنیا سے دور بہت دور ہمیشگی کی دنیا جو کہ انسان کی اصلی جائے رہائش ہے لے جا سکیں .... وہ پل پل اس فکر میں ہیکہ کب حکم ربی آئے اور ہمیں ابدی دنیا کی منزل مقصود تک پہونچا سکے وقت اصلی سے وہ بھی انجان ہے اور ہم بھی بے خبر........
ہم فرشتئہ اجل کے خوف سے دور بھاگتے ہیں اور وہ ہمیں اصلی منزل کی راہ پہ لےجانا چاہتا ہے...........بھاگنے اور لے جانے کا فکری سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے حتی کہ وہ لمحہ آجاتا ھے جسکا خوف ہمیں ستاتا ہے اور جسکی فکر فرشتئہ اجل کو دامن گیر ہوتی ہے تقدیر کا لکھا غالب آتا ہے اور یوں سارا خوف سمٹ کر نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے....فرشتئہ اجل اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر اپنے طے شدہ کام پر آگے بڑھ جاتا ہے.....اب آگے ہم ہوتے ہیں اور ہمارا امتحان.....اب ہمیں ان چیزوں کا سامنا کرنا ہے جسے ہم سنتے یا پڑھتے آئے ہیں....اب یہ بات ہمیں سوچنی ہیکہ کیا ہم اس قابل ہیں....؟ کیا ہم آگے کے امتحانوں میں پاس ہونے بھر عمل رکھتے ہیں...؟ کچھ کر پانے کا وقت تو گزر گیا اب صرف اور صرف کیئے ہوئے نیک اعمال کے بھروسے ہی گزارہ ہوگا....کوئی ڈگری اور کوئی ڈپلومہ کام نہیں آنے والا اللہ تعالی ہمیں موت کے بعد کی ہر منزل پہ آسانیاں دے اور ہر امتحان میں سرخرو کرے ھم بہت نادان اور کمزور ھیں جانے انجانے نہ جانے کتنی غلطیوں کی ٹوکری سر پر لادے پھرتے ھیں بلاشبہ ہم تقدیر کی ڈور میں بندھے ہیں کشیدہ لکیروں پہ چلنا ھی ھمارا مقدر ھے لیکن ھم ایک کام ضرور کرسکتے ھیں اور وہ ھے اپنے عمل کو اخلاص کی نیت سے سنوارنے کی فکر کرنا اپنے رب کو اپنے ساتھ اپنے سامنے محسوس کرنا یقین جانیں اس فکر کے ساتھ کئے گئے عمل سے ھماری تنگی وسعت میں تبدیل ھوسکتی ھے اور آسانیاں ھمارے لئے فرش راہ بن سکتی ھیں
موت سے پہلے کی زندگی میں ھماری کردنی وناکردنی میں اعزہ و اقارب کی خوشیاں انکی مصلحتیں ھماری راہ میں رکاوٹ ھوتی ھیں پر موت کے بعد کی زندگی میں جزاء و سزاء ھمارا اور رب کا معاملہ ھوگا مگر اس سے پہلے ھمیں یہ سوچکے زندگی گزارنی ھیکہ ھم حالت سفر میں ھیں دنیاوی مال متاع اتنا ھی ذخیرہ کریں جسکی ضروت ھے اس زندگی کی فکر اوڑھیں جو ابدالآباد ھے وہ عمل کریں جو دائمی ھے وہ پیڑ لگائیں جسکا پھل اخروی ھے اگر جینے کا مقصد ھماری نگاھوں کے سامنے رھا تو یقینا ہم کامیاب ھونگے....ان شاءاللہ
ajwadullahph@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــ
فرشتۂ اجل زندگی کی پہلی سانس سے ہمارے تعاقب میں لگا رہتا ہے ہم سے زیادہ اسکے نزدیک کوئی محبوب نہیں اسکا مقصد حیات صرف اور صرف ہمیں پانے کی فکر ہے....وہ صبح و شام ہمارے دروازے کی کنڈی بجاتا ہے اور جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کون ہمارا منتظر ہے اور آج ھم کسکو اپنا ہمراہی بناکر فانی دنیا سے دور بہت دور ہمیشگی کی دنیا جو کہ انسان کی اصلی جائے رہائش ہے لے جا سکیں .... وہ پل پل اس فکر میں ہیکہ کب حکم ربی آئے اور ہمیں ابدی دنیا کی منزل مقصود تک پہونچا سکے وقت اصلی سے وہ بھی انجان ہے اور ہم بھی بے خبر........
ہم فرشتئہ اجل کے خوف سے دور بھاگتے ہیں اور وہ ہمیں اصلی منزل کی راہ پہ لےجانا چاہتا ہے...........بھاگنے اور لے جانے کا فکری سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے حتی کہ وہ لمحہ آجاتا ھے جسکا خوف ہمیں ستاتا ہے اور جسکی فکر فرشتئہ اجل کو دامن گیر ہوتی ہے تقدیر کا لکھا غالب آتا ہے اور یوں سارا خوف سمٹ کر نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے....فرشتئہ اجل اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر اپنے طے شدہ کام پر آگے بڑھ جاتا ہے.....اب آگے ہم ہوتے ہیں اور ہمارا امتحان.....اب ہمیں ان چیزوں کا سامنا کرنا ہے جسے ہم سنتے یا پڑھتے آئے ہیں....اب یہ بات ہمیں سوچنی ہیکہ کیا ہم اس قابل ہیں....؟ کیا ہم آگے کے امتحانوں میں پاس ہونے بھر عمل رکھتے ہیں...؟ کچھ کر پانے کا وقت تو گزر گیا اب صرف اور صرف کیئے ہوئے نیک اعمال کے بھروسے ہی گزارہ ہوگا....کوئی ڈگری اور کوئی ڈپلومہ کام نہیں آنے والا اللہ تعالی ہمیں موت کے بعد کی ہر منزل پہ آسانیاں دے اور ہر امتحان میں سرخرو کرے ھم بہت نادان اور کمزور ھیں جانے انجانے نہ جانے کتنی غلطیوں کی ٹوکری سر پر لادے پھرتے ھیں بلاشبہ ہم تقدیر کی ڈور میں بندھے ہیں کشیدہ لکیروں پہ چلنا ھی ھمارا مقدر ھے لیکن ھم ایک کام ضرور کرسکتے ھیں اور وہ ھے اپنے عمل کو اخلاص کی نیت سے سنوارنے کی فکر کرنا اپنے رب کو اپنے ساتھ اپنے سامنے محسوس کرنا یقین جانیں اس فکر کے ساتھ کئے گئے عمل سے ھماری تنگی وسعت میں تبدیل ھوسکتی ھے اور آسانیاں ھمارے لئے فرش راہ بن سکتی ھیں
موت سے پہلے کی زندگی میں ھماری کردنی وناکردنی میں اعزہ و اقارب کی خوشیاں انکی مصلحتیں ھماری راہ میں رکاوٹ ھوتی ھیں پر موت کے بعد کی زندگی میں جزاء و سزاء ھمارا اور رب کا معاملہ ھوگا مگر اس سے پہلے ھمیں یہ سوچکے زندگی گزارنی ھیکہ ھم حالت سفر میں ھیں دنیاوی مال متاع اتنا ھی ذخیرہ کریں جسکی ضروت ھے اس زندگی کی فکر اوڑھیں جو ابدالآباد ھے وہ عمل کریں جو دائمی ھے وہ پیڑ لگائیں جسکا پھل اخروی ھے اگر جینے کا مقصد ھماری نگاھوں کے سامنے رھا تو یقینا ہم کامیاب ھونگے....ان شاءاللہ