مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس ملک کی عمارت کو آزادی کا پروانہ بخشا، اگر مسلمانان ہند میدان کارزار میں نہ آتے تو شاید بھارت اتنی آسانی سے آزاد نہ ہوتا!
مفتی محمد شاہد قاسمی!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۵/ اگست کی تاریخ ہندوستان کی ایک یادگار اور اہم ترین تاریخ ہے، اسی تاریخ کو ہمارا یہ پیارا وطن ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، اور طوقِ سلاسل کا سلسلہ ختم ہوا۔ تقریبا تین سو سال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا یہ دن نصیب ہوا، جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سب کچھ لٹانے کے بعد ہمارا ہندوستان آزاد ہوا، آج ہم جو اطمینا ن اور سکون کی زندگی گزاررہے ہیں، اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب ہمارے مسلم عوام اور علماء کی دین ہے،جنہوں نے سب سے پہلے ہندوستان کی آزادی کی شمع جلائی، اور انگریزوں کے روح فرسا مظالم کے سامنے، سینہ سپر رہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر، اس ملک کی عمارت کو آزادی کا پروانہ عطاء کیا، اگر مسلمان میدان کارزار میں نہ آتے، اور علماء مسلمانوں کے اندر جذبہ آزادی کو پروان نہ چڑھاتے تو پھر شاید کبھی یہ ہندوستان اتنی آسانی سے آزاد نہ ہوپاتا، یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب سجائے، اور اس بات کو محسوس کیا،
کہ جس ہندوستان سے ہماری قدیم تاریخ وابستہ ہے، جہاں ہماری حکومت رہی ہے، اور ملک کو امن وامان کے ساتھ ہم نے چلایا، آج وہ ہندوستان انگریزوں کے قبضہ میں ہے، غلامی کبھی مسلمانوں کو راس نہ آئی اسی جذبہ کو لےکر، سب سے پہلے مسلمانان وطن آگے بڑھے، سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، لیکن برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک ووطن کی محبت میں کمی آنے دی، ایک عظیم مؤرخ رقم طراز ہیں کہ:ہمارے آباء و اجداد نے ہندوستان کی عظمت اور آزادی کو پامال کرنے والی اس سفید فام قوم کو اپنے رگوں کے خون کے آخری قطرے تک برادشت نہیں کیا، ہندوستان میں بسنے والی ہندوستانی قوم جو مختلف مذاہب اور مکتبہ فکر کی تہذیب اور تمدن کے مختلف ومتضاد عناصر کو لے کر وجود میں آئی تھی، اس کی عزت و حرمت بچانے کے لئے پہلے پہل ہم نے خود اپنی ذات کوقربانی کے لئے پیش کیا ۱۸۵۷ ء کے بعد نصف صدی تک انگریزی سامراج کو شکست دینے کے لئے ہم نے تن تنہا جنگ آزادی میں زور آزمائی کرتے رہے اور ہم نے اس راہ میں اپنا خون اتنا بہا یا کہ پوری جنگ ِ آزادی کے میدان میں دوسروں نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا۔ ( تحریکِ آزادی اور مسلمان)
ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتازونمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائدانہ کردار اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی، انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے ۱۷۵۴ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر اور فورٹ ولیم، انگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینےپرمجبورہوئےراسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے اور اس خطرہ کومحسوس کیا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہورہے ہیں اوران کو ملک سے نکالناضروری ہے۔اس نے حوصلہ اورہمت سے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی اور۱۷۵۷ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔
تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ ۱۷۷۵ء اوربکسرکی جنگ۱۷۶۴ ءکی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوگئے۔
جنگِ آزادی میں حیدرعلی اورٹیپوسلطان کاکردار
دکن فرمانروا حیدرعلی(م۱۷۸۲ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان ۱۷۸۲ء میں حکمراں ہوئے،۱۷۸۳ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ ۱۷۸۴ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ ۱۷۹۲ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔
مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمه الله لکھتے ہیں:
”سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (۱۳۱۳ ھ۱۷۹۹ ء)تھا، جس نے اپنی بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے،ٹیپوسلطان کی جدوجہداوراولوالعزم ٹیپونے ہندوستان کے،مہاراجوں اور نوابوں کوانگریزوں سے جنگ پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، اس مقصدسے انھوں نے سلطان ترکی سلیم عثمانی، دوسرے مسلمان بادشاہوں اور ہندوستان کے امراء اورنوابوں سے خط وکتابت کی اور زندگی بھرانگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہے، قریب تھاکہ انگریزوں کے سارے منصوبوں پرپانی پھرجائے اوروہ اس ملک سے بالکل بے دخل ہوجائیں؛ مگر انگریزوں نے جنوبی ہندکے امراء کو اپنے ساتھ ملالیااور آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم میں انگریزوں سے جہاد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا،اور انگریزوں کا مشن پھر سے مظبوط ہوگیا، ورنہ تو سیماب اکبر آبادی کہتا ہے،، ہند کی قسمت میں ہی رسوائی کا سامان تھا،، ورنہ تو ہی جنگ آزادی کا ایک عنوان تھا،، حقیقت یہی تھی، کہ گر ٹیپو سلطان، اپنوں کی سازش کا شکار نہ ہوتے، تو ہندوستان کی قسمت کا ستارہ کب کا چمک چکا ہوتا،
بالآخر، انگریزوں کے خلاف، جنگ آزادی کی تحریکی لڑائی علماء دیوبند نے سنہ ۱۸۵۷ میں لڑی، ۱۸۵۷ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله مقررہوئے، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے اسلام پرحملہ کیا اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا، یہاں سے انگریزوں کازوال شروع ہوا،حکومت برطانیہ کا لارڈمیکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کاایک پروگرام بنایا،اس نے کہا:”میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجوایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگامگردماغ گورایعنی انگریزکی طرح سوچے گا ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے الله تعالیٰ نے چندشخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمه الله کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء، اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے ایک تحریک چلائی،جس کوتحریک دیوبندکہاجاتاہے،جگہ جگہ مدرسہ قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقاء (حاجی عابدحسین دیوبندی رحمه الله ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی رحمه الله ، مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمه الله اورمولانارفیع الدین رحمه الله وغیرہم)کی مددسے۱۵ محرم ۱۲۸۳ھ مطابق ۳۰مئی ۱۸۶۶ء جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دارالعلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ”ازہرہند“کہلائی اورجسے دارالعلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله ”دارالعلوم دیوبندہندوستان میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے،دارالعلوم دیوبند نے ایسے وقت میں ہندوستانی مسلمانوں کے اسلامی شناخت کو تحفظ فراہم کیا، اور پورے ملک میں، اسلام کی ہوائیں چلائی بالآخر ۱۸۵۷ کی ناکامی کے بعد ہندو مسلم اور تمام برادران وطن نے مل کر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کی، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ، جتنی قربانیاں مسلمانوں نے دی ہے کسی اور طبقہ نے اتنی قربانی نہیں دی، جتنا مسلمانوں نے اپنا خون بہایا ہے، اغیار نے اتنا اپنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا، سنہ ۱۹۴۷ ء میں ہندوستان آزاد ہوگیا، دہلی کے ریڈ فورٹ پر ترنگا، لہرادیا گیا، اور بھارت کے باشندوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا،
ہمارے ملک ہندوستان کی آزادی کو ۷۱ سال پورے ہوچکے ہیں، قوموں اور ملکوں کے عروج وارتقاء میں یہ مدت اگرچہ کوئی فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتی ہے، پھر بھی یہ ایک ایسا لمبا وقفہ ہے جس میں بچے بوڑھے اور بوڑھے جہانِ دِگر میں پہنچ جاتے ہیں؛ اس لیے کسی ملک کی تعمیر وترقی اور پستی وگراوٹ کا جائزہ لیتے وقت اس زمانہ کو بہرحال ملحوظ رکھا جانا چاہیے؛ اس لیے ایک مبصر اس ۷۱ سالہ مدت کے گزرجانے کے بعد موجودہ ہندوستان پر نظر ڈالتا ہے، تو اسے اس اعتراف کے باوجود کہ اس مدت میں ہمارے ملک نے علم وسائنس، صنعت وحرفت، تجارت و زراعت وغیرہ میدانوں میں قابلِ ذکر پیش رفت اور ترقی کی ہے اور ان میدانوں میں بلاشبہ اسے اپنے پڑوسی ملکوں پر واضح برتری اور نمایاں فوقیت حاصل ہے،
لیکن معاشرتی اسباب میں جو کمی ہمارے بھارت میں آئی ہے، اس اے چشم کوری بھی انصاف کے خلاف ہوگا، پورے ملک میں بدامنی، کرپشن، دھاندھلی پھیلی ہوئی ہے اور حیرت ہے کہ اس میں ارباب اقتدار ملوث ہیں،
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ (۲۸/جولائی ۲۰۱۴/) کے مطابق بھارت میں ہر آدھے گھنٹے میں عصمت دری کا ایک شرمناک واقعہ درج کیا جاتاہے،لیکن سنہ ۲۰۱۴ کے بعد سے جس طرح کے حالات اس ملک میں پیش آئے ہیں اسنے جمہوریت کی بنیادوں کو متزلزل کردیا ہے، ملک کے بیشتر علاقوں میں اس قدر عصمت دری کے، روح فرسا واقعات ہوئے ہیں جسنے انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا،
آٹھ سال اور چار سال کی بچیوں سے لیکر، معصوموں کی اس کربناک طریقہ سے عصمت دری کی گئی کہ انسانیت شرمسار ہوگئی، اور مجرمین کو کھلے عام چھوڑ دیا گیا انکے دفاع میں اراکین سلطنت سامنے آئے مجرموں کی رہائی کے لئے مارچ نکالے عدالتوں کو مجبور کیا گیا کشمیر سے لے کر اتر پردیش تک جو حالات آئے اس نے یہ تو ثابت کردیا کہ، ہمارا ہندوستان کہاں جارہا ہے،
گائےکے نام پر بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، گائے کے نام پر جن مسلمانوں کو قتل کیا گیا، انکے قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، اور ہر دن ایک نیا شکار تلاش کررہے ہیں، انکو کوئی روکنا والا نہیں، انکے لئے کوئی قانون نہیں، اور کوئی بھی نیتا، یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بھی انکے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کررہے ہیں، اور ملک کو نفرت کی سیاست، میں جھونکا جا رہا ہے،
عدالتی نظام کی صورت حال یہ ہے کہ آج ملک کی جیلوں میں پونے تین لاکھ صرف ملزم ہیں، مجرم نہیں، اوراس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر قیدی خود پر لگے الزام میں متعین زیادہ سے زیادہ سزا کی مدت سے بھی زیادہ عرصہ جیل میں گزارچکے ہیں، آزادی کے بعد سب سے زیادہ مشکلات کی شکار یہاں کی اقلیتیں ہیں، تعصب، فرقہ پرستی، مسلم کشی نے مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی ترقی کو الٹی سَمت میں ڈال دیا ہے، حتیٰ کہ مسلمانوں کے ساتھ قانون سازی کی سطح پر بھی دانستہ نا انصافیاں کی گئی ہیں، آئین ہند میں فراہم ریزرویشن کی سہولت سے ہندو دلتوں کے ہم پیشہ مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے،
آزادی کے بعد آزاد بھارت میں پے درپے مسلم کش فسادات نے ان کی معیشت کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور اس بارے میں ان کے ساتھ کبھی بھی انصاف نہیں کیاگیا، متعدد انکوائری کمیشنوں نے ان فسادوں میں سیکورٹی ایجنسیوں وغیرہ کی مجرمانہ حرکتوں کا انکشاف کیا؛ مگر اس سلسلہ میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی، پولیس کی متعصبانہ کارروائیوں کی بدولت ہزاروں بے گناہ مسلم نوجوان پسِ دیوارِ زنداں مقدمات شروع کیے جانے کے منتظر ہیں؛ مگرقانون وانصاف نے ان کی طرف سے نظریں پھیر رکھی ہیں، آخر یہ کیسی ستم ظریفی ہے ، ملک کے جن وفاداروں نے آزادیِ وطن کے لیے اپنی جانوں تک کی قربانی پیش کرنے میں ادنیٰ پس وپیش اور تذبذب کو دخل نہیں دیا، آج ان سے حب الوطنی اور ملک کے ساتھ وفاداری کا ثبوت طلب کیا جارہا ہے اور اسی مزعومہ وفاداری کے لیے وندے ماترم، یوگا،اور گیتا پڑھنے کو معیار بنایا جارہا ہے۔ اور یہ مطالبہ ایسی جماعت کی جانب سے کیا جارہا ہے،جس نے جنگِ آزادی کے وقت مجاہدینِ حریت کے خلاف جاسوسی جیسی ضمیرفروشی کی خدمت انجام دی ہے۔
آزادیِ ملک پر ۷۱ سال بیت جانے کے بعد بھی ملک کے عوام مذکورہ بالا مسائل میں گرفتار ہیں؛ تو کیا آزادی کا صحیح مفہوم یہی ہے، مجاہدین آزادی کا کیا یہی نظریہ تھا، آزاد بھارت کا آئین کیا یہی رہنمائی کررہا ہے؟ واقعات ومشاہدات صاف بتارہے ہیں کہ آج ملک کی سیاست اگرچہ آزاد ہے؛ مگر سماج غلامی کے بندھن میں اب بھی گرفتار ہے۔ اصل آزادی اسی وقت میسر آئے گی جب ہمارا سماج غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوجائے گا.
مفتی محمد شاہد قاسمی
نورگنج پکھرایاں ضلع کانپور دیہات یوپی، الہند
qasmi1994shahid@gmail.com
مفتی محمد شاہد قاسمی!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۵/ اگست کی تاریخ ہندوستان کی ایک یادگار اور اہم ترین تاریخ ہے، اسی تاریخ کو ہمارا یہ پیارا وطن ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، اور طوقِ سلاسل کا سلسلہ ختم ہوا۔ تقریبا تین سو سال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا یہ دن نصیب ہوا، جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سب کچھ لٹانے کے بعد ہمارا ہندوستان آزاد ہوا، آج ہم جو اطمینا ن اور سکون کی زندگی گزاررہے ہیں، اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب ہمارے مسلم عوام اور علماء کی دین ہے،جنہوں نے سب سے پہلے ہندوستان کی آزادی کی شمع جلائی، اور انگریزوں کے روح فرسا مظالم کے سامنے، سینہ سپر رہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر، اس ملک کی عمارت کو آزادی کا پروانہ عطاء کیا، اگر مسلمان میدان کارزار میں نہ آتے، اور علماء مسلمانوں کے اندر جذبہ آزادی کو پروان نہ چڑھاتے تو پھر شاید کبھی یہ ہندوستان اتنی آسانی سے آزاد نہ ہوپاتا، یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب سجائے، اور اس بات کو محسوس کیا،
کہ جس ہندوستان سے ہماری قدیم تاریخ وابستہ ہے، جہاں ہماری حکومت رہی ہے، اور ملک کو امن وامان کے ساتھ ہم نے چلایا، آج وہ ہندوستان انگریزوں کے قبضہ میں ہے، غلامی کبھی مسلمانوں کو راس نہ آئی اسی جذبہ کو لےکر، سب سے پہلے مسلمانان وطن آگے بڑھے، سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، لیکن برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک ووطن کی محبت میں کمی آنے دی، ایک عظیم مؤرخ رقم طراز ہیں کہ:ہمارے آباء و اجداد نے ہندوستان کی عظمت اور آزادی کو پامال کرنے والی اس سفید فام قوم کو اپنے رگوں کے خون کے آخری قطرے تک برادشت نہیں کیا، ہندوستان میں بسنے والی ہندوستانی قوم جو مختلف مذاہب اور مکتبہ فکر کی تہذیب اور تمدن کے مختلف ومتضاد عناصر کو لے کر وجود میں آئی تھی، اس کی عزت و حرمت بچانے کے لئے پہلے پہل ہم نے خود اپنی ذات کوقربانی کے لئے پیش کیا ۱۸۵۷ ء کے بعد نصف صدی تک انگریزی سامراج کو شکست دینے کے لئے ہم نے تن تنہا جنگ آزادی میں زور آزمائی کرتے رہے اور ہم نے اس راہ میں اپنا خون اتنا بہا یا کہ پوری جنگ ِ آزادی کے میدان میں دوسروں نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا۔ ( تحریکِ آزادی اور مسلمان)
ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتازونمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائدانہ کردار اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی، انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے ۱۷۵۴ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر اور فورٹ ولیم، انگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینےپرمجبورہوئےراسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے اور اس خطرہ کومحسوس کیا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہورہے ہیں اوران کو ملک سے نکالناضروری ہے۔اس نے حوصلہ اورہمت سے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی اور۱۷۵۷ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔
تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ ۱۷۷۵ء اوربکسرکی جنگ۱۷۶۴ ءکی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوگئے۔
جنگِ آزادی میں حیدرعلی اورٹیپوسلطان کاکردار
دکن فرمانروا حیدرعلی(م۱۷۸۲ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان ۱۷۸۲ء میں حکمراں ہوئے،۱۷۸۳ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ ۱۷۸۴ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ ۱۷۹۲ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔
مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمه الله لکھتے ہیں:
”سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (۱۳۱۳ ھ۱۷۹۹ ء)تھا، جس نے اپنی بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے،ٹیپوسلطان کی جدوجہداوراولوالعزم ٹیپونے ہندوستان کے،مہاراجوں اور نوابوں کوانگریزوں سے جنگ پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، اس مقصدسے انھوں نے سلطان ترکی سلیم عثمانی، دوسرے مسلمان بادشاہوں اور ہندوستان کے امراء اورنوابوں سے خط وکتابت کی اور زندگی بھرانگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہے، قریب تھاکہ انگریزوں کے سارے منصوبوں پرپانی پھرجائے اوروہ اس ملک سے بالکل بے دخل ہوجائیں؛ مگر انگریزوں نے جنوبی ہندکے امراء کو اپنے ساتھ ملالیااور آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم میں انگریزوں سے جہاد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا،اور انگریزوں کا مشن پھر سے مظبوط ہوگیا، ورنہ تو سیماب اکبر آبادی کہتا ہے،، ہند کی قسمت میں ہی رسوائی کا سامان تھا،، ورنہ تو ہی جنگ آزادی کا ایک عنوان تھا،، حقیقت یہی تھی، کہ گر ٹیپو سلطان، اپنوں کی سازش کا شکار نہ ہوتے، تو ہندوستان کی قسمت کا ستارہ کب کا چمک چکا ہوتا،
بالآخر، انگریزوں کے خلاف، جنگ آزادی کی تحریکی لڑائی علماء دیوبند نے سنہ ۱۸۵۷ میں لڑی، ۱۸۵۷ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله مقررہوئے، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے اسلام پرحملہ کیا اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا، یہاں سے انگریزوں کازوال شروع ہوا،حکومت برطانیہ کا لارڈمیکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کاایک پروگرام بنایا،اس نے کہا:”میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجوایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگامگردماغ گورایعنی انگریزکی طرح سوچے گا ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے الله تعالیٰ نے چندشخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمه الله کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء، اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے ایک تحریک چلائی،جس کوتحریک دیوبندکہاجاتاہے،جگہ جگہ مدرسہ قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقاء (حاجی عابدحسین دیوبندی رحمه الله ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی رحمه الله ، مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمه الله اورمولانارفیع الدین رحمه الله وغیرہم)کی مددسے۱۵ محرم ۱۲۸۳ھ مطابق ۳۰مئی ۱۸۶۶ء جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دارالعلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ”ازہرہند“کہلائی اورجسے دارالعلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله ”دارالعلوم دیوبندہندوستان میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے،دارالعلوم دیوبند نے ایسے وقت میں ہندوستانی مسلمانوں کے اسلامی شناخت کو تحفظ فراہم کیا، اور پورے ملک میں، اسلام کی ہوائیں چلائی بالآخر ۱۸۵۷ کی ناکامی کے بعد ہندو مسلم اور تمام برادران وطن نے مل کر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کی، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ، جتنی قربانیاں مسلمانوں نے دی ہے کسی اور طبقہ نے اتنی قربانی نہیں دی، جتنا مسلمانوں نے اپنا خون بہایا ہے، اغیار نے اتنا اپنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا، سنہ ۱۹۴۷ ء میں ہندوستان آزاد ہوگیا، دہلی کے ریڈ فورٹ پر ترنگا، لہرادیا گیا، اور بھارت کے باشندوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا،
ہمارے ملک ہندوستان کی آزادی کو ۷۱ سال پورے ہوچکے ہیں، قوموں اور ملکوں کے عروج وارتقاء میں یہ مدت اگرچہ کوئی فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتی ہے، پھر بھی یہ ایک ایسا لمبا وقفہ ہے جس میں بچے بوڑھے اور بوڑھے جہانِ دِگر میں پہنچ جاتے ہیں؛ اس لیے کسی ملک کی تعمیر وترقی اور پستی وگراوٹ کا جائزہ لیتے وقت اس زمانہ کو بہرحال ملحوظ رکھا جانا چاہیے؛ اس لیے ایک مبصر اس ۷۱ سالہ مدت کے گزرجانے کے بعد موجودہ ہندوستان پر نظر ڈالتا ہے، تو اسے اس اعتراف کے باوجود کہ اس مدت میں ہمارے ملک نے علم وسائنس، صنعت وحرفت، تجارت و زراعت وغیرہ میدانوں میں قابلِ ذکر پیش رفت اور ترقی کی ہے اور ان میدانوں میں بلاشبہ اسے اپنے پڑوسی ملکوں پر واضح برتری اور نمایاں فوقیت حاصل ہے،
لیکن معاشرتی اسباب میں جو کمی ہمارے بھارت میں آئی ہے، اس اے چشم کوری بھی انصاف کے خلاف ہوگا، پورے ملک میں بدامنی، کرپشن، دھاندھلی پھیلی ہوئی ہے اور حیرت ہے کہ اس میں ارباب اقتدار ملوث ہیں،
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ (۲۸/جولائی ۲۰۱۴/) کے مطابق بھارت میں ہر آدھے گھنٹے میں عصمت دری کا ایک شرمناک واقعہ درج کیا جاتاہے،لیکن سنہ ۲۰۱۴ کے بعد سے جس طرح کے حالات اس ملک میں پیش آئے ہیں اسنے جمہوریت کی بنیادوں کو متزلزل کردیا ہے، ملک کے بیشتر علاقوں میں اس قدر عصمت دری کے، روح فرسا واقعات ہوئے ہیں جسنے انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا،
آٹھ سال اور چار سال کی بچیوں سے لیکر، معصوموں کی اس کربناک طریقہ سے عصمت دری کی گئی کہ انسانیت شرمسار ہوگئی، اور مجرمین کو کھلے عام چھوڑ دیا گیا انکے دفاع میں اراکین سلطنت سامنے آئے مجرموں کی رہائی کے لئے مارچ نکالے عدالتوں کو مجبور کیا گیا کشمیر سے لے کر اتر پردیش تک جو حالات آئے اس نے یہ تو ثابت کردیا کہ، ہمارا ہندوستان کہاں جارہا ہے،
گائےکے نام پر بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، گائے کے نام پر جن مسلمانوں کو قتل کیا گیا، انکے قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، اور ہر دن ایک نیا شکار تلاش کررہے ہیں، انکو کوئی روکنا والا نہیں، انکے لئے کوئی قانون نہیں، اور کوئی بھی نیتا، یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بھی انکے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کررہے ہیں، اور ملک کو نفرت کی سیاست، میں جھونکا جا رہا ہے،
عدالتی نظام کی صورت حال یہ ہے کہ آج ملک کی جیلوں میں پونے تین لاکھ صرف ملزم ہیں، مجرم نہیں، اوراس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر قیدی خود پر لگے الزام میں متعین زیادہ سے زیادہ سزا کی مدت سے بھی زیادہ عرصہ جیل میں گزارچکے ہیں، آزادی کے بعد سب سے زیادہ مشکلات کی شکار یہاں کی اقلیتیں ہیں، تعصب، فرقہ پرستی، مسلم کشی نے مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی ترقی کو الٹی سَمت میں ڈال دیا ہے، حتیٰ کہ مسلمانوں کے ساتھ قانون سازی کی سطح پر بھی دانستہ نا انصافیاں کی گئی ہیں، آئین ہند میں فراہم ریزرویشن کی سہولت سے ہندو دلتوں کے ہم پیشہ مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے،
آزادی کے بعد آزاد بھارت میں پے درپے مسلم کش فسادات نے ان کی معیشت کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور اس بارے میں ان کے ساتھ کبھی بھی انصاف نہیں کیاگیا، متعدد انکوائری کمیشنوں نے ان فسادوں میں سیکورٹی ایجنسیوں وغیرہ کی مجرمانہ حرکتوں کا انکشاف کیا؛ مگر اس سلسلہ میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی، پولیس کی متعصبانہ کارروائیوں کی بدولت ہزاروں بے گناہ مسلم نوجوان پسِ دیوارِ زنداں مقدمات شروع کیے جانے کے منتظر ہیں؛ مگرقانون وانصاف نے ان کی طرف سے نظریں پھیر رکھی ہیں، آخر یہ کیسی ستم ظریفی ہے ، ملک کے جن وفاداروں نے آزادیِ وطن کے لیے اپنی جانوں تک کی قربانی پیش کرنے میں ادنیٰ پس وپیش اور تذبذب کو دخل نہیں دیا، آج ان سے حب الوطنی اور ملک کے ساتھ وفاداری کا ثبوت طلب کیا جارہا ہے اور اسی مزعومہ وفاداری کے لیے وندے ماترم، یوگا،اور گیتا پڑھنے کو معیار بنایا جارہا ہے۔ اور یہ مطالبہ ایسی جماعت کی جانب سے کیا جارہا ہے،جس نے جنگِ آزادی کے وقت مجاہدینِ حریت کے خلاف جاسوسی جیسی ضمیرفروشی کی خدمت انجام دی ہے۔
آزادیِ ملک پر ۷۱ سال بیت جانے کے بعد بھی ملک کے عوام مذکورہ بالا مسائل میں گرفتار ہیں؛ تو کیا آزادی کا صحیح مفہوم یہی ہے، مجاہدین آزادی کا کیا یہی نظریہ تھا، آزاد بھارت کا آئین کیا یہی رہنمائی کررہا ہے؟ واقعات ومشاہدات صاف بتارہے ہیں کہ آج ملک کی سیاست اگرچہ آزاد ہے؛ مگر سماج غلامی کے بندھن میں اب بھی گرفتار ہے۔ اصل آزادی اسی وقت میسر آئے گی جب ہمارا سماج غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوجائے گا.
مفتی محمد شاہد قاسمی
نورگنج پکھرایاں ضلع کانپور دیہات یوپی، الہند
qasmi1994shahid@gmail.com