لونی/غازی آباد(آئی این اے نیوز14/اگست 2018 ) غازی آباد ضلع میں لونی کا مشہور ومعروف ادارہ جامعہ منبع العلوم پوجاکالونی میں جشن یوم آزادی کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس کی صدارت مفکر ملت مولانا عارف سراج نعمانی قومی صدر آل انڈیا تحریک عوام ہند نے کی پروگرام کا آغاز عزیزم محمد شہزاد متعلم جامعہ ہذا کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء ہند دہلی کے نائب صدر مولانا مفتی اسرار الحق قاسمی بڈھانوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں خاص کر علماء کرام کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے، ساتھ ہی ساتھ مدارس اسلامیہ بھی اس میں شانہ بشانہ شامل تھے، ہندوستان کی تحریک آزادی کی ایک سچی حقیقت یہ بھی ہے کہ علمائے کرام نے اس جنگ کو جہاد کا نام دیا تھا،
1857ء میں علمائے کرام نے جو جہاد کا فتویٰ دیا اور اس کی خوب تشہیر پورے ملک میں کی گئی جس سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑ گئی، علمائے کرام کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگِ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا اور انتہائی درجہ کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہزاروں علمائے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا اور علمائے کرام نے بڑے عزم و حوصلہ سے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر 15؍ اگست 1947ء کو ہندوستان کو آزادی ملی، اور آج ہم ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لے رہے نیز مفتی موصوف نے مزید فرمایاکہ آج ہماری نوجوان نسل بہت ہی کم جانتی ہے کہ جنگِ آزادی میں علما کا کوئی کردار و کارنامہ رہا ہے، جب کہ سچائی یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں نے آزادی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں، بڑے بڑے علمائے اسلام نے جنگ آزادی کا بگل بجایا اور خود پیش پیش رہے، جنگِ آزادی کے دوران اور شکست کے بعد گرفتار یوں کے وقت طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں اور صابر و شاکر رہے ملک و ملت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت جو آج دگرگوں ہو گئی ہے وہ یکایک نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف تقریباً سو سال سے ایک تحریک چلائی جارہی ہے اور یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ ان کو ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں ہے اگر ان کو ہندوستان میں رہنا ہے تو وہ ہندو بن کر رہیں، تقسیم ہند نے اس نظریہ کو مزید تقویت پہنچائی کہ مسلمانوں نے اپنا ایک ملک بنا لیا ہے تو پھر ہندوستان میں ان کا کیا رہ گیا؟ چنانچہ یہ نعرہ بھی سنا گیا کہ ’’مسلمانوں کے دواستھان، پاکستان یا قبرستان‘‘ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہندوستان میں سو پچاس نہیں، سو دوسو نہیں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات کیے گئے، اور کرائے گئے، جن میں مسلمانوں کی ہزاروں جانیں گئیں بے شمار جائیدادیں اور املاک کی تباہی ہوئی، اس نظریہ کو مودی حکومت آنے کے بعد بہت قوت اور حوصلہ ملا، چنانچہ ’’گھر واپسی‘‘کے پروگرام کا بڑے وسیع پیمانے پر چرچا کیا گیا ہے، لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر جزوی پابندی لگاکر مسلمانوں کو گویا عادی بنایا جارہا ہے، اس طرح کے بہت سے ایسے کارنامے ہیں ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا،فی الحال موب لنچنگ ایک نیا اشو آپ کے سامنے ہے اسی لنچنگ معاملے میں ہاپوڑ کے قاسم پر حملہ کرکے قتل کر دیا گیا، راجستھان کے الور میں اکبر نامی کو گائے لے جانے کے نام پر مار دیا گیا، گڑگاؤں کے ایک باشرع انسان کی داڑھی کو زبردستی تراشا گیا، بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور چھوٹی چھوٹی باتیں نظر آتی ہیں لیکن ان کے پیچھے ایک مستحکم نظریہ اور منصوبہ ہے اس لئے اس صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ دیر سویر مستقبل میں ایک وقت آئیگا جب مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے ویسی ہی مہم زور پکڑ جائیگی جیسی اسپین سے سیکڑوں سال حکومت کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا تھا، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی سابق میں اس کی مثال اسپین میں گزر چکی ہے اور مشرق وسطیٰ میں حالیہ دنوں لاکھوں مسلمانوں کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور ہوجانا ایک ممکن واقعہ ہماری نظروں کے سامنے ہے، لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد کا ہونا ایسا ہونے کے لئے کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں ہے، ذہن میں لائیے کہ اگر اکثریت، پولس اور قانون تینوں ہم خیال ہو جائیں تو چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کا سوال ہی کیا بڑے بڑے شہروں کی آبادیوں کو چند گھنٹوں میں ان کو گھروں سے نکالا جا سکتا ہے، اس طرح آپ دیکھیں تو پچھلی تاریخ اور موجودہ دنیا کی صورتحال اور عقل یہ تینوں چیزیں اس اندیشہ اور خطرہ کو یقینی بتاتے ہیں، مساجد اور مدارس کا قدیم سلسلہ، مسلم تنظیموں، جماعتوں اور خانقاہوں کا شاندار نظام کوئی رکاوٹ نہیں بن سکیں گے، سب کے سب زمین بوس ہوجائیں گے.
ایسوں سے ہمیں ہمت ہار کر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہنا ہے، قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے، تم کمزور نہ پڑو، اور نہ غم زدہ ہو ، اگر تم حقیقی مومن رہوگے تو کامیابی تمہارے ہی قدم چومے گی، اس موقع پر جمعیت علماء کا جنگ آزادی میں ایک اہم کردار رہا ہے
جلسہ کے روح رواں اور صدر جمعیت علماء حلقہ پاوی پوجاکالونی مولانا نظام الدین قاسمی نے لوگوں سے اپیل کی کہ شاہی عیدگاہ لونی میں منعقد ہونے والا جشن یوم آزادی کے پروگرام میں سبھی مسلمان شرکت کریں اس موقع پر جامعہ کے طلبہ وطالبات نے حب الوطنی ترانہ نظم مکالمہ وتقاریر پیش کی.
اس موقع پر قاری یونس مولانا قاسم صیاد مظاہری مولانا ابوبکر مظاہری صدر آل انڈیا تحریک عوام ہند صوبہ پنجاب قاری زاہد قاری عبدالواجد قاری انشاءاللہ مولانا نوید مظاہری قاری عمران صدیقی مفتی شمیم قاسمی مولانا قاری فیض الدین عارف خازن جمعیت علماء ہند شہر لونی مولانا رحمت اللہ قاری منور ڈاکٹر ارشاد مولانا فیاض حسن ندوی مفتی عمران قاسمی قاری اختر قاری یوسف وغیرہ کے علاوہ کثیر تعداد میں علما کرام وعمائدین شہر وطلبہ اساتذہ جامعہ نے شرکت کی نظامت کے فرائض مولانا یاسین صدیقی قاسمی سکریٹری آل انڈیا تحریک عوام ہند نے بحسن خوبی انجام دیے.
1857ء میں علمائے کرام نے جو جہاد کا فتویٰ دیا اور اس کی خوب تشہیر پورے ملک میں کی گئی جس سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑ گئی، علمائے کرام کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگِ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا اور انتہائی درجہ کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہزاروں علمائے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا اور علمائے کرام نے بڑے عزم و حوصلہ سے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر 15؍ اگست 1947ء کو ہندوستان کو آزادی ملی، اور آج ہم ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لے رہے نیز مفتی موصوف نے مزید فرمایاکہ آج ہماری نوجوان نسل بہت ہی کم جانتی ہے کہ جنگِ آزادی میں علما کا کوئی کردار و کارنامہ رہا ہے، جب کہ سچائی یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں نے آزادی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں، بڑے بڑے علمائے اسلام نے جنگ آزادی کا بگل بجایا اور خود پیش پیش رہے، جنگِ آزادی کے دوران اور شکست کے بعد گرفتار یوں کے وقت طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں اور صابر و شاکر رہے ملک و ملت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت جو آج دگرگوں ہو گئی ہے وہ یکایک نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف تقریباً سو سال سے ایک تحریک چلائی جارہی ہے اور یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ ان کو ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں ہے اگر ان کو ہندوستان میں رہنا ہے تو وہ ہندو بن کر رہیں، تقسیم ہند نے اس نظریہ کو مزید تقویت پہنچائی کہ مسلمانوں نے اپنا ایک ملک بنا لیا ہے تو پھر ہندوستان میں ان کا کیا رہ گیا؟ چنانچہ یہ نعرہ بھی سنا گیا کہ ’’مسلمانوں کے دواستھان، پاکستان یا قبرستان‘‘ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہندوستان میں سو پچاس نہیں، سو دوسو نہیں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات کیے گئے، اور کرائے گئے، جن میں مسلمانوں کی ہزاروں جانیں گئیں بے شمار جائیدادیں اور املاک کی تباہی ہوئی، اس نظریہ کو مودی حکومت آنے کے بعد بہت قوت اور حوصلہ ملا، چنانچہ ’’گھر واپسی‘‘کے پروگرام کا بڑے وسیع پیمانے پر چرچا کیا گیا ہے، لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر جزوی پابندی لگاکر مسلمانوں کو گویا عادی بنایا جارہا ہے، اس طرح کے بہت سے ایسے کارنامے ہیں ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا،فی الحال موب لنچنگ ایک نیا اشو آپ کے سامنے ہے اسی لنچنگ معاملے میں ہاپوڑ کے قاسم پر حملہ کرکے قتل کر دیا گیا، راجستھان کے الور میں اکبر نامی کو گائے لے جانے کے نام پر مار دیا گیا، گڑگاؤں کے ایک باشرع انسان کی داڑھی کو زبردستی تراشا گیا، بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور چھوٹی چھوٹی باتیں نظر آتی ہیں لیکن ان کے پیچھے ایک مستحکم نظریہ اور منصوبہ ہے اس لئے اس صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ دیر سویر مستقبل میں ایک وقت آئیگا جب مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے ویسی ہی مہم زور پکڑ جائیگی جیسی اسپین سے سیکڑوں سال حکومت کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا تھا، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی سابق میں اس کی مثال اسپین میں گزر چکی ہے اور مشرق وسطیٰ میں حالیہ دنوں لاکھوں مسلمانوں کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور ہوجانا ایک ممکن واقعہ ہماری نظروں کے سامنے ہے، لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد کا ہونا ایسا ہونے کے لئے کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں ہے، ذہن میں لائیے کہ اگر اکثریت، پولس اور قانون تینوں ہم خیال ہو جائیں تو چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کا سوال ہی کیا بڑے بڑے شہروں کی آبادیوں کو چند گھنٹوں میں ان کو گھروں سے نکالا جا سکتا ہے، اس طرح آپ دیکھیں تو پچھلی تاریخ اور موجودہ دنیا کی صورتحال اور عقل یہ تینوں چیزیں اس اندیشہ اور خطرہ کو یقینی بتاتے ہیں، مساجد اور مدارس کا قدیم سلسلہ، مسلم تنظیموں، جماعتوں اور خانقاہوں کا شاندار نظام کوئی رکاوٹ نہیں بن سکیں گے، سب کے سب زمین بوس ہوجائیں گے.
ایسوں سے ہمیں ہمت ہار کر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہنا ہے، قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے، تم کمزور نہ پڑو، اور نہ غم زدہ ہو ، اگر تم حقیقی مومن رہوگے تو کامیابی تمہارے ہی قدم چومے گی، اس موقع پر جمعیت علماء کا جنگ آزادی میں ایک اہم کردار رہا ہے
جلسہ کے روح رواں اور صدر جمعیت علماء حلقہ پاوی پوجاکالونی مولانا نظام الدین قاسمی نے لوگوں سے اپیل کی کہ شاہی عیدگاہ لونی میں منعقد ہونے والا جشن یوم آزادی کے پروگرام میں سبھی مسلمان شرکت کریں اس موقع پر جامعہ کے طلبہ وطالبات نے حب الوطنی ترانہ نظم مکالمہ وتقاریر پیش کی.
اس موقع پر قاری یونس مولانا قاسم صیاد مظاہری مولانا ابوبکر مظاہری صدر آل انڈیا تحریک عوام ہند صوبہ پنجاب قاری زاہد قاری عبدالواجد قاری انشاءاللہ مولانا نوید مظاہری قاری عمران صدیقی مفتی شمیم قاسمی مولانا قاری فیض الدین عارف خازن جمعیت علماء ہند شہر لونی مولانا رحمت اللہ قاری منور ڈاکٹر ارشاد مولانا فیاض حسن ندوی مفتی عمران قاسمی قاری اختر قاری یوسف وغیرہ کے علاوہ کثیر تعداد میں علما کرام وعمائدین شہر وطلبہ اساتذہ جامعہ نے شرکت کی نظامت کے فرائض مولانا یاسین صدیقی قاسمی سکریٹری آل انڈیا تحریک عوام ہند نے بحسن خوبی انجام دیے.