تحریر: ابو حذیفہ اعظمی
متعلم معہد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
آج اس ملکِ ہندوستان میں ١٥ اگست بڑی دھوم دھام اور جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ کیوں منایا جاتا ہے اور اسکے منانے کا سبب کون بنتا ہے بہت سے لوگ اس سے نابلد ہیں اور کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کی آزادی میں سب سے بڑا رول اور کارنامہ برادرانِ وطن کا ہے لیکن شاید انہیں یہ نہیں معلوم کہ اس ملک کی آزادی میں سب سے بڑا رول مسلمانوں اور خصوصاً علماء کرام کا ہے جنہوں نے اس ملک کی خاطر اپنا تن، من، دھن سب قربان کر دیا کیونکہ کہ یہ ملک پہلے مسلمانوں کے ہی قبضہ میں تھا جس کو انگریزوں نے چھین لیا تھا تو جب انگریز اپنی شاطرانہ و عیارانہ چال سے سرزمینِ ہند پر قابض ہو گئے اور ہندوستانیوں کا خون انکے پسینے سے زیادہ ارزاں و سستا ہونے لگا اور انکے ادیان و مذاہب پر حملہ کیا جانے لگا اور انہیں ملکِ بدر کرنے کی سازشیں رچی جانے لگیں تو سب سے پہلے جس نے
عَلَمِ بغاوت لہرایا وہ مہاتما گاندھی نہیں تھے. وہ جواہر لال نہرو بھی نہیں تھے بلکہ وہ محدثِ اعظم فرزند شاہ ولی اللہ عبدالعزیز رحمۃاللہ تھے جنہوں نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا جو انگریزوں کے نخلِ تمنا پر بجلی بن کر گرا فتویٰ کی آواز سنتے ہی مدارس و مساجد اور خانقاہوں کے علماء کرام کی نیندیں حرام ہو گئیں
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ــــــــــــعــــــــــ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
راہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اس فتویٰ نے پورے ہندوستان کو متأثر کر دیا انگریزوں نے جب علماء کرام کے جوش و ولولہ کو دیکھا تو انکے ہاتھ کے طوطے اڑ گئے اسکے بعد انگریزوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ علماء ہمارے حق میں فیصلہ کر دیں تو انکو امان دے دیا جائے گا ورنہ انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا لیکن یہ وہ علماء کرام تھے جنہوں نے سر تو کٹا دیا لیکن سر جھکایا نہیں انکی رگ رگ میں انسانیت، اسلام اور حب الوطنی کا خون دوڑ رہا تھا بھلا وہ کیسے انکے سامنے سر نگوں ہوتے انہوں نے برجستہ یہ اعلان کر دیا تھا کہ خدا کی قسم ہم اپنے ملک کو غیروں کے آتش فشاں میں نہیں جھونکیں گے انگریزوں کا ایک مؤرخ ٹامسن کہتا ہے کہ چودہ ہزار علماء کو تختہء دار پر لٹکایا گیا اور دلی کے چاندنی چوک سے لیکر خیبر تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر علماء کرام کی گردنیں نہ لٹکی ہوں.
ــــــعـــــ
جب گلستاں کو خون کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہلِ وطن
یہ وطن ہے ہمارا تمہارا نہیں
لیکن افسوس صد افسوس ہماری ان قربانیوں کے باوجود ہمیں ملکِ بدر اور نہ جانے کیا کیا کیا جا رہا ہے کبھی گائے کے نام پر ہمیں مارا جا رہا ہے تو کبھی لَو جہاد کے نام پر ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے تو کبھی ہماری عبادت گاہوں اور ہمارے مذہب پر حملہ کیا جا رہا ہے اور بہت ساری سازشیں رچی جا رہی ہیں کیا ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا ہمیں یہی صلہ اور بدلہ دیا جائے گا؟ اور انکی قربانیوں کو یوں ہی فراموش کر دیا جائے گا؟ اگر یہی صلہ دیا جائے گا تو پھر یاد رکھیں! ہم نے باطل سے ڈرنا نہیں آنکھ ملانا سیکھا ہے باطل کے سامنے سِپر ڈالنا نہیں سینہ سِپر ہونا سیکھا ہے.
ـــــــــعـــــــ
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
متعلم معہد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
آج اس ملکِ ہندوستان میں ١٥ اگست بڑی دھوم دھام اور جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ کیوں منایا جاتا ہے اور اسکے منانے کا سبب کون بنتا ہے بہت سے لوگ اس سے نابلد ہیں اور کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کی آزادی میں سب سے بڑا رول اور کارنامہ برادرانِ وطن کا ہے لیکن شاید انہیں یہ نہیں معلوم کہ اس ملک کی آزادی میں سب سے بڑا رول مسلمانوں اور خصوصاً علماء کرام کا ہے جنہوں نے اس ملک کی خاطر اپنا تن، من، دھن سب قربان کر دیا کیونکہ کہ یہ ملک پہلے مسلمانوں کے ہی قبضہ میں تھا جس کو انگریزوں نے چھین لیا تھا تو جب انگریز اپنی شاطرانہ و عیارانہ چال سے سرزمینِ ہند پر قابض ہو گئے اور ہندوستانیوں کا خون انکے پسینے سے زیادہ ارزاں و سستا ہونے لگا اور انکے ادیان و مذاہب پر حملہ کیا جانے لگا اور انہیں ملکِ بدر کرنے کی سازشیں رچی جانے لگیں تو سب سے پہلے جس نے
عَلَمِ بغاوت لہرایا وہ مہاتما گاندھی نہیں تھے. وہ جواہر لال نہرو بھی نہیں تھے بلکہ وہ محدثِ اعظم فرزند شاہ ولی اللہ عبدالعزیز رحمۃاللہ تھے جنہوں نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا جو انگریزوں کے نخلِ تمنا پر بجلی بن کر گرا فتویٰ کی آواز سنتے ہی مدارس و مساجد اور خانقاہوں کے علماء کرام کی نیندیں حرام ہو گئیں
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ــــــــــــعــــــــــ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
راہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اس فتویٰ نے پورے ہندوستان کو متأثر کر دیا انگریزوں نے جب علماء کرام کے جوش و ولولہ کو دیکھا تو انکے ہاتھ کے طوطے اڑ گئے اسکے بعد انگریزوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ علماء ہمارے حق میں فیصلہ کر دیں تو انکو امان دے دیا جائے گا ورنہ انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا لیکن یہ وہ علماء کرام تھے جنہوں نے سر تو کٹا دیا لیکن سر جھکایا نہیں انکی رگ رگ میں انسانیت، اسلام اور حب الوطنی کا خون دوڑ رہا تھا بھلا وہ کیسے انکے سامنے سر نگوں ہوتے انہوں نے برجستہ یہ اعلان کر دیا تھا کہ خدا کی قسم ہم اپنے ملک کو غیروں کے آتش فشاں میں نہیں جھونکیں گے انگریزوں کا ایک مؤرخ ٹامسن کہتا ہے کہ چودہ ہزار علماء کو تختہء دار پر لٹکایا گیا اور دلی کے چاندنی چوک سے لیکر خیبر تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر علماء کرام کی گردنیں نہ لٹکی ہوں.
ــــــعـــــ
جب گلستاں کو خون کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہلِ وطن
یہ وطن ہے ہمارا تمہارا نہیں
لیکن افسوس صد افسوس ہماری ان قربانیوں کے باوجود ہمیں ملکِ بدر اور نہ جانے کیا کیا کیا جا رہا ہے کبھی گائے کے نام پر ہمیں مارا جا رہا ہے تو کبھی لَو جہاد کے نام پر ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے تو کبھی ہماری عبادت گاہوں اور ہمارے مذہب پر حملہ کیا جا رہا ہے اور بہت ساری سازشیں رچی جا رہی ہیں کیا ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا ہمیں یہی صلہ اور بدلہ دیا جائے گا؟ اور انکی قربانیوں کو یوں ہی فراموش کر دیا جائے گا؟ اگر یہی صلہ دیا جائے گا تو پھر یاد رکھیں! ہم نے باطل سے ڈرنا نہیں آنکھ ملانا سیکھا ہے باطل کے سامنے سِپر ڈالنا نہیں سینہ سِپر ہونا سیکھا ہے.
ـــــــــعـــــــ
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا